چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
بھائی شہزاد احمد !!!
لیجئے آپ کی فرمائش پر پیش ہے ایک تازہ تحریر
آپ سب نے چچا چھکن کا تصویر ٹانگنے والا کارنامہ تو یقینا ملاحظہ فرمایا ہی ہوگا
ذرا ہمارے چچا ڈھکن کے کارنامے بھی ملاحظہ ہوں،

اللہ بخشے یا نہ بخشے، یہ اس کی مرضی ہے۔۔۔۔۔۔ چچا ڈھکن ان گنت خوبیوں اور صفات کے مالک و مختار تھے۔ ایسا کونسا جوہر تھا جو کہ ان کے اندر موجود نہیں تھا ۔ خراد مشین اور ٹیوب ویل وہ چلا لیتے تھے۔ رکشا ان سے پناہ مانگتا تھا۔ موٹر سائیکل کے وہ چیمپئن تھےحتیٰ کہ تانگہ اور اونٹ گاڑی بھی دوڑا لیتے تھے۔ ماہی گیری کے تو وہ ماہر تھے۔ بڑے بڑے ملاح اور مچھلی فروش ان سے مشورے لینے آتے تھے۔ دریا دل اتنے تھےکہ مجال ہے جو انہوں نے کبھی کسی سے مشورے کے عوض فیس وصول کی ہو۔ زیادہ سے زیادہ یہ کرتے تھےکہ چائے کی ایک چینک منگوا لیتے تھے، وہ بھی صرف اس لیے کہ اس کے بغیر ان کا میٹر چالو نہیں ہوتا تھا۔ یہ ہم نہیں بلکہ وہ بقلم خود کہا کرتے تھےکہ چائے ہے تو جہان ہے ورنہ قبرستان ہے۔یہ ایک روشن حقیقت تھی کہ چائےپیتے ہی ان کے چودہ طبق روشن ہو جاتے تھے اور ان کا کانٹا 100 پر آ جاتا تھا ۔​
چائے کے ذکر سے یاد آیا کہ وہ نہ صرف ایک مستند چائے نوش تھےبلکہ چائے سازی کے بھی ماہر تھے۔ ان کی چائے پی کر بڑے بڑے منکروں کو خدا یاد آ جاتا تھااور ان کی نگاہوں میں آخرت کا نقشہ گھوم جاتا تھا جب روزِ محشر گناہگاروں کو گرم گرم پانی پلایا جائے گا، جس سے ان کی انتڑیاں کٹ جائیں گی ۔ انہوں نے شہر کے وسط میں ایک ٹی سٹال کھول رکھا تھا، جہاں ہر وقت چائے کے عاشقوں کا میلہ لگا رہتا تھا۔​
ایک بار ایک پولیس والا ان کے ہوٹل پر آیا اور دونوں ٹانگیں کرسی پر پھیلا کر بیٹھ گیا جیسے وہ ہوٹل کا مالک ہو۔ اس نے دودھ پتی چائے کا آرڈر دیا اور اخبار چاٹنے لگا۔ چاچا نے فٹافٹ چائے تیار کی اور میز پر اتار دی ۔ اس نے مزے لے لے کر چائے پی ، عربی اونٹ کی طرح لمبی ڈکار لی اور کان لپیٹ کروہاں سے کھسکنے لگا ۔ چچا نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روک لیااور اسے چائے کا بل ادا کرنے کو کہا ۔ اس پر وہ توے کی طرح گرم ہو گیا اور اکڑ کر کہنے لگا :۔ "وردی والوں سے پیسے مانگتے ہو؟ رانا نے آج تک کسی کو چائے کے پیسے نہیں دئیے۔"​
"ٹھیک ہے تم نے چائے کے پیسے کبھی نہیں دئیےاور ہم نے کبھی چھوڑے نہیں ۔۔۔۔جلدی سے پیسے ڈھیلے کرو۔"​
"کیا بک رہے ہو، لگتا ہے باہر کی آب وہوا راس نہیں آرہی ہے؟"​
"یہ تڑی کسی اور کو دینا ، شرافت سے پیسے نکالو اور اپنی شکل گم کرو۔"​
"اوئے رانے کو دھمکی دے رہے ہو، تمہاری مت تو نہیں ماری گئی؟"​
"دیکھو میں آخری بار کہہ رہا ہوں ۔ اگر میرا میٹر گھوم گیا تو بہت برا ہوگا۔"​
"لگتا ہےتم نے اندر ہونے کا پکا پروگرام بنا لیا ہے۔ اس لیے بہت ٹر ٹر کر رہے ہو۔"​
"کون کس کو اندر کرتا ہے، اس کا فیصلہ بعد میں ہوگا ۔ فی الحال تو یہ تحفہ لو۔"​
یہ کہہ کر انہوں نے برف توڑنے والا سوا اٹھایا اور اس کا دستہ کھوپڑی پر دے مارا۔ پویس مین کیلئےیہ حملہ غیر متوقع تھا اس لیےوہ ٹھیک سے اپنا دفاع نہ کر سکا اور سرتھام کر وہیں ڈھیر ہوگیا۔ انہوں نے ہوٹل کا شٹر ڈاؤن کیا اور منظر سے یوں غائب ہو گئے جیسے افق سے سورج غائب ہو جاتا ہے۔ وہ کچھ دنوں کیلئے زیرِ زمین چلے گئے۔ پولیس نے ان کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مارےمگر وہ برآمد نہ ہوسکے۔ یوں لگتا تھا جیسے انہیں زمین کھا گئی ہو یا آسمان نگل گیا ہو۔ آخر کار مقامی کونسلر نے مداخلت کی اور پولیس والے کو خون بہا دے کر معاملہ رفع دفع کرا دیا۔​
