چھاچھی بولی: لسانی وادبی جائزہ

Linguistics is one of the most complicated and useful branches of literature. The developed nations of the world have achieved high standards of research in this particular field by studying and analyzing their languages. Unfortunately, we have not put serious efforts in this regard. In this article, an endeavor has been done to highlight the importance of Chachi language.
لِسانیات ایک حد درجہ مفید مگر پیچیدہ اور مشکل علم ہے۔ دُنیا کی ترقی یافتہ اقوام نے اس علم کے ذریعے اپنی زبانوں اورذیلی بولیوں کا گہرا لِسانی مطالعہ کر کے اعلا درجے کا تحقیقی کام کیا ہے اس کے بر عکس ہمارے ہاں ا س علم کی تحصیل اور فروغ کے لیے کسی سطح پر کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ علمِ لِسانیات سے اس بے خبری کے باعث ہم کئی لسانی مسائل کا شکار ہیں۔ہمارے ہاں زبانوں اور بولیوں کے ضمن میں کئی مغالطے مسلمّات کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ پاکستان کی زبانوں اور بولیوں کے حوالے سے ہمارا مطالعہ گریئر سن کی کتابThe Linguistic Survey of Indiaسے آگے نہیںبڑھا؛ اس تہی دامنی کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ علاقائی زبانوں کے مختلف لہجوں اور بولیوں کو الگ الگ زبان کی حیثیت سے متعارف کرنے کی رسم اب عام ہو گئی ہے۔ مختلف مقاصد کے لیے کی گئیں اس طرح کی کوششوں نے کئی لِسانی گُمراہیاں پیدا کر دی ہیں ۔ جن کی وجہ سے زبانوں اور بولیوں کے درمیان فاصلے بڑھے ہیں اور روز بہ روز ا ن میں اضافہ ہو تا جاتا ہے۔

کوئی بھی زندہ زبان ایک مخصوص جغرافیائی حصار میں مقید نہیں رہ سکتی؛ اس کا دائرہ عمل جیسے جیسے وسیع ہو تا جاتا ہے اس میں لہجوں کا تنوع پیدا ہو جاتا ہے۔لہجہ یا بولی کسی علاقے کے مخصوص جغرافیے اور تمدنی میلانات سے ابھرتی ہے۔لفظ کی ادایگی اور مقامی محاورے کی شمولیت اس بولی اور لہجے کو انفرادیت کا رنگ عطا کرتی ہے۔ دُنیا کی بڑی زبانیں جیسے عربی ، فارسی، انگریزی وغیرہ کے متعدد لہجے اُن زبانوں کی وسعت اور ہمہ گیر یت کے عکاس ہیں ۔ اگر ہر لہجے یا بولی کو ایک الگ زبا ن کے نام سے پکارا جانے لگے تو دُنیا میں زبانوں کی تعداد کا تعین کرنا بھی مشکل ہو جائے۔ بولی یا لہجہ انفرادی نقوش رکھنے کے باوجود کسی زبان کے ایک جزو کی حیثیت رکھتا ہے۔

پنجابی زبان اپنے لہجوں اور بولیوں کے اعتبار سے دُنیا کی امیر زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔مشرقی اور مغربی پنجاب میں اس زبان کی متعدد بولیاںبولی جاتی ہیں۔ یہ بولیاں ’’ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است‘‘ کے مصداق اپنی الگ شناخت اور منفرد خصوصیات کی حامل ہیں۔ تا ہم یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ ان لہجوں اور بولیوں کی بقا اور ترقی لِسانی وحدت میں مضمر ہیں؛ جس طرح شاخِ بُریدہ شجر سے جُدا ہو کر اپنی حیثیت قائم نہیں رکھ سکتی اور قطرہ،و قلزم سے تعلق توڑ کر اپنا بھر م کھو دیتا ہے اسی طرح لہجوں اور بولیوں کی وقعت زبان سے وابستگی کا نتیجہ ہے۔ زبان سے الگ ہو کر بولیوں اور لہجوں کا اپنے وجود کو قائم رکھنا ممکن نہیں۔

صوبۂ پنجاب کے انتہائی شمال مغرب میں ضلع اٹک کا ایک زر خیز خطہ ’’چھچھ ‘‘ آباد ہے جو دریائے اباسین (سندھ) کے پہلو میں شرقاً غرباً ۱۹ میل (چوڑائی میں) پھیلا ہواہے۔ جغرافیائی طور پر یہ خطہ ۱۹۔۷۲ سے ۳۵۔۷۲ درجے طول بلد مشرقی اور ۵۰۔۳۳ سے ۵۹۔۳۳ درجے عرض بلد شمالی کے درمیان واقع ہے۔ علاقہ چھچھ کے مشرق میں کوہ گنگر، مغرب میں اٹک قدیم کی پہاڑیاں ، جنوب میں کامرہ کی پہاڑی اور جرنیلی سڑک جب کہ شمال میں دریائے سندھ واقع ہے۔ خواجہ محمد خا ن اسدؔ کے بہ قول:

چھچھ کا پُرانا نام چھچھ چو راسی ہے کیوںکہ انگریزوں کی آمد سے پہلے اس کے چوراسی}۸۴{دیہات تھے۔(۱)

