سید شہزاد ناصر
محفلین
صحرائے گوپی کے شمال میں دریائے کیرولین اور دریائے اونان کی زرخیز وادیوں میں ان گنت قبائل آباد کے ساتھ ساتھ منگولوں کے بھی قبائل آباد تھے۔ منگولوں کے ایک قبیلہ میں یسوکائی نامی شخص کے گھرایک بچہ کی ولادت ہوئی جس کا نام اس نے تموچن رکھا ۔اس موقع پر اس قبیلے کے بعض دانا لوگوں نے یہ پیشن گوئیاں کیں کہ یہ لڑکا بڑا ہوکر ایک ظالم وجابرجنگجو حکمران ر بنے گا۔ منگول وحشی قسم کی شکاری قوم تھی ، چونکہ یہ علاقہ برفانی تھا اس لئے انھیں برفباری اورسردی سے بچاﺅ کے لئے کھالوں کی ضرورت پڑتی تھی ، جس کے لئے یہ لوگ چھپ کر گھات لگاکر جنگلی گھوڑوں اور بارہ سنگھوں کا شکار کیا کرتے تھے۔ سردی سے بچنے کے لئے یہ جانوروں کے گوشت کے ساتھ ساتھ انکی آنتیں تک کھالیتے اور ان کا خون بھی پی لیتے تھے۔ جس وقت تموچن پیدا ہوا اس کی قوم سینکڑوں خاندانوں میں بٹی ہوئی تھی اور اس کا اپنا قبیلہ بھی ان سے ناراض تھا۔ ابھی یہ لڑکا چھوٹا ہی تھا کہ اس کے باپ کو اس کے دشمنوں نے زہر دے کر ہلاک کردیا۔اس طرح یہ لڑکا اپنی بیوہ ماں کے زیرِ سایہ اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے ہمراہ پروان چڑھتا رہا۔ اس کی ماں اکثر راتوں کو اسے اپنے پاس بٹھا کر اس کے آباﺅ اجداد کی بہادری اور جرات کے واقعات سنایا کرتی تھی۔ یہ ہی وجہ تھی کہ تموچن بچپن ہی سے نڈر اور بہادر تھا۔
اس قدیم دور میں قبائل کے درمیان دشمنی اپنے عروج پر تھی۔ ایک دن یہ لڑکا جنگل سے اکیلا گزر رہا تھا جہاں دشمن قبیلہ کے چھ نوجوان اسے قتل کرنے کے لئے گھات لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان نوجوانوں کو دیکھ تموچن بالکل نہیں ڈرا ، بلکہ اپنی تلوار نکال کر ان کی طرف دوڑا ان لڑکوں نے اس کی طرف تیر پھینکے لیکن وہ ان سے بچتا ہوا ان پر حملہ آور ہوا اور انھیں ہلاک کردیا، انکے گھوڑے لیکرجب وہ اپنی ماں اولون کے پاس آیاتو اس کی ماں اس کی بہادری سے بہت خوش ہوئی ۔
بڑا ہونے کے بعد تموچن اور اس کے قبیلہ پر سب سے پہلے جو مصیبت آئی ، وہ یہ تھی کہ اس علاقے کہ ایک دشمن قبیلہ جس کا سردار ترغا تائی تھا ، اس نے اچانک ان پر حملہ کردیا ، تموچن اور اس قبیلے کے لوگ ان کا مقابلہ نہ کرسکے اور بھاگ کھڑے ہوئے لیکن تموچن کی بدقسمتی وہ ان کے ہاتھ لگ گیا ، اسے گرفتار کرکے انھوں نے اسے اپنے سردار ترغا تائی کے سامنے پیش کیا تو اس نے تموچن کو ایک خیمہ میں قید کردیا۔ خوش قسمتی سے اسے اس خیمے سے بھاگنے کا موقع مل گیا اور چھپتا چھپاتا واپس اپنے قبیلے میں پہنچ گیا۔ تموچن کے قبیلے کے لوگوں نے محسوس کیا کہ انسانوں کے اس جنگل میں وہی محفوظ رہ سکتا ہے جس کے پاس طاقت اور قوت ہو ، چنانچہ انھوں فیصلہ کیا کہ وہ اپنا ایک مضبوط اور بڑا لشکر تیار کریں گے۔اس سلسلے میں انھوںنے ایک مجلس بلائی جس میں قبیلہ کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ تموچن ایک بہادر اور دلیر نوجوان ہے ، لہٰذا اسے قبیلے کا سردار بنادیا جائے ۔ اس طرح تموچن اپنی دلیری اور بہادری کی وجہ سے منگولوں کے قبیلے کا حاکم اور سردار بن گیا ۔ اس کے قبیلے نے اسے چنگیز خان کا لقب دیا۔
چنگیز خان نے منگولوں کا حاکم اور سردار بننے کے بعد کوشش کی کہ اس علاقے کے تمام قبائل کو اکھٹا کیا جائے اوریہ حکم جاری کیا کہ اس علاقے میں جتنے بھی قبائل ہیں کوئی ایک دوسرے پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا، اس اعلان کے بعد اس کے حامیوں اور لشکر میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ، کچھ ہی عرصے میں اس کے لشکر میں سپاہیوں کی تعداد تیرہ ہزار کے لگ بھگ ہوگئی۔ اسی اثناء میں صحرائے گوپی کے شمالی علاقے کے ایک قبیلہ تائی جوت جس کے سردارکا نام تپرغا تائی تھا۔اس نے چنگیز خان کے حامیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ،دیکھ کر اس پر حملہ کرنے کی ٹھان لی اوراپنے تیس ہزار کے لشکر کے ساتھ حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھا تو چنگیز خان نے بڑی دلیری اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو جوابی کاروائی کو حکم دیا اس کے سپاہیوں نے دشمن پر انتہائی تیز رفتاری سے حملہ کیا اور اتنے تیر برسائے کہ جنگ کے ابتداءہی میں تپرغا تائی کے لشکر کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑااور اس کے بعد انتہائی ہولناک دو بدو جنگ شروع ہوگئی۔ جس کے نتیجے میں چنگیزخان کے سپاہیوں کو پہلی بار شاندار فتح حاصل ہوئی اور دشمن قبیلہ کا سردار تپرغا تائی شکست کھاکر بھاگ گیا۔ کسی دشمن کے خلاف چنگیز خان کی یہ پہلی فتح تھی۔دشمن کے خلاف جنگ میں اس فتح نے چنگیز خان کے حوصلوں کو مزید بلند کردیا اور اس نے اپنے لشکر کی تعداد میں مزید اضافہ کرنا شروع کردیا۔ وہ ایک ناقابل تسخیر طاقت بن کر ابھرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ جب اس کی طاقت اور لشکر کی تعداد خوب بڑھ گئی تو اس نے چین کو فتح کرنے کا ارادہ کرلیا۔ چین پر حملہ آور ہونے میں اس کے راستے میں سپاسا ، تائی جوت اور تاتاری نامی تین بڑے قبیلے آتے تھے۔لہٰذا چین پر حملہ کرنے سے پہلے اس نے ان تینوں قبیلوں پر حملہ کرکے انھیں اپنا فرمانبردار بنالیا اور ان قبیلوں کی اکثریت کو اپنے لشکر میں شامل کرلیا۔