چچا ڈھکن کو کشتی لڑنے کے ساتھ ساتھ کبڈی کھیلنے کا بھی زبردست شوق تھا۔ وہ اس کھیل کے نامور کھلاڑی تھے۔ بڑے بڑے کھلاڑی ان کا لوہا مانتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان پہلوان بن سکتا ہے مگر پہلوان انسان نہیں بن سکتا، یہ مقولہ ان پر سو فیصدی صادق آتا تھا۔ ابھی اس واقعے کو چند ہی دن گزرے تھے کہ انہوں نے ایک اور معرکہ سر کر ڈالا ۔​
اس مرتبہ ان کا ہدف ایک پڑوسی دوکاندار تھا۔ ان کا ہوٹل ایک بوڑھے پیپل کے درخت کے نیچے قائم تھا ۔ اس کے ساتھ پانی کا ایک دستی نلکا لگا ہوا تھا جہاں سے لوگ سارا دن پانی کی بالٹیاں اور ڈبے بھر کر لے جاتے تھے۔ایک بار ایک میلا کچیلا شخص وہاں آیا اور کیچڑ میں لتھڑے ہوئے ہاتھ دھونے لگا ۔ اتفاق سے اس وقت نل کے کے نیچےہوٹل کے دھلے ہوئے برتنوں کا ٹیلہ بنا ہوا تھا ۔ چچا ڈھکن نے جب دن دیہاڑے یہ بے قاعدگی ہوتے دیکھی تو ان سے رہا نہ گیا۔ انہوں نے خوش اخلاقی سے اس شخص کو سمجھایا کہ وہ کھانے پینے ے برتنوں کے اوپر گندے ہاتھ نہ دھوئے مگر اس کوڑھ مغز پر رتی بھر اثر نہیں ہوا۔ اس پر ان کی رگِ پہلوانی پھڑک اٹھی، وہ مزید وقت ضائع کیے بغیر اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے، اور اس کا گریبان پکڑ کر اسے اتنے زور کا جھٹکا دیا کہ وہ زمین پر گر پڑا اور مٹی چاٹنے لگا ، لیکن وہ بھی بے حد ڈھیٹ آدمی تھا ، اٹھا اور ان سے تو تو میں میں کرنے لگا ۔ اس روانی میں اس کے منہ سے گالی پھسل گئی۔ وہ لکڑ پتھر ہضم کر سکتے تھے، مگر ان سے کسی صورت گالی ہضم نہیں ہوتی تھی۔چنانچہ انہوں نے باکسنک کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئےاس کے چہرے پر ایک زور دار مکہ مارا ۔اتفاق سے اس وقت انہوں نےانگوٹھیوں کا دستہ پہنا ہوا تھا۔ ایک انگوٹھی نے اپنا کام دکھایا اور اس کا فوٹو بگاڑ کے رکھ دیا۔ اس کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی اور وہیں پر ڈھیر ہو گیا ۔ چچا ڈھکن نے جب دیکھا کہ بندہ ناک آؤٹ ہو گیا ہےتو وہ وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ سامنے ایک خیراتی ہسپتال تھا جہاں سے اسے فوری طبی امداد موصول ہو گئی وگرنہ اس کا کام ہو گیا تھا۔ایک بار پھر ان کے خلاف مار پیٹ کا پرچہ درج ہو گیا مگر ان پر ان پرچے پرچیوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ جلد ہی ان کے وارنٹ ِ گرفتاری جاری ہو گئےمگر وہ اتنی آسانی سے ہاتھ آنے والے نہیں تھےانہوں نے ایک موالی کے ذریعے اسے پیغام بھجوایا کہ اگر اس نے ان کے خلاف درج کیس واپس نہیں لیا تو اس کی لاش بوری میں سے بر آمد ہوگی۔ چونکہ وہ شخص ان کے ہاتھ دیکھ چکا تھا اس لیے ذبح ہونےکرنے کیلئے لائی جانے والی بکری کی طرح سہم گیا ۔ چنانچہ اس نے ہاتھ جوڑ کر اپنی درخواست واپس لے لی کہ جان سب کو پیاری ہوتی ہے ۔​

چچا ڈھکن عجیب وغریب قسم پہلوان تھے۔ڈنٹر پیلنے اور بیٹھک نکالنے میں ان کا دور دور تک کوئی ثانی نہیں تھا۔ وہ کھڑے کھڑے ہزار پانچ سو بیٹھک نکال لیتے تھےاور ذرا بھی نہیں تھکتے تھے۔ انہیں ورزش کرنے کے سینکڑوں طریقے معلوم تھے۔ وہ درخت کے ساتھ بندر کی طرح الٹا لٹک جاتے اور اس وقت تک لٹکے رہتے جب تک کہ شاخ ٹوٹ کر انہیں نیچے نہیں گرا دیتی ۔ نزدیک و دور کوئی درخت نہ ہوتا تو گھر کی چوکھٹ کے ساتھ لٹک جاتے ۔ چونکہ پرلے درجے کے بھلکڑ تھےاس لیے اکثر نیچے اترنا بھول جاتے تھےاور اس وقت تک لٹکے رہتے جب تک کہ ان کی بیگم ان کی پیٹھ پر جھاڑو مار کر انہیں نیچے اترنے کا حکم صادر نہیں کرتی۔
