چند افسانے سے لوحِ دل پہ کندہ کر گیا از حفیظ احمد

چند افسانے سے لوحِ دل پہ کندہ کر گیا
مصلحت اندیش تھا رُسوائیوں سے ڈر گیا

کتنی یخ بستہ فضا ہے کتنے پتھر دل ہیں لوگ
ایک اِک شعلہ تمنا کا ٹھٹھر کر مر گیا

ذہن میں میرے رچا ہے اب نئے موسم کا زہر
سوچ کے پردے سے رنگوں کا ہر اِک منظر گیا

ایک مدت سے کھڑا ہوں آنکھ کی دہلیز پر
ایک مدت سے کوئی اِس راہ سے ہو کر گیا

شیشہٴ احساس پر دُکھ کی لکیریں بن گئیں
اس طرح سے دل پہ کوئی مار کر پتھر گیا

اب تو نظروں کی پہنچ تک ہی اُسے چاہو حفیظ
یاد کی بے کیف خوشبوؤں سے یہ دل بھر گیا

مجموعہٴ کلام - محبت کی بازیافت
 
محمد وارث صاحب نوازش ہے کہ آپ جیسے ادب شناس کو یہ کلام پسند آیا ۔ میں دھاگہ تخلیق کرنے میں چونکہ بالکل نیا ہوں لہٰذا شاعر کے نام کے ساتھ مجموعہ کلام کا ذکر کرنا بھول گیا تھا۔ اس کے لئے معذرت خواہ ہوں ۔ یہ غزل حفیظ احمد کے مجموعہءکلام ”محبت کی بازیافت“ سے منتخب کی گئی
 

فرخ منظور

لائبریرین
شیشہٴ احساس پر دُکھ کی لکیریں بن گئیں
اس طرح سے دل پہ کوئی مار کر پتھر گیا

کیا بات ہے۔ خوبصورت انتخاب۔ شکریہ شرقی صاحب!
 

محمد وارث

لائبریرین
محمد وارث صاحب نوازش ہے کہ آپ جیسے ادب شناس کو یہ کلام پسند آیا ۔ میں دھاگہ تخلیق کرنے میں چونکہ بالکل نیا ہوں لہٰذا شاعر کے نام کے ساتھ مجموعہ کلام کا ذکر کرنا بھول گیا تھا۔ اس کے لئے معذرت خواہ ہوں ۔ یہ غزل حفیظ احمد کے مجموعہءکلام ”محبت کی بازیافت“ سے منتخب کی گئی

جی میں نے کتاب کا نام آپ کی پوسٹ میں درج کر دیا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
چند افسانے سے لوحِ دل پہ کندہ کر گیا
مصلحت اندیش تھا رُسوائیوں سے ڈر گیا

کتنی یخ بستہ فضا ہے کتنے پتھر دل ہیں لوگ
ایک اِک شعلہ تمنا کا ٹھٹھر کر مر گیا

انتہائی خوبصورت غزل ہے۔ شکریہ۔
 

عدیل منا

محفلین
اب تو نظروں کی پہنچ تک ہی اُسے چاہو حفیظ
یاد کی بے کیف خوشبوؤں سے یہ دل بھر گیا

بہت شکریہ اتنی خوبصورت غزل شیئر کرنے کا۔خوش رہیں۔
 
Top