چین پر اس وقت ”کن “ خاندان کی حکومت تھی۔ ان کے سپہ سالاروں کو جب یہ اطلاع ملی کہ چنگیز خان ان پر حملہ کرنے والا ہے تو انھوں نے بھی جوابی کاروائی کی تیاریاں شروع کردیں۔ چین میں اکثر شہر وں کے گرد قلعے اور فصیلیں بنی ہوئی تھیں۔ اس جنگ کے لئے چنگیز خان نے یہ منصوبہ بندی کی کہ اپنے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کرکے اپنے چار وں بیٹوں جوچی، چغتائی، اوغدائی اور تولائی کو ان لشکروں کا سردار بنادیا۔ اور یہ حکمت عملی اختیار کی کہ جن شہروں یا قصبوں کے گرد قلعے اور فصیلیں نہیں تھیں ان پر حملہ کرکے انھیں فتح کرنا شروع کردیا۔ چنگیز خان نے انتہائی برق رفتاری سے کام لیا اور تیزرفتاری کو اپنا جنگی حربہ بنایا ۔ وہ چین کی سرزمین پر اپنے لشکرکے ساتھ جگہ جگہ چین کے سست رفتار لشکروں پر حملہ آور ہوتا اور انھیں بے حد نقصان پہنچاکر ان سے مال واسباب چھین لیتا۔ اس طرح اس نے چین میں ایک طوفان کھڑ ا کرکے رکھ دیا اور ان تمام شہروں کو جن کے گرد قلعے یا فصیلیںنہیں تھیں فتح کرلیا۔
چنگیز خان کی حکمت عملی اورجنگی منصوبہ بندی نے چینیوں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی ۔چنگیز خان اوراس کے سپاہی اب چین کی سرزمین سے کافی حد تک واقف ہوچکے تھے۔ لہٰذا اس نے اب ان شہروں کو فتح کرنے کا ارادہ کرلیاجن کے گرد قلعے اور فصیلیں بنی ہوئی تھیں اور حربہ کے طور پر اس نے اپنے اس خوف کو استعمال کیا جو اس علاقے میں پھیل چکا تھا۔ اس نے چینی لشکروں پر اپنی دہشت پھیلانے کے لئے یہ اعلان کردیا کہ جو منگولوں کے سپاہیوں سے جنگ کرے گا ان میں سے کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑا جائے گا اور جو چنگیز خان کی اطاعت کرے گا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔
چنگیز خان نے اب تک کی جنگوں میں فتوحات کے دوران چین کے جن سپہ سالاروں کو گرفتار کیا تھا ، انھیں اپنے لشکرکے آگے رکھا جو اسے چین کے مختلف قلعوں اور شہروں میں داخل ہونے کے راستوں کی نشاندہی کرتے رہے۔ اس طرح چنگیز خان اپنے چاروں لشکروں کے ساتھ ایک ایک کرکے چین کے تمام قلعے اور شہر فتح کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا۔ اسے شاندار فتوحات حاصل ہورہی تھیں اور اس کے حوصلے بلند ہورہے تھے ، جو بھی شہر یا قلعہ فتح کرتا وہاں تباہی و بربادی کا بازار گرم کردیتا ، مال و اسباب اور جوان مرد و عورتوں کو غلام اور کنیزیں کے طور پر قبضہ میں لینے کے بعد ان شہروں کو آگ لگوا دیتا۔ اس طرح اس نے پورا چین فتح کرلیا۔ چین فتح کرنے کے بعد اس نے دیگر ممالک پر بھی لشکر کشی کرکے ان پر قبضہ کرلیا ۔
منگول سلطنت کا سکہ قائم کرنے کے بعدچنگیز خان نے دیکھا کہ اسکی سلطنت اتنی وسیع ہوگئی ہے کہ اس کی حدیں اب مسلمان سلطان حکمران علاءالدین خوارزم شاہ کی عظیم سلطنت سے جاملی ہیں۔ اپنی قوم اور سلطنت کی ترقی کے لئے اس نے سوچا کہ ان دونوں سلطنتوں کے درمیان تجارتی اور سفارتی رابطوں کا قیام عمل میں آنا چاہیے چنانچہ اس نے سلطان علاءالدین خوارزم شاہ کے یہاں قیمتی تحائف کے ساتھ ایک قاصد بھیجا جس سے سلطان علاءالدین خوارزم شاہ بہت خوش ہوا اور جواب میں چنگیز خان کا شکریہ ادا کیا اور اس کے لئے قیمتی تحائف روانہ کیئے۔ سلطان علاءالدین خوارزم شاہ کے تحائف لے کے جب یہ قاصد واپس پہنچا تو چنگیز خان بھی بہت خوش ہوا اورحکم دیا کہ دونوں سلطنتوں کے ایک دوسرے سے قریب لانے کے لئے مزید اقدامات ہونا چاہیں اور تجارتی قافلوں کا دونوں سلطنتوں میں آنا جانا ہونا چاہیئے۔چنانچہ چنگیز خان کے حکم پر چار سو افراد پر مشتمل چارسو تاجروں کا ایک کارواں تیار کیا گیا جو قیمتی سامان لیکر روانہ ہوا جس کا مقصد یہ تھا کہ منگول اپنا تجارتی سامان سلطان علاءالدین خوارزم شاہ کی سلطنت میں فروخت کریں اور اس کے بدلے میں اپنی ضروریات کا سامان وہاں سے خرید کر لائیں۔