ایک بار جب انہیں لٹکےہوئے کافی دیر ہو گئی تو ان کے اہلِ خانہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ وہ یہ سمجھے کہ خدانخواستہ انتقال فرما رہے ہیں مگر چند ہی لمحات کے بعد وہ دھڑام سے نیچے آگئے ، ان کے ساتھ چوکھٹ بھی چرچرا کر ٹوٹ گئی ۔ اس حادثے میں ایک مرغی نیچے آ کر جاں بحق ہو گئی جب کہ دو چوزے اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھے۔
کبھی زیادہ جوش میں آجاتے تو گھنتوں تک مرغا بنے رہتے ۔ اس دوران وہ اپنے بچوں کو پیٹھ پر سوار کرادیتے اور انہیں زور زور سے اچھلنے کی تلقین کرتے ۔ اس طرح وہ اپنی طاقت اور حوصلے کی آزمائش کرتے ۔ جب اکھاڑے میں مصروفِ ورزش ہوتے تو پیٹھ پر چکی کا پاٹ رکھوا دیتے اور اس پر دو شاگرد بٹھا دیتے ۔ یہ عمل کافی دیر تک جاری رہتا حتیٰ کہ ان کی پیٹھ پر انٹار کٹکا کا نقشہ ابھر آتا ۔
انہیں اکھاڑہ کھودنے کا بھی بے حد شوق تھا۔ وہ صبح سویرے جسم کو تیل سے چپڑ کر تیار ہوجاتے اور کسی لے کر اکھاڑے میں گھس جاتےاور لگڑ بگڑکی طرح زمین کھودنا شروع کر دیتے۔ دیکھنے والےیہ سمجھتے کہ شاید ان کی انگوٹھی گم ہو گئی ہےجسے وہ مٹی میں تلاش کر رہے ہیں ۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ وہ اکھاڑے میں اوندھے لیٹ جاتے اور دو تین شاگردوں کو حکم دیتے کہ وہ انہیں سیدھا کر کے دکھائیں اور مٹھائی کے حقدار بن جائیں ۔ شاگرد بے چارے جلیبیوں کے لالچ میں اپنی پوری طاقت صرف کر دیتےمگر انہیں سیدھا کرنے میں ناکام رہتے۔
دراصل یہ ان کا خاص داؤ تھا جس کا وہ اکثر مظاہرہ کرتے رہتے تھےتاکہ دوسروں پر اپنی پہلوانی کا رعب جمایا جا سکے۔ ان کی ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اسقدر ورزش اور جان ماری کے بعد نہ تو مرغ یا بکرے کی یخنی پیتے تھے، نہ ہی مکھن بادام کا استعمال کرتے تھےبلکہ قریبی ہوٹل سے کڑک چائے کی ایک چینک منگوا کر پی لیتے تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ دودھ ، مکھن اور بادام وغیرہ انسان کو سست بنا دیتے ہیں جبکہ چائے پی کر انسان کی بیٹری چارج ہو جاتی ہے اور اس کی رگ رگ میں کرنٹ دوڑ جاتا ہے ۔ انہوں نےچائے کے بارے میں ایک شعر بھی گھڑ رکھا تھا:۔
ہر مرض کی دوا ہے، ہر درد کو بھگائے
وہ صف شکن بنیں گےپیتے رہے جو چائے​
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
چچاڈھکن یاروں کے یار تھے۔ ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتےتھے۔ ایک بار ان کو اپنے ایک غریب محلے دار کی طرف سے شادی میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا ۔ چونکہ بارات کو ایک گاؤں میں جانا تھا۔ اس لیے بارتیوں کے لیے تانگوں کا انتظام کیا گیا تھا جب کہ عام افراد کیلئے گدھا گاڑیوں کا بندوبست کیا گیا ۔ اس موقع پر انہیں ایک سجے سجائے تانگے کی فرنٹ سیٹ پر بٹھایا گیا اس وقت انہوں نے سرگودھا کا لاچہ باندھ رکھا تھا جب کہ تن پر ڈھاکہ کی ململ کا کرتہ موجود تھا ، علاوہ ازیں انہوں نے اپنی پہلوانی شان کو برقرار رکھتے ہوئے سر پر ستاروں کی جھلمل کرتا ہوا صافہ باندھ رکھا تھا۔
