چُوں چُوں کا مربّہ ۔ احمد حاطب صدیقی

محمداحمد

لائبریرین
برادرِ عزیز سید ایاز محمود لکھتے ہیں: ’’پاکستان میں نو فی صد لوگوں کی پہلی زبان اُردو ہے۔ دیگر افراد جب اُردو بولتے ہیں تو اپنی اپنی مقامی زبانوں کے لب ولہجے کا تڑکا بھی لگاتے جاتے ہیں۔ اُن سے یہ اُمید رکھنا کہ وہ جب بھی اُردو بولیں گے تو صحتِ زبان کو ذہن میں رکھتے ہوئے بولیں گے، محض خام خیالی ہے‘‘۔

یہ ’خام خیالی‘ بھی خوب چیز ہے۔ لفظی مطلب ہے ’کچے خیالات، کچی باتیں‘۔ جیسا کہ اقبالؔ کی نظم ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ میں:


کہا یہ سن کے گلہری نے منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا


صاحبو! ہمیں تجسس ہی رہا کہ گلہری کا وعظ سن کر پہاڑ نے اپنی ’خام خیالی‘ دور کی یا نہیں۔ تاہم آخری شعر میں آپڑنے والی سخن گسترانہ بات سے گلہری نے ہماری خام خیالی تو یہ کہہ کر دور کردی کہ ’’نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں‘‘۔ لہٰذا وہ لوگ بھی اپنی ’خام خیالی‘ دور فرما لیں جو ہمیں نکما جانتے ہیں۔ جن ’خام خیالوں‘ کو ’خام خیالی‘ کا مطلب نہیں معلوم، اُن کے لیے عرض ہے کہ لغوی مطلب ’خام خیالی‘ کا: غلط خیال، جھوٹا خیال، ناپختہ خیال اور گُمان یا ’وہم‘ ہے۔ مزید عرض ہے کہ ہر پختہ خیال کسی نہ کسی خام خیال، کسی وہم یا کسی گمان ہی سے جنم لیتا ہے۔ مولانا ابوالجلال ندویؒ فرماتے ہیں:


ہر فکرِ نَو کی وہمِ کُہن ہی اساس ہے
ماضی گُندھا ہوا ہے بشر کے خمیر میں


ماضی کے متعدد توہمات نے انسان کو حقیقت کی تلاش پر مجبور کیا۔ یوں فکرِ نو کے دریچے یکے بعد دیگرے کھلتے چلے گئے اورانسان نے خوش ہو کر کہا :

راہ دکھلائی مری ہمتِ عالی نے مجھے
کر دیا پختہ مری خام خیالی نے مجھے


یہ تو ہوئیں ’خام خیالی‘ کی باتیں۔ اب آئیے پختہ خیالی کی طرف۔ شاید بہت سے لوگ سید ایاز محمود صاحب کے اس خیال سے اتفاق نہ کریں کہ پاکستان میں نو فی صد لوگوں کی پہلی [یا مادری] زبان اُردو ہے۔ گننے والے تو اس سے بھی کم گنتے ہیں۔ حتیٰ کہ کچھ لوگ اس تعداد کو صرف دو فی صد تک محدود کردیتے ہیں۔ مگر سید صاحب ایک ایسے محکمے سے وابستہ رہ چکے ہیں جو اعداد و شمار کی شاعری بھی کرتا ہے، سو اُن کے شمار سے انکار کچھ آسان نہیں۔ لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستانی زبانوں میں سے کوئی بھی زبان بولنے والے افراد جب دوسری پاکستانی زبانیں بولنے والوں سے ہم کلام ہوتے ہیں تو ان میں سے نوّے فی صد کی رابطے کی زبان اُردو ہی ہوتی ہے۔ یوں کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے نوّے فی صد لوگ اُردو بولتے ہیں یا اُردو بول سکتے ہیں۔

