پنجاب میں آباد قوموں اور نسلوں کے بارے میں ایک گورے کی
1881 کی مردم شماری کے بارے چھپی رپورٹ نیٹ پر ملی تھی، کچھ دنوں سے میرے زیر مطالعہ ہے لیکن زیادہ وقت نہیں دے پا رہا ہوں۔
۸۸۱ء کی مردم شماری، جو
وکی پیڈیا کے مطابق ایک ہی وقت میں پورے ہندوستان میں ہونے والی تاریخ کی پہلی مردم شماری تھی، کی رپورٹ ۱۸۸۳ء میں شائع ہوئی۔ آپ نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے وہ پوری رپورٹ نہیں بلکہ صرف اس کا ایک باب ہے جو سر ڈینزل ابٹسن کی شاندار محققانہ اور عالمانہ صلاحیتوں کے باعث جداگانہ حیثیت اختیار کر گیا۔ جناب ابٹسن نے اس تحقیق میں پنجاب کی قوموں، ذاتوں اور گوتوں پر روشنی ڈالی ہے۔
میں نے کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا۔ یہ ایک مردم شماری رپورٹ ہے اور صرف پنجاب کے بارے میں ہے۔
آپ نے بقولِ خویش جس رپورٹ کا حوالہ عنایت فرمایا تھا وہ کتابی شکل ہی میں شائع ہوئی تھی۔ بندہ صرف یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ یہ دراصل (مکمل) رپورٹ نہیں بلکہ صرف اس کا ایک باب تھی۔
اب ایسی بھی کیا تیزی؟
انگریز لکھتا ہے کہ راجپوت کوئی قوم نہیں ہے۔
انگریز کی بجائے جناب اپنے ہموطنوں کی آوازوں ہی پر متوجہ ہوتے تو یہ کوئی ایسی دور کی کوڑی نہ تھی۔
بادی النظر میں دیکھا جائے تو راجپوت معروف معانی میں ایک قوم معلوم نہیں ہوتے۔ انساب میں قوم عموماً کسی ایک شخص سے چلتی ہے۔ جبکہ راجپوت ہندوستان کے مختلف راجوں سے متفرع ہوئے ہیں اور قطعِ نظر علاقے یا زبان کے سبھی نے راجپوت یعنی راجے کا بیٹا کا لقب اختیار کیا ہے۔ اس طرح بظاہر نسل کا فرق پیدا ہو گیا ہے جس سے راجپوتوں کا ایک قوم ہونا مشتبہ ہو جاتا ہے۔
مگر ہندوستان کی تاریخ اور ثقافت کو بنظرِ غائر دیکھا جائے تو یہ اعتراض باقی نہیں رہتا۔ ہندوستان کے راجے کم و بیش تمام ہی اصل کے کھشتری تھے جو برہمنوں کے بعد سب سے زیادہ سماجی رتبہ رکھنے والا آریائی طبقہ تھا۔ ہندوستان میں ذات پات کے نظام نے یہ امکان تقریباً معدوم کر دیا تھا کہ کھشتریوں کے سوا کوئی اور مسندِ اقتدار پر براجمان ہو سکے۔ لہٰذا اغلب ہے کہ بعد میں ہندوستان کے مختلف علاقوں اور ثقافتوں سے جداگانہ طور پر ابھرنے والے راجپوت دراصل ایک ہی لڑی کے بکھرے ہوئے موتی ہیں۔
گل نوخیز اختر کے ایک کالم سے ۔۔۔۔
۔۔۔
اپنے آپ کو منوانے کے چکر میں اپنا آپ مارنا پڑرہا ہے۔ہم نے کتنی محنت سے اپنے ذائقے تبدیل کر لیے، اپنے حلئے تبدیل کر لیے، اپنے رویے تبدیل کرلیے ۔۔۔اب ہم معمولی سی بات کو تھوڑا سا گھما کر بیان کرتے ہیں ، نہ جھوٹ بولتے ہیں نہ سچ۔۔۔لیکن معاشرے میں ایڈجسٹ ہوجاتے ہیں۔اب بے شک ہماری قمیض کی بغلیں پھٹی ہوئی ہوں، پیروں میں قینچی چپل ہو، بال الجھے ہوئے ہوں لیکن ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اصل میں ہم ’’رائل فیملی‘‘ سے بلانگ کرتے ہیں۔ہر کسی نے اپنے دو چار پڑھے لکھے اور امیر رشتے دار ایسے ضرور سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں جن کے نام وہ اکثر استعمال کرتے ہے تاکہ انہیں اپنے اِن رشتہ داروں کے طفیل اس معاشرے کے اہم ترین افراد میں شمار کیا جائے۔خود وہ کیاہیں۔۔۔ یہ اُنہیں بتانے کی ہمت ہے نہ سکت۔۔۔!!!