جب یہ بارات گاؤں کے بارڈر پر پہنچی تو آوارہ کتوں کے جھرمٹ نے بھونک بھونک کر ان کا والہانہ استقبال کیا ۔ یہ خیر مقدم اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ بارات دلہن کے دروازے پر نہیں پہنچ گئی ۔ یہ صورت حالات دیکھ کرگاؤں والوں نے ان پر لاٹھی چارج شروع کردیا جس سے ٹیڑھی دم والوں میں کھلبلی مچ گئی اور وہ الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس موقع پر چچا ڈھکن نے بھی اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔انہوں نے ایک کتے کو جو بھونکنے میں پیش پیش تھا اور اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا تھا دم سے پکڑا اور اسے یوں اوپر اٹھا لیا کہ جیسے ویٹ لفٹر وزن کو اوپر اٹھا تےہیں ، انہوں نےاسے بجلی کے پنکھے کی طرح گھمایا اور زور سے زمین پر دے مارا ۔ اس پر کتوں کا گروہ خوفزدہ ہو گیا اور وہ دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ تمام ناظرین جنہوں نے یہ خوبصورت منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تالیاں بجا کر انہیں داد دی
جب دلہن کی رخصتی کا وقت آیا تو ایک نئی افتاد کھڑی ہو گئی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جب تک بارات کا کوئی آدمی ان کےگاؤں کے پہلوان سے کشتی نہیں لڑے گا ، دلہن ڈولی پر سوار نہیں ہوگی کیونکہ یہاں کا یہی دستور ہے۔یہ نامعقول شرط سن کر لڑکے والوں کے منہ لٹک گئےاور گھٹنوں کے ساتھ جا لگے۔ انہوں نے فوراً سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا تاکہ اس نئی صورتِ حال پر غور کیا جاسکے ۔ بچت کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی کہ اچانک امید کی ایک کرن چمک اٹھی۔ حسنِ اتفاق سے بارات میں ایک شوخا پہلوان بھی موجود تھا جو کہ ذات کا موچی تھا مگر آج کل تانگہ چلا رہا تھا۔ اس نے سینے پر چابک مار کر کہا کہ وہ دیہاتی پہلوان کا مقابلہ رے گا اور اسے شکستِ فاش دے گا۔ یہ بڑھک سن کر بڑوں کے تھوبڑوں پر ہریالی آگئی ۔ چنانچہ میدان فوراً سجا دیا گیا۔ رستمِ پنڈ ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالتا ہوا نمودار ہوا اور اسپین کے لڑاکا بیل کی طرح میدان میں اچھلنے کودنے لگا ، ادھر باراتی پہلوان بھی خم ٹھونک کر میدان میں آگیا اور زور وشور سے بھنگرہ ڈالنے لگا ۔ جب دونوں پہلوانوں کی بیٹریاں گرم ہو گئیں تو دو توندوں والے منصف نے دونوں پہلوانوں کا ہاتھ پکڑا اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھڑا دیا اور خود مینڈک کی طرح پھدک کر ایک طرف ہو گیا ۔ دیہاتی پہلواننےشہری پہلوان کو جپھہ ڈالا اور اسے یوں اوپر اٹھا لیا جیسے الو چوہے کو اٹھا تا ہے، اور اسے زور سے زمین پر دے مارا۔ وہ زمین پر گرااور ڈھیر ہو گیا ۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کہ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
ریفری نے ایک دس تک گنتی گنی کیونکہ اسے اس سے آگے گنتی نہیں آتی تھی مگر اس مردود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے اسے زمین کے ساتھ ملا دیا ہو ، چنانچہ اس نےمدمقابل کی فتح کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ۔ اس اعلان کے ساتھ ہی گاؤں والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وہ زور زور سے سیٹیاں بجانے لگے۔ اس شرمناک ہار نے باراتیوں کے سر شرم سے جھکا دئیےاور وہ بغلیں جھانکنے لگے، خاص طور پر دولہا کی حالت تو دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے منہ پرسوا بارہ بج رہے تھے۔یہ منظر دیکھ کر چچا ڈھکن کا خون جوش میں آگیا ، انہوں نے دولہا اینڈ کمپنی کو تسلی دی کہ وہ فکر نہ کریں ، سب ٹھیک ہو جائے گا کہ ہم ہیں تو کیا غم ہے۔انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ وہ اس پہلوان سے مقابلہ کریں گے اور اسے پچھاڑ کر نہ صرف اپنے شہر کا نام روشن کریں گے بلکہ ان کی پگ کا شملہ ، شملہ پہاڑی سے بھی اونچا کر دیں گے۔یہ بات سن کر سب نہال ہو گئے اور ہاتھ اٹھا کر ان کی کامیابی کی دعائیں کرنے لگے۔