چھچھ کا سب سے بڑا قصبہ حضرو ہے جسے بھائی بالک سنگھ(سکھوںکا گیارہواں گُرو) حکیم محمد یوسف حضروی(نام ور طبیب) اور اعجاز حسین حضروی (موسیقی کا ایک اہم نام) کا مُولد و منشا ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دریائے سندھ کی قُربت کے باعث علاقہ چھچھ کی زمین زرخیزی میں اپناجواب نہیں رکھتی ؛ گندم ، مکئی، گنا، تمباکو اور چنے یہاں کی خاص فصلیں ہیں۔ چھچھ کا تمباکوکو اپنی اعلا کوالٹی کے باعث ملک اور بیرونِ ملک میں خاص شہرت رکھتا ہے۔ منشی امین چند نے ڈیڑھ سو سال پہلے اپنے سفر نامے میں اس علاقے کی زرخیزی کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

علاقہ چھچھ ایک ہم وار میدان ہے ، پیداواری میں بڑا کامل اور زمین وہاں کی اکثر چاہی ہے بل کہ تمام ضلع ]اُس وقت یہ علاقہ راول پنڈی ضلعے میں شامل تھا[میں اس علاقے کے برابر دوسرا کوئی علاقہ اچھا نہیں ہے۔ باقی بھی تمام ضلع میں یا تو پہاڑ ہے یا نشیب و فراز ہے، غرض کہ اس چھچھ کے برابر کوئی کوئی مسطح قطعہ میدان کا نہیں اور یہاں کی ایک نقل مشہور ہے ، وہ یہ ہے: چھچھ ماں سمندر کی جو مانگے سو لے۔‘‘(۲)

چھچھ کی وجۂ تسمیہ کے متعلق متعدد روایات وآر املتی ہیں۔ بعض مؤرخین کے نزدیک چھچھ یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی دلدلی زمین کے ہیں او ر اس علاقے کو سکندرِ اعظم نے یہ نام دیا؛ بعض کے خیال کے مطابق یہ علاقہ چوں کہ چھاج سے ظاہری مشابہت رکھتا ہے اس لیے چھاج یا چھج یا چھچھ بن گیا۔ کُچھ اس نام کی نسبت سندھ کے حکمران راجاداہر کے باپ راجا چچ سے ظاہر کرتے ہیں ؛ جب کہ کئی ایک کے نزدیک چھچھ کا لفظ چھگ ،چہچ ، چیچ، شش، شاش، چاچ، چھاپ وغیرہ کی مبدل صورت ہے۔ متذکرہ لفظوں میں سے اکثر کے معنی دلدل یا دلدلی زمین کے ہیں؛ چوں کہ علاقہ چھچھ کی زمین دلدلی ہے اس لیے ان قیاسات کو کُلی طور پر ساقط الاعتبار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس علاقے کو پہلی بار کب یہ نام ملا، ہنوز تشنۂ تحقیق ہے۔ البتہ اٹک گزیٹیئر Attock Gazetteerمیں ماہرین آثار قدیمہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ صدیوں پہلے اس علاقے کا نام ’چھکشا۔‘یا’شکشا‘(Chhuksha)تھا جو ٹیکسلا کے راج دھانی کا ایک صوبہ تھا۔(۳)

معروف چینی سیاح فاہیان نے اپنے سفر نامے میں چھچھ ہزارہ کے لیے سر شا ساہزرہ (Shirshasa-Hasra)کے نام استعمال کیا ہے۔ جس کے معنی ہزار سر کے ہیں۔ (۴)

چھچھ اپنی بے مثال زرخیزی کے ساتھ ساتھ ہزاروں سال پُرانا تاریخی پس منظر بھی رکھتا ہے۔ یہ خطہ یونانیوں سے افغانیوں تک اکثر و بیش تر حملہ آوروں کی گزر گاہ رہا ہے۔ آثارِ قدیمہ اور نوادرات کی دریافت نے اس خطے کی تاریخی قدر و قیمت کو مزید اعتبار بخشا ہے۔ نوادرات میں کشان عہد کے دو کتبے خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ یہ کتبے خروشتی رسم الخط میں ہیں اور با لترتیب گڑھی متنی اور کامرہ سے دست یاب ہوئے ہیں۔ کامرہ سے ملنے والا کتبہ کنشکِ دوم]کنشکا[کی پیدائش سے متعلق ہے۔ ۱۰۰۸ء میں سلطان محمود غزنوی اور راجا انند پال کے درمیان ایک معرکہ چھچھ کے میدان میں ہوا؛ اس معرکہ میں انند پال کو شکستِ فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ مغلیہ عہدِ حکومت میں یہ خطہ خصوصی توجہ کا مرکز رہا؛ عہدِ جہاں گیر میں کامل خان صوبہ دار قلعہ اٹک اور نقلی شاہ شجاع کے درمیان ۱۱۷۷ھ میں ہارون (چھچھ کا ایک گاؤں) کے مقام پر ایک خوں ریز لڑائی ہوئی ، میدان کامل خان کے ہاتھ رہا اور نقلی شاہ شجاع اور اس کے بہت سے ساتھی بڑی تعداد میں تہ تیغ ہوئے اور بچ کر بھاگنے والے دریائے سندھ میں ڈوب کر ہلاک ہوئے۔ ۱۸۱۳ء میں افغانوں اور سکھوں کے درمیان ایک بڑی جنگ جو ’’جنگِ اٹک‘‘ کے نام سے مشہور ہے اسی علاقہ میں لڑی گئی۔ یہ خطہ چوں کہ رنگا رنگ اور مختلف النوع تہذیبوں کی آماج گاہ رہا ہے اس لیے اس علاقے کا تمدنی منظر نامہ متعدد تہذیبوں کے تال میل سے وجود پذیر ہوا۔

