فرخ انیق
محفلین
چنڈال
کئی روز سے وہ سارا سارا دن ریاست نائی کے حمام پر ہی بیٹھا کیبل پر نانا پاٹیکر کی فلمیں دیکھتا رہتا۔ دوسرے محلے کے کسی حمام میں آ کر سارا دن بیٹھے رہنے کے اس اچانک سے بننے والے معمول نے اسے محلے والوں کی نگاہ میں مشکوک تو کر دیا تھا لیکن ریاست کے سوا ابھی تک کسی کو پتہ نہیں تھا کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ آج بھی ٹھیک 2بجے لڑکیوں کے کالج کو چھٹی ہوئی تو وہ باہر نکل کر تھڑے پر کھڑا ہو گیا۔ بظاہر ایسا لگتا تھا جیسے وہ باہر تار پر لٹکے ہوئے تولیے اُتارنے کو نکلتا ہے لیکن وہ ایک آدھ تولیا اُتار کر کھڑا رہتا، اور جب کوئی بزرگ محلے دار اُسے گھورتا ہوا گزرتا تو وہ جلدی سے بانس کے ساتھ تولیے کو چھیڑنے لگتا۔ اُسے معلوم تھا کہ لمبے کالے سے بستے والی وہ لڑکی، جس کے سفید دودھیا پاؤں دیکھ کر اس کی رالیں ٹپکنے لگتی ہیں، نکڑ والے ملک دلدار کی بیٹی ہے۔ اُس نے اُسے کئی بار بغیر نقاب کے بھی دیکھا ہوا تھا۔ لیکن اب وہ اس دور دور سے دیکھنے کے معمول سے تنگ آ گیا تھا۔ اُس رات موچیوں کے تھڑے پر بیٹھ کر رانے طیّب نے بھی اُسے یہی کہا کہ ”یار کب تک یونہی دور دور سے نظارے کرے گا، بَلو! میں تو کہتا ہوں سویرے ہی گیم ڈال دے، سیٹ ہو گئی تو ٹھیک نہیں تو کسی اور کے پیچھے لگ، ایویں ٹائم تو نہ ضائع کر“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دن اُس کی زندگی کے دو چار حسین ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ دفتر کے چپراسی نے اسے آ کر بتایا کہ اس کے گھر سے فون آیا ہے اور اطلاع ہے کہ اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ ”نور!!“ اس کے ذہن میں جھماکے سے ایک آواز اُبھری۔ اس نے پل بھر کو چپڑاسی کے منہ کی طرف دیکھا جیسے وہ اس سے مبارکباد کے الفاظ سننے کا انتظار کر رہا ہو اور پھر اس کے حسبِ معمول لٹکے ہوئے منہ کو نظر انداز کرتا ہوا جلدی سے اُٹھا اور دفتر سے چھٹی لے کر سیدھا حیدر حلوائی کی دُکان پر پہنچا۔ حیدر کے گلاب جامن اس کے پسندیدہ تھے۔ جب حیدر نے اُس سے پوچھا کہ کتنے گلاب جامن دے تو اس کی جانب سے کوئی جواب نہ مل پایا۔ یا تو وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا یا پھر مارے خوشی کے اس کی زبان اُس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ حیدر نے خود ہی دو کلو گلاب جامن تول کر اس کی طرف بڑھا دیئے جنہیں تھام کر وہ زیرِ لب مسکراتا ہوا۔۔ اپنی پھٹیچر سی یاماہا پر، جو اس دفعہ پہلی کِک پر ہی اسٹارٹ ہو گئی تھی، بیٹھ کر گھر کو چل دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹُنڈ مُنڈ اور جلے ہوئے درختوں سے اَٹا ہوا یہ ویرانہ جمن پورہ کا واحد قبرستان تھا۔ شروع شروع میں گاؤں کی آبادی کم تھی، مہینے میں کوئی دو ایک لوگ مرتے تھے۔ ایسے میں گاؤں کے لوگ خصوصاً جوان محلے دار مل جل کر اس کی قبر کھود دیتے۔ مرنے والے کے گھر کا کوئی ذمہ دار فرد جا کر انہیں قبر کھودنے کی جگہ بتا دیتا اور ساتھ پانی وغیرہ کا انتظام کر دیتا۔ محلے کے آوارہ ترین نوجوان بھی اس دن والدین کے ڈر سے یا پھر محلے داروں کی شرم سے قبرستان کا چکر ضرور لگاتے خواہ ایک آدھ منٹ کو ہی کدال کیوں نہ چلائیں۔ کئی سالوں سے گاؤں میں یہی نظام چل رہا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ آبادی بڑھنے لگی اور مرنے والوں کی تعداد اور رفتار بھی۔ اب نوجوان بھی اسے اپنی بے عزتی خیال کرنے لگے کہ وہ قبرستان جا کر کسی کی قبر کھودیں۔ ان کی گہری نیلی پینٹوں پر مٹی کے داغ لگ جاتے اور پسینے سے ان کی مہنگی رنگین بنیانیں خراب ہو جاتیں۔ پہلے پہل تو صرف نوجوانوں نے اس روایت سے کنارہ کیا مگر پھر ادھیڑ عمر مرد بھی ہمت ہار گئے اور یوں جمن پورہ کے قبرستان میں ایک گورکن کی ضرورت پیش آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج قمیض کا کالر کھڑا کر کے گھر سے نکلا اور ریاست نائی کے حمام پر جانے کی بجائے ٹِبے والی گلی میں پورے 2 بجے پہنچ گیا۔ وہ جانتا تھا کہ بازار میں کیچڑ کی وجہ سے وہ اسی گلی سے گزر کر جائے گی۔ وہ کاکے درزی کے گھر کے آگے کھڑا ہو گیا اور جونہی وہ گلی میں داخل ہوئی اُس کے سامنے آ گیا۔ اس کے بعدجو ہوا یہ اُس کے لئے کوئی نئی بات نہیں تھی، پہلے بھی ایسا کئی بار ہو چکا تھا۔ اُن درجنوں لڑکیوں کی طرح ملکوں کی لڑکی نے بھی اُسے یہی کہا کہ ”اپنی ماں سے جا کے دوستی کرو اور آئندہ اگر مجھے روکنے کی کوشش کی تو شور مچا کے سب کو اکٹھا کر لوں گی“ لیکن اُس نے ذرا بھی بے عزتی محسوس نہ کی۔ شور مچاکر سب کو اکٹھا کرنے والی بات پر ایک بار اُس کے ہاتھ کانپنا تو شروع ہو گئے لیکن اُس نے جیب سے نسوار کی پڑیا نکالی اور ایک گولی بنا کر نچلے ہونٹ تلے رکھ کر جلدی جلدی چلتا ہوا نکل گیا۔ شام کو رانے طیّب کو بھی اس نے بتا دیا کہ ” باوا جی یہ بچی تو اپنے ہاتھ نہیں آنے والی، کوئی اور گیم سوچو“ اُس رات وہ دونوں دیر تک باہر کھیتوں میں بیٹھ کر چرس پیتے رہے اور رات گئے اُٹھ کر شہر کے بدنام ترین علاقے کی طرف نکل گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سُرخ کمبل میں لپٹی ہوئی وہ پری واقعی میں سراپا نور ہی تھی۔ ”اس کے لئے نور سے بہتر اور کیا نام ہو سکتا ہے؟“ اپنی بچی پر پہلی نظر ڈال کر اُس نے سوچا۔ جب اُسے سرکار کی طرف سے خط آیا تھا کہ اُسے نوکری مل گئی ہے تو مارے خوشی کے اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے، یا جب اس کے ابا نے اُسے آکر بتایا تھا کہ ”پُتر تیری پھُپھی مان گئی ہے کلثوم سے تیرے رشتے کے لئے“ تو وہ اتنا خوش تھا کہ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جواب میں کیا کہے۔ یا پھر جب اس کی بی اے میں فرسٹ ڈویژن آئی تھی تو وہ حیدر حلوائی سے رس گلے اور گلاب جامن لے کر رستے میں سب کو کھلاتا ہوا، بھاگتا ہوا گھر پہنچا تھا، خوش تو وہ اس دن بھی بہت تھا۔ مگر یہ خوشی کی ایسی قسم تھی جس سے اُس کی آج سے پہلے کچھ شناسائی نہ تھی۔ اُس نے آگے بڑھ کر اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں میں لیا تو ”نور“ کے نور سے اس کی آنکھیں چُندھیا گئیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گندے اور اُلجھے ہوئے لمبے بالوں والا شخص پتہ نہیں کہاں سے آیا تھا۔ پہلے کچھ دن تو وہ گاؤں کی مختلف گلیوں میں سوتا رہا۔ وہ گلی کے کسی ایسے کونے میں جا بیٹھتا جہاں سے کسی کا گزر ہونے کے امکانات کم ہوتے اور پھر وہیں کئی دن گزر جاتے۔ پہلی بار اُس نے مراد باجوے کے کہنے پر ساتھ آٹھ بچوں کے ساتھ مل کر اس کے بیٹے شعیب کی قبر کھودی اور پھر اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔ وہ گاؤں کے کچھ بچوں کو ساتھ ملاتا اور قبر کھود دیتا۔ بدلے میں متوفی کے گھر والے بچوں کو دس دس بیس بیس روپے دے دیتے اور انہی کے ہاتھ اس کے لیے کھانا بھی بھجوا دیتے۔ رفتہ رفتہ اسے اس کام کی عادت بھی ہو گئی اور تجربہ بھی۔ اس کے پاؤں چوڑے اور ہاتھ سخت ہو گئے اور بازؤں میں رگیں اُبھر آئیں۔ کدال اور بیلچے کے سخت دستے اب اس کے ہاتھوں میں چھالے نہیں ڈالتے تھے ۔ اب وہ اکیلا ہی چند گھنٹوں میں قبر کھود دیتا۔ کچھ روز تو اُس نے گاؤں کی گلیوں اور بازاروں کو عارضی ٹھکانہ بنائے رکھا لیکن پھر ایک روز وہ میل سے جمی ہوئی کھچڑی داڑھی لئے قبرستان ہی منتقل ہو گیا۔ اُس نے کچھ پودے وغیرہ ہٹا کر تھوڑی سی جگہ بنائی اور وہیں مستقل ڈیرہ جما لیا۔ آٹھ دس ماہ وہ گرمی اور سردی کے تھپیڑے کھُلے آسمان تلے سہتا رہا۔ اُس کی جلد گرمیوں میں جل کر سُرخ ہوئی اور سردیوں میں یہ سرخ چھلکے اُترنے لگے۔ پھر جب یوسف جولاہے کی ماں مری تو قبر کھودنے کی اُجرت کے طور پر اُس نے اپنی دُکان سے اُتری ہوئی پرانی برساتی ترپال اُسے دے دی، جسے اُس نے قبرستان سے ہی کچھ لکڑیاں کاٹ کر ایک خستہ حال جھونپڑی کی شکل دے دی۔ اتنا عرصہ کھلی فضا میں رہنے کے بعد اُسے جھونپڑی کی نہ تو ضرورت رہی اور نہ عادت۔ اُس کے اوزار تو جھونپڑی میں پڑے رہتے مگر کبھی کسی نے اُسے جھونپڑی میں لیٹے، سوتے یا کھانا کھاتے نہ دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب بھی وہ ریاست نائی کی دکان پر جا کر بیٹھتا اور کالج کی آخری طالبہ کے گزرنے کے بعد اُٹھ کر نکل جاتا۔ آہستہ آہستہ محلے کے لوگ بھی جان گئے کہ یہ حمام کا دروازہ کھول کر سامنے بینچ پر کیوں بیٹھتا ہے۔ ایک دو بندوں نے دبے لفظوں میں ریاست نائی سے کہا کہ وہ تو لفنگا ہے تم ہی کچھ خیال کر لو، تو ریاست نے 700 روپیہ جو اُس سے اُدھار لیا تھا واپس کر دیا اور اُسے کہا ”یار محلے والے باتیں کرتے ہیں ذرا کچھ دن کے لئے آگے پیچھے ڈیرہ لگا لے، مجبوری ہے یار“ ریاست نائی کی دکان سے اُٹھ کر وہ ٹانگوں والے اڈے میں جا بیٹھا۔ وہ چرس بیچنے کا کاروبار کرتا تو چوری چوری تھا لیکن پتہ سب ہی کو تھا۔ علاقے کے جس بندے کی بھی اس کے ساتھ سلام دعا ہوتی اس کا مطلب یہ ہوتا کہ یا تو وہ چرس پیتا ہے یا پھر چند دنوں تک پینا شروع کر دے گا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے کہ گاؤں کا ناظم بھی اُس سے چرس لیتا ہے اور بدلے میں اس کی پشت پناہی کرتا ہے۔ اس بات کی صداقت کی دلیل یہ دی جاتی کہ ہر بار پکڑے جانے پر وہ دو دن میں ہی تھانے سے چھوٹ آتا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور کے آنے سے اُس کے گھر کی رونق جیسے دوبالا ہو گئی تھی۔ ویسے تو گھر کے سبھی افراد کو نور سے بے انتہا پیار تھا مگر باپ اور بیٹی کے پیار کی مثال نہیں تھی۔ وہ جتنا وقت بھی گھر گزارتا نور کو گود میں لے کر اُس سے باتیں کرتا رہتا جن کے جواب میں وہ اوں آں سے زیادہ کچھ نہ کہتی۔ کبھی اس کے وہ دانت تھوڑی تھوڑی دیر بعد گنتا رہتا جو ابھی نکل رہے تھے ۔ اُس کا دفتر جانے کو دل نہ چاہتا اور جب وہ نور کے ماتھے پر دس بارہ بوسوں کے بعد دفتر چلا بھی جاتا تو سارا دن اپنی بیٹی کی صورت ذہن میں لا کر اکیلے میں ہی مسکراتا رہتا۔ شام کو گھر واپسی پر وہ جلدی سے بھاگ کر نور کے کمرے میں پہنچتا اور اسے ان کھلونوں سے کھیلنا سکھاتا رہتا جنہیں ابھی نور پکڑ بھی نہیں سکتی تھی۔ ایک چھوٹی سی بچی ہی تو تھی نور۔۔!! کیا خاص بات تھی اُس میں؟؟ بیٹیاں تو سب کے گھر پیدا ہوتی ہیں۔۔ لیکن اُس میں واقعی کوئی خاص بات تھی۔۔ وہ اُس کی بیٹی نہیں جیسے اُس کے اپنے وجود کا ہی ایک حصہ تھی۔ اس ایک چھوٹے سے اضافے نے اُسے مکمل کر دیا تھا۔ اب اُسے اور کچھ نہیں چاہیے تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس روز گاؤں میں کوئی مرگ ہو جاتی وہ دن تو اُس کا مصروفیت میں گزر جاتا لیکن عام دنوں میں وہ سارا سارا دن جھونپڑی کے باہر اُجڑے ہوئےکیکروں کی چھاؤں میں نیم دراز اپنی گہری نیلی آنکھوں سے نہ ختم ہونے والے آسمان کو گھورتا رہتا، ان قبروں سے کہیں زیادہ گہری آنکھوں سے جو وہ دیکھتے ہی دیکھتے چند گھنٹوں میں کھود دیتا تھا۔ عموماً گاؤں سے کوئی نہ کوئی اُسے کھانا بھجوا دیتا، لیکن اگر کسی دن کہیں سے بھی کچھ نہ آتا تو وہ وہیں لیٹا آسمان کو گھورتا رہتا۔ اکثر جو بچے اُس کے لئے کھانا لاتے وہ اُس کے پاس بیٹھ کر اُس سے سوال کرتے رہتے لیکن وہ خاموشی سے بیٹھا اپنے خوفناک اور بے ڈھنگے ہاتھوں سے کھاتا رہتا۔ گاؤں کے بہت کم لوگوں نے اُس کی آواز سُنی تھی۔ جب کوئی شخص اُسے قبر کھودنے کے بارے میں ہدایات بھی دیتا تو وہ سر ہلا کر ہاں کا اشارہ کر دیتا۔ آوارہ لڑکے اُس کی جھونپڑی میں بیٹھ کر چرس، افیون اور دیگر نشے کرتے رہتے، اُس نے نہ کبھی کسی سے بات ہی کی اور نہ کبھی کسی کو ٹوکا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں ہوا کہ گاؤں کا ناظم ملک سے باہر چلا گیا جس کی وجہ سے اس کا کاروبار پہلے ماند پڑا اور پھر بند ہو گیا۔ اب گاؤں میں دو تین اور لوگوں نے، جن کی با اثر شخصیات سے واقفیت تھی، اس کی جگہ لے لی۔ وہ نشہ بیچنے سے صرف کرنے پر آ گیا۔ اس کے علاوہ کام تو اور کوئی تھا نہیں سو چند ہی دنوں میں وہ پائی پائی کا محتاج ہو گیا اور اپنے نشے کی ضرورت پوری کرنے کے لئے بھی اُسے چوری کا سہارا لینا پڑا۔ ایک دن اُس نے عنایت جٹ کے گھر سے پانی والی موٹر چُرا کے بیچی، اگلی دفعہ چودھری رستم کے بیٹے کی سائیکل اور پھر ایک ایک کر کے سب گٹروں کے ڈھکن۔ چھوٹی موٹی ہر وہ چیز جو وہ چرا سکتا تھا، چرا چکا تھا۔ اس پر جب گلی محلے میں چوریاں ہونا شروع ہوئی تو لوگ بھی محتاط ہو گئے۔ لوگ اپنی چیزیں تالوں میں رکھنے لگے اور رات کو ایک چوکیدار کو گاؤں میں پہرے کے لیے بھی رکھ لیا گیا۔ چند دن اُس نے چوری کے مال سے کمائے پیسوں پر گزارا کر لیا مگر آخر انہیں ختم ہونا ہی تھا۔ کام کرنے کی عادت بالکل نہیں تھی اس لئے فاقوں تک نوبت آ پہنچی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کی زندگی کا ہر فیصلہ اب نور سے متاثر ہوتا۔ وہ کیا کرے کیا نہ کرے، اُسے کہاں جانا چاہیے کہاں نہیں جانا چاہیے، وہ کیا خریدے کیا نہ خریدے۔ ہر وقت اُس کے دماغ میں یہی چلتا کہ اگر یہ کروں گا تو میری بچی کو کیا فائدہ پہنچے گا ، وہ نہ کروں گا تو نور کو کیا نقصان ہو سکتا ہے۔ ایک روز وہ بیٹھ کر اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بنتے ہوئے دیکھتا اور پھر اسی حساب سے مستقبل کی ساری منصوبہ بندی کرتا تو اگلے روز وہ اُسے ائیر ہوسٹس کے یونیفارم میں دیکھ رہا ہوتا۔ دُنیا کا شاید ہی کوئی پیشہ ہو جس میں اُس نے اپنی بیٹی کو نہ دیکھا ہو، کبھی کبھی تو کلثوم پریشان ہو جاتی کہ اکیلی نور بے چاری بڑی ہو کے کیا کیا بنے گی۔ دیکھتے ہی دیکھتے نور صحن میں بھاگنے دوڑنے اور اسے ابو ابو کہہ کر پکارنے لگی۔ وہ چھ سال کی ہوئی تو اس نے اسے گاؤں کے پرائمری سکول میں داخل کروا دیا۔ وہ تیسری کلاس میں تھی جب اس کی استانی نے اسے سبق نہ آنے پر سزا کے طور پر 30 دفعہ اُٹھک بیٹھک کی سزا دی تو وہ اس کے سکول پہنچ گیا اور استانی کے خوب کان کھینچ کر آیا۔ اس نے استانی سے صاف صاف کہہ دیا کہ میری نور کو سبق آئے یا نہ آئے اسے نہ تو کوئی سزا دے گا اور نہ کوئی ڈانٹے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کون تھا، کہاں سے آیا تھا، اُس کا نام کیا تھا، کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ شروع شروع میں لوگ اُسے ”مندھ شیدائی“ کہتے رہے جب وہ قبرستان چلا گیا تو اُسے قبرستان والا شیدائی کہنے لگے۔ پھر ایک دن انڈین ہیرو متھن چکر ورتی کی فلم ”چنڈال“ آ گئی۔ اس فلم میں متھن اپنے سارے خاندان کے جھوٹے قتل کی سزا کاٹنے کے بعدجیل سے نکل کرشمشان گھاٹ چلا جاتا ہے اور ”چنڈال“ بن جاتا ہے۔ وہ رات کے وقت مردوں کی چتائیں جلاتا اور قبریں کھودتا اور دن میں اپنے خاندان کے قتل کا بدلہ لینے چلا جاتا۔ گاؤں میں یہ فلم بہت مشہور ہوئی۔ اگرچہ وہ دن کے وقت کہیں بدلہ لینے نہیں جاتا تھا، مگر اس کی چنڈال کے کردار سے مشابہت کی وجہ سے لوگوں نے اُسے شیدائی کی بجائے چنڈال کہنا شروع کر دیا، چند ہی دن میں اس کا یہ نیا نام پہلے معروف ہوا اور پھر پکا ہو گیا۔ جس نے چنڈال فلم نہیں بھی دیکھی تھی وہ بھی اُسے چنڈال کہنے لگا۔ اگر کسی نے چنڈال کو قبریں کھودنے اور اپنی گہری آنکھوں سے آسمان کو گھورنے کے علاوہ کچھ کرتے دیکھا تو وہ تھا بھنگ بناتے ہوئے۔ قبرستان میں بھنگ گنجانی میں اُگی ہوئی تھی جو اس ویرانے میں شاید اس کی واحد تفریح تھی۔ یہ شدت کیا تھی کیوں آتی تھی اس بارے میں کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتالیکن جس دن اس کی طبیعت میں شدت آتی وہ دو تین پیالے بھنگ پیتا اور مدہوش پڑا رہتا۔ اگر قبرستان میں بھنگ نہ ہوتی تو شاید وہ بہت اکیلا پڑ جاتا۔ بھنگ پینے سے اُس کی گہری آنکھیں اور بھی گہری ہو جاتیں اور پھر وہ لیٹ کر آسمان سے نجانے کیا تلاش کرنے لگتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانے طیّب کی طرف سے صاف جواب سننے کے بعد وہ پچھلے دو دن سے بھوکا تھا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ حافظ افتخار نے اس کے کچھ پیسے دینے ہیں جو اُس نے پچھلے سال سے لٹکائے ہوئے ہیں اور وہ تقریباً بھاگتا ہوا اس کی دکان پر پہنچا اور جا کر اس سے پیسوں کا تقاضا کر دیا۔ حافظ افتخار نے پہلے تو اسے ٹالنے کی کوشش کی۔ لیکن جونہی اس کی آوازبلند ہوئی تو اس نے پیسے دے دینے میں ہی عافیت سمجھی اور عین اس وقت جب وہ گالیاں دینا شروع کرنے ہی والا تھا حافظ افتخار نے اسے 500 روپیہ نکال کر تھما دیا اور وہ اسے جیب میں ڈال کر تانگوں والے اڈے جا پہنچا جہاں سے اس نے چاچے بازی کی دکان سے مرغی کا سالن ڈال کر چاول کھائے اور وہیں سے اگلے پورے ہفتے کے لیے چرس خرید لی۔ بڑے دنوں کے بعد اس نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا تھا اور جی بھر کر چرس پی تھی۔ اب اسے جہاں جانا تھا وہاں جانے کے لیے اسے رانے طیّب کی ضرورت تھی لیکن اس سے تو وہ اس دن کے بعد قطع تعلق کر چکا تھا اور اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں بچے تھے۔ اسی بارے میں سوچتا ہوا وہ گاؤں سے باہر جانے والی سڑک پر پیدل ہی نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور پرائمری کے امتحانات میں اچھے نمبروں سے پاس ہوئی تو اس نے اسے ساتھ والے قصبے کے ہائی سکول میں داخل کروا دیا۔ پہلا ایک سال تو وہ اسے خود چھوڑ کے آتا رہا لیکن پھر جب اس کی ترقی ہوئی اور اسے ساتھ والے شہر میں بلوا لیا گیا تو اسے دفتر کے لیے صبح صبح نکلنا پڑتا۔ اگرچہ نور نے کہا کہ وہ صبح صبح اُٹھ کر تیار ہو سکتی ہے لیکن اس نے کہا ”میری بیٹی سکول میں دو گھنٹے جا کر فارغ بیٹھی رہا کرے گی کیا؟ اور واپسی پر تو میں لیٹ آؤں گا تب؟“ اور نور کے لئے رکشے کا انتظام کر دیا۔ رکشے والا نور کو صبح سات بجے گھر سے لے جاتا اور دوپہر دو بجے اسے سکول سے واپس لے آتا۔ وہ اب بھی ہر روز آکر سب سے پہلے اپنی بیٹی کے ماتھے پر بوسہ دیتا اور شام کو بیٹھ کر اس سے سکول میں ہونے والے سب واقعات سنتا، نور کی نئی سہیلیوں کے بارے میں پوچھتا اور جب نور بتاتی کہ آج اس کی سہیلی گڈو نے اس کی ربڑلے لی اور اس نے جب واپس مانگی تو گڈو نے نہیں دی تو پھر وہ اسے کہتا کہ ساری کلاس میری نور سے ربڑمانگ کر مٹائے تو کچھ نہیں لیکن میری نور کبھی کسی سے ربڑ نہیں مانگے گی اور پھر اگلے دن اسے دو ربڑ دے کر سکول بھیجتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کے ماضی کے متعلق مختلف روایات ملتی تھیں جن میں سے شاید کوئی بھی حقیقت کے قریب نہیں تھی۔مولوی فلک شیر کا خیال تھا کہ چنڈال چالیس دن کا چلہ کاٹنے کے لئے کسی قبر میں گےا تھا ۔ اُنتالیس دن تک تووہ قبر میں رہا مگر چالیسویں دن چیخیں مارتا ہُواباہر نکلا اور اپنا گاؤں چھوڑ کر یہاں بھاگ آیا۔
ذُلفی کے ۔ٹو کے سگریٹ کا ایک لمبا سا کش بھرتا اور بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ عمران مہر سے کہتا ”باؤ عمران! بیچارے چنڈال کو بھی میری طرح فوج کا بڑا افسر بننے کا شوق تھا مگر ظالم وقت نے اُس کے سارے خواب بکھیر دیئے۔ باﺅ عمران یہ وقت بڑی ظالم چیز ہے یار، بُرا ہو تو گُزارے نہیں گُزرتا اور اچھا ہو تو عُمریں گزر جاتی ہیں یہ نہیں آتا، اس کی لگی سٹ ساتھ لے کے چلنا بڑا ای مشکل ہوتا ہے پھر کوئی چنڈال بن جاتا ہے تو کوئی میری طرح کے ۔ٹو کو اپنا سہارا بنالیتا ہے۔
ماسی مجیداں کے مطابق چنڈال کی بیوی ایک بہت ہی معصوم اور سیدھی سادھی خاتون تھی بالکل ماسی ہی کی طرح مگر اُس کی بہو انتہائی شاطر اور لڑاکا عورت تھی جو کہ اکثر چنڈال کی بیوی کے ساتھ لڑتی رہتی تھی۔ ایک روز دونوں کی تکرار طول پکڑ گئی اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ بہو نے ساس پر ڈنڈے سے حملہ کرنا چاہا، چنڈال انہیں چھُڑانے کے لئے آگے بڑامگر شومئی قسمت سے ڈنڈا اُس کے سر پہ آ لگا اور یوں چنڈال کا ذہنی توازن جاتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو تین پکے سگریٹ پینے کے بعد اس کی آنکھوں سے جیسے دھواں نکل رہا تھا ، ٹانگوں میں جان آ گئی تھی اور دماغ تیز تیز کام کرنے لگا تھا۔ اس کے ہاتھوں اور پیروں میں خارش ہو رہی تھی جو اسے برائی پر مسلسل اکسائے جا رہی تھی۔ اتنے دنوں بعد پیسے ہاتھ تو آئے تھے مگر چرس کی طلب نے اسے پاگل سا بنا دیا تھا تبھی تو اس نے جذباتی ہو کر سارے پیسوں کی چرس ہی خرید لی تھی۔ دوپہر کے ڈھائی بج رہے تھے اور وہ لڑکھڑاتا ہوا شرقی قبرستان کے ساتھ والی خالی سڑک پر چلتا جا رہا تھا۔ دور اسے کچھ حرکت سی نظر آئی لیکن وہ اس سے بے نیاز چلتا رہا۔ تھوڑا آگے جا کر اسے پتہ چلا کہ وہ ایک دس بارہ سال کی بچی تھی جو اس کڑی دھوپ میں اپنا بھاری بستہ کمر پر لٹکائے آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آ رہی تھی۔ بچی کو پہلی نظر دیکھ کر اسے جو خیال آیا اسے اس کے غلاظت سے بھرے ہوئے دماغ نے بھی رَد کر دیا لیکن وہ نشہ ہی کیا جو انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج نہ کر دے۔ وہ فرشتوں سی معصوم اور نئی پھوٹتی ہوئی کونپل جیسی نازک بچی جب اس کے قریب پہنچی تو اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ اس تپتی دوپہر میں وہاں اور کون ہو سکتا تھا۔ دور کہیں کھیتوں میں کوئی کسان شاید پانی لگانے جا رہا تھا۔ اُس نے جلدی سے منہ میں جمع تھوک نگلی اور اپنے اندر کی ساری شیطانیت اکٹھی کر کے اس بچی کو دبوچ لیا۔ بچی کے سر کے نیچے سے لا کر ایک ہاتھ سے اس نے بچی کا منہ بند کیا اور دوسرے ہاتھ سے بچی کی دونوں ٹانگوں کو مضبوطی سے جوڑ کر اُٹھا کر ساتھ والے قبرستان کی طرف دوڑ لگا دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُ س نے بیل بجاتے ہوئے موبائل فون کی سکرین پر نظر ڈالی تو اس پر چاند پی سی او کا نمبر تھا۔ چاند پی سی او اس کے گھر سے کچھ فاصلے پر تھا۔ کلثوم عموماً اسے تبھی فون کرتی جب اچانک مہمان آ جاتے اور ان کے لئے واپسی پر گوشت لانے کا کہنا ہوتا، یا پھر جس دن محلے میں کوئی مرگ ہو جاتی اور اس کا جنازہ عصر کی نماز کے فوراً بعد ہوتا۔ ”رب خیر ای کرے“ کہتے ہوئے اس نے ہرا بٹن دبایا اور فون کان سے لگایا۔”نور ابھی تک گھر نہیں پہنچی“ کلثوم کی آواز میں پریشانی نمایاں تھی۔
”زاہد کا رکشہ خراب ہو گیا ہو گا اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے“ اسے یہ بات کہتے ہوئے وہ خود اس سے کہیں زیادہ گھبرایا ہوا تھا۔
” زاہد ابھی آیا ہے، وہ کہہ رہا ہے راستے میں کوئی ہڑتال تھی، مجھے سکول پہنچنے میں دیر ہو گئی تھی، جب پہنچا تو نور وہاں سے نکل گئی ہوئی تھی“ کلثوم تقریباً رو پڑی۔
”او شیدائن نہ بنو! میں ابھی پتہ کر لیتا ہوں، ادھر ہی ہو گی، رستے میں ٹریفک نہ رک گئی ہو کہیں“ کلثوم کی بات سُنے بغیر ہی اس نے فون بند کیا اور جس ہاتھ سے فون جیب میں ڈالا اسی ہاتھ سے موٹر سائیکل کی چابی نکال کر دفتر سے نکل آیا۔
اس نے سارا شہر کھنگال ڈالا۔ شہر میں مہنگے مشروبات کے بڑے اور رنگین بورڈز تھے۔ جن کے نیچے سے جب کوئی سائیکل یا گدھا گاڑی پر سوار شخص گزرتا جس کے پاس مشروب خریدنے کی استطاعت نہ ہوتی، تو بورڈز پر چھپی چھوٹے چھوٹے کپڑوں میں ملبوس خوبصورت اور جوان لڑکیاں اسے دیکھ کر ہنسنے لگتیں۔ شہر میں حکومت کی ناقص کارکردگی اور فرسودہ نظام کے باغیوں کی ریلی تھی جس کے پُر امن کارکن ہر اُس شخص کو حکومت کا ساتھی سمجھ کر مار رہے تھے جو ان کے ساتھ مل کر نعرے نہیں لگا رہا تھا، شہر میں سڑک کے بیچ کھڑی پھل والی ریڑھیاں تھیں جہاں لوگ گلے سڑے پھل بیچ کر اپنے بچوں کے لئے حلال رزق کما رہے تھے، شہر میں پوں پوں پاں پاں کرتی لمبی لمبی گاڑیاں تھیں جن میں بیٹھے لوگ بے وجہ جلدی گھر پہنچنے کو بیتاب‘ اشارے توڑ رہے تھے، شہر میں ٹریفک پولیس کے اہلکار تھے جو دھوپ سے بچنے کے لئے اشاروں کو اللہ کے حوالے کر کے چھاو¿ں میں بیٹھے گپیں مار رہے تھے، شہر میں گڑھے تھے جن میں بارش کا گندا پانی جمع تھا، شہر میں دیواریں تھیں جو حکیموں اور ڈاکٹروں کے اشتہاروں سے اَٹی ہوئی تھیں، شہر میں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ڈرائیور اور سواریوں کے پیچھے بھاگتے کنڈکٹر تھے، شہر میں دھوپ تھی، گرمی تھی، شور تھا، دھول مٹی سب کچھ تھا، لیکن نور کہیں نہیں تھی۔
سارے شہر کی خاک چھان کر جب وہ گاؤں پہنچا تو قبرستان والی سڑک پر کافی لوگ جمع تھے۔ ”شاید کوئی مر گیا ہے آج“ یہ سوچتے ہوئے جب وہ لوگوں کی اس بھیڑ کے پاس سے گزرنے لگا تو ”دس بارہ سال کی بچی تو ہو گی“ کے الفاظ اس کے کانوں میں پڑے۔ بے ساختہ اس نے دایاں پاؤں دبا دیا۔ اتنے میں ارشاد کھوکھر دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا اور بولا ”یار وہ بچہ کہہ رہا ہے اپنی نور تھی۔۔ ایم۔۔ ایمبولینس آئی تھی، سِول ہسپتال لے گئے ہیں“ اس کے بعد ارشاد کی آواز اس کے کانوں کے اندر اُترنا بند ہو گئی، اُسے اُس کے ہونٹ ہلتے دکھائی دے رہے تھے، ”جاو¿۔۔ہم۔۔ کلثوم۔۔ نور۔۔ زخمی۔۔“ اس نے ارشاد اور کئی دوسرے لوگوں کے ٹوٹے پھوٹے دو چار لفظ سنے اور سول ہسپتال کی طرف اُڑتا ہوا نکل گیا۔