منگولوں کا یہ تجارتی قافلہ جب سلطان کی سلطنت میں اترا ر کے مقام پر پہنچا اور وہاں قیام پذیر ہوا تو وہاں کا حاکم اینال ،جو سلطان کا ماموں تھا ، ان کے پاس قیمتی سامان دیکھ کر اس کی نیت خراب ہوگئی۔ اس نے اس قافلہ کے تمام تاجروں کو گرفتار کرلیا اور سلطان کو ایک خط لکھا کہ منگولوں کا ایک کارواں جو چارسو افراد پر مشتمل ہے تجارت کے بہانے ہماری سلطنت میں جاسوسی کرنے کے لئے آیا ہے ۔لہٰذا میں نے انھیں اپنی سرحد روک لیا ہے۔ ان کے لئے آپ کا کیا حکم ہے۔ سلطان نے اسے جوابی پیغام میں کہا کہ وہ حالات کی مناسبت سے اپنی مرضی کے مطابق ان لوگوں سے جو چاہے سلوک کرے۔ سلطان کا ماموں یہ جواب سن کر خوش ہوگیا کیونکہ اس کی لالچی نظریں منگولوں کے تجارتی اور قیمتی سامان پر تھیں چنانچہ اس نے اس قافلہ کے تمام تاجروں کو قتل کرواکر انکے مال پر قبضہ کرلیا۔ اتفاق سے ان کا ایک آدمی جو قتل ہونے سے بچ گیا تھا اس نے چنگیز خان کے پاس پہنچ کر اس کو ساری صورت حال سے آگاہ کردیا۔ چنگیز خان کو اپنے چار سو تاجروں کے قتل پر سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ اور اس کے ماموں پر بڑا غصہ آیا۔ تمام منگول چنگیز خان کہنے لگے کہ ہمیں اپنے ان چارسو تاجروں کے قتل کا انتقام لینا چاہیے۔ چنگیز خان ایسا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اس معاملے میں سوچ سمجھ سے کام لینا چاہتا تھالہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ پہلے اس معاملے کو سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور احتجاج کرنا چاہیے۔ اس نے ایک قاصد سلطان کی طرف روانہ کیا اور مطالبہ کیا کہ آپ کے علاقے میں اترار کے حاکم نے ہمارے چارسو تاجروں کو قتل کرکے ان کے تجارتی سامان پر قبضہ کرلیا ہے ، لہٰذا اترار کے حاکم اینال کو ہمارے حوالے کیا جائے تاکہ ہم اسے مناسب سزا دیں اور ہمارے تاجروں کا سامان ہمیں واپس کیا جائے۔چنگیز خان کے قاصد نے جب یہ مطالبہ سلطان تک پہنچایا تو سلطان یہ پیغام سن کربہت زیادہ برہم ہوا اور حکم دیا کہ یہ پیغام ناقابل عمل اور گستاخانہ ہے ، اسے قتل کردیا جائے، لہٰذا سلطان کے حکم پر اس قاصدکو قتل کردیا گیا۔
سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ اگر اس موقع پر دانش مندی سے کام لیتا اور انصاف سے کام لیتے ہوئے اترار کے حاکم کو ضبط کیئے سامان تجارت کے ساتھ منگولوں کو واپس لوٹادیتا تو شاید آج دنیا کی تاریخ میں مسلمانوں کے تاریخ پہلے کی نسبت مختلف اور بہت عمدہ ہوتی۔سلطان کی اس ناعاقبت اندیشی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جب چنگیز خان کو اپنے قاصد کے قتل کی اطلاع ملی تو اس نے یہ عہد کیا کہ وہ سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کو اس توہین کا ایسا سبق سکھائے گا کہ وہ ساری عمر یاد رکھے گا۔چنانچہ اس نے اس توہین کا بدلہ لینے کے لئے اپنے تمام لشکر کو تیاری کا حکم دیدیا۔
مسلمانوں پر حملہ کرنے سے قبل چنگیز خان نے اپنے بھائی کو اپنی جگہ سلطنت کاقائم مقام حاکم مقرر کیا اور اپنے ڈھائی لاکھ سپاہیوں کے ہمراہ سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ پر حملہ کے لئے روانہ ہوگیا۔روانگی سے قبل ا س نے اپنے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کرکے اس کی کمان اپنے چاروں بیٹوں کے سپرد کردی تھی۔اس دوران اسے اطلاع ملی کہ اسکا ہمسایہ اور دشمن اپنے علاقے سے نکل سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کی سلطنت میں جند شہر پہنچ رہا ہے۔ اس نے فور اََ اپنے بیٹے جوچی اور ایک بہترین سالا ر کو ایک لاکھ سپاہیوں کا لشکر کے ساتھ اس کے پیچھے روانہ کیا۔ جوچی اپنے لشکر کے ساتھ اس کا پیچھا کرتے ہوئے سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کے علاقے میں داخل ہوگیا۔ اس وقت اس علاقے میں سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ بھی اپنے لشکر کے ساتھ پڑاﺅ کیئے ہوئے تھا اوراس سے چند میل کے فاصلے پر اسکا بیٹا جلال الدین بھی اپنے لشکر کے ساتھ موجود تھا۔سلطان کو جب یہ خبر ملی کہ چنگیز خان کا بیٹا اپنے ایک لاکھ کے لشکر کے ساتھ اس کے علاقے میں داخل ہوا ہے تو اسے بے حد غصہ آیا ۔ سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ اور اس کے سپاہی جنگ کا بہترین تجربہ رکھتے تھے لیکن منگول سپاہی بھی چین میں مسلسل جنگوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے سلطان کے مقابلے میں زیادہ جنگی مہارت رکھتے تھے۔
سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ اپنے لشکر کے ساتھ منگولوں کے لشکر کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔ دونوں لشکروں میں گمسان کی جنگ ہوئی۔چنگیز خان کے سپاہیوں نے اتنا زور دار حملہ کیا کہ وہ سلطان کے لشکر کو ایک طرف سے کاٹتے ہوئے اس کے درمیانی حصہ کی طرف چلے گئے۔ سلطان کے سپاہی بھی ڈٹے ہوئے تھے اور جان توڑ کر لڑرہے تھے ، قریب تھا کہ سلطان کو شکست ہوجاتی ، خوش قسمتی سے اسکا بڑا بیٹا جلال الدین خوارزم شاہ بھی اپنے لشکر کے ہمراہ وہاں پہنچ گیااور منگولوں پر اتنا زور دار حملہ کیا کہ منگولوں پیچھے ہٹنا پڑا اورچنگیز خان کا بیٹا جوچی اپنے لشکر کو لے بھاگ نکلا۔ اس جنگ میں سلطان کے بہت زیادہ سپاہی مارے گئے۔ اپنے سپاہیوں کے اتنی بڑی تعدادکو ہلاک دیکھ کر سلطان بہت زیادہ فکر مند اور خوفزدہ ہوگیا۔اس نے اندازہ لگایا کہ منگول دوسری قوموں کے مقابلے میں زیادہ نڈر اور جری ہیں اور بے خوفی سے حملہ آور ہوتے ہیں لہٰذا اس نے اپنے طور فیصلہ کیا کہ وہ آئندہ منگولوں سے نہیں لڑے گا۔
