چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
بھائی شہزاد احمد !!!
لیجئے آپ کی فرمائش پر پیش ہے ایک تازہ تحریر
آپ سب نے چچا چھکن کا تصویر ٹانگنے والا کارنامہ تو یقینا ملاحظہ فرمایا ہی ہوگا
ذرا ہمارے چچا ڈھکن کے کارنامے بھی ملاحظہ ہوں،
اللہ بخشے یا نہ بخشے، یہ اس کی مرضی ہے۔۔۔۔۔۔ چچا ڈھکن ان گنت خوبیوں اور صفات کے مالک و مختار تھے۔ ایسا کونسا جوہر تھا جو کہ ان کے اندر موجود نہیں تھا ۔ خراد مشین اور ٹیوب ویل وہ چلا لیتے تھے۔ رکشا ان سے پناہ مانگتا تھا۔ موٹر سائیکل کے وہ چیمپئن تھےحتیٰ کہ تانگہ اور اونٹ گاڑی بھی دوڑا لیتے تھے۔ ماہی گیری کے تو وہ ماہر تھے۔ بڑے بڑے ملاح اور مچھلی فروش ان سے مشورے لینے آتے تھے۔ دریا دل اتنے تھےکہ مجال ہے جو انہوں نے کبھی کسی سے مشورے کے عوض فیس وصول کی ہو۔ زیادہ سے زیادہ یہ کرتے تھےکہ چائے کی ایک چینک منگوا لیتے تھے، وہ بھی صرف اس لیے کہ اس کے بغیر ان کا میٹر چالو نہیں ہوتا تھا۔ یہ ہم نہیں بلکہ وہ بقلم خود کہا کرتے تھےکہ چائے ہے تو جہان ہے ورنہ قبرستان ہے۔یہ ایک روشن حقیقت تھی کہ چائےپیتے ہی ان کے چودہ طبق روشن ہو جاتے تھے اور ان کا کانٹا 100 پر آ جاتا تھا ۔
چائے کے ذکر سے یاد آیا کہ وہ نہ صرف ایک مستند چائے نوش تھےبلکہ چائے سازی کے بھی ماہر تھے۔ ان کی چائے پی کر بڑے بڑے منکروں کو خدا یاد آ جاتا تھااور ان کی نگاہوں میں آخرت کا نقشہ گھوم جاتا تھا جب روزِ محشر گناہگاروں کو گرم گرم پانی پلایا جائے گا، جس سے ان کی انتڑیاں کٹ جائیں گی ۔ انہوں نے شہر کے وسط میں ایک ٹی سٹال کھول رکھا تھا، جہاں ہر وقت چائے کے عاشقوں کا میلہ لگا رہتا تھا۔
ایک بار ایک پولیس والا ان کے ہوٹل پر آیا اور دونوں ٹانگیں کرسی پر پھیلا کر بیٹھ گیا جیسے وہ ہوٹل کا مالک ہو۔ اس نے دودھ پتی چائے کا آرڈر دیا اور اخبار چاٹنے لگا۔ چاچا نے فٹافٹ چائے تیار کی اور میز پر اتار دی ۔ اس نے مزے لے لے کر چائے پی ، عربی اونٹ کی طرح لمبی ڈکار لی اور کان لپیٹ کروہاں سے کھسکنے لگا ۔ چچا نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روک لیااور اسے چائے کا بل ادا کرنے کو کہا ۔ اس پر وہ توے کی طرح گرم ہو گیا اور اکڑ کر کہنے لگا :۔ "وردی والوں سے پیسے مانگتے ہو؟ رانا نے آج تک کسی کو چائے کے پیسے نہیں دئیے۔"
"ٹھیک ہے تم نے چائے کے پیسے کبھی نہیں دئیےاور ہم نے کبھی چھوڑے نہیں ۔۔۔۔جلدی سے پیسے ڈھیلے کرو۔"
"کیا بک رہے ہو، لگتا ہے باہر کی آب وہوا راس نہیں آرہی ہے؟"
"یہ تڑی کسی اور کو دینا ، شرافت سے پیسے نکالو اور اپنی شکل گم کرو۔"
"اوئے رانے کو دھمکی دے رہے ہو، تمہاری مت تو نہیں ماری گئی؟"
"دیکھو میں آخری بار کہہ رہا ہوں ۔ اگر میرا میٹر گھوم گیا تو بہت برا ہوگا۔"
"لگتا ہےتم نے اندر ہونے کا پکا پروگرام بنا لیا ہے۔ اس لیے بہت ٹر ٹر کر رہے ہو۔"
"کون کس کو اندر کرتا ہے، اس کا فیصلہ بعد میں ہوگا ۔ فی الحال تو یہ تحفہ لو۔"