چنانچہ فوراً مقابلے کاا علان کر دیا گیا ۔ چچا ڈھکن نےمقابلے سے پہلے بکرے کی بھنی ہوئی ران لانے کا حکم دیا ، کچھ دیر میں ان کی یہ فرمائش پوری کر دی گئی ۔ وہ ران کو کندھے پر رکھ کر میدان میں اترے اور کوہ قاف کے جن کی طرح زور زور سے قہقہے لگانے لگے ۔ اس کے ساتھ ہی وہ ران کو بھی بھنبھوڑتے جاتے ۔ مد مقابل نے جب ان کا یہ وحشیانہ انداز دیکھاتو وہ کچھ گھبرا سا گیا اور سوچنے لگا کہ اس کا پالا کس بلا سے پڑ گیا ہے۔ دریں اثنا منصف نے کالے انجن کی طرح منہ سے سیٹی بجائی اور دونوں پہلوانوں کو قائم ہونے کا اشارہ کیا ۔ جب یہ عمل مکمل ہو گیا تو اس نے جیب سے ہرا رومال نکال کر ہوا میں لہرا دیا ، یہ گویا مقابلے کے آغاز کا سگنل تھا ۔
دونوں پہلوان گتھم گتھا ہوگئے، دیہاتی پہلوان نے ایک بار پھر وہی داؤ آزمانے کی کوشش کی جو کہ ناکام پہلوان پر آزمایا جا چکا تھامگر چچا نے اسے ایسا کرنے کی مہلت ہی نہ دی ۔ انہوں نے اسے کمر سے پکڑا اور اس پر مچھلی غوطہ کا داؤ آزمایا جس سے وہ لڑکھڑا کر نیچے گر پڑا ۔ چچا پھدک کر اس کے سینے پر سوار ہو گئے، اس پر پہلوان کو تاؤ آ گیا ، اس نے کتے کی طرح ان کے ہاتھ اپنے دانت گاڑ دئیے ۔ اس سے پہلے کہ وہ ان کی انگلیان چبا ڈالتا ، انہوں نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ آزاد کرا لیا۔ ان کی دو انگلیاں کافی زخمی ہو گئی تھیں کیونکہ اس آدم خور نے انہیں کاٹ کھایا تھا ۔ ادھر چچا ڈھکن اپنی انگلیاں چیک کرنے میں مصروف تھے کہ وہ گینڈے کی طرح دوڑتا ہوا آیا اور اپنی کہنی سے ان کے سر پر ضرب لگانے کی کوشش کی مگر وہ بھی افیون کھا کر نہیں آئے ہوئے تھے، وہ ارنے بھینسے کی طرح ڈکرائے اور اسے ایسی زوردار فلائنگ کک ماری کہ وہ منہ کے بل گرا اور زمین کے اندر دھنس گیا ۔ بس پھر کیا تھا ، وہ کود کر اس کی چھاتی پر سوار ہو گئے ۔ ان کا ارادہ وہاں پر مونگ دلنے کا تھا مگر دال بروقت میسر نہ آنے کی وجہ سے وہ اپنے ارادے سے باز آگئے ۔انہوں ے اس کی گردن کواپنی آہنی گرفت میں لیا اور اس کا ناپ لینے لگے اس عمل سے وہ بے بس ہو گیا ۔ اس نے مزید ذلالت سے بچنے کیلئے اپنا ہاتھ فضا میں بلند کر دیا اور اس طرح اپنی شکست تسلیم کر لی۔ چنانچہ منصف نے ان کے نام کا ڈنکا بجا دیا اور اس عظیم الشان فتح پر مبارکباد دی ۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
چچا ڈھکن جہاں ایک مستند اور معتبر پہلوان تھے، وہاں وہ ایک ناکام و نامراد شوہر بھی تھے۔ ان کی ازدواجی زندگی ہمیشہ اٹھک بیٹھک کا شکار رہی ۔ ان کی بیگم ان کیلئے مسلسل دردِ سر بنی رہیں ۔ وہ خود تو مست ملنگ قسم کے انسان تھےمگر وہ پرلے درجے کی خرانٹ تھیں ، بات بات پر انہیں روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیتیں ۔ چچا سے ان کے چھ بلونگڑے پیدا ہوئےجن میں تین نر اور تین مادہ تھے۔ جب دونوں کے مابین لڑائی ہوتی تو بچوں کی پوری ٹیم ماں کی طرفدار بن جاتی جب کہ وہ اکھاڑے میں اکیلے کھڑے ہوئے نظر آتے ، حالانکہ وہ بچہ پارٹی کا بے حد خیال رکھتے تھےاور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونے دیتے تھے۔ دراصل ان کی بیگم لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی پر کاربند تھیں ۔ وہ ان کے خلاف بچوں کے کان بھرتی رہتی تھیں جس کے نتیجے میں وہ بے ادب ، گستاخ اور منہ پھٹ ہو گئے تھے۔ چچا اس صورتِ حال سے بہت پریشان رہتے تھےمگر بے اختیار حکمران کی طرح کچھ کر نہیں پاتے تھےاور اپنی قسمت پر آٹھ دونی سولہ آنسو بہاتے تھے کہ قدرت نے انہیں اولاد دی تو سب کی سب چھان بورہ نکلی، اس سے تو بہتر تھا کہ وہ اینٹ پیدا کر دیتے وہ کم از کم دیوار بنانے کے کام تو آ جاتی۔​
