محمد یعقوب آسی
محفلین
ابھی کچھ ثانیے پہلے ’’آسان علم قافیہ‘‘ کا مختصر سا تعارف پوسٹ کیا ہے اور جناب مزمل شیخ بسمل کو بھی ٹیگ کر دیا ہے۔
توجہ فرمائیے گا کہ بات چلا دی ہے۔
توجہ فرمائیے گا کہ بات چلا دی ہے۔
سچی بات بتاؤں آپ کو؟ ۔۔ میں کچھ دنوں سے سوچ رہا ہوں کہ قوافی کے معاملے کو آسان فہم بنایا جائے۔
اس الجھی ہوئی رسی کا کوئی سرا ہاتھ لگتا ہے تو اپنے افکار کو ترتیب دے کر پیش کروں گا۔
مجھے تسلیم ہے کہ مزمل شیخ بسمل صاحب اور اعجاز عبید صاحب اس معاملے میں بہت عمدہ فنی اور اطلاقی علم رکھتے ہیں۔
ارے بھئی کس نے ایسا کہا آپ کو؟
یہ بات درست نہیں ہے۔ اگر ایسی پابندی لگا دیں تو سوچیں کتنے قوافی ایسے ہیں جو اب تک ہم قافیہ تھے مگر آج ختم ہو جائینگے۔
محبت اور شفقت؟ کس اصول سے قافیہ ہوئے؟
ذلالت اور کدورت؟
فسانہ اور نشانہ؟
مژگاں اور عریاں؟
یہ سب قوافی غلط ہوئے۔ میں پہلے بھی مسلسل کہتا رہا ہوں کہ قافیہ میں صرف حروفِ قافیہ کی حرکات کا اعتبار ہوتا ہے۔ لفظ کے جو حروف حروفِ قافیہ میں ہیں ہی نہیں ان کی حرکات میں مطابقت کا کوئی قانون نہیں۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں ہونی چاہئے کہ قافیہ کسی لفظ کا نام نہیں بلکہ لفظ کے ایک ٹکڑے کا یا بعض وقت تو صرف ایک ہی حرف کا نام ہوتا ہے۔ تو یہ پابندیاں عقلی، منطقی اوررواجی ہر اعتبار سے غلط ہیں۔ ”زندگی“ اور ”بندگی“ ہر اعتبار سے ہم قافیہ ہیں۔ ان کا اصل ”زندہ“ اور ”بندہ“ یہ بھی ہم قافیہ ہیں ”قافیہ“ (حرف روی) دونوں میں دال ہے۔
جناب محمد یعقوب آسی صاحب کیا فرماتے ہیں؟
اب ایسی بھی کیا کسرِ نفسی جناب مزمل شیخ بسمل صاحب۔ ہاں، میں اس کو ’’تواضع’’ کا نام دوں گا، جو اہلِ علم کا خاصہ ہے۔بہت اچھا اور نیک ارادہ ہے استاد محترم۔ یقیناً مجھ جیسے ناقص العقل و فہم طلباء کو بہت فائدہ ہوگا۔