Rashid Ashraf
محفلین
ترقی کرتا دشمن
چند سفر ہندوستان کے
مصنف: محمود شام
ناشر: ویلکم بک پورٹ، کراچی
صفحات: 160
قیمت: 350
پیش منظر
خودنوشت
سید منظر ساداتپوری
ناشر: اکادمی بازیافت، کراچی
صفحات: 450
قیمت: 600
"ترقی کرتا دشمن" مختلف وقتوں میں کیے دوروں کی روداد ہے جسے مصنف نے کتابی شکل میں یکجا کردیا ہے۔ کتاب میں دہلی، لکھنؤ، اڑیسہ و دیگر شہروں کے دوروں کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ محمود شام لکھتے ہیں:
آج میں ایک اور نیا تجربہ کرنے جارہا ہوں۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے قارئین کے لیے ایک ہی تحریر پیش کررہا ہوں۔ میں جذبات سے مغلوب ہوں۔ اللہ کے حضور شکرگزار بھی ہوں کہ مجھے یہ موقع نصیب ہورہا ہے۔ میں ان تمام مدیران اور مالکان کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے مجھے اپنے علاقے میں بہت پڑھے جانے والے اخبار میں جگہ دی ہے۔"
کتاب میں پاکستانی اخبارات کے ناموں میں زمانہ، سادات، مشرق، انتخاب، عبرت، پریس کانفرنس اور امن جبکہ ہندوستان اخبارات میں ہند سماچار، آزاد ہند، آگ، انقلاب، سیاست اور پرتاب کے نام دیے گئے ہیں۔
"قبل از مسیح کی گپھائیں" میں لکھتے ہیں:
"
یہ شہر (بھبنیسور) جس میں تاریک سانس لیتی ہے۔ اس کی خوشبو بہت ہی بھینی بھینی ہوتی ہے۔ یہاں آپ کو وقت ہانپتا ہوا ملتا ہے۔ صدیاں آپ سے اٹکھیلیاں کرتی ہیں۔ کہیں قبل از مسیح والی کوئی صدی آپ کے کانوں میں کچھ کہہ کر رخصت ہوجاتی ہے۔ کہیں آٹھویں صدی دامن کھینچنے لگتی ہے، کہیں بارہویں۔ آپ کے لیے تاریخ کے اوراق ہوا پلٹتی ہے۔ آپ کو آنکھیں کھلی رکھنی ہیں۔ اور اطمینان سے ان میں مناظر اور زمانے اترتے محسوس کرنے ہیں۔ آپ خود تاریخ بن جاتے ہیں اور، انسان کی ترقی اور ابتلاؤں کے سفر کا حصہ آپ بھی بن جاتے ہیں۔
"
ماہنامہ کدم بینی کی سالگرہ پر تقریر کرتے ہوئے محمود شام نے کہا:
" میں ایک عام سا جرنلسٹ ہوں۔ راجپورے کے بہت ہی غریب گھر میں آنکھ کھولی۔ پھر پاکستان کے ایک چھوٹے سے شہر جھنگ میں ٹھکانہ ملا۔ ہمارے والد حکیم صوفی شیر محمد پٹیالے کے باغیوں میں سے تھے۔انگریز کے خلاف۔ مہاراجہ پٹیالہ کے خلاف لڑتے رہے۔ جیلیں کاٹیں۔ پھر پاکستان میں بھی جیلیں ان کا نصیب رہیں۔ ہم نے بھی جرنل ضیاء الحق کے وقت میں جیل کاٹ کر والد کو
follow
کیا۔ میری چھوٹی بیٹی جیل میں ملنے آتی تھی۔ وہ اتنی چھوٹی تھی جتنا میں راجپورے کا گھر چھوڑتے وقت تھا۔
جوبلی ہال میں ہندوستانی اخبارات کی تقریب میں جناب محمود شام نے ایک پر لطف قصہ سنایا۔ لکھتے ہیں:
اردو دونوں طرف مظلوم ہے۔ یہاں اردو قارئین کی تعداد کم ہورہی ہے، وہاں مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ وہاں اردو کے استعمال سے میڈیا ادارے امیر ہورہے ہیں لیکن اردو غریب ہورہی ہے۔ چینلوں نے اینکر پرسنوں کے ہاتھوں اردو کی کیا درگت بن رہی ہے۔ واقعہ سنا رہا ہوں کہ سیلاب کے دنوں میں ایک خوبصورت اینکر خاتون مدد کے لیے اپیل کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ سیلاب زدگان بہت مشکل میں ہیں۔ بے یار و مددگار ہیں۔ ان کے معاونت کے لیے ہاتھ بڑھائیے۔ ہم آپ کی دست درازی کے منتظر ہیں۔
میں کہہ رہا ہوں کہ کون کافر اس پیشکش کو مسترد کرتا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ دوشیزہ یہی چاہتی بھی تھی ?
