شرقی احمد ٹیپو
محفلین
چند افسانے سے لوحِ دل پہ کندہ کر گیا
مصلحت اندیش تھا رُسوائیوں سے ڈر گیا
کتنی یخ بستہ فضا ہے کتنے پتھر دل ہیں لوگ
ایک اِک شعلہ تمنا کا ٹھٹھر کر مر گیا
ذہن میں میرے رچا ہے اب نئے موسم کا زہر
سوچ کے پردے سے رنگوں کا ہر اِک منظر گیا
ایک مدت سے کھڑا ہوں آنکھ کی دہلیز پر
ایک مدت سے کوئی اِس راہ سے ہو کر گیا
شیشہٴ احساس پر دُکھ کی لکیریں بن گئیں
اس طرح سے دل پہ کوئی مار کر پتھر گیا
اب تو نظروں کی پہنچ تک ہی اُسے چاہو حفیظ
یاد کی بے کیف خوشبوؤں سے یہ دل بھر گیا
مجموعہٴ کلام - محبت کی بازیافت
مصلحت اندیش تھا رُسوائیوں سے ڈر گیا
کتنی یخ بستہ فضا ہے کتنے پتھر دل ہیں لوگ
ایک اِک شعلہ تمنا کا ٹھٹھر کر مر گیا
ذہن میں میرے رچا ہے اب نئے موسم کا زہر
سوچ کے پردے سے رنگوں کا ہر اِک منظر گیا
ایک مدت سے کھڑا ہوں آنکھ کی دہلیز پر
ایک مدت سے کوئی اِس راہ سے ہو کر گیا
شیشہٴ احساس پر دُکھ کی لکیریں بن گئیں
اس طرح سے دل پہ کوئی مار کر پتھر گیا
اب تو نظروں کی پہنچ تک ہی اُسے چاہو حفیظ
یاد کی بے کیف خوشبوؤں سے یہ دل بھر گیا
مجموعہٴ کلام - محبت کی بازیافت