چڑھتے سورج کو سلام

یاز

محفلین
گزشتہ دو دن سے اخبارات اور ٹی وی وغیرہ سے کچھ پیشِ خدمت ہے۔ کم از کم میرے لئے اس میں کچھ حیرانی کی بات نہیں کہ یہ سب حسبِ توقع، حسبِ مزاج، حسبِ روایت وغیرہ ہے۔

کل کے روزنامہ جنگ سے

57.gif
 

یاز

محفلین
بی بی سی اردو اور روزنامہ ایکسپریس پہ لکھنے والے وسعت اللہ خان صاحب ایک بار پھر چھا شا گئے ہیں۔ کل کا کالم ملاحظہ ہو
حوالہ: ہم سب کی ویب سائٹ

پیارا میڈیا اور آرمی چیف

بھلے باقی دنیا کے میڈیا پر فیدل کاسترو چھایا ہوا ہو۔ پر ساہنوں کی؟
پاکستان کے دیسی میڈیا کا آخری وقت تک بس نہیں چلا کہ خود ہی نئے آرمی چیف کا تقرر کر دے اور اگر ایسا واقعی ممکن ہوتا تو آج چار جرنیل آرمی چیف ہوتے۔
وزیرِ اعظم نے اس بار بھی اتنی ہی احتیاط برتی جیسے جنرل قمر جاوید باجوہ کا نہیں ضیا الدین بٹ کا تقرر کر رہے ہوں۔ آخر وقت تک سادے پانی سے دہی جمانے کی حکمتِ عملی جاری رہی۔
جانے کب ترکمانستان سے واپس آئے، کب ذاتی طور پر فائل لے کر صدر ممنون کے پاس گئے اور پھر کوئی رسمی پریس ریلیز جاری کرنے سے پہلے پہلے خبر لیک ہو گئی۔ تاکہ بریکنگ نیوز کے عادی میڈیا کی کچھ تو تشفی ہو جائے۔
میڈیا کے پاس ککھ ایکسکلوسیو نہ تھا۔ چنانچہ اس طرح کے تبصروں پے گزارا ہو رہا ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ پروفیشنل سولجر ہیں۔ گویا ان سے پہلے کے سپاہ سالار واپڈا سے ادھار میں مانگے گئے تھے؟
جنرل باجوہ کو کمان اور ایڈمنسٹریشن کا وسیع تجربہ ہے۔ گویا کوئی ایسا سپاہ سالار بھی تھا جسے فوج کی کمان اور ایڈمنسٹریشن کے بجائے اریگیشن کا تجربہ تھا؟
وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ یعنی کیا پچھلوں کے ایمان کمزور تھے؟
جنرل باجوہ کا تقرر میرٹ پر ہوا ہے۔ تو کیا جنرل راحیل شریف دیہی علاقوں کے کوٹے پر اور جنرل کیانی پرچی پر آئے تھے؟
نئے آرمی چیف غیر سیاسی سوچ رکھتے ہیں۔ اب تک جو 15 سپاہ سالار مقرر ہوئے ان میں سے کچھ تقرری سے پہلے کیا کسی سیاسی تنظیم کے کارڈ ہولڈر بھی رہ چکے تھے؟

جنرل باجوہ چیف کی دوڑ میں ڈارک ہارس تھے۔ اس بات کا اردو ترجمہ شاید یہ ہے کہ وہ میڈیا خواہشات کی فیورٹ امیدواری فہرست سے باہر تھے یا جس اینکر و تجزیہ کار کی پیش گویانہ امیدوں پر ان کی تقرری سے پانی پھر گیا اس کے لیے ڈارک ہارس ہو گئے۔
جب میڈیا کو اندازہ ہو گیا کہ جنرل راحیل شریف کے عہدے کی مدت میں توسیع نہیں ہو رہی، جب یہ افواہ بھی دم توڑ گئی کہ آرمی چیف کے عہدے کی مدت تین برس سے بڑھا کر چار برس کی جا رہی ہے تاکہ راحیل شریف ایک سال اور رہ سکیں، جب اس اندازے نے بھی کھڑکی سے کود کے خود کشی کر لی کہ جنرل صاحب کو ان کی بے پناہ قومی مقبولیت اور شاندار خدمات کے عوض فیلڈ مارشل بنایا جا رہا ہے اور جب یہ امید بھی نوزائیدگی میں مر گئی کہ سعودی عرب نے جنرل شریف کو 34 رکنی مسلمان فوجی اتحاد کا سربراہ بننے کی پیش کش کی ہے اور جب بعض اینکروں نے ٹی وی سکرین سے کود کر جنرل صاحب کے پیر پکڑ کے ’رک جا او جانے والے رک جا‘ گایا اور پھر بھی کوئی چمتکار نہ ہو سکا تو میڈیا پر افسردگی سی چھا گئی مگر ایک آدھ دن کے لیے۔