کہا جاتا ہے کہ "جب گھوڑے کو تھان پر گھاس نہ ملےتو وہ مجبور ہو کر ادھر ادھر منہ مارنے لگتا ہے۔" چچا ڈھکن نے بھی یہی لائن اختیار کی۔ انہوں نے اندر خانے ایک بیوہ عورت سے آشنائی پیدا کر لی جو کہ ترقی کر کے عشق و محبت میں تبدیل ہو گئی۔ اس ریٹائرڈ حسینہ کا نام نوراں تھا ۔ یہ اپنے کھیتوں کا مال ایک ٹوکرے میں سجا کر لاتی تھی اور محلے کے ایک چوک پر بیٹھ کر فروخت کرتی تھی۔ اس عورت کے متعلق یہ بات مشہور تھی کہ مرد مار عورت ہےاور اب تک شوہروں کو مارنےکی ہیٹرک کر چکی ہے۔ اس کا ایک شوہر پانی کی باری کے تنازعے پر مارا گیا تھا جبکہ دوسرا ایک بس کا لقمہ بن گیا تھا اور آخری شوہر دریا میں ڈوب مرا تھا جس کا کوئی جنازہ اٹھا تھا نہ مزار بنا تھا ۔چچا سبزی لینے اکثر اس کے پاس جاتے رہتے ، آہستہ آہستہ یہ آمد ورفت قربت میں تبدیل ہو گئی۔​
کہا تو یہ بھیجاتا ہے کہ "عشق ، مشک ، اور چھینک چھپائے نہیں چھپتے۔" اڑتے اڑتے یہ خبر ان کی زوجہ کے کانوں تک بھی جا پہنچی۔ ان کی حرکات و سکنات تو پہلے ہی مشکوک تھیں، اس خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ ایک دن بیگم نے چھاپہ مار کر انہیں عین اس وقت دھر لیا جب وہ اپنی محبوبہ کو چوڑیوں کا تحفہ دے رہے تھے۔ زوجہ کو اچانک سامنے پا کر وہ کم و بیش بد حواس ہو گئے، مگر مار کھانے والے پہلوان کی طرح جلد ہی سنبھل گئے اور فورا ً بہانہ گھڑ لیا کہ وہ تو یہاں گاجریں لینے آئے تھےمگر ان کی بیگم بھی کچی گولیاں نہ کھیلی ہوئی تھی بلکہ اخروٹ کھیلی ہوئی تھی، وہ ان کی اداکاری سے بالکل متاثر نہیں ہوئیں اور مارچ پاسٹ کرتی ہوئی وہاں سے رخصت ہوئیں اور میکے جا کر گوشہ نشین ہو گئیں ۔ چچا دو چار دن تو ان کی راہ تکتے رہے کہ شاید صبح کے بھولے ہوئے کی طرح شام کو واپس آجائیں مگر وہ بھی گدھی کی طرح ضد کی پختہ تھیں ، لوٹ کر نہیں آئیں ۔ انہوں نے بذریعہ موبائل متعدد پیغامات بھجوائے کہ مہاریں موڑ لیں اور پویلین واپس آ جائیں مگر اس اللہ کی بندی پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ اس کشمکش اور ادھیڑبن میں ایک ماہ گزر گیا ۔ نصف بہتر کے بغیر وہ پورے بدتر ہوگئےانہیں اپنا کھانا خود پکانا پڑتا تھا اور دھوبی کا کردار بھی ادا کرنا پڑتا تھا ، گھر کی صفائی ستھرائی اس کے علاوہ تھی ۔ چنانچہ وہ بیک وقت باورچی ،دھوبی، اور خاکروب بن کر رہ گئے ، اتنی ذلت و خواری تو انہوں نےکبھی کشتی لڑتےوقت بھی نہیں اٹھائی تھی جتنی کہ انہیں بیگم کے باغی ہوجانے پر اٹھانی پڑی تھی۔​
ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے، جبکہ بیگم بچوں کی ماں ہوتی ہے، آخر کار انہوں نےہارنے والے پہلوان کی طرح ہتھیار ڈال دئیے ۔شریکِ حیات کو دوبارہ حیات میں شریک کرنے کیلئے وہ اچانک سسرال پہنچ گئے۔ لیلیٰ نے جب یہ دیکھا کہ مجنوں خود چل کر اس کے در پر آ گیا ہے تو وہ مزید مغرور ہو گئیں اور واپسی کا ٹکٹ کٹانے سے صاف انکار کر دیا ۔ اس صاف وشفاف جواب سے ان کی شکل یتیموں جیسی بن گئی ۔ دال نہ گلتی دیکھ کر منت سماجت پر اتر آئے۔ آخر بے غم کو ان کی بے بسی اور لاچارگی پر رحم آ گیا مگر انہوں نے چند کڑی شرائط پیش کر دیں۔پہلی شرط یہ تھی کہ وہ اس لال گھگھرے والی عورت سے کبھی اور کسی قیمت پر نہیں ملیں گے۔چچا چونکہ پل صراط پر سے گزر رہے تھےاس لیے وہ یہ کڑوی پونسٹان نگلنے پر تیار ہو گئے۔ انہوں نے کاغذ پر یہ تحریر لکھ کر دے دی، چنانچہ بیگم نے فوری طور پر بائیکاٹ ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور ان کے ساتھ سائیکل پر بیٹھ کر اپنے گھر روانہ ہو گئیں جبکہ بچے ان کی سائیکل کے ساتھ ساتھ دوڑتے رہے۔​