جن نو فی صد لوگوں کی پہلی (یا مادری) زبان اُردو ہے وہ کون سا صحتِ زبان کو ذہن میں رکھتے ہوئے بولتے ہیں؟ وہ تو بس ’’بھرم بازی‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ’عوام‘ سے صحتِ زبان کو مدنظر رکھنے کی توقع شاید دنیا میں کہیں نہیں کی جاتی۔ ایسی توقع ہمیشہ اہلِ علم و ادب سے، اساتذہ سے، مقررین سے، رہنماؤں سے، حکام سے، اخبارات و جرائد سے اور نشریاتی اداروں سے رہتی ہے۔ کیوں کہ سیکھنے والے ان سے سیکھتے ہیں اور اپنی گفتگو یا تحریر میں انھیں کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ ان سب کی حیثیت معلمین اور مدرّسین کی سی ہے۔


رہی صحتِ زبان کی بات، توصاحب! یہ بات محتاجِ ثبوت نہیں کہ ہر چھوٹی بڑی پاکستانی زبان بولنے والوں میں اُردو لکھنے والے یا اُردو میں شاعری کرنے والے، اب سے پہلے بھی موجود تھے اور آج بھی موجود ہیں۔ پاکستان کے نام ور افسانہ نگاروں، شاعروں، ادیبوں اور صاحبِ تصنیف صحافیوں کی فہرست بنائیے تو اکثر ایسے ہوں گے جن کی پہلی یا مادری زبان اُردو نہیں ہے۔ اس کے باوجود ان میں بہت سے ایسے ہیں جن سے صحت کے ساتھ اُردو زبان لکھنے کا سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ فہرست طویل ہے۔ کس کس کا نام لکھیے؟ حاصلِ کلام یہ کہ صحتِ زبان کے سلسلے میں جو بھی کسبِ کمال کرے گا درجۂ کمال پر فائز ہوگا۔ اس کے لیے اہلِ زبان ہونا شرط نہیں۔

خیر، صحتِ زبان کا مرحلہ تو بعد کو آتا ہے۔ اس وقت تو بقائے زبان کی پڑی ہے۔ منہ میں زبان رہے گی تو اس کی صحت کی فکر ہوگی نا۔ اب آپ جو چاہے کہہ لیجے۔ سازش کہیے، نادانی کہیے، غفلت کہیے یا مرعوبیت… ہمارے بچوں کے منہ سے اُن کی زبان اُن کے بچپن ہی سے چھینی جارہی ہے۔ تعلیمی اداروں سے گھر آنے والے بچے گال پر ستارہ لے آتے ہیں۔ ’’ایوارڈ‘‘ کے نام پر کوئی نشانی وصول کر لاتے ہیں۔ حیرت انگیز حد تک نمبر حاصل کرلیتے ہیں، مگر ’’علم‘‘ حاصل نہیں کر پاتے۔ وہ رٹّا لگاتے ہیں ایک ایسی زبان کا، جو ان کے باپ دادا کی زبان ہے نہ ان کے ملک کے کسی حصے کی زبان ہے، نہ ایشیا کے اس پورے خطے کی زبان ہے۔ وطنِ عزیز کے شہروں کا تو یہ حال ہوگیا ہے کہ پشتو، پنجابی، سندھی اور اُردو بولنے والے والدین بھی اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ ’’ہینڈ واش کرلو‘‘… ’’بریک فاسٹ فنش کرلو‘‘… اور … ’’یہ لنچ باکس لو، مگر دیکھو! لنچ کسی سے شیئر مت کرنا‘‘۔ زباں بگڑی تو بگڑی ہے، خبر لیجے کہ اخلاقی قدریں بھی بگڑ رہی ہیں۔ ہمارے بچے ’ہاتھ دھو لو‘، ’ناشتہ ختم کرلو‘، ’ناشتے دان‘ اور ’کھانے [یا ظہرانے] میں ساتھیوں کو شریک کرنا‘ جیسے الفاظ سنیں گے بھی نہیں تو سمجھیں گے کیسے؟