تقریر ختم ہوئی اور عالمی اردو ایڈیٹرز کانفرنس کے کنوینر پروفیسر رحمت یوسفزئی نے شام صاحب کو چپکے سے ایک چٹ پہنچا دی، اس پر لکھا تھا:
سائل ہاتھ بڑھاتا ہے جب صنف نازک کے آگے
شرما کر کہتی ہے دیکھو دست درازی کرتا ہے
چند سفر ہندوستان کے
مصنف: محمود شام
ناشر: ویلکم بک پورٹ، کراچی
صفحات: 160
قیمت: 350
پیش منظر
خودنوشت
سید منظر ساداتپوری
ناشر: اکادمی بازیافت، کراچی
صفحات: 450
قیمت: 600
"ترقی کرتا دشمن" مختلف وقتوں میں کیے دوروں کی روداد ہے جسے مصنف نے کتابی شکل میں یکجا کردیا ہے۔ کتاب میں دہلی، لکھنؤ، اڑیسہ و دیگر شہروں کے دوروں کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ محمود شام لکھتے ہیں:
آج میں ایک اور نیا تجربہ کرنے جارہا ہوں۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے قارئین کے لیے ایک ہی تحریر پیش کررہا ہوں۔ میں جذبات سے مغلوب ہوں۔ اللہ کے حضور شکرگزار بھی ہوں کہ مجھے یہ موقع نصیب ہورہا ہے۔ میں ان تمام مدیران اور مالکان کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے مجھے اپنے علاقے میں بہت پڑھے جانے والے اخبار میں جگہ دی ہے۔"
کتاب میں پاکستانی اخبارات کے ناموں میں زمانہ، سادات، مشرق، انتخاب، عبرت، پریس کانفرنس اور امن جبکہ ہندوستان اخبارات میں ہند سماچار، آزاد ہند، آگ، انقلاب، سیاست اور پرتاب کے نام دیے گئے ہیں۔
"قبل از مسیح کی گپھائیں" میں لکھتے ہیں:
"
یہ شہر (بھبنیسور) جس میں تاریک سانس لیتی ہے۔ اس کی خوشبو بہت ہی بھینی بھینی ہوتی ہے۔ یہاں آپ کو وقت ہانپتا ہوا ملتا ہے۔ صدیاں آپ سے اٹکھیلیاں کرتی ہیں۔ کہیں قبل از مسیح والی کوئی صدی آپ کے کانوں میں کچھ کہہ کر رخصت ہوجاتی ہے۔ کہیں آٹھویں صدی دامن کھینچنے لگتی ہے، کہیں بارہویں۔ آپ کے لیے تاریخ کے اوراق ہوا پلٹتی ہے۔ آپ کو آنکھیں کھلی رکھنی ہیں۔ اور اطمینان سے ان میں مناظر اور زمانے اترتے محسوس کرنے ہیں۔ آپ خود تاریخ بن جاتے ہیں اور، انسان کی ترقی اور ابتلاؤں کے سفر کا حصہ آپ بھی بن جاتے ہیں۔
"
ماہنامہ کدم بینی کی سالگرہ پر تقریر کرتے ہوئے محمود شام نے کہا:
" میں ایک عام سا جرنلسٹ ہوں۔ راجپورے کے بہت ہی غریب گھر میں آنکھ کھولی۔ پھر پاکستان کے ایک چھوٹے سے شہر جھنگ میں ٹھکانہ ملا۔ ہمارے والد حکیم صوفی شیر محمد پٹیالے کے باغیوں میں سے تھے۔انگریز کے خلاف۔ مہاراجہ پٹیالہ کے خلاف لڑتے رہے۔ جیلیں کاٹیں۔ پھر پاکستان میں بھی جیلیں ان کا نصیب رہیں۔ ہم نے بھی جرنل ضیاء الحق کے وقت میں جیل کاٹ کر والد کو
follow
کیا۔ میری چھوٹی بیٹی جیل میں ملنے آتی تھی۔ وہ اتنی چھوٹی تھی جتنا میں راجپورے کا گھر چھوڑتے وقت تھا۔
جوبلی ہال میں ہندوستانی اخبارات کی تقریب میں جناب محمود شام نے ایک پر لطف قصہ سنایا۔ لکھتے ہیں:
اردو دونوں طرف مظلوم ہے۔ یہاں اردو قارئین کی تعداد کم ہورہی ہے، وہاں مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ وہاں اردو کے استعمال سے میڈیا ادارے امیر ہورہے ہیں لیکن اردو غریب ہورہی ہے۔ چینلوں نے اینکر پرسنوں کے ہاتھوں اردو کی کیا درگت بن رہی ہے۔ واقعہ سنا رہا ہوں کہ سیلاب کے دنوں میں ایک خوبصورت اینکر خاتون مدد کے لیے اپیل کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ سیلاب زدگان بہت مشکل میں ہیں۔ بے یار و مددگار ہیں۔ ان کے معاونت کے لیے ہاتھ بڑھائیے۔ ہم آپ کی دست درازی کے منتظر ہیں۔
میں کہہ رہا ہوں کہ کون کافر اس پیشکش کو مسترد کرتا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ دوشیزہ یہی چاہتی بھی تھی ?
تقریر ختم ہوئی اور عالمی اردو ایڈیٹرز کانفرنس کے کنوینر پروفیسر رحمت یوسفزئی نے شام صاحب کو چپکے سے ایک چٹ پہنچا دی، اس پر لکھا تھا:
سائل ہاتھ بڑھاتا ہے جب صنف نازک کے آگے
شرما کر کہتی ہے دیکھو دست درازی کرتا ہے