Rashid Ashraf
محفلین
خودرو کی کہانی، خود اس کی زبانی
خودنوشت
سن اشاعت: 2011
مصنفہ: قمر احمد علی خان
ناشر: فیروز سنز۔ لاہور
قیمت: 495
صفحات: 216
رابطہ ناشر:
60-Shahrah-e-Quaid-e-Azam,
Lahore, Pakistan
Telephone: +(92) (42) 111-62-62-62
قمر احمد علی خان ایک خاتون ہیں، 1923 میں پیدا ہوئیں، اٹھاسی برس ان کی عمر ہے، 45 سال تعلیم کے شعبے میں خدمات سرانجام دیں، فیروز سنز کے لیے اس سے قبل چند کتابیں لکھ چکی ہیں، زیر نظر کتاب ان کی خودنوشت ہے، طرز تحریر جس کا دلچسپ ہے، واقعات میں تسلسل ہے، بڑوں کی آنکھیں دیکھی ہوئی ہیں (والد سخت مزاج تھے لہذا ان کا آنکھیں دکھانا خوب یاد ہے) خواتین کی لکھی خودنوشتوں (چند ایک کے سوا ) میں خانگی مسائل کی بھرمار ہوتی ہے لیکن زیر تذکرہ کتاب اس سے مبرا نظر آئی۔
قمر احمد علی، کراچی میں مقیم ہیں
------
دربار ادب
قیمت: 350
مصنفہ: فرحت پروین ملک
صفحات: 176
ناشر: زین پبلیکیشنز، کراچی
سن اشاعت: 2010
فرحت پروین ملک، نظیر صدیقی (وفات: 12 اپریل 2001) کی اہلیہ ہیں
مشفق خواجہ، نظیر صدیقی کو باوجود ان کے متلون طبیعت کے، بہت عزیز رکھتے تھے۔ اگست 2010 میں مکتوبات مشفق خواجہ بنام نظیر صدیقی شائع ہوئی اور حضرت نظیر کی زندگی کے کئی گوشوں کو بے نقاب کرگئی
دربار ادب، بیگم نظیر صدیقی سے مدیر روشنائی، کراچی جناب احمد زین الدین نے اصرار کرکے لکھوائی ے، یوں تو تمام کی تمام کتاب ہی قابل مطالعہ و ‘عبرت انگیز‘ ہے لیکن خصوصیت سے پہلا مضمون بعنوان "آدھا مسلمان" نظیر صدیقی کا خاکہ ہے، قابل توجہ و قابل غور ہے
مصنفہ کی تمام زندگی اپنے شوہر کی سخت طبیعت کو جھیلتے گزری۔ نظیر صدیقی نے اپنی خودنوشت " سو یہ ہے اپنی زندگی" تحریر کی تو مشفق خواجہ نے اپنے مکتوب میں لکھا کہ آپ نے جس کے ساتھ دو گھنٹے گزارے، اس کا ذکر دلجمعی سے کیا لیکن جس عورت نے آپ کے ساتھ تمام زندگی گزاردی، اس کا ذکر ندارد۔ اس پر نظیر صدیقی، مشفق خواجہ سے ناراض ہوگئے تھے
متذکرہ خاکے میں فرحت پروین بیان کرتی ہیں کہ
"نظیر صدیقی پانچ وقت وضو کرتے تھے، لیکن نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اللہ کا حق تو کبھی ادا نہیں کیا لیکن حقوق العباد کا خیال رکھا۔انہوں نے محبت کو فرض بنالیا اور میں نے فرض کو محبت، سو گزارا ہوگیا۔ اللہ سے تو اللہ واسطے کا بیر تھا مگر نبی کریم (ص) کی محبت میں کمی نہیں تھی۔ بچوں کی آواز سے لے کر چڑیوں کی چہچہاہٹ تک انہیں گراں گزرتی۔ ان کی شدید سکوت پسندی نے گھر کو ساکت کردیا تھا۔ کمرے میں گھڑی نہیں رکھتے تھے کہ اس کی آواز سے نیند خراب ہوتی ہے۔ نظیر صاحب چین سے واپس آئے تو مجھے ان کی حالت دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ پتہ چلا کہ اپنا رہا سہا چین و سکون بھی کسی دیوار چین پر وار آئے ہیں۔ (دورہ چین میں نظیر صدیقی کے تعلقات کسی حسینہ سے استوار ہوئے تھے-راقم)۔ اب میرے پاس ان کا صدقہ دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ انتقال سے دو ہفتہ قبل رات ڈھائی بجے مجھ سے کہنے لگے: "" اقبال عظیم صاحب آئے تھے، تم نے چائے کو نہیں پوچھا"
کبھی کہتے مظفر علی سید رات بیل بجا کر چلے گئے، تم نے دروازہ نہیں کھولا
یہ باتیں مجھے دہلائے دے رہی تھیں۔
انتقال سے ایک رات قبل نرسوں سے کہا: "" بند کریں یہ ڈرامہ"
دوسری رات زندگی کا ڈرامہ ختم ہوگیا۔
اللہ سے ان کا جھگڑا ختم ہوگیا تھا۔ (آدھا مسلمان- دربار ادب)
کتاب کے وہ حصے جہاں مصنفہ نے یاداشتوں کو سمیٹا ہے، دلچسپ ہیں جبکہ ان کی نظمیں والا حصہ جی کڑا کرکے پڑھنا پڑتا ہے
----
نئی منزلیں ہیں پکارتی
صفحات: 352
قیمت: 350
سن اشاعت: 2005
سفرنامہ
ناشر: فیروز سنز، لاہور
داؤد طاہر نے کئی سفرنامے تحریر کیے ہیں، تمام فیروز سنز ہی سے
شائع کروائے ہیں، آخر میں جب ان کو ویزا ملنا بند ہوگیا تو مجبورا" پنجاب کا سفر کیا اور 352 صفحات کا سفرنامہ شائع کروایا
خامہ بگوش کہتے تھے کہ اب معاملہ یہ ہوگیا ہے کہ مصنف ایک کمرے سے دوسرے میں جاتا ہے تو واپسی پر اس کے ہاتھ میں سفرنامہ ہوتا ہے سو زیر نظر کتاب کی فہرست مضامین میں یہ پررونق نام دیکھے جاسکتے ہیں:
کالا شاہ کاکو انٹرچینج
فیض پور انٹر چینج
شیخوپورہ انٹر چینج
ساہیانوالہ انٹر چینج
پنڈی بھٹیاں انٹر چینج
سیال چوک انٹر چینج
سالم انٹر چینج
بھیرہ انٹر چینج
للہ انٹر چینج (جی ہاں، یہ نام اسی طرح درج ہے)
کلر کہار انٹر چینج
بلکسر انٹر چینج
چکری انٹر چینج
للہ انٹرچینج پر زبان سے بے اختیار للہ ہی نکلتا ہے جبکہ چکری انٹر چینج تک پہنچتے پہنچتے قاری خاصا چکرا چکا ہوتا ہے۔ ان تمام تر "شرپسندانہ" باتوں کے ساتھ ساتھ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مجموعی طور پر یہ ایک دلچسپ کتاب ہے۔
اے پڑھنے والے! تم اس کو ایک مرتبہ (ہماری طرح خریدے بغیر) کسی سے عاریتا" لے کر پڑھ سکتے ہو!
----------
باتیں
سید غیاث الدین احمد
صفحات: 124
قیمت : 50
ناشر: فیروز سنز۔ لاہور
اے لو، فیروز سنز والے اتنے مہربان کب سے ہوگئے، 50 روپے صرف ? وہ تو کھال اتارنے میں ماہر ہیں، کوئی رعایت نہیں ملے گی جناب، کاونٹر مین نے فون پر ہی کہہ دیا تھا لیکن ہماری شکل دیکھ کر دل نرم ہوا اور دس فیصد رعایت ملی!