اُردو زبان ہماری قومی و ملّی روایات کی امین ہے۔ تمام پاکستانی زبانیں اُردو کی ہم شیر زبانیں ہیں۔ اُردو اور دیگر پاکستانی زبانوں میں مشترک رسم الخط اور مشترک الفاظ کا ایک مستحکم رشتہ ہے۔ یہ اعزاز انگریزی کو حاصل نہیں۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ انگریزی ہماری قوم کو طبقات میں تقسیم کرتی ہے… اعلیٰ اور ادنیٰ طبقات میں، حاکم اور محکوم طبقات میں اور معاشرتی سطح پر بلند و پست طبقات میں۔ جب کہ اُردو اس قوم کے تمام طبقات کو باہم مربوط کرتی ہے۔ انھیں ایک صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔ قومی یکجہتی اور ہم آہنگی میں اُردو کا اہم کردار ہے۔

پاکستانی زبانوں ہی پر کیا موقوف؟ برصغیر میں بولی جانے والی تمام زبانوں اور اُردو میں مشترک الفاظ بکثرت پائے جاتے ہیں۔ برصغیر سے باہر نکلیے تو فارسی، ترکی اور عربی سے بھی اُردوکا مضبوط رشتہ نکلے گا۔ اُردو سب کو جوڑنے والی زبان ہے۔ انگریزی ہمارے خطے میں جڑے ہوؤں کو بھی توڑنے کا کام کررہی ہے۔ اِس کم بخت انگریزی کے پیچھے دیوانے ہوجانے کی وجہ سے ہمارے اپنے بھی ہمیں بیگانے محسوس ہونے لگے ہیں۔ ہم مسلم اُمہ اور عالمِ اسلام کی تمام زبانوں سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ انگریزی میں ابلاغ کی غیر فطری کوشش کرتے رہنے کی مشق میں مبتلا ہوکر ہمیں اپنے ہمسایوں کی زبان سے بھی آشنائی کی فرصت نہیں رہی۔ ہمسایوں کی زبان تو پھر بھی ذرا دورکی بات ہے، ہمارے بچوں کی اپنے ملک کی زبانوں اور خود اپنی مادری زبان سے بھی شناسائی نہیں رہی۔ البتہ سات سمندر پار کی زبان بچوں کے منہ میں بالجبرگھسیڑی جا رہی ہے۔

زبان محض حروف و الفاظ کا نام نہیں۔ یہ اپنی تہذیب، اپنے تمدن، اپنی ثقافت، اپنی روایات، اپنی اقدار اور اپنے عقاید کے اظہار کا اوزار ہے۔ قومی زبان سے محرومی کے ساتھ ساتھ یہ قوم اپنی ہر چیز سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ اس وقت قومی نشریاتی اداروں پر، انگریزی میں اُردو کے حروفِ ربط ملا ملا کر، جو بولی بولی جارہی ہے، وہ ہماری زبان نہیں۔ وہ تو ولایتی مرغی خانوں میں مصنوعی طریقوں سے پروان چڑھنے والے فارمی چوزوں کی ’چوں چوں‘ ہے اور ہمارے نشریاتی ادارے ’چوں چوں کا مربّہ‘۔

بشکریہ فرائیڈے اسپیشل
 

الف نظامی

لائبریرین
بہتر ہوتا کہ مضمون میں دئیے گئے اعداد و شمار کے حوالہ جات مہیا ہوتے۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
امید ہے کہ صاحب مضمون آئندہ اس پر بھی تحقیق فرمائیں گے کہ صوبہ پنجاب میں اردو کا جس قدر لسانی تسلط ہے وہ دوسرے صوبوں مثلا سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کیوں نہیں ہے۔

اج اک بچے کولوں پچھیا کہ تسی پنجابی او تے کہندا اے اسی اردو آں۔
میں آکھیا تیرے ماپے تے پنجابی نیں فیر تسی پنجابی کیوں نئیں بولدے۔
آکھدا اے جے سکول آلیاں منع کیتا اے پنجابی بولن توں تے مینوں پنجابی بھل گئی اے۔
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
امید ہے کہ صاحب مضمون آئندہ اس پر بھی تحقیق فرمائیں گے کہ صوبہ پنجاب میں اردو کا جس قدر لسانی تسلط ہے وہ دوسرے صوبوں مثلا سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کیوں نہیں ہے۔

اج اک بچے کولوں پچھیا کہ تسی پنجابی او تے کہندا اے اسی اردو آں۔
میں آکھیا تیرے ماپے تے پنجابی نیں فیر تسی پنجابی کیوں نئیں بولدے۔