علاقہ میں بولی جانے والی زبان کو ’’چھاچھی‘‘کا نام بیسویں صدی میں دیا گیا؛ اس سے قبل اس بولی کو متعدد ناموں جیسے ہند کی، ہندی، ہندکو اور پنجابی وغیرہ سے پُکارا جاتا تھا۔ اس بولی کا تعلق پنجابی زبان سے ہے اور اپنے خدو خال کے اعتبار سے پنجابی زبان کی دیگر بولیوں جیسے پوٹھوہاری، دھنی، گھیبی ، ہندکو، پہاڑی اور ڈوگری وغیرہ سے مختلف اور منفرد ہے۔ تا ہم اکثر ماہرین لسانیات اور مؤرخین نے چھاچھی بولی کے ڈانڈے انھی متذکرہ بولیوں سے ملائے ہیں اور اس کی علاحدہ حیثیت کو جھٹلایاہے۔ زبانیں اور بولیاں ایک دوسرے سے اخذ و استفادہ کرتی ہیں اور اس لین دین سے مختلف زبانوں اور بولیوں میں لسانی ، ہیئتی ، لفظی اور ترکیبی سطح پر اشتراک کی کئی صورتیں جنم لیتی ہیں مگر ان مشترکہ عناصر کی موجودگی کسی زبان کی علاحدہ حیثیت کو مجروح نہیں کرتی ۔ اس میں کُچھ کلام نہیں کہ چھاچھی بولی نے قُرب جوار کی کئی بولیوں سے استفادہ کر کے اپنے دائرے کو وسعت آشنا کیا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اُس نے اپنی جداگانہ حیثیت کو نہ صرف بر قرار رکھا ہے بل کہ اس کو مزید استحکام بھی بخشا ہے۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک نظر ا ن آرا اور اقوال پر ڈال لیں جو ماہرینِ لسانیات اور مؤرخین نے علاقہ چھچھ کی بولی سے متعلق پیش کیے ہیں:

(الف) محمد آصف خاں نے پنجابی زبان کی مختلف بولیوں کومند رجہ ذیل تین بڑے گروہوں میں بانٹا ہے۔
۱۔ پوربی ۲۔ پچھمی ۳۔مرکزی(ماجھی)
اور چھاچھی بولی کو دوسرے گروہ پچھمی میں شامل کیا ہے۔ ان کے خیال کے مطابق چھاچھی کیمبل پور (اٹک)اور ہزارہ میں بولی جاتی ہے۔
(ب) ڈاکٹر شہباز ملک نے اپنی کتاب ’’پنجابی لسانیات‘‘ میں پنجابی زبا ن کی بولیوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ مشرقی اور مغربی۔ چھاچھی کو مغربی حصے میں شامل کرتے ہوئے انہوں نے چھاچھی کو ذیل میں لکھا ہے:

چھاچھی: کیمبل پور دے علاقے نوں چھچھ آکھیا جاندا اے ؛ ایہہ علاقہ ایبٹ آباد تے راول پنڈی کیمبل پور ، ادھ ہزارہ تے کُجھ پشاور دا علاقہ ؛ ایتھوں دے لوگ چھاچھی اکھواندے نیں، ایس علاقے دی بولی اے۔ ایسے لئی گیانی ہیر ا سنگھ ایس نوں پہاڑی دا ناں دے کے ایہدے علاقے وچ ایبٹ آباد ، کوہ مری تے پونچھ وغیرہ نوں شامل کر دے نیں تے ایہنوں ڈوگری نال رلان دا جتن کردے نیںپر ایہہ گل شاید اوہ پونچھ رلان مگروں کہندے نیں۔ اصل وچ پونچھ ایہدے وچ شامل نہیں تے نہ ای چھاچھی بولی ڈوگری نال ملدی اے۔ ایہہ پوٹھوہاری دے کھاتے وچ ای زیادہ جاندی اے۔ (۶)

(ج) ڈاکٹر احمد حسین قریشی قلعداری کے قول کے مطابق پوٹھوہار، آزاد کشمیر، ہزارہ اور کیمبل پور کے علاقہ کی زبان ’’لہندی ‘‘ کہلاتی ہے۔ جہلم اور راول پنڈی کے علاقے اسی کی زیرِ اثر ہیں۔ (۷) ڈاکٹر احمد حسین قریشی سے پہلے مغربی پنجاب کی زبان کو سر جارج گریئر سن نے اپنی مشہور کتاب Linguistic Survey of India میں ’لہندا‘یا’ لہندی‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔

(د) سلیم خان نے ’’پنجابی زبان دا اتقاء‘‘ میں چھاچھی بولی کو چھبالی (چھبلی)بولی کا ایک لہجہ یا ذیلی بولی (پِڑ بولی) قرار دیا ہے؛ مگر اسی کتاب میںانہوں نے چھبالی ، چھبیلی اور چھاچھی کو پوٹھوہاری کی ذیلی بولیاں قرار دیا ہے ؛ ملاحظہ ہو ایک اقتباس:

دریائے جہلم تے دریائے سندھی دے وچکار کیمبل پور (اٹک ) دے علاقے ودی ایک بولی چھبالی ، چھبیلی یا ں چھاچھی) ایہہ ہندکو توں وکھری اِک بولی اے؛ ایہدے وچ پہاڑی تے پوٹھوہاری دے لفظ ملدے نیں۔ جس طرح چلنا تو جُلنا ۔ اصل وچ چھبالی تے چھاچھی پوٹھوہاری دیاں پِڑ بولیاں نیں۔ (۸)

(ہ) سکندر خان (مؤلف تاریخِ وادیِ چھچھ و دامنِ اباسین) نے علاقہ چھچھ کی زبان کو ’ہندکو‘ قرار دیا ہے اور ان کے بہ قول:

محققین کے مطابق پاک و ہند کی قدیم ترین زبان ہے جو کہ اپنی اصلی حالت میں اس وقت صرف وادیِ چھچھ میں بولی جاتی ہے۔(۹)

آگے چل کر فرماتے ہیں :

پنجابی کی اولین شکل ہمیں ہندکو زبان میںنظر آتی ہے، اس لیے ہم ہندکو کو اُردو زبان کی بنیاد قرار دیں گے جو شور سینی زبان کی شاخ ہے اور اپنی شکل میں صرف وادیِ چھچھ میں بولی جاتی ہے۔(۱۰)

( و) عبدالغفور قریشی اپنی کتاب میں پوٹھوہاری بولی کی ذیل میں رقم طراز ہیں:

ایہہ جہلم توں پارپوٹھوہار دے علاقے وچ بولی جاندی اے ، ایس علاقے وچ راول پنڈی ، کیمبل پور، گجرات وغیرہ شامل ہیں۔ (۱۱)

(ز) انور بیگ اعوان اپنی کتاب ’’دھنی ادب ثقافت ‘‘ میں لکھتے ہیں:

کیمبل پور کا ضلع تو چھچھ میدان میں واقع ہے ۔ ان کی بولی کا مخصوص لہجہ چھاچھی ہے۔ (۱۲)

متذکرہ بالا آرا محض قیاس اور اندازے پر مبنی ہیں؛ یہ آرا مصنفین و مؤرخین کے تاثراتی رُخ کی تعیین میں تو مدد گار ہو سکتی ہیں مگر لسانیات کے اصولوں سے کامل طور پر ہم آہنگ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام آرا کے مطالعے سے کسی ایک نتیجے تک پہنچنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ ماہرین کے نقطۂ نظر کے باہمی اختلاف کے باعث اس بولی کے ضمن میں کئی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں جنہوں نے اس بولی کی جداگانہ حیثیت کو مشکوک بنا دیا ہے۔ چھاچھی بولی کو کیمبل پور (اٹک ) اور ہزارہ کی زبان بتایا گیا ہے جو قطعی طور پر درست نہیں؛ یہ نقطۂ نظر علاقہ چھچھ کی جغرافیائی حدود سے لا علمی اور اردگرد کی بولیوں سے اغماض کے نتیجے میں پروان چڑھا ہے۔ ضلع کیمبل پور(اٹک) میں چھاچھی کے علاوہ جندالی، گھیبی اور جنگی بولیاں بولی جاتی ہیں جب کہ ہزارہ (چند دیہات جو چھچھ پٹی میں شامل ہیں کو چھوڑ کر )میں ہندکو بولی جاتی ہے جو اپنے قواعد و لفظیات میں چھا چھی سے مختلف ہے۔ اسی طرح چھاچھی کو پوٹھوہاری کی ذیلی بولی قرار دینا بھی دونوں بولیوں سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے اور اس کا حقیقت سے کچھ علاقہ نہیں۔

چھاچھی بولی کے قُرب و جوار میںہندکو ، گھیبی، دھنی اور پوٹھوہاری بولیاںبولی جاتی ہیں ۔علاقائی قُربت کے باعث ان بولیوں کے ساتھ چھاچھی کے تعلقات اور روابط بھی انتہائی مضبوط اور گہرے ہیں۔ چوں کہ ان ساری بولیوں (بہ شمول چھاچھی)کا بنیادی لِسانی تعلق ایک ہی زبان (پنجابی) سے ہے اس لیے قواعد ، گرامر، صرف اور نحو کے بہت سارے قوانین اور اصول و ضوابط ایک جیسے ہیں۔ اس اتحاد اور ہم آہنگی کے باوجود ہر بولی کے دامن میں ایسے عناصر موجود ہیں جو اس کی جداگانہ حیثیت اور انفرادی صورت کے غماز ہیں۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے ماہرین لسانیات نے زبان اور بولیوں کے ان اشتراکی اور اختلافی پہلوؤں سے صرفِ نظر کیا ہے۔ مقامی بولیوں اور زبانوں کے سلسلے میں اب تک مستشرقین اور مغربی مؤرخین کی تحقیقات کو سند ماناجاتا ہے اور اس سے سرِ مو انحراف کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اس اندھی تقلید کے نتیجے میں کئی غلط فہمیوں کو اب مسلمّات کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور ہم اپنی زبانوں اور اُن کے لہجوں کے تمام گوشوں اور پہلوؤں سے پورے طور پر آگاہ نہیں ہو سکے ہیں۔

علاقہ چھچھ اپنے علم و فضل کے اعتبار سے ہندوستان کا بخارا کہلاتا رہا ہے ۔ یہاں کے علماء و فضلا صرف ہندوستان کے لیے ہی مرجعِ فیض نہیں رہے بل کہ ان کے دامنِ تربیت سے تُرکستان ، ایران، افغانستان اور دیگر اسلامی ممالک کے تشنگانِ علم نے کسبِ فیض کیا۔ علمی مراکز سے دُوری، اشاعت کی سہولیات کے فقدان اور حملہ آوروں کی اُکھاڑ پچھاڑ نے اس علاقے کے علمی نشانات اور تخلیقی کارناموں کو بڑی حد تک ضائع کر دیا ہے؛ رہی سہی کسر دریائے سندھ کے طوفانوں نے پوری کر دی جس کے منہ زور لہریں گاؤں گاؤں کا طواف کر کے نوادراتِ قلمی کو اپنے ساتھ بہا لے جاتی رہی ہیں۔ سرمایۂ شعر و ادب کے ضیاع کے باعث اس خطے کی علمی و ادبی تاریخ کا مکمل جائزہ لینا ممکن نہیں۔ امتدادِ زمانہ اور گردشِ دوراں سے جوادب محفوظ رہا ہے وہ ایک دوسرے سے پوری طرح پیوستہ نہیں۔ اس زمانوی بُعد سے قدم قدم پر تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ چھاچھی شعر و ادب کا جائزہ لیتے ہوئے اس عدم تسلسل کا احساس اور زیادہ شدت اختیار کر جاتا ہے۔ بہ ایں ہمہ زیرِ نظر جائزے میں ہم نے چھاچھی شعر و ادب دو ادوار میں منقسم کیا ہے۔

