جاسم محمد
محفلین
چنیوٹ: شیعہ خاتون کا جنازہ پڑھنے پر مولوی نے نکاح فسخ قرار دے دیا، دیہاتی پریشان
فرحت جاویدبی بی سی اردو ڈاٹ کام
پاکستان میں صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ کے ایک گاؤں کے مکین آج کل اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ اب وہ مسلمان ہیں یا نہیں، اور کیا ان کا نکاح باقی رہا ہے کہ نہیں۔
گاؤں میں یہ تمام کنفیوژن پھیلانے کے ذمہ دار مبینہ طور پر اسی گاؤں کے امامِ مسجد ہیں جو گاؤں کے لوگوں کا دوسری بار نکاح پڑھوانے کے بعد اب تیسری بار پڑھوانا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں مذہب اور عقائد کے نام پر کسی کو بھی استعمال کرنا کس قدر آسان ہے، اس کی ایک مثال چنیوٹ کا گاؤں چک نمبر 136 ہے۔
اس علاقے کے مکینوں کے مطابق مقامی مسجد کے امام میاں خالد بشیر نے دس روز پہلے اعلان کیا کہ گاؤں میں اہل تشیع کے مسلک سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے والے افراد اب مسلمان نہیں رہے، اب انھیں نئے سِرے سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونا پڑے گا، اور پھر وہ ان کے دوبارہ نکاح پڑھوائیں گے۔
گاؤں کے رہائشی قاسم علی تصور نے بی بی سی کو بتایا کہ چند روز پہلے گاؤں کے امام مسجد میاں خالد بشیر نے ان کی بھانجی کی نمازِ جنازہ پڑھوانے سے اس لیے انکار کیا کہ 'ان کا تعلق شیعہ مسلک' سے تھا جس کے بعد قریبی گاؤں کے امام مسجد کو بلایا گیا، 'تاہم میاں خالد نے اعلان کیا کہ اس نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے والے تمام لوگ اب مسلمان نہیں رہے اور ان کا دوبارہ نکاح ہوگا۔'
دوبارہ نکاح پڑھوانے والے ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ علاقے کے مولوی نے کہا ہے اس لیے انھوں نے دوبارہ نکاح پڑھوایا
قاسم علی کے مطابق امام مسجد میاں خالد اس سلسلے میں ایک فتویٰ بھی لے کر آئے جس کے بعد علاقے کے لوگوں نے ان کی بات مان لی۔
قاسم علی تصور کہتے ہیں کہ 'لوگوں نے امام میاں خالد سے پوچھا کہ اس نئے نکاح کی رجسٹریشن کیسے ہو گی، تو انھوں نے بتایا کہ نکاح کی رجسٹریشن پہلے ہو چکی ہے اور اب دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں۔'
تاہم اب علاقے کے لوگوں کے مطابق میاں خالد کہتے ہیں کہ 'چونکہ عدت پوری نہیں ہوئی، اس لیے دوسرا نکاح بھی مکروہ ہے، اور وہ عدت کی تکمیل کے بعد پھر نکاح کروائیں گے۔'
میاں خالد بشیر میڈیا کی آمد کی خبر سننے کے بعد گاؤں میں ملے ہی نہیں۔
دوسری جانب گاؤں کے رہائشی قاسم علی تصور کی بھانجی کی نماز جنازہ پڑھوانے والے چک نمبر 137 کے امام مسجد سید کاشف عمران شاہ کا کہنا ہے کہ ’میں نے یہ نماز جنازہ پڑھوائی اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ جو مولانا میاں خالد بشیر نے کہا ہے کہ نکاح ٹوٹ گیا ہے اور دوبارہ نکاح کروا کر رہے ہیں اس طرح سے نکاح نہیں ٹوٹتا۔‘
چک نمبر 137 کے امام مسجد سید کاشف عمران شاہ کا کہنا ہے کہ 'میں نے یہ نماز جنازہ پڑھوائی اور اس میں کوئی مسلہ نہیں ہے'