یہ کہہ کر انہوں نے برف توڑنے والا سوا اٹھایا اور اس کا دستہ کھوپڑی پر دے مارا۔ پویس مین کیلئےیہ حملہ غیر متوقع تھا اس لیےوہ ٹھیک سے اپنا دفاع نہ کر سکا اور سرتھام کر وہیں ڈھیر ہوگیا۔ انہوں نے ہوٹل کا شٹر ڈاؤن کیا اور منظر سے یوں غائب ہو گئے جیسے افق سے سورج غائب ہو جاتا ہے۔ وہ کچھ دنوں کیلئے زیرِ زمین چلے گئے۔ پولیس نے ان کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مارےمگر وہ برآمد نہ ہوسکے۔ یوں لگتا تھا جیسے انہیں زمین کھا گئی ہو یا آسمان نگل گیا ہو۔ آخر کار مقامی کونسلر نے مداخلت کی اور پولیس والے کو خون بہا دے کر معاملہ رفع دفع کرا دیا۔
چچا ڈھکن کو کشتی لڑنے کے ساتھ ساتھ کبڈی کھیلنے کا بھی زبردست شوق تھا۔ وہ اس کھیل کے نامور کھلاڑی تھے۔ بڑے بڑے کھلاڑی ان کا لوہا مانتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان پہلوان بن سکتا ہے مگر پہلوان انسان نہیں بن سکتا، یہ مقولہ ان پر سو فیصدی صادق آتا تھا۔ ابھی اس واقعے کو چند ہی دن گزرے تھے کہ انہوں نے ایک اور معرکہ سر کر ڈالا ۔
اس مرتبہ ان کا ہدف ایک پڑوسی دوکاندار تھا۔ ان کا ہوٹل ایک بوڑھے پیپل کے درخت کے نیچے قائم تھا ۔ اس کے ساتھ پانی کا ایک دستی نلکا لگا ہوا تھا جہاں سے لوگ سارا دن پانی کی بالٹیاں اور ڈبے بھر کر لے جاتے تھے۔ایک بار ایک میلا کچیلا شخص وہاں آیا اور کیچڑ میں لتھڑے ہوئے ہاتھ دھونے لگا ۔ اتفاق سے اس وقت نل کے کے نیچےہوٹل کے دھلے ہوئے برتنوں کا ٹیلہ بنا ہوا تھا ۔ چچا ڈھکن نے جب دن دیہاڑے یہ بے قاعدگی ہوتے دیکھی تو ان سے رہا نہ گیا۔ انہوں نے خوش اخلاقی سے اس شخص کو سمجھایا کہ وہ کھانے پینے ے برتنوں کے اوپر گندے ہاتھ نہ دھوئے مگر اس کوڑھ مغز پر رتی بھر اثر نہیں ہوا۔ اس پر ان کی رگِ پہلوانی پھڑک اٹھی، وہ مزید وقت ضائع کیے بغیر اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے، اور اس کا گریبان پکڑ کر اسے اتنے زور کا جھٹکا دیا کہ وہ زمین پر گر پڑا اور مٹی چاٹنے لگا ، لیکن وہ بھی بے حد ڈھیٹ آدمی تھا ، اٹھا اور ان سے تو تو میں میں کرنے لگا ۔ اس روانی میں اس کے منہ سے گالی پھسل گئی۔ وہ لکڑ پتھر ہضم کر سکتے تھے، مگر ان سے کسی صورت گالی ہضم نہیں ہوتی تھی۔چنانچہ انہوں نے باکسنک کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئےاس کے چہرے پر ایک زور دار مکہ مارا ۔اتفاق سے اس وقت انہوں نےانگوٹھیوں کا دستہ پہنا ہوا تھا۔ ایک انگوٹھی نے اپنا کام دکھایا اور اس کا فوٹو بگاڑ کے رکھ دیا۔ اس کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی اور وہیں پر ڈھیر ہو گیا ۔ چچا ڈھکن نے جب دیکھا کہ بندہ ناک آؤٹ ہو گیا ہےتو وہ وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ سامنے ایک خیراتی ہسپتال تھا جہاں سے اسے فوری طبی امداد موصول ہو گئی وگرنہ اس کا کام ہو گیا تھا۔