کلثوم کو ہسپتال کے درجنوں چکر اور کاغذات پر انگوٹھے لگانے کے بعد نور کی لاش تو مل گئی لیکن نہ اس کا بستہ ملا اور نہ ہی اُس کے باپ کا کچھ پتہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج صبح سے ہی اس کی طبیعت میں وہی انجان سی شدت تھی۔ اس نے اپنے سخت ہاتھوں سے بھنگ کے اتنے پیالے پیے جتنے وہ پی سکتا تھا۔ کچھ دیر میں گاؤں سے ایک 40 سے 45 برس کا ایک شخص بڑے نپے تُلے قدم اُٹھاتا ہوا قبرستان میں داخل ہوا۔ آہستہ آہستہ چلنے والا یہ شخص جانتا تھا کہ لوگ اُسے چنڈال کے نام سے بُلاتے ہیں مگر وہ اُس کے پاس آ کر رُک گیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اُسے کیا کہہ کر بُلائے، مندھ، سائیں یا پھر چنڈال۔۔ اتنے میں اس بزرگ کے پیچھے ایک نوجوان دوڑتا ہوا پہنچا اور ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس نوجوان کے قدموں کی آہٹ سے چنڈال اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ بزرگ نے ایک نظر اس بعد میں آنے والے نوجوان کی طرف دیکھا اور پھر چنڈال سے مخاطب ہوا، ”میاں ایک قبر کھودنی ہے۔۔ مم۔۔ میری۔۔ میری بیٹی فوت ہو گئی ہے“ اس نے کچھ توقف کیا جیسے وہ کچھ سوچ رہا ہو ”14 برس کی تھی میری بیٹی۔۔ لگ بھگ اس۔۔ اس نوجوان کے برابر قد ہو گا اس کا“ بعد میں آنے والے نوجوان کی طرف اشارہ کر تے ہوئے اس شخص نے کہا جس کے جواب میں چنڈال نے اپنی گہری آنکھیں نوجوان پر ڈالنے کے بعد زمیں میں گاڑتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور پھر وہ شخص چنڈال کو قبر کھودنے کی جگہ بتا کر اس نوجوان کے ساتھ ہی قبرستان سے چلا گیا۔ جب وہ قبر کھودنے لگا تو گاو¿ں کے دو چار جوان آکر اس کے پاس بیٹھ گئے ۔ وہ سارے چرس والے سگریٹ سلگا کر آپس میں گپیں مار رہے تھے اور چنڈال ان سے بے نیاز سخت اور خشک زمین میں کدال چلائے جا رہا تھا۔ قبروں کے درمیان بل کھاتے ہوئے تنگ راستے پر سائیکل چلاتا ہوا عابد قریشی اپنی مستی میں چلا آ رہا تھا۔ اس نے جب چنڈال کو قبر کھودتے دیکھا تو رُک کر ان جوانوں سے پوچھنے لگا ” نومی بادشاہ کون فوت ہو گیا ہے؟“ ”چاچے شفیع مہر کی بیٹی“ ”شفع مہر پنساری؟“ ”ہاں ہاں وہی۔ ۔پاءعابد یار۔۔ بے چاری کے ساتھ کوئی زیادتی کر کے لمبڑوں کے کھیتوں میں پھینک گیا تھا، ادھر ہی دم توڑ گئی ملوکڑی“
عابد قریشی تو ”یا اللہ معاف کرنا“ کہہ کر چلا گیا مگر چنڈال کے کبھی نہ تھکنے والے ہاتھ رُک گئے۔ پہلے اُس کے ہاتھ کانپنا شروع ہوئے اور پھر پورے جسم میں کپکپی پھیلنے لگی۔ جب اُس کے ہاتھ سے کدال زمین پر گری تو پاس بیٹھے جوانوں میں سے ایک اپنا چرس والا سگریٹ پھینک کر جلدی سے آگے بڑھا لیکن چنڈال کے پاس جا کر رُک گیا۔ چنڈال کے ہونٹ ہلکے ہلکے ہل رہے تھے مگر آواز نہیں نکل پا رہی تھی۔ کپکپی کی شدت میں اضافہ ہورہا تھا۔ ایک جوان نے آگے بڑھ کر اُس کی بات سُننے کی کوشش کی ”مے۔۔ مے۔۔ میر۔۔ ن۔۔ نو۔۔ نن۔۔ نور۔۔ نور“ کے بعد اس کا جسم اس شدت سے کانپا کے سب کے سب ڈر کر اس سے دُور ہٹ گئے۔ پھر چنڈال کے منہ سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی جو پورے قبرستان میں گونج گئی اور اسی گونج کے ساتھ وہ نیچے گر گیا۔ اپنی آنکھوں سے بھی گہری قبریں کھودنے والا آج ایک اَدھ کھُدی قبر میں بے جان پڑا تھا اور اس کی قبر کھودنے والا کوئی نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