واضح رہے کہ ملک میں قومی ایکشن پلان میں اشتعال انگیز تقاریر کرنے، لاؤڈ سپیکر کے غلط استعمال کو روکنے اور نفرت پر مبنی مواد پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی لازمی قرار دی گئی ہے۔
جبکہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 153 اے اور بی کے تحت اگر کوئی شخص اپنے زبان و بیان سے یا کسی حرکت سے عدم برداشت، دشمنی، مختلف مذاہب اور نسلوں کے درمیان نفرت کو ہوا دے یا ان کی عبادت گاہ، رہائش، کمیونٹی کو زبان یا کسی بھی دوسرے طریقے سے نقصان پہنچائے تو وہ قابلِ سزا جرم کا مرتکب قرار پائے گا۔
اسی معاملے پر علاقے کے لوگوں کے مطابق مقامی افراد پولیس کے پاس درخواست بھی لے کر گئے تھے۔ بی بی سی کے پاس موجود دستاویز کے مطابق پولیس نے ابتدائی درخواست کے بعد مولوی سمیت بعض لوگوں کو گرفتار بھی کیا۔
فریقین پولیس کی موجودگی میں آپس میں گتھم گتھا ہوئے تھے جس کے بعد انہیں نقصِ امن کی دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا تاہم اشتعال انگیزی پھیلانے اور نکاح کا معاملہ پیچھے ہی رہ گیا اور پھر علاقہ مجسٹریٹ نے لڑنے کی وجہ کا تعین نہ ہونے کے باعث یہ مقدمہ ہی خارج کر دیا۔
ڈی پی او چنیوٹ کے مطابق ان کے پاس ایسی کوئی درخواست نہیں آئی۔ انھوں نے کہا کہ وہ ان خبروں کی تصدیق کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'اشتعال انگیز یا نفرت آمیز بیانات جیسے معاملات کو انسدادِ دہشت گردی کا محکمہ یعنی سی ٹی ڈی دیکھتا ہے۔'
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا کہ 'اگر کسی گاؤں میں تیس چالیس افراد نے دوبارہ نکاح پڑھوایا ہے تو کیا یہ جرم ہے؟ ہمارے نوٹس میں یہ واقعہ نہیں، تاہم میں اس کو ضرور چیک کروں گا۔'
فرحت جاویدبی بی سی اردو ڈاٹ کام
پاکستان میں صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ کے ایک گاؤں کے مکین آج کل اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ اب وہ مسلمان ہیں یا نہیں، اور کیا ان کا نکاح باقی رہا ہے کہ نہیں۔
گاؤں میں یہ تمام کنفیوژن پھیلانے کے ذمہ دار مبینہ طور پر اسی گاؤں کے امامِ مسجد ہیں جو گاؤں کے لوگوں کا دوسری بار نکاح پڑھوانے کے بعد اب تیسری بار پڑھوانا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں مذہب اور عقائد کے نام پر کسی کو بھی استعمال کرنا کس قدر آسان ہے، اس کی ایک مثال چنیوٹ کا گاؤں چک نمبر 136 ہے۔
اس علاقے کے مکینوں کے مطابق مقامی مسجد کے امام میاں خالد بشیر نے دس روز پہلے اعلان کیا کہ گاؤں میں اہل تشیع کے مسلک سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے والے افراد اب مسلمان نہیں رہے، اب انھیں نئے سِرے سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونا پڑے گا، اور پھر وہ ان کے دوبارہ نکاح پڑھوائیں گے۔
گاؤں کے رہائشی قاسم علی تصور نے بی بی سی کو بتایا کہ چند روز پہلے گاؤں کے امام مسجد میاں خالد بشیر نے ان کی بھانجی کی نمازِ جنازہ پڑھوانے سے اس لیے انکار کیا کہ 'ان کا تعلق شیعہ مسلک' سے تھا جس کے بعد قریبی گاؤں کے امام مسجد کو بلایا گیا، 'تاہم میاں خالد نے اعلان کیا کہ اس نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے والے تمام لوگ اب مسلمان نہیں رہے اور ان کا دوبارہ نکاح ہوگا۔'