ایک بار پھر ان کے خلاف مار پیٹ کا پرچہ درج ہو گیا مگر ان پر ان پرچے پرچیوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ جلد ہی ان کے وارنٹ ِ گرفتاری جاری ہو گئےمگر وہ اتنی آسانی سے ہاتھ آنے والے نہیں تھےانہوں نے ایک موالی کے ذریعے اسے پیغام بھجوایا کہ اگر اس نے ان کے خلاف درج کیس واپس نہیں لیا تو اس کی لاش بوری میں سے بر آمد ہوگی۔ چونکہ وہ شخص ان کے ہاتھ دیکھ چکا تھا اس لیے ذبح ہونےکرنے کیلئے لائی جانے والی بکری کی طرح سہم گیا ۔ چنانچہ اس نے ہاتھ جوڑ کر اپنی درخواست واپس لے لی کہ جان سب کو پیاری ہوتی ہے ۔
چچا ڈھکن عجیب وغریب قسم پہلوان تھے۔ڈنٹر پیلنے اور بیٹھک نکالنے میں ان کا دور دور تک کوئی ثانی نہیں تھا۔ وہ کھڑے کھڑے ہزار پانچ سو بیٹھک نکال لیتے تھےاور ذرا بھی نہیں تھکتے تھے۔ انہیں ورزش کرنے کے سینکڑوں طریقے معلوم تھے۔ وہ درخت کے ساتھ بندر کی طرح الٹا لٹک جاتے اور اس وقت تک لٹکے رہتے جب تک کہ شاخ ٹوٹ کر انہیں نیچے نہیں گرا دیتی ۔ نزدیک و دور کوئی درخت نہ ہوتا تو گھر کی چوکھٹ کے ساتھ لٹک جاتے ۔ چونکہ پرلے درجے کے بھلکڑ تھےاس لیے اکثر نیچے اترنا بھول جاتے تھےاور اس وقت تک لٹکے رہتے جب تک کہ ان کی بیگم ان کی پیٹھ پر جھاڑو مار کر انہیں نیچے اترنے کا حکم صادر نہیں کرتی۔
ایک بار جب انہیں لٹکےہوئے کافی دیر ہو گئی تو ان کے اہلِ خانہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ وہ یہ سمجھے کہ خدانخواستہ انتقال فرما رہے ہیں مگر چند ہی لمحات کے بعد وہ دھڑام سے نیچے آگئے ، ان کے ساتھ چوکھٹ بھی چرچرا کر ٹوٹ گئی ۔ اس حادثے میں ایک مرغی نیچے آ کر جاں بحق ہو گئی جب کہ دو چوزے اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھے۔
کبھی زیادہ جوش میں آجاتے تو گھنتوں تک مرغا بنے رہتے ۔ اس دوران وہ اپنے بچوں کو پیٹھ پر سوار کرادیتے اور انہیں زور زور سے اچھلنے کی تلقین کرتے ۔ اس طرح وہ اپنی طاقت اور حوصلے کی آزمائش کرتے ۔ جب اکھاڑے میں مصروفِ ورزش ہوتے تو پیٹھ پر چکی کا پاٹ رکھوا دیتے اور اس پر دو شاگرد بٹھا دیتے ۔ یہ عمل کافی دیر تک جاری رہتا حتیٰ کہ ان کی پیٹھ پر انٹار کٹکا کا نقشہ ابھر آتا ۔
انہیں اکھاڑہ کھودنے کا بھی بے حد شوق تھا۔ وہ صبح سویرے جسم کو تیل سے چپڑ کر تیار ہوجاتے اور کسی لے کر اکھاڑے میں گھس جاتےاور لگڑ بگڑکی طرح زمین کھودنا شروع کر دیتے۔ دیکھنے والےیہ سمجھتے کہ شاید ان کی انگوٹھی گم ہو گئی ہےجسے وہ مٹی میں تلاش کر رہے ہیں ۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ وہ اکھاڑے میں اوندھے لیٹ جاتے اور دو تین شاگردوں کو حکم دیتے کہ وہ انہیں سیدھا کر کے دکھائیں اور مٹھائی کے حقدار بن جائیں ۔ شاگرد بے چارے جلیبیوں کے لالچ میں اپنی پوری طاقت صرف کر دیتےمگر انہیں سیدھا کرنے میں ناکام رہتے۔