آکھدا اے جے سکول آلیاں منع کیتا اے پنجابی بولن توں تے مینوں پنجابی بھل گئی اے۔

اس کی وجہ میں آپ کو بتا دیتا ہے۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد بہت سے اردو ادب کے ادبا اور شعرا نے پنجاب اور بالخصوص لاہور کی طرف ہجرت کی جن میں سے ایک بڑا نام مولانا محمد حسین کا بھی تھااور انھی لوگوں نے انجمن حمایت اسلام کی بنیاد ڈالی جس کے تحت پورے برصغیر کے ادبا و شعرا کو لاہور میں آنے کی دعوت دی جاتی اور مختلف جلسے منعقد کیے جاتے بس یہیں سے اردو کا اثر و رسوخ پنجاب میں اور خاص طور پر لاہور میں بہت زیادہ ہو گیا۔ رہی سہی کسر تقسیم ہند نے پوری کر دی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اس کی وجہ میں آپ کو بتا دیتا ہے۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد بہت سے اردو ادب کے ادبا اور شعرا نے پنجاب اور بالخصوص لاہور کی طرف ہجرت کی جن میں سے ایک بڑا نام مولانا محمد حسین کا بھی تھااور انھی لوگوں نے انجمن حمایت اسلام کی بنیاد ڈالی جس کے تحت پورے برصغیر کے ادبا و شعرا کو لاہور میں آنے کی دعوت دی جاتی اور مختلف جلسے منعقد کیے جاتے بس یہیں سے اردو کا اثر و رسوخ پنجاب میں اور خاص طور پر لاہور میں بہت زیادہ ہو گیا۔ رہی سہی کسر تقسیم ہند نے پوری کر دی۔
ایک وجہ یہ بھی ہے:
برٹش انڈیا کے دور میں انگریزوں نے زبانوں کی سیاست سے خوب استفادہ کیا۔ فارسی کو دیس نکالا دینا اور انگریزی کو اولین حیثیت دینا تو ان کی بنیادی پالیسی تھی مگر 1852 کے بعد بنگال و سندھ میں مادری زبانوں یعنی سندھی اور بنگالی کو تکریم دلائی تو مدراس اور پنجاب و کشمیر میں تامل، پنجابی اور کشمیری زبانوں کی بجائے ہندی اور اُردو کو نافذ کر دیا۔

---
اس ضمن میں دوسرا سوال یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد پنجاب میں پنجابی زبان کو کن وجوہات کی بنا پر نظر انداز کیا گیا؟
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
ایک وجہ یہ بھی ہے:
برٹش انڈیا کے دور میں انگریزوں نے زبانوں کی سیاست سے خوب استفادہ کیا۔ فارسی کو دیس نکالا دینا اور انگریزی کو اولین حیثیت دینا تو ان کی بنیادی پالیسی تھی مگر 1852 کے بعد بنگال و سندھ میں مادری زبانوں یعنی سندھی اور بنگالی کو تکریم دلائی تو مدراس اور پنجاب و کشمیر میں تامل، پنجابی اور کشمیری زبانوں کی بجائے ہندی اور اُردو کو نافذ کر دیا۔

---
اس ضمن میں دوسرا سوال یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد پنجاب میں پنجابی زبان کو کن وجوہات کی بنا پر نظر انداز کیا گیا؟
یہ صاحب مضمون کا ذاتی خیال ہے اور صاحب مضمون کو میں ذاتی طور پر بھی بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ اس کی کوئی منطق نظر نہیں آتی کہ صرف پنجاب میں ہی اردو کی اہمیت کو کیوں اجاگر کیا گیا جبکہ پنجاب میں انگریزوں کو تو کوئی خاص مزاحمت کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لاہور میں تو بلا تخصیصِ مذہب و نسل ہر شخص اردو کا دیوانہ تھا اور اس کے شواہد آسانی سے فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ آپ کے دوسرے سوال کا جواب کل فرصت ملی تو ضرور دوں گا۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
اس کی کوئی منطق نظر نہیں آتی کہ صرف پنجاب میں پی اردو کی اہمیت کو کیوں اجاگر کیا گیا جبکہ پنجاب میں انگریزوں کو تو کوئی خاص مزاحمت کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لاہور میں تو بلا تخصیصِ مذہب و نسل ہر شخص اردو کا دیوانہ تھا اور اس کے شواہد آسانی سے فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
Rich (BB code):
More than 130 years ago when the British invaded the Punjab and established their government in this region, Mr. McLeod ordered: "Urdu be made familiar, in the first instance, to the educated classes and through them, as would certainly follow, to the entire body of the people, to the eventual suppression of inferior local dialect" (A History of the Growth and Development of Western Education in Punjab by H.R.Mchta).