منگولوں کا خوف سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کے دل و دماغ اتنا حاوی ہو ا کہ وہ بجائے اس کے کہ چنگیز خان کے مزید حملوں سے نبرآزما ہونے کے لئے مزید جنگی منصوبہ بندی کرتا غلطیوں پر غلطیاں کرتا رہا۔ اس کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ چنگیز خان کے لشکر کو شکست دینے کے بعد وہ اپنے تمام لشکر کو لے سمرقند پہنچ گیاحالانکہ اس کے لشکر کی تعداد اسوقت چار لاکھ کے قریب تھی۔ دوسرے بڑی غلطی اس نے یہ کی کہ اپنے لشکر کو اس نے مختلف حصوں میں تقسیم کردیا۔ اپنے لشکر میں سے اس نے ساٹھ ہزار کا لشکر اپنے ماموں اینال کی طرف روانہ کردیا جسکی وجہ سے چنگیز خان اس کی سلطنت پر حملہ آور ہوا تھا۔ تیس ہزار کا لشکر اس نے بخارا کی طرف اور تقریبا دو لاکھ کا لشکر سمرقند کی حفاظت کے لئے متعین کرکے باقی لشکر اپنے پاس رکھا ۔ اس طرح سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ نے اپنی جنگی طاقت کو کمزور اور متشرکرلیا۔
اپنے لشکر کو تقسیم کرکے سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ اپنی جنگی طاقت کو پہلے ہی کمزور کرچکا تھا اس سے ایک حماقت اور ہوئی جس کی وجہ سے اس کے سپاہی اس سے بد دل ہوگئے، وہ حماقت یہ تھی کہ سمرقند میں قیام کے دوران جب سلطان ایک خندق کا معائنہ کررہا ، خندق کا جائزہ لینے کے بعد اپنے سپہ سالاروں اور سپاہیوں سے کہنے لگا کہ ہم پر اتنی بڑی قوم نے حملہ کردیا ہے اگر وہ اپنے تازیانے ہی اس خندق میں ڈال دیں تو یہ خندق اسی سے بھر جائے گی۔جب سلطان سمرقند سے خراسان کی طرف روانہ ہوا اس کے سپاہی سمجھ گئے کہ سلطان اب منگولو ں کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔یہ وہی سلطان علاﺅالدین خوارزم شاہ تھا جو جوانی میں بڑے بڑے سرکش دشمنوں کو زیر کرلیا کرتا تھا۔ لیکن منگولوں کا اس پر ایسا رعب اور خوف طاری ہوا کہ اس نے ان سے ٹکرانے کا ارادہ ترک کردیا۔ سلطان کو چنگیز خان کے بارے میں اطلاعات ملتی رہتی تھیں کہ چنگیز خان اپنے چاروں بیٹوں کی کمان میںاپنے لشکر کے ساتھ ایک ایک کرکے مسلمانوں کے تمام شہروں قبضہ کرتا جارہاہے۔ ادھر سلطان علاﺅ الدین کے دل میں چنگیز خان کا خوف لئے اپنا دو لاکھ کا لشکر لیکر کبھی کسی شہر کبھی کسی شہرمنگولوں کے آگے آگے بھاگتا پھر رہاتھا، اس بڑے بیٹے جلال الدین اور سپہ سالاروں نے اس سے کہا کہ اگر آپ منگولوں کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتے تو کچھ محافظوں کولے کر کسی محفوظ مقام پر چلے جائیں۔ ہمارے پاس دو لاکھ کا لشکر موجود ہے اگر ہم منگولوں کے سامنے ڈٹ جائیں تو انھیں مار مار کر واپس جانے پر مجبور کرسکتے ہیں۔لیکن کچھ بدبخت نجومیوں نے سلطان کو یہ مشورہ دیا کہ مسلمانوں کو منگولوں سے نہیں لڑنا چاہیے ورنہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔یہ بات سلطان کے ذہن میں بیٹھ گئی اس نے نہ تو اپنے سپہ سالاروں کی بات مانی اور نہ ہی اپنے بیٹے کی ۔چنانچہ سلطان نے یہی کیا اور ایک جزیرے میں روپوش ہوگیا۔ اس نے اپنے اہل خانہ کو جس قلعے میں محفوظ کیا تھا اس قلعہ تک منگول پہنچ گئے اور اس کا محاصرہ کرلیا اور تھوڑی سی مزاحمت کے انھوں نے قلعہ پر قبضہ کرکے تمام محافظوں اور دیگر مردوں کو قتل کردیا۔ جن میں سلطان کے قریبی عزیز اور بوڑھی عورتیں بھی تھیں۔ سلطان کی بیٹیوں اور خوبصورت لڑکیوں کومنگول سرداروں نے آپس میں بانٹ لیا ، جب یہ افسوس ناک خبر سلطان کو ملی شدت غم سے اسے ایسا دھچکا لگا کہ کچھ دن بیمار رہ کر مرگیا۔
چنگیز خان نے اپنے چاروں بیٹوں کی کمان میں اپنے لشکر کے ساتھ ایک ایک کرکے مسلمانوں کے بہت سے شہروں پر قبضہ کرلیا وہاں موجود مسلمان اور انکے سپہ سالاروں نے اپنی محدود قوت کے باوجود ان سے مقابلہ کیا، لیکن منگولولوں کے اس طوفان کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ انھوں نے مسلمانوں کے جن شہروں پر حملہ کیا وہاں ظلم اور بربریت کی انتہا کردی ، عورتوں بچوں اور مردو ں کا قتل عام کیا گیا اور مکتب ، مدرسے، مسجدیں ، لائبریریاں اور کتب خانے ، تہذیبی اور ثقافتی مرکز تباہ و برباد کردیئے گئے۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کی بزدلی کی وجہ سے منگولوں نے اسکی عظیم الشان سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجاکر رکھ دی ۔سلطان علاﺅالدین کی بزدلی اور طرز عمل انتہائی نفرت کے قابل ہے۔
سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کی موت پرچنگیز خان بہت خوش ہوا ، وہ سلطان کے بڑے بیٹے جلال الدین خوارزم شاہ کی دلیری اور جرات مندی سے بھی واقف تھا ۔اسے اس بات کابھی اندازہ تھا کہ اگر جلد ہی جلال الدین کا خاتمہ نہ کیا گیا تو ایسا نہ ہو کہ وہ منتشر مسلمانوں کو جمع کرکے اس کے خلاف کوئی لشکر تیار کرلے اور منگولوں کے ساری فتوحات کو بدترین شکست میں تبدل کردے۔ لہٰذا چنگیز خان نے اپنے بیٹوں اور سپہ سالاروں کو حکم دیا کہ وہ جلال الدین خوارزم شاہ کو تلاش کریں۔
(جاری ہے )
ربط
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=17227&type=text
اس قدیم دور میں قبائل کے درمیان دشمنی اپنے عروج پر تھی۔ ایک دن یہ لڑکا جنگل سے اکیلا گزر رہا تھا جہاں دشمن قبیلہ کے چھ نوجوان اسے قتل کرنے کے لئے گھات لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان نوجوانوں کو دیکھ تموچن بالکل نہیں ڈرا ، بلکہ اپنی تلوار نکال کر ان کی طرف دوڑا ان لڑکوں نے اس کی طرف تیر پھینکے لیکن وہ ان سے بچتا ہوا ان پر حملہ آور ہوا اور انھیں ہلاک کردیا، انکے گھوڑے لیکرجب وہ اپنی ماں اولون کے پاس آیاتو اس کی ماں اس کی بہادری سے بہت خوش ہوئی ۔
بڑا ہونے کے بعد تموچن اور اس کے قبیلہ پر سب سے پہلے جو مصیبت آئی ، وہ یہ تھی کہ اس علاقے کہ ایک دشمن قبیلہ جس کا سردار ترغا تائی تھا ، اس نے اچانک ان پر حملہ کردیا ، تموچن اور اس قبیلے کے لوگ ان کا مقابلہ نہ کرسکے اور بھاگ کھڑے ہوئے لیکن تموچن کی بدقسمتی وہ ان کے ہاتھ لگ گیا ، اسے گرفتار کرکے انھوں نے اسے اپنے سردار ترغا تائی کے سامنے پیش کیا تو اس نے تموچن کو ایک خیمہ میں قید کردیا۔ خوش قسمتی سے اسے اس خیمے سے بھاگنے کا موقع مل گیا اور چھپتا چھپاتا واپس اپنے قبیلے میں پہنچ گیا۔ تموچن کے قبیلے کے لوگوں نے محسوس کیا کہ انسانوں کے اس جنگل میں وہی محفوظ رہ سکتا ہے جس کے پاس طاقت اور قوت ہو ، چنانچہ انھوں فیصلہ کیا کہ وہ اپنا ایک مضبوط اور بڑا لشکر تیار کریں گے۔اس سلسلے میں انھوںنے ایک مجلس بلائی جس میں قبیلہ کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ تموچن ایک بہادر اور دلیر نوجوان ہے ، لہٰذا اسے قبیلے کا سردار بنادیا جائے ۔ اس طرح تموچن اپنی دلیری اور بہادری کی وجہ سے منگولوں کے قبیلے کا حاکم اور سردار بن گیا ۔ اس کے قبیلے نے اسے چنگیز خان کا لقب دیا۔
چنگیز خان نے منگولوں کا حاکم اور سردار بننے کے بعد کوشش کی کہ اس علاقے کے تمام قبائل کو اکھٹا کیا جائے اوریہ حکم جاری کیا کہ اس علاقے میں جتنے بھی قبائل ہیں کوئی ایک دوسرے پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا، اس اعلان کے بعد اس کے حامیوں اور لشکر میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ، کچھ ہی عرصے میں اس کے لشکر میں سپاہیوں کی تعداد تیرہ ہزار کے لگ بھگ ہوگئی۔ اسی اثناء میں صحرائے گوپی کے شمالی علاقے کے ایک قبیلہ تائی جوت جس کے سردارکا نام تپرغا تائی تھا۔اس نے چنگیز خان کے حامیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ،دیکھ کر اس پر حملہ کرنے کی ٹھان لی اوراپنے تیس ہزار کے لشکر کے ساتھ حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھا تو چنگیز خان نے بڑی دلیری اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو جوابی کاروائی کو حکم دیا اس کے سپاہیوں نے دشمن پر انتہائی تیز رفتاری سے حملہ کیا اور اتنے تیر برسائے کہ جنگ کے ابتداءہی میں تپرغا تائی کے لشکر کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑااور اس کے بعد انتہائی ہولناک دو بدو جنگ شروع ہوگئی۔ جس کے نتیجے میں چنگیزخان کے سپاہیوں کو پہلی بار شاندار فتح حاصل ہوئی اور دشمن قبیلہ کا سردار تپرغا تائی شکست کھاکر بھاگ گیا۔ کسی دشمن کے خلاف چنگیز خان کی یہ پہلی فتح تھی۔دشمن کے خلاف جنگ میں اس فتح نے چنگیز خان کے حوصلوں کو مزید بلند کردیا اور اس نے اپنے لشکر کی تعداد میں مزید اضافہ کرنا شروع کردیا۔ وہ ایک ناقابل تسخیر طاقت بن کر ابھرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ جب اس کی طاقت اور لشکر کی تعداد خوب بڑھ گئی تو اس نے چین کو فتح کرنے کا ارادہ کرلیا۔ چین پر حملہ آور ہونے میں اس کے راستے میں سپاسا ، تائی جوت اور تاتاری نامی تین بڑے قبیلے آتے تھے۔لہٰذا چین پر حملہ کرنے سے پہلے اس نے ان تینوں قبیلوں پر حملہ کرکے انھیں اپنا فرمانبردار بنالیا اور ان قبیلوں کی اکثریت کو اپنے لشکر میں شامل کرلیا۔