جی ہاں، 1988 کی شائع ہوئی اس کتاب کے نئے نکور نسخے کراچی پہنچے ہیں، یاداشتیں ہیں غیاث الدین احمد کی اور بیحد دلچسپ ہیں ، گورکھ پور، بنارس، علی گڑھ، الہ آباد، فتح پور اور لکھنؤ کا احوال ملتا ہے
شہریاران ملک کے تحت حکیم احمد شجاح پاشا، میاں افتخار الدین، فقیر عزیز الدین، سید رضا علی وغیرہ کے قصے ہیں
خودنوشت
سن اشاعت: 2011
مصنفہ: قمر احمد علی خان
ناشر: فیروز سنز۔ لاہور
قیمت: 495
صفحات: 216
رابطہ ناشر:
60-Shahrah-e-Quaid-e-Azam,
Lahore, Pakistan
Telephone: +(92) (42) 111-62-62-62
قمر احمد علی خان ایک خاتون ہیں، 1923 میں پیدا ہوئیں، اٹھاسی برس ان کی عمر ہے، 45 سال تعلیم کے شعبے میں خدمات سرانجام دیں، فیروز سنز کے لیے اس سے قبل چند کتابیں لکھ چکی ہیں، زیر نظر کتاب ان کی خودنوشت ہے، طرز تحریر جس کا دلچسپ ہے، واقعات میں تسلسل ہے، بڑوں کی آنکھیں دیکھی ہوئی ہیں (والد سخت مزاج تھے لہذا ان کا آنکھیں دکھانا خوب یاد ہے) خواتین کی لکھی خودنوشتوں (چند ایک کے سوا ) میں خانگی مسائل کی بھرمار ہوتی ہے لیکن زیر تذکرہ کتاب اس سے مبرا نظر آئی۔
قمر احمد علی، کراچی میں مقیم ہیں
------
دربار ادب
قیمت: 350
مصنفہ: فرحت پروین ملک
صفحات: 176
ناشر: زین پبلیکیشنز، کراچی
سن اشاعت: 2010
فرحت پروین ملک، نظیر صدیقی (وفات: 12 اپریل 2001) کی اہلیہ ہیں
مشفق خواجہ، نظیر صدیقی کو باوجود ان کے متلون طبیعت کے، بہت عزیز رکھتے تھے۔ اگست 2010 میں مکتوبات مشفق خواجہ بنام نظیر صدیقی شائع ہوئی اور حضرت نظیر کی زندگی کے کئی گوشوں کو بے نقاب کرگئی
دربار ادب، بیگم نظیر صدیقی سے مدیر روشنائی، کراچی جناب احمد زین الدین نے اصرار کرکے لکھوائی ے، یوں تو تمام کی تمام کتاب ہی قابل مطالعہ و ‘عبرت انگیز‘ ہے لیکن خصوصیت سے پہلا مضمون بعنوان "آدھا مسلمان" نظیر صدیقی کا خاکہ ہے، قابل توجہ و قابل غور ہے
مصنفہ کی تمام زندگی اپنے شوہر کی سخت طبیعت کو جھیلتے گزری۔ نظیر صدیقی نے اپنی خودنوشت " سو یہ ہے اپنی زندگی" تحریر کی تو مشفق خواجہ نے اپنے مکتوب میں لکھا کہ آپ نے جس کے ساتھ دو گھنٹے گزارے، اس کا ذکر دلجمعی سے کیا لیکن جس عورت نے آپ کے ساتھ تمام زندگی گزاردی، اس کا ذکر ندارد۔ اس پر نظیر صدیقی، مشفق خواجہ سے ناراض ہوگئے تھے
متذکرہ خاکے میں فرحت پروین بیان کرتی ہیں کہ
"نظیر صدیقی پانچ وقت وضو کرتے تھے، لیکن نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اللہ کا حق تو کبھی ادا نہیں کیا لیکن حقوق العباد کا خیال رکھا۔انہوں نے محبت کو فرض بنالیا اور میں نے فرض کو محبت، سو گزارا ہوگیا۔ اللہ سے تو اللہ واسطے کا بیر تھا مگر نبی کریم (ص) کی محبت میں کمی نہیں تھی۔ بچوں کی آواز سے لے کر چڑیوں کی چہچہاہٹ تک انہیں گراں گزرتی۔ ان کی شدید سکوت پسندی نے گھر کو ساکت کردیا تھا۔ کمرے میں گھڑی نہیں رکھتے تھے کہ اس کی آواز سے نیند خراب ہوتی ہے۔ نظیر صاحب چین سے واپس آئے تو مجھے ان کی حالت دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ پتہ چلا کہ اپنا رہا سہا چین و سکون بھی کسی دیوار چین پر وار آئے ہیں۔ (دورہ چین میں نظیر صدیقی کے تعلقات کسی حسینہ سے استوار ہوئے تھے-راقم)۔ اب میرے پاس ان کا صدقہ دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ انتقال سے دو ہفتہ قبل رات ڈھائی بجے مجھ سے کہنے لگے: "" اقبال عظیم صاحب آئے تھے، تم نے چائے کو نہیں پوچھا"
کبھی کہتے مظفر علی سید رات بیل بجا کر چلے گئے، تم نے دروازہ نہیں کھولا
یہ باتیں مجھے دہلائے دے رہی تھیں۔
انتقال سے ایک رات قبل نرسوں سے کہا: "" بند کریں یہ ڈرامہ"
دوسری رات زندگی کا ڈرامہ ختم ہوگیا۔
اللہ سے ان کا جھگڑا ختم ہوگیا تھا۔ (آدھا مسلمان- دربار ادب)
کتاب کے وہ حصے جہاں مصنفہ نے یاداشتوں کو سمیٹا ہے، دلچسپ ہیں جبکہ ان کی نظمیں والا حصہ جی کڑا کرکے پڑھنا پڑتا ہے
----
نئی منزلیں ہیں پکارتی
صفحات: 352
قیمت: 350
سن اشاعت: 2005
سفرنامہ
ناشر: فیروز سنز، لاہور
داؤد طاہر نے کئی سفرنامے تحریر کیے ہیں، تمام فیروز سنز ہی سے
شائع کروائے ہیں، آخر میں جب ان کو ویزا ملنا بند ہوگیا تو مجبورا" پنجاب کا سفر کیا اور 352 صفحات کا سفرنامہ شائع کروایا
خامہ بگوش کہتے تھے کہ اب معاملہ یہ ہوگیا ہے کہ مصنف ایک کمرے سے دوسرے میں جاتا ہے تو واپسی پر اس کے ہاتھ میں سفرنامہ ہوتا ہے سو زیر نظر کتاب کی فہرست مضامین میں یہ پررونق نام دیکھے جاسکتے ہیں:
کالا شاہ کاکو انٹرچینج
فیض پور انٹر چینج
شیخوپورہ انٹر چینج
ساہیانوالہ انٹر چینج
پنڈی بھٹیاں انٹر چینج
سیال چوک انٹر چینج
سالم انٹر چینج
بھیرہ انٹر چینج
للہ انٹر چینج (جی ہاں، یہ نام اسی طرح درج ہے)
کلر کہار انٹر چینج
بلکسر انٹر چینج
چکری انٹر چینج
للہ انٹرچینج پر زبان سے بے اختیار للہ ہی نکلتا ہے جبکہ چکری انٹر چینج تک پہنچتے پہنچتے قاری خاصا چکرا چکا ہوتا ہے۔ ان تمام تر "شرپسندانہ" باتوں کے ساتھ ساتھ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مجموعی طور پر یہ ایک دلچسپ کتاب ہے۔
اے پڑھنے والے! تم اس کو ایک مرتبہ (ہماری طرح خریدے بغیر) کسی سے عاریتا" لے کر پڑھ سکتے ہو!
----------
باتیں
سید غیاث الدین احمد
صفحات: 124
قیمت : 50
ناشر: فیروز سنز۔ لاہور
اے لو، فیروز سنز والے اتنے مہربان کب سے ہوگئے، 50 روپے صرف ? وہ تو کھال اتارنے میں ماہر ہیں، کوئی رعایت نہیں ملے گی جناب، کاونٹر مین نے فون پر ہی کہہ دیا تھا لیکن ہماری شکل دیکھ کر دل نرم ہوا اور دس فیصد رعایت ملی!
جی ہاں، 1988 کی شائع ہوئی اس کتاب کے نئے نکور نسخے کراچی پہنچے ہیں، یاداشتیں ہیں غیاث الدین احمد کی اور بیحد دلچسپ ہیں ، گورکھ پور، بنارس، علی گڑھ، الہ آباد، فتح پور اور لکھنؤ کا احوال ملتا ہے
شہریاران ملک کے تحت حکیم احمد شجاح پاشا، میاں افتخار الدین، فقیر عزیز الدین، سید رضا علی وغیرہ کے قصے ہیں