The views of our other foreign rulers have been quoted by Syed Mustafa Ali Brailvi in his book Angrezoan  ki Lisani Policy (Linguistic Policy of the British).

Sir Robert Egerton said:
"The people of the Punjab have no language  at all".

Sir Charles Aitchison was of the opinion that :
"I do not find Punjabi fit as a medium of instruction."

P.S. Meol, Commissioner of Delhi, had remarked:
"If Punjabi is given the status of court language, our educational system would become useless. We teach Urdu instead of Punjabi. To encourage Punjabi through Gurmukhi would be a political blunder. Urdu will also suit Multan and Rawalpindi districts".

What were the reasons which forced the invaders to oppose the local language or languages?
Much can he said in that respect. But the most plausible reason was that the foreign rulers had recruited their civil and military forces from areas other than the Punjab. They had, directly or indirectly, ruled all parts of India except the Punjab with the help of those whose mother-tongue was not Punjabi. Therefore, to impose their rule in the Punjab, Urdu was to be given an important place in the social, cultural and educational matrix of the Punjab. That was the language of their native servants and, as a matter of policy, needed to be foisted on the newly conquered territories.

Reference:
PUNJABI: LANGUAGE OF THE MASSES , page 225 of the book  Resistance Themes In Punjabi Literature by Shafqat Tanveer Mirza
 

الف نظامی

لائبریرین
اردو پاکستان دی اشرافیہ دی زبان اے جیہڑی پنجاب دی لوکائی تے پہلاں انگریزاں ولوں تے پاکستان دے بنن توں بعد ریاست ولوں پنجابی زبان دا قتل کر کے لاگو کیتی گئی اے۔
پنجابی ایس گل تے چپ کیوں رہے اوہدی وڈی وجہ ایہ سی پئی:

پنجابیاں دی سیاست آپݨے حقاں توں انکار کرݨ دی سیاست سی
 

فرخ منظور

لائبریرین
Rich (BB code):
More than 130 years ago when the British invaded the Punjab and established their government in this region, Mr. McLeod ordered: "Urdu be made familiar, in the first instance, to the educated classes and through them, as would certainly follow, to the entire body of the people, to the eventual suppression of inferior local dialect" (A History of the Growth and Development of Western Education in Punjab by H.R.Mchta).

The views of our other foreign rulers have been quoted by Syed Mustafa Ali Brailvi in his book Angrezoan  ki Lisani Policy (Linguistic Policy of the British).

Sir Robert Egerton said:
"The people of the Punjab have no language  at all".

Sir Charles Aitchison was of the opinion that :
"I do not find Punjabi fit as a medium of instruction."

P.S. Meol, Commissioner of Delhi, had remarked:
"If Punjabi is given the status of court language, our educational system would become useless. We teach Urdu instead of Punjabi. To encourage Punjabi through Gurmukhi would be a political blunder. Urdu will also suit Multan and Rawalpindi districts".

What were the reasons which forced the invaders to oppose the local language or languages?
Much can he said in that respect. But the most plausible reason was that the foreign rulers had recruited their civil and military forces from areas other than the Punjab. They had, directly or indirectly, ruled all parts of India except the Punjab with the help of those whose mother-tongue was not Punjabi. Therefore, to impose their rule in the Punjab, Urdu was to be given an important place in the social, cultural and educational matrix of the Punjab. That was the language of their native servants and, as a matter of policy, needed to be foisted on the newly conquered territories.