اور پھر یہ ادھیڑ بن شروع ہو گئی کہ چاروں امیدواروں میں سینیئر کون ہے۔ حالانکہ چاروں کو ایک ساتھ ہی فوج میں کمیشن ملا اور دو چار دن آگے پیچھے جوائننگ رپورٹ کے سبب سینیارٹی کا کوئی فرق اگر پیدا ہوا بھی تو بال کی کھال کے برابر تھا پھر بھی اس نکتے پر روزانہ شام سات سے بارہ بجائے جاتے رہے کیونکہ روزنامہ نکالنا یا 24 گھنٹے کا نیوز چینل چلانا مذاق نہیں ہے۔

آپ کا کیا خیال ہے کہ اگلے تین برس کے لیے میڈیا کے تجزیے ختم ہو گئے؟
ارے نہیں صاحب! نئے آرمی چیف سے وزیرِ اعظم کی پہلی ملاقات کی تصویر سے ہی تشریحی دوڑ شروع ہو چکی ہے۔
دونوں کے درمیان حائل میز خالی کیوں تھی؟ کیا نئے سپاہ سالار کے آنے سے پہلے فائلیں دراز میں چھپا دی گئی تھیں؟ کم ازکم ایک خالی صفحہ ہی میز پر رکھ دیتے تاکہ یہ جتا سکتے کہ آج سے ہم دونوں ایک پیج پر ہیں۔
ملاقات کے دوران نواز شریف کا ایک ہاتھ اپنے گھٹنے پر کیوں تھا؟
جنرل باجوہ گود میں رکھی چھڑی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں بار بار گھما کر وزیرِ اعظم کو کیا ان کہا پیغام دینا چاہ رہے تھے؟ ملاقات میں کیا گفتگو ہوئی؟
تفصیلات میڈیا سے کیوں چھپائی جا رہی ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
امید فاضلی کے ایک مشہور شعر میں تحریف کو جی چاہ رہا ہے۔
چیف بنا کر سو مت جانا
میڈیا آخر میڈیا ہے​
 

یاز

محفلین
عدنان کاکڑ خان نے اس موقع پہ خاصی عمدہ سیٹائر لکھی ہے۔
حوالہ: ہم سب کی ویب سائٹ