۱۔ پہلادور (کلاسیکل)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۷۳۸ء تا ۱۹۴۷ء

۲۔ دوسرا دور(جدید) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۴۷ء تا عہدِ موجود

چھاچھی شعر و ادب کا پہلا دور تقریباً دو صدیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دور میں ہمیں چھاچھی بولی کی ایک بھی نثری تخلیق دکھائی نہیں دیتی۔ چھاچھی بولی کی اس نثری تہی دامنی کا ایک بڑا سبب تووہی ہے جس کا تذکرہ ہم پہلے کر چکے ہیں کہ حوادثاتِ زمانہ نے اس بولی کے آثارِ قلمیہ کو بڑی حد تک ضائع کر دیا ہے۔ دوسرا سبب عربی اور فارسی جیسی توانا زبانوں کا اس علاقے میں گہرا عمل دخل قرار دیا جا سکتا ہے۔ دینی مدارس میں عربی اور فارسی کی تحصیل کے بعد علما انہی زبانوں میں مختلف موضوعات پر رسائل کی تصنیف و تالیف کاکام کرتے تھے۔ عربی اور فارسی جیسی بڑی زبانوں کی موجودگی میں علما نے اس محدود اور پس ماندہ بولی میں تصنیف و تالیف کے کام سے گریز کیا۔ البتہ دولتِ شعر سے اس بولی کا دامن خالی نہیں۔ شاعروں نے اپنے علاقائی لہجے کو با ثروت بنانے میں عربی و فارسی کے کئی رسائل کے تراجم کیے۔ یہ بات درست ہے کہ اُن علما اور شعرا کے پیشِ نظر یقینا بولی اور زبان کی خدمت نہ تھی بل کہ انہوں نے لوگوں کی آسانی کے لیے اس بولی کا انتخاب کیا۔ چھاچھی شاعری کے اوّلین دور میں مقصدیت کی گہری چھاپ نمایاں ہے۔ شاعروں نے مذہبی روایات، دینی اعتقادات اور فقہی مسائل پر متعدد رسائل نظم کیے ہیں۔ کلاسیکی دور کی شاعری سے اگرچہ چھاچھی بولی کے تمام خدو خال اُجاگر نہیں ہوتے۔ تا ہم چھاچھی بولی کی لفظیات ، قواعد اور تراکیب شعر پاروں میں جابہ جا موجود ہیں۔ کلاسیکی دور کے چُنیدہ شاعروں میںحافظ معز الدین فقیر ،قاضی نادر دین ،سید مہتاب شاہ،ملا عبدالمجید، عبدالکریم ،گلاب خان ، محمد یحییٰ جنگی،عبدالمجید غالب،مولوی محمد سعید،شاہ ولایت،محمد عمر المعروف عُمر ا انکاں والا اورراجا سید غلا م خان کے نام شامل ہیں۔

چھاچھی شعر و ادب کا دوسرا دور قیام پاکستان کے ساتھ ہی آغاز ہوتا ہے۔ یہ دور اس حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں چھاچھی بولی کو صفِ اول کے تخلیق کار میسر آئے جنھوں نے اس بولی کو اظہار کا ذریعہ بناکر اس کے دامن کو وسعت آشنا کیا۔ نثری تخلیقات کی پیش کش کے لیے اس بولی پر تخلیق کاروں کی نگہِ انتخاب پڑی اور یوں پہلی بار چھاچھی بولی میں ریڈیائی ڈراموں اور بیانیہ و علامتی کہانیوں کو رواج ملا۔ کسی زبان یا بولی کی لِسانی خصوصیات اور دوسری زبانوں اور بولیوں سے اس کے اشتراک و اختلاف کا صحیح اندازہ اس کے نثری ذخیرے سے کیا جاسکتا ہے۔ اس میں کُچھ کلام نہیں کہ چھاچھی بولی کا نثری سرمایہ بہت کم ہے تا ہم اس کی مدد سے چھاچھی بولی کے صحیح خدو خال کا اندازہ لگانا دشوار نہیں ۔

چھاچھی بولی کی خوش نصیبی کہ دوسرے دور کے آغاز میںہی اسے منظور عارف ایسا بے بدل شاعر میّسر آیا جس نے بولی میں نظمیں اور گیت لکھ کر اسے مُلکی سطح پر متعارف کرایا۔ منظور عارف نے ۱۹۵۰ء میں چھاچھی بولی میں سخن گوئی شروع کی اور اپنی پہلی نظم’’مینڈے مِنے آں بچاؤ‘‘ سے وہ مقام حاصل کر لیا اور جو سالوں کی ریاضت کے بعد ہاتھ آتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے بہ جا طور پر اس نظم کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے؛ وہ رقم طراز ہیں:

منظور عارف نے پنجابی زبان کے ’’چھاچھی‘‘ لہجے میں بھی بہت عمدہ نظمیں لکھی ہیں اور جس طرح اس کی اُردو نظم ’’جم خانہ کلب‘‘ ستمبر ۱۹۶۵ء کی جنگ کے موضوع پر لکھی گئی نظموں میں ایک شاہ کار تسلیم کی جاتی ہے اور ’’سرنڈر‘‘ کو دسمبر ۱۹۷۱ء کی جنگ میں کہی جانے والی اُردو نظموں میں بہت امتیازی مقام حاصل ہے اسی طرح ان کی پنجابی نظم ’’مینڈے مِنے آن بچاؤ‘‘ کو کم سے کم میری نظر میں ، عالمی امن کے موضوع پر تخلیق ہونے والے ادب کا عنوان ہونا چاہیے۔ (۱۳)

منظور عارف کی چھاچھی شاعری مختلف رسالوں اور اخباروں میں تو چھپتی رہی مگر تاحال ان کا چھاچھی مجموعۂ کلام اشاعت آشنا نہیں ہو سکا۔ ان کی مقبول نظم’’مینڈھے منے آں بچاؤ‘‘ کا ایک ٹکڑا دیکھیے:

اٹکاں نیاں زیارتاں تے ونج ونج کے

پیر بَلنیاں دُھپاں وچ ساڑ ساڑ کے

اللہ چن جھولی پایا، ڈیوے بال بال کے

تیل پا پا کے ، جھنڈے چاہڑ چاہڑ کے

جدوں مِنے چھیویں سالے وچ پیر دھریا

جوان بھیناں نیاں دلاں وچ وَس وَس کے

پنجاں پیساں نا زیارتاں تے تیل گھِن گئی

مِنّا نال چا کے، لوکآں دَس دَس کے


مینڈا سائیں ، مینڈی دھیاں مینڈے مِنے واسطے

مویا ملکاں نیآں ڈیریاں تے رُل رُل کے

مِنّا چھیاں سالاں نا تے دھیاں جوان بُوہے

چِیکاںزور زور تے ، روواں کھُل کھُل کے (۱۴)

منظور عارف کی ایک اور معروف نظم’’چھچھے نیے کُڑیئے‘‘ کا رنگ دیکھیے:

چھچھے نیے کڑیے

شہر کراچی وچ کیہی ڈاہڈی یاد آئی ایں

بھیڑا شہر چھچھے توں دُور

اپنے لیکھوں میںمجبور

دُنیا ٹکٹ کٹا کے بہہ گئی

مار کے سیٹی ٹُر پئی گاڈی ، یاد آئی ایں

چھچھے نیے کڑیے

شہر کراچی وچ کیہی ڈاہڈی یاد آئی ایں

چھاچھی بولی میں باقاعدہ ادبی نثر نگاری کی ابتدا کا سہرا بھی منظور عارف کے سر سجتا ہے۔ ۱۹۶۶ء میں ریڈیو پاکستان سے مستقل وابستگی کے بعد انہوں نے کئی ریڈیائی ڈرامے لکھے۔ یہ ڈرامے زیادہ تر اُردو میں ہیں تا ہم چند ایک ریڈیائی ڈرامے چھاچھی بولی میں بھی تخلیق ہوئے۔ منظور عارف کے چھاچھی ڈراموں میں ’’پنڈ یوں آئی لاری‘‘ اور ’’ویاہ‘‘ زیادہ کامیاب ہوئے جو نہ صرف ریڈیائی ڈرامے کے فن پر پورے اترتے ہیں بل کہ اپنی بولی اور موضوعات کے حوالے سے بھی انفرادیت کے حامل ہیں۔

منظور عارف کے ساتھ ساتھ چھاچھی بولی کو حکیم تائب رضوی ایسا قادر الکلام شاعر بھی میسر آیا جس نے اس بولی میں نظمیں کہہ کر اس کے مقام و مرتبہ کو اوج آشنا کیا۔حکیم تائب رضوی نے ۱۹۵۷ء میں شاعری آغاز کی۔ آپ کے نا نا شاہ ولایت اور پر نانامہتاب شاہ چھاچھی بولی کے پُر گو اور مقبول شاعر تھے۔ حکیم تائب رضوی کی شاعری کا ایک بڑا حصہ اگرچہ پنجابی (ٹکسالی) میں ہے تا ہم اُن کی چھاچھی نظموں کی تعداد بھی کم نہیں ۔ اُن کی ایک معروف نظم ’’آپنا گراں‘‘ دیکھیے:

آپناں گراں ہووے

تُوتاں نی چھاں ہووے

وانے نی منجی اُتے

سرے تلے بانہہ ہووے

اپنا گراں ہووے

جتنے دیہاڑے جیواں

خوشیاں نا سائیں تھیواں

لَسیاں تے دُدھ پیواں

کِلے اتے گاں ہووے

آپنا گراں ہووے

پروین ملک پنجابی کی خواتین افسانہ نگاروں میں بہت نمایاں رکھتی ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ’’کیہہ جاناں میں کون‘‘ شاہ مُکھی (فارسی) اور گور مُکھی رسم الخطوں میں شائع ہو کر بہت مقبول ہوا۔ اس مجموعے کا امتیاز یہ بھی ہے کہ اس کے دامن میں پنجابی(ٹکسالی)کہانیوں کے ساتھ ساتھ کُچھ چھاچھی کہانیاں بھی موجود ہیں۔ پروین ملک وہ پہلی تخلیق کار ہیں جنہوں نے چھاچھی بولی میںجدید طرز کی کہانیاں لکھنے کی بنیاد ڈالی۔ پروین ملک کی کہانیوں کی تازہ مجموعے ’’نِکے نِکے دُکھ‘‘ میں بھی کُچھ چھاچھی کہانیاں موجود ہیں۔ ایک کہانی سے اقتباس دیکھیے:

سیالے نے راتی ، گھُپ ہنیرا، پورا جنگل جیہجوں ٹھٹھمبرے کے کھلوتاوے۔ ہر پاسے چُپ چان ایں ۔ کئیں کئیں ویلے سُکیاں پتراں اُتے تریل پینی اے تاں تِرپ نی نمھی نمھی واز آنی اے یا کوئی بھُکھا گِدڑٹھری وئی اواز کڈھ کے چُپ ہووینا وے پر ایہہ اوازاں اُس چپ آں نئیں پگھلاسکنیاں ،جیہڑی برفاں آر جنگل نے بُوٹے بُوٹے اُتے جم گئی اے۔ سارے پکھنوں آپنیاں آپنیاں آہلنیاں وچ لُک کے کھباں وچ مونہہ چھپا کے بیٹھے نیں ، اس ویلے نے انتظار وچ جدوں دیہوں نکلسی تے اوہناں نیاں ٹھرئیاں ہڈاں واں ذرا جیہا سیک پہنچ سی۔ پر ہَلے اوہ ویلا بہوں دوراے اس توں سارے چھاہڑ کے بیٹھے نیں۔ (۱۵)

اُردو کے معروف افسانہ نگار ڈاکٹر حامد بیگ نے اُردو کے ساتھ ساتھ چھاچھی بولی میں بھی کہانیاں لکھ کر اپنی علاقائی بولی کو جدید علامتی کہانی کے ذائقے سے روشناس کرایا۔ ان کی چھاچھی کہانیوں کا مجموعہ ’’قصہ کہانی‘‘ کے نام سے ۱۹۷۴ء میں پاکستان پنجابی ادبی بورڈ لاہور نے شائع کیا ۔ مجموعے کی اشاعت سے پہلے یہ کہانیاں پنجابی رسائل میںبھی شائع ہو چکی ہیں۔ ’’قصہ کہانی‘‘ چھاچھی افسانوں کی پہلی با قاعدہ کتاب ہے۔ محمد آصف خاں نے ’’قصہ کہانی‘‘ کے افتتاحیے ’’پہلی گل‘‘ میں لکھا ہے:

مرزا حامد بیگ ایہہ کہانیاں اپنی جو ہی بولڑی وچ لکھیاں ہن، کُجھ پڑھن ہاراں نوں ایہہ اوپری جاپسی،سیانے ایہناںکہانیاں دے لِسانی ڈھانچے دا رنگ نکھیڑ کر کے کئی اجیہے سِٹے سامنے لیا سکدے ہن جیہناں ول کسے گریئر سن دا اجے دھیان نہیںگیا۔ (۱۶)

مرزا حامد بیگ کی چھاچھی کہانیوں میں علاقہ چھچھ کی تہذیب و تمدن کا رنگ پوری طرح جلوہ گر ہے۔ ان کی چھاچھی رنگ دیکھیے:

اُس نی قبراں دائیں ہتھ کر لوک قسماں کھانے ہئے تے اپنے پیاریاں واں اس نے بھیڑے انجام توں ڈرانے ہیے۔ جدوں ساون نی پہلی کنی پینی ہئی تاں آبادی ناہنیرا ہور ودھ وینا ہیا، برے اوہادیہاڑے ہونے ہئے جدوں لوک مدتاں بعد آپے چ ہس بول گھینے ہئے۔ (۱۷)

پروفیسر غلام ربانی فروغؔنے چھاچھی بولی میں لا جواب نظمیں اور غزلیں کہی ہیں۔ اُن کا چھاچھی کلام کا مجموعہ’وسناہوے گراں‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ان کی چھاچھی غزل کے چند شعر ملاحظہ ہوں:

لکھ لکھ شُکر خدا نا راہیو! راہ وچ ہک سراں تاں اَیہ

رات سفر نی کٹن واسے امن امان نی تھاں تاں اَیہ

سُن اوئے کُہاڑی والیا سنگیا! ساوا بوٹا ٹُکن گناہ وے

کیہڑی غلطی کرن لگا ویں ، اَپھل سہی پر چھاں تاں اَیہ

پار سمندروں خط آیا وے دُور وسینیاں سجناں نا

بھاویں مینڈے ناں نئیں آیا اس وچ مینڈا ناں تاں اَیہ

زندگی نا ورتاوا ویکھا فرقو فرقی لوکاں نال

موت ہِکا جیہی سب نا ورتے موتاں کول نیاں تاں اَیہ

کدے بھرا کمزور بھی ہووے وت بھی اُس نی قدر ای کریے

بھاویں سجی وانگ نئیں پر کھبّی بانہہ بی بانہہ تاں اَیہ

عہدِ حاضر کے معروف پنجابی شاعر اور افسانہ نگار توقیر چغتائی نے بھی چھاچھی بولی میں عمدہ نظمیں اور افسانے لکھے ہیں۔ ان کی چھاچھی نظموں کے چند نمونے دیکھیے:

ٹکڑے آندے پِن کے

دل نا ٹھوٹھا گھن کے

گُمیا کُجھ ہدراتی نا

ڈیوا چیکے راتی نا

دھواں رووے باتی نا

رہ گیا مان چواتی نا

بوٹی بوٹی رنھ کے

ٹکڑے آندے پِن کے

دل نا ٹھوٹھا گھِن کے (۱۸)

٭



رونیاں رونیاں راہ تکنی اکھ سج ونجسی

دیوا بُجھ ونجسی

ٹُرنیاں ٹُرنیاں پنجرہ کدھرے ڈھے ویسی

پینڈا رہ ویسی

وگنیاں وگنیاں اتھرو اکھیاں گھن ویسن

جندڑی رِنھ ویسن

جان ہکلی نہ ونجسی بہوں کُجھ ونجسی

دیوا بُجھ ونجسی (۱۹)