چین پر اس وقت ”کن “ خاندان کی حکومت تھی۔ ان کے سپہ سالاروں کو جب یہ اطلاع ملی کہ چنگیز خان ان پر حملہ کرنے والا ہے تو انھوں نے بھی جوابی کاروائی کی تیاریاں شروع کردیں۔ چین میں اکثر شہر وں کے گرد قلعے اور فصیلیں بنی ہوئی تھیں۔ اس جنگ کے لئے چنگیز خان نے یہ منصوبہ بندی کی کہ اپنے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کرکے اپنے چار وں بیٹوں جوچی، چغتائی، اوغدائی اور تولائی کو ان لشکروں کا سردار بنادیا۔ اور یہ حکمت عملی اختیار کی کہ جن شہروں یا قصبوں کے گرد قلعے اور فصیلیں نہیں تھیں ان پر حملہ کرکے انھیں فتح کرنا شروع کردیا۔ چنگیز خان نے انتہائی برق رفتاری سے کام لیا اور تیزرفتاری کو اپنا جنگی حربہ بنایا ۔ وہ چین کی سرزمین پر اپنے لشکرکے ساتھ جگہ جگہ چین کے سست رفتار لشکروں پر حملہ آور ہوتا اور انھیں بے حد نقصان پہنچاکر ان سے مال واسباب چھین لیتا۔ اس طرح اس نے چین میں ایک طوفان کھڑ ا کرکے رکھ دیا اور ان تمام شہروں کو جن کے گرد قلعے یا فصیلیںنہیں تھیں فتح کرلیا۔
چنگیز خان کی حکمت عملی اورجنگی منصوبہ بندی نے چینیوں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی ۔چنگیز خان اوراس کے سپاہی اب چین کی سرزمین سے کافی حد تک واقف ہوچکے تھے۔ لہٰذا اس نے اب ان شہروں کو فتح کرنے کا ارادہ کرلیاجن کے گرد قلعے اور فصیلیں بنی ہوئی تھیں اور حربہ کے طور پر اس نے اپنے اس خوف کو استعمال کیا جو اس علاقے میں پھیل چکا تھا۔ اس نے چینی لشکروں پر اپنی دہشت پھیلانے کے لئے یہ اعلان کردیا کہ جو منگولوں کے سپاہیوں سے جنگ کرے گا ان میں سے کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑا جائے گا اور جو چنگیز خان کی اطاعت کرے گا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔
چنگیز خان نے اب تک کی جنگوں میں فتوحات کے دوران چین کے جن سپہ سالاروں کو گرفتار کیا تھا ، انھیں اپنے لشکرکے آگے رکھا جو اسے چین کے مختلف قلعوں اور شہروں میں داخل ہونے کے راستوں کی نشاندہی کرتے رہے۔ اس طرح چنگیز خان اپنے چاروں لشکروں کے ساتھ ایک ایک کرکے چین کے تمام قلعے اور شہر فتح کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا۔ اسے شاندار فتوحات حاصل ہورہی تھیں اور اس کے حوصلے بلند ہورہے تھے ، جو بھی شہر یا قلعہ فتح کرتا وہاں تباہی و بربادی کا بازار گرم کردیتا ، مال و اسباب اور جوان مرد و عورتوں کو غلام اور کنیزیں کے طور پر قبضہ میں لینے کے بعد ان شہروں کو آگ لگوا دیتا۔ اس طرح اس نے پورا چین فتح کرلیا۔ چین فتح کرنے کے بعد اس نے دیگر ممالک پر بھی لشکر کشی کرکے ان پر قبضہ کرلیا ۔
منگول سلطنت کا سکہ قائم کرنے کے بعدچنگیز خان نے دیکھا کہ اسکی سلطنت اتنی وسیع ہوگئی ہے کہ اس کی حدیں اب مسلمان سلطان حکمران علاءالدین خوارزم شاہ کی عظیم سلطنت سے جاملی ہیں۔ اپنی قوم اور سلطنت کی ترقی کے لئے اس نے سوچا کہ ان دونوں سلطنتوں کے درمیان تجارتی اور سفارتی رابطوں کا قیام عمل میں آنا چاہیے چنانچہ اس نے سلطان علاءالدین خوارزم شاہ کے یہاں قیمتی تحائف کے ساتھ ایک قاصد بھیجا جس سے سلطان علاءالدین خوارزم شاہ بہت خوش ہوا اور جواب میں چنگیز خان کا شکریہ ادا کیا اور اس کے لئے قیمتی تحائف روانہ کیئے۔ سلطان علاءالدین خوارزم شاہ کے تحائف لے کے جب یہ قاصد واپس پہنچا تو چنگیز خان بھی بہت خوش ہوا اورحکم دیا کہ دونوں سلطنتوں کے ایک دوسرے سے قریب لانے کے لئے مزید اقدامات ہونا چاہیں اور تجارتی قافلوں کا دونوں سلطنتوں میں آنا جانا ہونا چاہیئے۔چنانچہ چنگیز خان کے حکم پر چار سو افراد پر مشتمل چارسو تاجروں کا ایک کارواں تیار کیا گیا جو قیمتی سامان لیکر روانہ ہوا جس کا مقصد یہ تھا کہ منگول اپنا تجارتی سامان سلطان علاءالدین خوارزم شاہ کی سلطنت میں فروخت کریں اور اس کے بدلے میں اپنی ضروریات کا سامان وہاں سے خرید کر لائیں۔
منگولوں کا یہ تجارتی قافلہ جب سلطان کی سلطنت میں اترا ر کے مقام پر پہنچا اور وہاں قیام پذیر ہوا تو وہاں کا حاکم اینال ،جو سلطان کا ماموں تھا ، ان کے پاس قیمتی سامان دیکھ کر اس کی نیت خراب ہوگئی۔ اس نے اس قافلہ کے تمام تاجروں کو گرفتار کرلیا اور سلطان کو ایک خط لکھا کہ منگولوں کا ایک کارواں جو چارسو افراد پر مشتمل ہے تجارت کے بہانے ہماری سلطنت میں جاسوسی کرنے کے لئے آیا ہے ۔لہٰذا میں نے انھیں اپنی سرحد روک لیا ہے۔ ان کے لئے آپ کا کیا حکم ہے۔ سلطان نے اسے جوابی پیغام میں کہا کہ وہ حالات کی مناسبت سے اپنی مرضی کے مطابق ان لوگوں سے جو چاہے سلوک کرے۔ سلطان کا ماموں یہ جواب سن کر خوش ہوگیا کیونکہ اس کی لالچی نظریں منگولوں کے تجارتی اور قیمتی سامان پر تھیں چنانچہ اس نے اس قافلہ کے تمام تاجروں کو قتل کرواکر انکے مال پر قبضہ کرلیا۔ اتفاق سے ان کا ایک آدمی جو قتل ہونے سے بچ گیا تھا اس نے چنگیز خان کے پاس پہنچ کر اس کو ساری صورت حال سے آگاہ کردیا۔ چنگیز خان کو اپنے چار سو تاجروں کے قتل پر سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ اور اس کے ماموں پر بڑا غصہ آیا۔ تمام منگول چنگیز خان کہنے لگے کہ ہمیں اپنے ان چارسو تاجروں کے قتل کا انتقام لینا چاہیے۔ چنگیز خان ایسا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اس معاملے میں سوچ سمجھ سے کام لینا چاہتا تھالہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ پہلے اس معاملے کو سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور احتجاج کرنا چاہیے۔ اس نے ایک قاصد سلطان کی طرف روانہ کیا اور مطالبہ کیا کہ آپ کے علاقے میں اترار کے حاکم نے ہمارے چارسو تاجروں کو قتل کرکے ان کے تجارتی سامان پر قبضہ کرلیا ہے ، لہٰذا اترار کے حاکم اینال کو ہمارے حوالے کیا جائے تاکہ ہم اسے مناسب سزا دیں اور ہمارے تاجروں کا سامان ہمیں واپس کیا جائے۔چنگیز خان کے قاصد نے جب یہ مطالبہ سلطان تک پہنچایا تو سلطان یہ پیغام سن کربہت زیادہ برہم ہوا اور حکم دیا کہ یہ پیغام ناقابل عمل اور گستاخانہ ہے ، اسے قتل کردیا جائے، لہٰذا سلطان کے حکم پر اس قاصدکو قتل کردیا گیا۔
سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ اگر اس موقع پر دانش مندی سے کام لیتا اور انصاف سے کام لیتے ہوئے اترار کے حاکم کو ضبط کیئے سامان تجارت کے ساتھ منگولوں کو واپس لوٹادیتا تو شاید آج دنیا کی تاریخ میں مسلمانوں کے تاریخ پہلے کی نسبت مختلف اور بہت عمدہ ہوتی۔سلطان کی اس ناعاقبت اندیشی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جب چنگیز خان کو اپنے قاصد کے قتل کی اطلاع ملی تو اس نے یہ عہد کیا کہ وہ سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کو اس توہین کا ایسا سبق سکھائے گا کہ وہ ساری عمر یاد رکھے گا۔چنانچہ اس نے اس توہین کا بدلہ لینے کے لئے اپنے تمام لشکر کو تیاری کا حکم دیدیا۔
مسلمانوں پر حملہ کرنے سے قبل چنگیز خان نے اپنے بھائی کو اپنی جگہ سلطنت کاقائم مقام حاکم مقرر کیا اور اپنے ڈھائی لاکھ سپاہیوں کے ہمراہ سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ پر حملہ کے لئے روانہ ہوگیا۔روانگی سے قبل ا س نے اپنے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کرکے اس کی کمان اپنے چاروں بیٹوں کے سپرد کردی تھی۔اس دوران اسے اطلاع ملی کہ اسکا ہمسایہ اور دشمن اپنے علاقے سے نکل سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کی سلطنت میں جند شہر پہنچ رہا ہے۔ اس نے فور اََ اپنے بیٹے جوچی اور ایک بہترین سالا ر کو ایک لاکھ سپاہیوں کا لشکر کے ساتھ اس کے پیچھے روانہ کیا۔ جوچی اپنے لشکر کے ساتھ اس کا پیچھا کرتے ہوئے سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کے علاقے میں داخل ہوگیا۔ اس وقت اس علاقے میں سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ بھی اپنے لشکر کے ساتھ پڑاﺅ کیئے ہوئے تھا اوراس سے چند میل کے فاصلے پر اسکا بیٹا جلال الدین بھی اپنے لشکر کے ساتھ موجود تھا۔سلطان کو جب یہ خبر ملی کہ چنگیز خان کا بیٹا اپنے ایک لاکھ کے لشکر کے ساتھ اس کے علاقے میں داخل ہوا ہے تو اسے بے حد غصہ آیا ۔ سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ اور اس کے سپاہی جنگ کا بہترین تجربہ رکھتے تھے لیکن منگول سپاہی بھی چین میں مسلسل جنگوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے سلطان کے مقابلے میں زیادہ جنگی مہارت رکھتے تھے۔
سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ اپنے لشکر کے ساتھ منگولوں کے لشکر کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔ دونوں لشکروں میں گمسان کی جنگ ہوئی۔چنگیز خان کے سپاہیوں نے اتنا زور دار حملہ کیا کہ وہ سلطان کے لشکر کو ایک طرف سے کاٹتے ہوئے اس کے درمیانی حصہ کی طرف چلے گئے۔ سلطان کے سپاہی بھی ڈٹے ہوئے تھے اور جان توڑ کر لڑرہے تھے ، قریب تھا کہ سلطان کو شکست ہوجاتی ، خوش قسمتی سے اسکا بڑا بیٹا جلال الدین خوارزم شاہ بھی اپنے لشکر کے ہمراہ وہاں پہنچ گیااور منگولوں پر اتنا زور دار حملہ کیا کہ منگولوں پیچھے ہٹنا پڑا اورچنگیز خان کا بیٹا جوچی اپنے لشکر کو لے بھاگ نکلا۔ اس جنگ میں سلطان کے بہت زیادہ سپاہی مارے گئے۔ اپنے سپاہیوں کے اتنی بڑی تعدادکو ہلاک دیکھ کر سلطان بہت زیادہ فکر مند اور خوفزدہ ہوگیا۔اس نے اندازہ لگایا کہ منگول دوسری قوموں کے مقابلے میں زیادہ نڈر اور جری ہیں اور بے خوفی سے حملہ آور ہوتے ہیں لہٰذا اس نے اپنے طور فیصلہ کیا کہ وہ آئندہ منگولوں سے نہیں لڑے گا۔