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
کہا جاتا ہےکہ انسان پر صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ اگر اس کی نشست و برخاست اچھے لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے تو وہ اقبالؒ کا مردِ مومن بن جاتا ہے ورنہ شفقت چیمہ بن جاتا ہے۔۔۔۔۔یہ بات سو فیصد سے بھی کچھ اوپر تک درست ہےجس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چچا ڈھکن گائے کی طرح سیدھے اور کبوتر کی طرح شریف انسان تھے۔ ان کے انگ انگ سے شرافت یوں ٹپکتی تھیکہ جیسے پھلوں سے رس ٹپکتا ہےمگر کچھ دنوں سے ان میں تبدیلیاں نظر آنے لگیں ۔ انہوں نے نہ صرف موالیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا بلکہ ان کے اڈوں پر بھی آنے جانے لگے۔ کبھی وہ بھنگ کیلئے سائیں مٹھو کے دربار پر چلے جاتے تو کبھی چرس کے دم لگانےسائیں سکھو کے دربار کا رخ کرتے۔ ایک بار تو نشے میں ایسے ٹن ہوئے کہ تن من کا ہوش بھلا بیٹھےاور سرِ عام دھوتی اتار کر ناچنے لگےچونکہ گانے کے بغیررقص پھیکا نظر آتا ہے اس لیے وہ ساتھ ساتھ گا بھی رہے تھے۔۔۔۔؎​
ہنگامہ ہے کیوں برپا ، تھوڑی سی جو پی لی ہے​
ڈاکا تو نہیں ڈالا ، چوری تو نہیں کی ہے​
آخر رقص کرتےکرتے امراؤ جان ادا کی طرح لڑکھڑا کر زمین پر گرے اور انٹاغفیل ہو گئے۔ ان کے ساتھی انہیں گدھا ریڑھی پر ڈال کران کے گھر لے گئےکہ دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے۔ ان کی زوجہ نے جب انہیں نشے میں دھت دیکھا تو وہ حیران و پریشان ہو گئیں ۔ اس سے پہلے کہ ان کی حیرت کا ناپ مزید بڑھ جاتا ، وہ سنبھل گئیں ۔ وہ سیدھی باتھ روم گئیں اور یخ پانی کی بالٹی لے کر الٹے پاؤں واپس آگئیں ۔ وہ بھری ہوئی بالٹی ان کی چوٹی پر انڈیل دی جس سے ان کی پوری بلڈنگ تر بتر ہو گئی۔ اس ترکیب سے ان کا آدھا نشہ ہرن ہو گیا ، باقی مشکل اچار کی ڈلی نے حل کر دی ۔ انہوں نے نہائی ہوئی بھینس کی طرح سر کو دو تین جھٹکے دئیےاور اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس موقع پر بیگم نے انہیں خوب لعن طعن کی اور انہیں کچھ غیرت کھانے کو کہا ۔وہ سر جھکا کر سب کچھ سنتے رہےکیونکہ بیگم کے سامنے تو رستم کی بھی چوہے جیسی حیثیت نہیں ہوتی وہ تو پھر چچا ڈھکن تھے۔جواب میں منہ سے ایک لفظ تک نہیں بولے البتہ اشاروں کی زبان میں فقط اتنا کہا کہ انہیں بالکل نہیں پتا کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔​
اگرچہ ان کی بیگم ا وضاحت سے مطمئن تو نہیں ہوئیں مگر اس کے باوجود سر ہلا کر رہ گئیں ۔ اس کے ساتھ ہی انہیں وارننگ دے دی کہ اگر آئندہ ایسی حرکت کا ارتکاب کیا تو ان کا گھر میں نہ صرف داخلہ بند کر دیا جائے گا بلکہ حقہ پانی اور بجلی گیس بھی بند کر دی جائے گی۔ یہ دھمکی سن کر وہ سہم گئے اور کانوں کو ہاتھ لگا کر بولےکہ ان کے باپ کے باپ کی توبہ جو آئندہ وہ نشے کے قریب بھی پھٹکیں ۔ اگر پھٹکیں تو بے شک رنڈوے ہو جائیں۔۔۔۔۔​
قدرت کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ وہ رنڈوے تو نہیں ہوئےالبتہ ان کی بیگم بیوہ ضرور ہو گئیں۔​
