کاشفی
محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
چُپ کھڑے ہیں وہ، ہتھیلی پہ ہمارا دل ہے
سوچتے ہیں اسے کیا کیجئے، کس قابل ہے
تم بھی ناراض، خفا ہم بھی ہیں، کیا مشکل ہے
نہ ہمارا نہ تمہارا، تو یہ کس کا دل ہے
جابجا نصب ہیں غیروں کی یہاں تصویریں
تیری خلوت ہے کہ حیرانوں کی یہ مٍحفل ہے
جان دل میں تو ہوا کرتی ہے سب کے لیکن
تو جو ہے جان مری ، جان میں میرا دل ہے
نامرادوں کی بھی پوری کہیں ہوتی ہے مراد
میری کشتی وہیں ڈوبی ہے جہاں ساحل ہے
زندگی عشق میں دشوار ہے سب کہتے ہیں
بدنصیبوں کو تو مرنا بھی بہت مشکل ہے
کام لیتا ہے قضا کا وہ ادا سے اپنی
جو کبھی تیغ نہ باندھے وہ مرا قاتل ہے
وہ اس انداز سے پہلو میں مرے آبیٹھا
میں نہ سمجھا اسے دلبر ہے کہ میرا دل ہے
شوق کہتا ہے بہت پاس ہے اب آپہنچے
پانوں کہتے ہیں بڑی دور ابھی منزل ہے
موج زن ہوتی ہے شاعر کی طبیعت کیا کیا
اس سے کیوں فیض نہ جاری ہو کہ دریا دل ہے
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
چُپ کھڑے ہیں وہ، ہتھیلی پہ ہمارا دل ہے
سوچتے ہیں اسے کیا کیجئے، کس قابل ہے
تم بھی ناراض، خفا ہم بھی ہیں، کیا مشکل ہے
نہ ہمارا نہ تمہارا، تو یہ کس کا دل ہے
جابجا نصب ہیں غیروں کی یہاں تصویریں
تیری خلوت ہے کہ حیرانوں کی یہ مٍحفل ہے
جان دل میں تو ہوا کرتی ہے سب کے لیکن
تو جو ہے جان مری ، جان میں میرا دل ہے
نامرادوں کی بھی پوری کہیں ہوتی ہے مراد
میری کشتی وہیں ڈوبی ہے جہاں ساحل ہے
زندگی عشق میں دشوار ہے سب کہتے ہیں
بدنصیبوں کو تو مرنا بھی بہت مشکل ہے
کام لیتا ہے قضا کا وہ ادا سے اپنی
جو کبھی تیغ نہ باندھے وہ مرا قاتل ہے
وہ اس انداز سے پہلو میں مرے آبیٹھا
میں نہ سمجھا اسے دلبر ہے کہ میرا دل ہے
شوق کہتا ہے بہت پاس ہے اب آپہنچے
پانوں کہتے ہیں بڑی دور ابھی منزل ہے
موج زن ہوتی ہے شاعر کی طبیعت کیا کیا
اس سے کیوں فیض نہ جاری ہو کہ دریا دل ہے