دوبارہ نکاح پڑھوانے والے ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ علاقے کے مولوی نے کہا ہے اس لیے انھوں نے دوبارہ نکاح پڑھوایا
قاسم علی کے مطابق امام مسجد میاں خالد اس سلسلے میں ایک فتویٰ بھی لے کر آئے جس کے بعد علاقے کے لوگوں نے ان کی بات مان لی۔
قاسم علی تصور کہتے ہیں کہ 'لوگوں نے امام میاں خالد سے پوچھا کہ اس نئے نکاح کی رجسٹریشن کیسے ہو گی، تو انھوں نے بتایا کہ نکاح کی رجسٹریشن پہلے ہو چکی ہے اور اب دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں۔'
تاہم اب علاقے کے لوگوں کے مطابق میاں خالد کہتے ہیں کہ 'چونکہ عدت پوری نہیں ہوئی، اس لیے دوسرا نکاح بھی مکروہ ہے، اور وہ عدت کی تکمیل کے بعد پھر نکاح کروائیں گے۔'
میاں خالد بشیر میڈیا کی آمد کی خبر سننے کے بعد گاؤں میں ملے ہی نہیں۔
دوسری جانب گاؤں کے رہائشی قاسم علی تصور کی بھانجی کی نماز جنازہ پڑھوانے والے چک نمبر 137 کے امام مسجد سید کاشف عمران شاہ کا کہنا ہے کہ ’میں نے یہ نماز جنازہ پڑھوائی اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ جو مولانا میاں خالد بشیر نے کہا ہے کہ نکاح ٹوٹ گیا ہے اور دوبارہ نکاح کروا کر رہے ہیں اس طرح سے نکاح نہیں ٹوٹتا۔‘
چک نمبر 137 کے امام مسجد سید کاشف عمران شاہ کا کہنا ہے کہ 'میں نے یہ نماز جنازہ پڑھوائی اور اس میں کوئی مسلہ نہیں ہے'
واضح رہے کہ ملک میں قومی ایکشن پلان میں اشتعال انگیز تقاریر کرنے، لاؤڈ سپیکر کے غلط استعمال کو روکنے اور نفرت پر مبنی مواد پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی لازمی قرار دی گئی ہے۔
جبکہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 153 اے اور بی کے تحت اگر کوئی شخص اپنے زبان و بیان سے یا کسی حرکت سے عدم برداشت، دشمنی، مختلف مذاہب اور نسلوں کے درمیان نفرت کو ہوا دے یا ان کی عبادت گاہ، رہائش، کمیونٹی کو زبان یا کسی بھی دوسرے طریقے سے نقصان پہنچائے تو وہ قابلِ سزا جرم کا مرتکب قرار پائے گا۔
اسی معاملے پر علاقے کے لوگوں کے مطابق مقامی افراد پولیس کے پاس درخواست بھی لے کر گئے تھے۔ بی بی سی کے پاس موجود دستاویز کے مطابق پولیس نے ابتدائی درخواست کے بعد مولوی سمیت بعض لوگوں کو گرفتار بھی کیا۔
فریقین پولیس کی موجودگی میں آپس میں گتھم گتھا ہوئے تھے جس کے بعد انہیں نقصِ امن کی دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا تاہم اشتعال انگیزی پھیلانے اور نکاح کا معاملہ پیچھے ہی رہ گیا اور پھر علاقہ مجسٹریٹ نے لڑنے کی وجہ کا تعین نہ ہونے کے باعث یہ مقدمہ ہی خارج کر دیا۔
ڈی پی او چنیوٹ کے مطابق ان کے پاس ایسی کوئی درخواست نہیں آئی۔ انھوں نے کہا کہ وہ ان خبروں کی تصدیق کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'اشتعال انگیز یا نفرت آمیز بیانات جیسے معاملات کو انسدادِ دہشت گردی کا محکمہ یعنی سی ٹی ڈی دیکھتا ہے۔'
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا کہ 'اگر کسی گاؤں میں تیس چالیس افراد نے دوبارہ نکاح پڑھوایا ہے تو کیا یہ جرم ہے؟ ہمارے نوٹس میں یہ واقعہ نہیں، تاہم میں اس کو ضرور چیک کروں گا۔'