ہوا یوں کہ وہ قریبی گاؤں سےکتوں کا عظیم الشان دنگل دیکھ کر واپس گھر آرہے تھےکہ مخالف سمت سے آنے والےایک پاگل ٹرک نے انہیں ٹکر مار کر چاروں شانے چت کر دیا ۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لا کر ناک آؤٹ ہو گئے۔ حسنِ اتفاق سے ان کی جیب میں بجلی کا بل موجود تھا جو کہ انہوں نے اسی دن بنک میں جمع کرایا تھا ، اس بل سے ان کی شناخت ممکن ہو سکی۔​
ان کا پارسل جب ایمبولینس کے ذریعے ان کے مرکزی ٹھکانے پر پہنچا تو گلی میں کہرام برپا ہو گیا ، ہر شخص ان کی بے وقت موت پر افسوس کا اظہار کر رہا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ بیگم کی بدعا انہیں لے ڈوبی ہے جبکہ کچھ دیندار بزرگوں کا خیال تھا کہ ان کا وقت پورا ہو گیا تھا ۔ حقیقت چاہے کچھ بھی ہو مگر یہ بات سچ ہے کہ ان کی المناک موت سے جہاں پہلوانی کی صنعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ، وہاں شہر ایک عظیم انسان کی رفاقت سے محروم ہو گیا ، کیونکہ ایسے نادر نمونے صدیوں بعد تولد ہوتے ہیں ۔​
حق مغفرت کرے ، عجب آزاد پہلوان تھا
 

شمشاد

لائبریرین
لیکن چچا ڈھکن کو آخر میں مارا کیوں؟

کہیں اس لیے تو نہیں کہ آئندہ ان پر کچھ لکھنا نہ پڑے؟
 

یوسف-2

محفلین
کیا اسے آپ نے ”بقلم خود“ لکھا ہے؟:D میری تو ”حریانی و پریشانی“ نہیں جاتی؟ :D ایک طرف ”چھوٹے“ کو دیکھتا ہوں اور دوسری طرف چچا چھکن کے ہمزاد چچا ڈھکن کے کارہائے نمایاں کو، جسے بزعم خود ایک ”چھوٹے“ نے قلم بند کیا ہے (یا شاید قلم کھول کے لکھا ہے)، مجھ جیسے کسی ”بڑے“ نے کیوں نہیں لکھا :eek: ۔ اب مَیں تو یہ بھی نہیں لکھ سکتا کہ ”خوب لکھا ہے جناب، بہت خوب“ کیونکہ اس پر تو وارث بھائی نے ”کاپی رائٹ“ کی اور آپ نے ”اب بے شک کوئی نہ پڑھے۔میری محنت وصول ہو گئی:)“ کی مہر لگادی ہے۔ اگر تحریر سے پہلے وارث بھائی کے تبصرہ پر آپ کا جواب دیکھ لیتا تو میں جناب کے لکھے چچا ڈھکن کے کارنامے پڑھنے کی ”زحمت“ ہی نہ کرتا ، تاکہ پڑھنے کے بعد اس پر تبصرہ کےلئے مناسب الفاظ ڈھونڈنے یوں مارا مارا نہ پھررہا ہوتا:grin: ۔ الفاظ تو تاحال نہیں ملے، جس کسی کو ملیں، اس مراسلہ تک پہنچا کر مشکور و ممنون ہونے کا موقع دیں۔ تب تک چھوٹاغالبؔ بھائی کی خدمت میں یہ تصویری تبصرے پیش ہیں۔:zabardast1::great::good::best::a6:
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
جناب چھوٹا غالب صاحب! سب سے پہلے تو بہت بہت معذرت ۔۔۔ بہت دن سے اس نگری کا "چکر" جونہیں لگا تھا ۔۔۔ آپ کے طفیل "چچا ڈھکن" سے ملاقات ہوئی ۔۔۔ ہم تو سمجھے تھے کہ چچا مکھن کی صورت میں پیروڈی آئے گی لیکن آپ نے تو "نام" ہی ایسا چنا کہ تعریف کرتے ہی بنے گی :clap: ۔۔۔ تحریر تو آپ کی ویسے ہی "رواں دواں" ہوتی ہے ۔۔۔ ماشاءاللہ جناب ۔۔۔ :great: بہت ہی عمدہ ۔۔۔ آپ نے ہماری فرمائش پوری کی ۔۔۔ اور ہم پھولے نہیں سما رہے ۔۔۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔۔۔ سلامت رہیں ۔۔۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
آپ نے ہماری فرمائش پوری کی ۔۔۔ اور ہم پھولے نہیں سما رہے ۔۔۔ ؎

وہ کیا خوب کہا ہے نا جناب علامہ صاحب نے

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں

اور آپ کو شاید نہیں پتا کہ آپ میری پسندیدہ والی لسٹ میں ہیں

بڑے استاد جی بھی تو دوستوں کی خوشی کیلئے اردو میں کہہ لیا کرتے تھے، بس وہی روایت ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
بہت خوب چھوٹے چچا! اللہ کرے زورِ ذوق ظریف اور زیادہ۔
پر گستاخی معاف! میرے چھوٹے سے ذہن میں چھوٹے شیطان کلبلا کے وسپر کر رہا ہے کہ "ڈھکن" سے ہمیں کچھ اور یاد آ رہا ہے۔:notworthy:
 
Top