Reference:
PUNJABI: LANGUAGE OF THE MASSES , page 225 of the book  Resistance Themes In Punjabi Literature by Shafqat Tanveer Mirza

مجھ سے یہ انگریزی تحریر پڑھی نہیں گئی کیوںکہ سپیسنگ یہاں ٹھیک نظر نہیں آ رہی۔ مگر یہ شفقت تنویر مرزا اور ان جیسے سارے پنجابی جیالوں کا یہ مسئلہ ہے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد لکیر پیٹ رہے ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ انگریزوں نے اردو کو پنجاب میں زیادہ ترقی دینے کی کوشش کی ہو لیکن اس کی بنیادی وجہ وہی ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد پنجاب میں اردو کا پودا لگ چکا تھا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اردو پاکستان دی اشرافیہ دی زبان اے جیہڑی پنجاب دی لوکائی تے پہلاں انگریزاں ولوں تے پاکستان دے بنن توں بعد ریاست ولوں پنجابی زبان دا قتل کر کے لاگو کیتی گئی اے۔
پنجابی ایس گل تے چپ کیوں رہے اوہدی وڈی وجہ ایہ سی پئی:

پنجابیاں دی سیاست آپݨے حقاں توں انکار کرݨ دی سیاست سی
پنجابی کدی سیاسی رہے نہیں۔حالآنکہ میں آپ پنجابی ہاں پر اج وی پنجابی سیاسی لحاظ نال ڈھگے نیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین

سرکاری سکولاں وچ کم از کم ذریعہ تعلیم پنجابی ہی ہونا چاہی دا اے ایہدے نال کوئی اختلاف نہیں پر کرے کون؟ گل تے ایہ ہے۔ باقی ایہ بحثاں پنجابی پیاریاں دیاں بڑیاں پرانیاں نے پر عملی طور تے جس ویلے وڈے عہدے تو پہنچ جاندے نیں فیر بھل بھلا جاندے نیں۔ فیر اوہو کر رہے ہوندے نیں جیہڑا سسٹم اونھاں کولوں کرا ریا ہوندا اے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
الف نظامی ، پنجابی پیاریاں دا اجے تک اک ہی قابلِ تعریف کم اے جیہڑا لہور وچ پیلاک یعنی پنجابی انسٹیوٹ آف آرٹ اینڈ کلچر دا ادارہ قائم کرنا پر کنی دلچسپ گل اے کہ ایس ادارے دا ناں پنجابی دی بجائے انگریزی وچ اے۔ :)
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
یہ زمرہ ادبیات و لسانیات کا ہے، اگر اس میں ضمنی طور پر کہیں سیاست کا ذکر آ جائے تو آ جائے لیکن اسے سیاست کا اکھاڑہ نہ بنایا جائے تو بہتر ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جن لوگوں کو اردو کا نام سُن کر پنجابی کا درد اُٹھنے لگتا ہے، اُنہیں چاہیے کہ وہ اپنی الگ لڑی بنا لیا کریں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پنجابی کدی سیاسی رہے نہیں۔حالآنکہ میں آپ پنجابی ہاں پر اج وی پنجابی سیاسی لحاظ نال ڈھگے نیں۔
ایک شیر اور ایک مرد نے اپنی تصویر ایک گھر میں دیکھی۔
مرد نے شیر سے کہا۔ دیکھتا ہے انسان کی شجاعت کو؟ کیسے شیر کو اپنا تابع کیا ہے؟
شیر نے جواب دیا کہ مصور آدمی تھا۔ اگر اس کا مصور شیر ہوتا تو ایسا نہ ہوتا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایک شیر اور ایک مرد نے اپنی تصویر ایک گھر میں دیکھی۔
مرد نے شیر سے کہا۔ دیکھتا ہے انسان کی شجاعت کو؟ کیسے شیر کو اپنا تابع کیا ہے؟
شیر نے جواب دیا کہ مصور آدمی تھا۔ اگر اس کا مصور شیر ہوتا تو ایسا نہ ہوتا۔

میں شیر نہیں پنجابی ڈھگا ہاں۔ :)
 
Top