ابن انشا چڑیا اور چڑا

شمشاد

لائبریرین
ايک تھي چڑيا، ايک تھا چڑا، چڑيا لائي دال کا دانا، چڑا لايا چاول کا دانا، انہوں نے مل کر کچھڑي پکائي، دونوں نے پيٹ بھر کر کھائي، آپس ميں اتفاق ہو تو ايک ايک دانے کي کچھڑي بھي بہت ہوتي ہے۔

چڑا بيٹھا اونگھ رہا تھا کہ اس کے دل ميں وسوسہ آيا کہ چاول کا دانا بڑا ہوتا ہے، دال کا دانا چھوٹا ہوتا ہے۔ پس دوسرے روز کچھڑي پکي تو چڑے نے کہا اس میں سے چھپن حصے مجھے دے اور چواليس حصے تو لے، اے بھاگوان پسند کر يا نا پسند کر ۔ حقائق سے آنکھ مت بند کر ، چڑے نے اپني چونچ ميں سے چند نکات بھي نکالے، اور بي بي کے آگے ڈالے۔ بي بي حيران ہوئي بلکہ رو رو کر ہلکان ہوئي کہ اس کے ساتھ تو ميرا جنم کا ساتھ تھا ليکن کيا کر سکتي تھي۔

دوسرے دن پھر چڑيا دال کا دانا لائي اور چڑا چاول کا دانا لايا۔ دونوں نے الگ الگ ہنڈيا چڑھائي ، کچھڑي پکائي ، کيا ديکھتے ہیں کہ دو ہي دانے ہيں، چڑے نے چاول کا دانا کھايا، چڑيا نے دال کا دانا اٹھايا ۔ چڑے کو خالي چاول سے پيچش ہوگئي چڑيا کو خالي دال سے قبض ہو گئي۔ دونوں ايک حکيم کے پاس گئے جو ايک بلا تھا، اس نے دونوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھيرا اور پھيرتا ہي چلا گيا۔ ديکھا تو تھے دو مشت پر۔

يہ کہاني بہت پرانے زمانے کي ہے۔ آج کل تو چاول ايکسپورٹ ہو جاتا ہے اور دال مہنگي ہے۔ اتني کہ وہ لڑکياں جو مولوي اسماعيل ميرٹھي کے زمانے ميں دال بگھارا کرتي تھيں۔ آج کل فقط شيخي بگھارتي ہیں۔
 

Fari

محفلین
بہت شکریہ- میں لاہور سے فرخندہ ہوں- باقی تعارف میریprofile میں ہے- مزید کچھ خاص نہیں- :)
 

میر انیس

لائبریرین
شمشاد میں نے بھی یہ کہانی سنی ہے پر آگے جاکر تمہاری کہانی سے تھوڑی سی مختلف ہے کہو تو وہ سنائوں۔
خوش آمدید فرخندہ پر تعارف صرف اتنا کافی نہیں میری جان بھی شمشاد نے جب تک نہیں چھوڑی تھی تب تک میں نے خود سے اپنے تعارف کا دھاگہ نہیں کھولا تھا
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ- میں لاہور سے فرخندہ ہوں- باقی تعارف میریprofile میں ہے- مزید کچھ خاص نہیں- :)

فرخندہ اردو محفل میں خوش آمدید

" تعارف " کے زمرے میں اپنے نام سے دھاگہ کھول کر تعارف دیں تا کہ دوسرے اراکین بھی آپ کے متعلق جان سکیں۔
 

Fari

محفلین
فرخندہ اردو محفل میں خوش آمدید

" تعارف " کے زمرے میں اپنے نام سے دھاگہ کھول کر تعارف دیں تا کہ دوسرے اراکین بھی آپ کے متعلق جان سکیں۔
شکریہ۔
ارے اتنا مشکل کام؟ میرے خیال میں ابھی تو میرا تعارف اتنا خاص نہیں کہ ایک دھاگا اس پہ ضائع کر دیا جائے۔:)
 

نین کنول

محفلین
ايک تھي چڑيا، ايک تھا چڑا، چڑيا لائي دال کا دانا، چڑا لايا چاول کا دانا، انہوں نے مل کر کچھڑي پکائي، دونوں نے پيٹ بھر کر کھائي، آپس ميں اتفاق ہو تو ايک ايک دانے کي کچھڑي بھي بہت ہوتي ہے۔

چڑا بيٹھا اونگھ رہا تھا کہ اس کے دل ميں وسوسہ آيا کہ چاول کا دانا بڑا ہوتا ہے، دال کا دانا چھوٹا ہوتا ہے۔ پس دوسرے روز کچھڑي پکي تو چڑے نے کہا اس میں سے چھپن حصے مجھے دے اور چواليس حصے تو لے، اے بھاگوان پسند کر يا نا پسند کر ۔ حقائق سے آنکھ مت بند کر ، چڑے نے اپني چونچ ميں سے چند نکات بھي نکالے، اور بي بي کے آگے ڈالے۔ بي بي حيران ہوئي بلکہ رو رو کر ہلکان ہوئي کہ اس کے ساتھ تو ميرا جنم کا ساتھ تھا ليکن کيا کر سکتي تھي۔

دوسرے دن پھر چڑيا دال کا دانا لائي اور چڑا چاول کا دانا لايا۔ دونوں نے الگ الگ ہنڈيا چڑھائي ، کچھڑي پکائي ، کيا ديکھتے ہیں کہ دو ہي دانے ہيں، چڑے نے چاول کا دانا کھايا، چڑيا نے دال کا دانا اٹھايا ۔ چڑے کو خالي چاول سے پيچش ہوگئي چڑيا کو خالي دال سے قبض ہو گئي۔ دونوں ايک حکيم کے پاس گئے جو ايک بلا تھا، اس نے دونوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھيرا اور پھيرتا ہي چلا گيا۔ ديکھا تو تھے دو مشت پر۔

يہ کہاني بہت پرانے زمانے کي ہے۔ آج کل تو چاول ايکسپورٹ ہو جاتا ہے اور دال مہنگي ہے۔ اتني کہ وہ لڑکياں جو مولوي اسماعيل ميرٹھي کے زمانے ميں دال بگھارا کرتي تھيں۔ آج کل فقط شيخي بگھارتي ہیں۔

میں نے ایک دفعہ اپنے بچوں کو یہ کہانی سنانا شروع کی تو پہلی لائن سنثے ہی بیٹی بولی کہ ان لوگوں نے پیزا کیوں نہیں آرڈر
کر دیا :) لو جی کہانی ہی ختم
 
Top