منگولوں کا خوف سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کے دل و دماغ اتنا حاوی ہو ا کہ وہ بجائے اس کے کہ چنگیز خان کے مزید حملوں سے نبرآزما ہونے کے لئے مزید جنگی منصوبہ بندی کرتا غلطیوں پر غلطیاں کرتا رہا۔ اس کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ چنگیز خان کے لشکر کو شکست دینے کے بعد وہ اپنے تمام لشکر کو لے سمرقند پہنچ گیاحالانکہ اس کے لشکر کی تعداد اسوقت چار لاکھ کے قریب تھی۔ دوسرے بڑی غلطی اس نے یہ کی کہ اپنے لشکر کو اس نے مختلف حصوں میں تقسیم کردیا۔ اپنے لشکر میں سے اس نے ساٹھ ہزار کا لشکر اپنے ماموں اینال کی طرف روانہ کردیا جسکی وجہ سے چنگیز خان اس کی سلطنت پر حملہ آور ہوا تھا۔ تیس ہزار کا لشکر اس نے بخارا کی طرف اور تقریبا دو لاکھ کا لشکر سمرقند کی حفاظت کے لئے متعین کرکے باقی لشکر اپنے پاس رکھا ۔ اس طرح سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ نے اپنی جنگی طاقت کو کمزور اور متشرکرلیا۔
اپنے لشکر کو تقسیم کرکے سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ اپنی جنگی طاقت کو پہلے ہی کمزور کرچکا تھا اس سے ایک حماقت اور ہوئی جس کی وجہ سے اس کے سپاہی اس سے بد دل ہوگئے، وہ حماقت یہ تھی کہ سمرقند میں قیام کے دوران جب سلطان ایک خندق کا معائنہ کررہا ، خندق کا جائزہ لینے کے بعد اپنے سپہ سالاروں اور سپاہیوں سے کہنے لگا کہ ہم پر اتنی بڑی قوم نے حملہ کردیا ہے اگر وہ اپنے تازیانے ہی اس خندق میں ڈال دیں تو یہ خندق اسی سے بھر جائے گی۔جب سلطان سمرقند سے خراسان کی طرف روانہ ہوا اس کے سپاہی سمجھ گئے کہ سلطان اب منگولو ں کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔یہ وہی سلطان علاﺅالدین خوارزم شاہ تھا جو جوانی میں بڑے بڑے سرکش دشمنوں کو زیر کرلیا کرتا تھا۔ لیکن منگولوں کا اس پر ایسا رعب اور خوف طاری ہوا کہ اس نے ان سے ٹکرانے کا ارادہ ترک کردیا۔ سلطان کو چنگیز خان کے بارے میں اطلاعات ملتی رہتی تھیں کہ چنگیز خان اپنے چاروں بیٹوں کی کمان میںاپنے لشکر کے ساتھ ایک ایک کرکے مسلمانوں کے تمام شہروں قبضہ کرتا جارہاہے۔ ادھر سلطان علاﺅ الدین کے دل میں چنگیز خان کا خوف لئے اپنا دو لاکھ کا لشکر لیکر کبھی کسی شہر کبھی کسی شہرمنگولوں کے آگے آگے بھاگتا پھر رہاتھا، اس بڑے بیٹے جلال الدین اور سپہ سالاروں نے اس سے کہا کہ اگر آپ منگولوں کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتے تو کچھ محافظوں کولے کر کسی محفوظ مقام پر چلے جائیں۔ ہمارے پاس دو لاکھ کا لشکر موجود ہے اگر ہم منگولوں کے سامنے ڈٹ جائیں تو انھیں مار مار کر واپس جانے پر مجبور کرسکتے ہیں۔لیکن کچھ بدبخت نجومیوں نے سلطان کو یہ مشورہ دیا کہ مسلمانوں کو منگولوں سے نہیں لڑنا چاہیے ورنہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔یہ بات سلطان کے ذہن میں بیٹھ گئی اس نے نہ تو اپنے سپہ سالاروں کی بات مانی اور نہ ہی اپنے بیٹے کی ۔چنانچہ سلطان نے یہی کیا اور ایک جزیرے میں روپوش ہوگیا۔ اس نے اپنے اہل خانہ کو جس قلعے میں محفوظ کیا تھا اس قلعہ تک منگول پہنچ گئے اور اس کا محاصرہ کرلیا اور تھوڑی سی مزاحمت کے انھوں نے قلعہ پر قبضہ کرکے تمام محافظوں اور دیگر مردوں کو قتل کردیا۔ جن میں سلطان کے قریبی عزیز اور بوڑھی عورتیں بھی تھیں۔ سلطان کی بیٹیوں اور خوبصورت لڑکیوں کومنگول سرداروں نے آپس میں بانٹ لیا ، جب یہ افسوس ناک خبر سلطان کو ملی شدت غم سے اسے ایسا دھچکا لگا کہ کچھ دن بیمار رہ کر مرگیا۔
چنگیز خان نے اپنے چاروں بیٹوں کی کمان میں اپنے لشکر کے ساتھ ایک ایک کرکے مسلمانوں کے بہت سے شہروں پر قبضہ کرلیا وہاں موجود مسلمان اور انکے سپہ سالاروں نے اپنی محدود قوت کے باوجود ان سے مقابلہ کیا، لیکن منگولولوں کے اس طوفان کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ انھوں نے مسلمانوں کے جن شہروں پر حملہ کیا وہاں ظلم اور بربریت کی انتہا کردی ، عورتوں بچوں اور مردو ں کا قتل عام کیا گیا اور مکتب ، مدرسے، مسجدیں ، لائبریریاں اور کتب خانے ، تہذیبی اور ثقافتی مرکز تباہ و برباد کردیئے گئے۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کی بزدلی کی وجہ سے منگولوں نے اسکی عظیم الشان سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجاکر رکھ دی ۔سلطان علاﺅالدین کی بزدلی اور طرز عمل انتہائی نفرت کے قابل ہے۔
سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کی موت پرچنگیز خان بہت خوش ہوا ، وہ سلطان کے بڑے بیٹے جلال الدین خوارزم شاہ کی دلیری اور جرات مندی سے بھی واقف تھا ۔اسے اس بات کابھی اندازہ تھا کہ اگر جلد ہی جلال الدین کا خاتمہ نہ کیا گیا تو ایسا نہ ہو کہ وہ منتشر مسلمانوں کو جمع کرکے اس کے خلاف کوئی لشکر تیار کرلے اور منگولوں کے ساری فتوحات کو بدترین شکست میں تبدل کردے۔ لہٰذا چنگیز خان نے اپنے بیٹوں اور سپہ سالاروں کو حکم دیا کہ وہ جلال الدین خوارزم شاہ کو تلاش کریں۔
(جاری ہے )
ربط
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=17227&type=text