اگر آپ نے یہ اقتباس عمومی نکتۂِ نظر سے نقل کیا ہے تو یہ اس کا محل نہ تھا۔ اگر اسی گفتگو کے پس منظر میں ارسال فرمایا ہے جو چل رہی ہے تو مجھے کم از کم اپنے بارے میں یہ غلط فہمی دور کرنے کی اجازت دیجیے۔
نسب پہ فخر کرنا ممکن انھی کے لیے ہے جن کا عالی ہو۔ جن کا نہ ہو ان کے پاس دو راستے ہوتے ہیں۔ یا تو وہ اپنی شناخت بدل سکتے ہیں یا پھر نسب پر فخر کو ہدفِ تنقید بنا کر اپنے تئیں اس تفریق کی بنا ہی ڈھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
پہلی صورت تو بدیہی طور مذموم ہے اور معاشرے کے تمام معاشی طبقات میں عام ملتی ہے۔ جس کے ہاتھ میں پیسا آتا ہے وہ چوہان، سید، قریشی، بھٹی وغیرہ بن جاتا ہے (روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ! عمومی رویے کی جانب اشارہ کرنا مقصود ہے)۔ دوسری صورت ان لوگوں میں نمو پاتی ہے جن کی تعلیم اور شعور محض پیسا کمانے والوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ شناخت بدلنے سے زیادہ شناخت مٹانے پر زور دیتے ہیں اور ویسے ہی اصولوں کو بنیاد بناتے ہیں جن کا گلِ نوخیز اختر نے ذکر کیا ہے۔ ایسے لوگوں کو نطشے کا یہ ادعا ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اخلاقیات پر زور کمزور کا روایتی ہتھیار ہے۔
جہاں تک خاص ہراجوں، یعنی میری قوم، کا تعلق ہے تو شاید آپ کو میری اس بات سے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے:
میں آپ کا نہایت ممنون ہوں کہ آپ کے ربط کے وسیلے سے میری اس کتاب سے شناسائی ہوئی۔ میں اپنی قوم "ہراج" کا سراغ سرکارِ برطانیہ کی دستاویزات میں نکالنے میں اب تک ناکام رہا تھا۔ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ "ہراج" سیالوں کی حال ہی میں متفرع ہونے والی ایک گوت ہے، مجھے مجبوراً صحیح معلوم ہونے لگا تھا۔ مگر اس کتاب نے جہاں ایک طرف ۱۸۸۱ء میں میری قوم کے جداگانہ وجود کی گواہی دی، وہیں مجھ پر مزید تحقیق کی راہیں بھی کھولیں جو نہایت حوصلہ افزا ثابت ہوئیں۔
میرا مقصود ہرگز یہ نہ تھا کہ میری قوم کا راجپوت ہونا مشکوک ہے۔ شبہ صرف اس امر میں تھا کہ یہ قوم اپنی جداگانہ حیثیت میں سیال راجپوتوں سے کب اور کس وقت ممتاز ہوئی ہے۔ آپ کی گفتگو سے درست یا نادرست طور پر میں یہ سمجھا ہوں کہ شاید آپ مجھے بھی ان لوگوں میں خیال کرتے ہیں جو زبردستی اپنی ڈور محلات کے کنگروں سے گانٹھنا چاہتے ہیں۔ اگر یوں ہے تو یہ محض غلط فہمی ہے۔
اگر آپ جھنگ سے ملتان کی جانب آئیں تو معمولی سی تحقیق سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہراج کون ہیں۔ جھنگ پر سیالوں کا راج ایک ٹھوس تاریخی حقیقت ہے۔ سیالوں کے وہ بیٹے جنھیں ہراج کہا جاتا ہے، طویل عرصے سے خانیوال پر راج کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اگر سفر کی دقت گوارا نہ ہو تو راوی کے اس کنارے کی موجودہ سیاست پر کوئی اخباری کالم ہی پڑھ لیں۔ مسلم لیگ کی حکومت میں حالیہ اپ سیٹ کے باوجود ہراجوں کی قوت آپ کو سیاست کے ہر باب میں چھلکتی نظر آئے گی، باوجود اس کے کہ ہمارے بہت سے خاندان زمانے کے دستور کے موافق انتہائی گردش کا شکار بھی ہیں۔
میں اسے اپنی عین خوش نصیبی خیال کرتا ہوں کہ میں ایک ایسی قوم میں پیدا ہوا ہوں جو اپنے نسب کے معاملے میں انتہائی حساس واقع ہوئی ہے۔ اس حساسیت کی مثال آج کے جمہوری دور میں آپ کو کہیں کہیں عربوں کے علاوہ شاید نہ مل سکے۔ پنجاب بھر گھوم جائیے۔ آپ کو ایک ہراج فرد بھی ایسا نہیں ملے گا جس کا نسب مشکوک ہو۔ جو کسی دوسری قوم سے آ کر ہم میں مل گیا ہو۔ ہمارے ہاں لوگ کیا کیا قومیں نہیں بدلتے۔ مگر ذرا کوئی خود کو ہراج کہنے کی جرات کر کے تو دکھائے؟ ہراج اسے اس کے آبا سے ملوا نہ آئیں؟
یہ دعویٰ نام کا دعویٰ نہیں۔ راوی کے ان کناروں پر آپ خود بھی یہ تجربہ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