دراصل یہ ان کا خاص داؤ تھا جس کا وہ اکثر مظاہرہ کرتے رہتے تھےتاکہ دوسروں پر اپنی پہلوانی کا رعب جمایا جا سکے۔ ان کی ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اسقدر ورزش اور جان ماری کے بعد نہ تو مرغ یا بکرے کی یخنی پیتے تھے، نہ ہی مکھن بادام کا استعمال کرتے تھےبلکہ قریبی ہوٹل سے کڑک چائے کی ایک چینک منگوا کر پی لیتے تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ دودھ ، مکھن اور بادام وغیرہ انسان کو سست بنا دیتے ہیں جبکہ چائے پی کر انسان کی بیٹری چارج ہو جاتی ہے اور اس کی رگ رگ میں کرنٹ دوڑ جاتا ہے ۔ انہوں نےچائے کے بارے میں ایک شعر بھی گھڑ رکھا تھا:۔
ہر مرض کی دوا ہے، ہر درد کو بھگائے
وہ صف شکن بنیں گےپیتے رہے جو چائے
ایک بار جب انہیں لٹکےہوئے کافی دیر ہو گئی تو ان کے اہلِ خانہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ وہ یہ سمجھے کہ خدانخواستہ انتقال فرما رہے ہیں مگر چند ہی لمحات کے بعد وہ دھڑام سے نیچے آگئے ، ان کے ساتھ چوکھٹ بھی چرچرا کر ٹوٹ گئی ۔ اس حادثے میں ایک مرغی نیچے آ کر جاں بحق ہو گئی جب کہ دو چوزے اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھے۔
کبھی زیادہ جوش میں آجاتے تو گھنتوں تک مرغا بنے رہتے ۔ اس دوران وہ اپنے بچوں کو پیٹھ پر سوار کرادیتے اور انہیں زور زور سے اچھلنے کی تلقین کرتے ۔ اس طرح وہ اپنی طاقت اور حوصلے کی آزمائش کرتے ۔ جب اکھاڑے میں مصروفِ ورزش ہوتے تو پیٹھ پر چکی کا پاٹ رکھوا دیتے اور اس پر دو شاگرد بٹھا دیتے ۔ یہ عمل کافی دیر تک جاری رہتا حتیٰ کہ ان کی پیٹھ پر انٹار کٹکا کا نقشہ ابھر آتا ۔
انہیں اکھاڑہ کھودنے کا بھی بے حد شوق تھا۔ وہ صبح سویرے جسم کو تیل سے چپڑ کر تیار ہوجاتے اور کسی لے کر اکھاڑے میں گھس جاتےاور لگڑ بگڑکی طرح زمین کھودنا شروع کر دیتے۔ دیکھنے والےیہ سمجھتے کہ شاید ان کی انگوٹھی گم ہو گئی ہےجسے وہ مٹی میں تلاش کر رہے ہیں ۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ وہ اکھاڑے میں اوندھے لیٹ جاتے اور دو تین شاگردوں کو حکم دیتے کہ وہ انہیں سیدھا کر کے دکھائیں اور مٹھائی کے حقدار بن جائیں ۔ شاگرد بے چارے جلیبیوں کے لالچ میں اپنی پوری طاقت صرف کر دیتےمگر انہیں سیدھا کرنے میں ناکام رہتے۔
دراصل یہ ان کا خاص داؤ تھا جس کا وہ اکثر مظاہرہ کرتے رہتے تھےتاکہ دوسروں پر اپنی پہلوانی کا رعب جمایا جا سکے۔ ان کی ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اسقدر ورزش اور جان ماری کے بعد نہ تو مرغ یا بکرے کی یخنی پیتے تھے، نہ ہی مکھن بادام کا استعمال کرتے تھےبلکہ قریبی ہوٹل سے کڑک چائے کی ایک چینک منگوا کر پی لیتے تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ دودھ ، مکھن اور بادام وغیرہ انسان کو سست بنا دیتے ہیں جبکہ چائے پی کر انسان کی بیٹری چارج ہو جاتی ہے اور اس کی رگ رگ میں کرنٹ دوڑ جاتا ہے ۔ انہوں نےچائے کے بارے میں ایک شعر بھی گھڑ رکھا تھا:۔
ہر مرض کی دوا ہے، ہر درد کو بھگائے
وہ صف شکن بنیں گےپیتے رہے جو چائے