افق سے قمر ابھرا، گیا دور گراں خوابی

ملت اسلامیہ اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ بھارت میں مسلم کش مودی ہے، امریکہ میں مسلم دشمن ٹرمپ آ گیا ہے، برما میں آنگ سان سوکی مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ ملت اسلامیہ کی اندرونی صفوں میں خوارج نے دہشت گردی کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ ایسے میں جب کسی طرف سے امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی تھی اور ہر طرف مایوسی کی گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی تو خدا کو امت مسلمہ کی حالت پر رحم آیا اور ایک ایسا قمر طلوع ہوا جس کی روشنی سے اب امت کا ہر دن عید اور رات شب برات ہو گی۔
رمضان میں جسمِ انسانی پر کیا کیا سختیاں ہوتی ہیں۔ سورج آگ برسا رہا ہوتا ہے۔ درجہ حرارت پچاس ڈگری سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ لو کے تھپیڑے ہر مسلمان کو جھلسا رہے ہوتے ہیں۔ نواز شریف صاحب نے سولہ سولہ گھنٹے بجلی بند کی ہوتی ہے۔ ایسے میں انتیس سخت دن گزر جاتے ہیں تو مغرب کے وقت سب اہل نظر اپنی اپنی منڈیروں پر چڑھ کر آسمان کو تکتے ہیں کہ آسمان پر قمر دکھائی دے اور ان کی عید ہو۔ کل جناب نواز شریف صاحب نے جب یہ اعلان کیا کہ انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو سپہ سالارِ لشکر اسلام مقرر کر دیا ہے، تو بخدا ان کے ہاتھ چومنے کو جی چاہا۔ ہم پاکستانیوں کی تو عید ہو گئی ہے۔ ویسے تو آپ سب پاکستانی بہن بھائیوں کو یہ حق الیقین ہو گا ہی کہ سارے سیاستدان کرپٹ ہوتے ہیں بلکہ فرعون بھی ہوتے ہیں، مگر ہم جانتے ہیں کہ خدائے بزرگ و برتر فرعون کے ہاتھوں بھی موسی کی پرورش کروانے پر قادر ہے۔
اگر سنہ 71 کے سقوط ڈھاکہ کے بعد کے پاکستان کے سپہ سالاروں پر نگاہ دوڑائی جائے تو ایک دلچسپ معاملہ سامنے آتا ہے۔ آپ پہلے سپہ سالاروں کے ناموں پر غور کریں: ٹکا خان، محمد ضیا الحق، مرزا اسلم بیگ، آصف نواز جنجوعہ، عبدالوحید کاکڑ، جہانگیر کرامت، پرویز مشرف، اشفاق پرویز کیانی، رانا راحیل شریف اور اب قمر جاوید باجوہ۔ آپ نے نوٹ کیا کہ جنرل قمر سے پہلے صرف تین سپہ سالار ایسے ہیں جن کے نام عربی زبان میں ہیں؟ یعنی جنرل محمد ضیا الحق، جنرل آصف نواز جنجوعہ اور جنرل رانا راحیل شریف۔
تاریخ پاکستان کو دیکھیں تو جنرل ضیا الحق کا دور اس کا سنہرا ترین باب دکھائی دیتا ہے۔ اس دور میں نہ صرف ہم نے ایک سپر پاور کو شکست دے کر کفار کے دلوں میں اپنا دبدبہ قائم کیا، بلکہ دنیا فتح کرنے کو مجاہدینِ اسلام کے خراسانی لشکر بھی تیار کر لیے تھے۔ دنیا بھر سے ڈالروں اور مجاہدین کی پاکستان کی مقدس سرزمین پر برسات ہونے لگی تھی۔ حتی کہ جنرل ضیا الحق کے دبدبے کا یہ عالم تھا کہ ان کے حکم پر اسرائیل تک نے مجاہدین کے لئے گدھوں کی مسلسل سپلائی کر بندوبست کیا۔ مگر بدقسمتی سے امریکی سازش نے جنرل ضیا الحق کو شہید کر دیا اور ان کی جگہ مرزا اسلم بیگ حکمران بنے، جن کے نام میں ہی غیر عربی حرف یعنی گ آتا ہے۔ ناموں کے حروف اور اعداد کا انسان کی شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنے نام کی وجہ سے ایرانی اثر میں تھے۔ جنرل آصف نواز کو فرشتہ اجل نے اتنی مہلت ہی نہ دی کہ امت کی خدمت کر سکتے، وہ تو بس کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن ہی کر سکے۔ پھر غیر عربی حروف کے نام والے سپہ سالاروں کا تاریک دور شروع ہوا، اور ایسے ناموں کی تاثیر سے ہم آپ کو پہلے ہی آگاہ کر چکے ہیں۔
خدا نے پاکستان پر رحمت کی اور جنرل رانا راحیل شریف کو سپہ سالار مقرر کیا گیا۔ ہم قارئین کو یاد دلاتے چلیں کہ وہ ابھِی ریٹائر نہیں ہوئے ہیں اور ان کے ہاتھ میں ڈنڈا موجود ہے۔ ان کے دور میں پاکستان نے خوارج کو عبرتناک شکست دی اور عساکر پاکستان کا دبدبہ ایسا ہوا کہ ادھر عرب شریف کے شاہوں نے بھی درخواست کی کہ جنرل راحیل شریف ادھر اپنے جیوش لے کر جائیں اور ان کی مدد کریں۔ مگر ان کو مہلت نہ مل پائی کہ عرب شریف پر توجہ کر سکتے۔
اب جنرل قمر جاوید باجوہ آئے ہیں تو اپنے عربی نام کی برکت سے ہی وہ بھارت، افغانستان، ایران، عراق، شام وغیرہ کے علاقوں میں وہ فتح و نصرت کے جھنڈے گاڑیں گے اور بدامنی ختم کریں گے۔ ہمیں توقع ہے کہ جنرل ضیا الحق کی طرح وہ بھی ہر مہینے اپنی بیٹریاں چارج کروانے کے لئے عمرہ کیا کریں گے اور جنرل ضیا الحق کے چھوڑے ہوئے مشن اور مجاہدین کا بندوبست کریں گے۔
باجوہ قبیلے کے متعلق عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ وہ مقامی ہندوستانی نسل کے جاٹ ہیں اور سورج بنسی راجپوتوں کی ایک شاخ ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد ہم نے تحقیق کی ہے تو معلوم ہوا ہے کہ باجوہ قبیلے کا تعلق اصل میں جزیرہ نمائے عرب کے صحرائے ربع الخالی سے ہے اور یہ قبیلہ محمد بن قاسم کے لشکر میں شامل ہو کر ہندوستان آیا تھا۔ ان افراد کی پرجلال شخصیت اور سورج کی طرح روشن چہرے دیکھ کر مقامی لوگوں نے ان کو سورج بنسی کہنا شروع کر دیا۔ کیونکہ یہ شمشیر کے دھنی تھے تو رفتہ رفتہ راجپوت مشہور ہو گئے۔ یوں پاکستان کے بانیوں کا نام لیا جائے تو باجوہ قبیلے کے لوگوں کو اس فہرست میں شامل کرنا لازم ہے۔ مطالعہ پاکستان پڑھنے والا ہر شخص اس بات سے واقف ہے کہ محمد بن قاسم کے ساتھیوں نے ہی پاکستان بنایا تھا۔
قمر کا معاملہ تو ہم بتا چکے ہیں کہ ماہ بدر کو کہتے ہیں جو گھپ اندھیروں میں راستہ دکھاتا ہے۔ باجوہ قبیلے کی بات بھی ہو گئی کہ اصل میں یہ عرب ہیں اور پاکستان کے بانیوں میں شامل ہیں۔ اب لفظ جاوید کا ذکر ہو جائے۔ جاوید فارسی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے ہمیشہ رہنے والا، زندہ جاوید، جاوید اقبال۔
اب جنرل قمر جاوید باجودہ صاحب کا نام عربی حروف میں ہے اور اس میں ایک بھی عجمی لفظ شامل نہیں ہے، ان کا قبیلہ پاکستان کا بانی ہے، اور وہ امت مسلمہ کے لشکر کے سپہ سالار مقرر ہوئے ہیں تو انشاءاللہ ان کا نام ہمارے اینکر اور کالم نگار زندہ جاوید کر دیں گے۔ اپنی حکمت اور دور اندیشی سے مستقبل میں دیکھ لینے حکیم الامت شاعر مشرق علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ نے درست ہی تو فرمایا تھا کہ
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے قمر ابھرا، گیا دور گراں خوابی
نوٹ: امید ہے کہ دوسرے اہم اینکر اور صحافی حضرات اس اہم مضمون کی اہم ترین ریسرچ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان نکات کو مزید پالش کریں گے اور ربع الخالی میں موجود باجوہ قبائل کا آبائی قریہ بھی کھوج نکالیں گے۔ کوئی اچھا محقق اگر محنت کرے تو سید پرویز مشرف کے بعد سپہ سالاروں کی فہرست میں ایک اور سید کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ نیز دیبل میں ایک مسجد کا ذکر بھی ہم نے نسیم حجازی کے ایک ناول میں پڑھا تھا جسے دیبل کا مندر ڈھا کر اس کی جگہ تعمیر کیا گیا تھا اور اس کا نام غالباً مسجد باجوائی اولٰی تھا۔ اس پر بھی کوئی ساتھی تحقیق کرے تو مناسب ہو گا۔​
 
بقول یار لوگ"جاٹ" کے چیف لگتے ہی سرحد پار خالصتان کی تحریک میں نیا ولولہ آ گیا ہے۔ اب جلد ہی خالصتان آزاد ہو جائے گا۔
میں سوچ رہا شیخوپورہ کے چپے چپے پر لکھوا دوں
تیرا چیف ،میرا چیف
سپہ سالار جٹ شریف
عین ممکن ہے کل کو کسی ضلع کا مئیر ہی بنا دیں۔۔وغیرہ وغیرہ
 
جوائنٹ چیف تو اپنا گرائیں ہے اس کے گهر کے پاس موجود مغل گارڈنز میں ہم ہر گرمیوں میں دس بارہ چکر لگاتے ہیں
اور
صرف چیف دی ماں ساڈے آبائی ضلع دی اے ایس لئی اوناں دوواں دی طرفوں سارے سلاماں نوں

وعلیکم السلام
:boxing::cool2:
 
پتہ نہیں یہ وسعت اللہ خان کیوں دل جلا ہے
نیا چیف واقعی اعلی ہے
اسی کے دور میں کشمیر آزاد ہوگا انشاءللہ
فلسطینیوں کو ان کا ملک مل جاوے گا
ایل او سی سے بھارتی فوج بھاگ جائے گی
اوباما ایبٹ اباد حملے پر معافی مانگے گا
کالا باغ بنے گا
ریمند دیوس واپس ملے گا قید میں ڈالا جائے گا
عافیہ آزاد ہوگی
جاری
 
Top