شیخ محمد سلیمان نے اُردو کے ساتھ ساتھ چھاچھی بولی میں بھی کئی نظمیں کہی ہیں۔ اُن کی نظموں میں چھچھ کی ثقافتی اور معاشرتی زندگی اپنے تمام تر زاویوں کے ساتھ عکس انداز ہوتی ہے۔ شیخ محمد سلیمان کا ابھی تک کوئی مجموعۂ کلام شائع نہیں ہوا۔ اُن کی ایک مختصر چھاچھی نظم ملاحظہ کیجیے:

اسی کیہجے لوک آں؟

اسی ایجے لوک آں

جتھے کِتھے ظلم ہووے

اکھّاں نال ویکھ کے

کناں نال سُن کے

ڈورے بن وینے آں

انھے ہو وینے آں

دڑ وٹ وینے آں

پرے ہٹ وینے آں

اسی کیہجے لوک آں؟

اسی ایجے لوک آں

اُردو کے معروف شاعر ملک مشتاق عاجزنے چھاچھی بولی میں بھی شاعری اور افسانہ نگاری کی طرح ڈالی ہے۔ ان کی چھاچھی کہانیوں اور نظموں میں چھاچھی بولی کا کھرا اور خالص لہجہ اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ موجود ہے؛ ایک نظم دیکھیے:

ٹٹیہری اج بی کُرلانی تے زارو زار رونی رہی

مشوماں اج بی زاری منگ کے چاہڑی دیگ چَولاں نی


نمازاں اج بی مَیرے ونج کے بُڈھیاں بابیاں پڑھیاں

دُعا منگ منگ کے تھک لَتھے نہ ہاٹھاں لاہینوں چڑھیاں

____

جے بدل ہُن بی نئیں وسنا تاں مولا میں تاں ڈُب ویساں

تے روڑا مینڈیاں تاں بیڑیاں وچ وٹَے پا دیسی

جے فصلاں سڑ گئیاں ربّا تاں مینڈے لیکھ سڑویسن

تے رتیاں تونیاں وچ

نیلے پیلے سوٹ، ساوے لیپھ پَڑویسن

____

ایہہ مینڈے نِکیاں نِکیاں سہکویں بالاں

تے مینڈے سُکیاں بنھیاں تے کھلوتے

جیبھاں کڈھ کے ہونکنے مالاں تے ان پانی نا رونا نئیں

ایہہ مینڈے چِٹے پٹکے نا

تے مینڈے بوہے بیٹھی ہک نمانی دھیئو نے

چِٹا بھاء مرینے کالیاں والاں نا رونا اے

_____

جے اس دیہاڑی بی دھی ودعیاں نہ کیتی ساک مُڑ ویسی

کِسے نی آس مُک ویسی تے کینڈھا مان تڑُٹ ویسی

ایہہ گل روٹی نی نئیں ربّا!

ایہہ گل روٹی نی نئیں ، روٹی تاں دو وقتّاں نی اوکھی سوکھی جُڑ ویسی

ایہہ گل روٹی نی نئیں، روٹی نی نئیں ، روٹی نی نئیں ربّا

ایہہ گل روٹی نی نئیں!

__________

حوالہ جات:

(۱) خواجہ محمد خان اسد، ’’چھچھ تاریخ کے آئینے میں‘‘ }مضمون{؛ سہ ماہی ‘العلم، جلد ۴۳، شمارہ ۱

(۲) امین چند ، مُنشی، ’’سفرنامہ‘‘، لاہور ؛ مطبع کوہِ نور، باردِ دوم ، ۱۸۵۹ء ؛ص ۱۰۹

(۳) سی۔ سی گاربٹ، اٹک ڈسٹرکٹ گزئٹیئر (انگریزی) ، لاہور: گورنمنٹ پرنٹنگ پنجاب، ۱۹۳۰ء ، ص۳۱۸

(۴) سکندر خان ، دامنِ اباسین، ویسہ: ضلع اٹک:ملی کُتب خانہ ، دوم ، ۱۹۹۳ء ص ۳۳

(۵) محمد آصف خاں، ’’پنجابی زبان، اوہدیاں بولیاں تے دوجے ناں‘‘ [مضمون] ، لعلاں دی پنڈ، مرتبہ؛ اقبال صلاح الدین ، لاہور: عزیز بُک ڈپو، ۱۹۹۵ء ؛ ص ۲۹

(۶) شہباز ملک ، ڈاکٹر، پنجابی لسانیات، لاہور مکتبہ میری لائبریری ، دوجی وار ۱۹۸۹ء؛ ص ۳۷-۱۳۴

(۷) احمد حسین قریشی ، پنجابی ادب کی مختصر تاریخ، لاہور : مکتبہ میری لائبریری ، دوم، ۱۹۷۲ء، ص ۱۷

(۸) سلیم خان گِمی، پنجابی زبان دا ارتقا، لاہور: عزیز پبلیشرز ؛ اوّل ، ۱۹۹۱ء، ص ۱۱۱

(۹) سکندر خان، دامنِ اباسین، ص ۲۷۹

(۱۰) ایضاً ، ص ۲۸۱

(۱۱) عبدالغفور قریشی، پنجابی زبان و ادب تے تاریخ، لاہور: عزیز بُک ڈپو؛ اوّل ۱۹۵۶ء ، ص۵۹

(۱۲) انور بیگ اعوان، دھنی ادب و ثقافت ، چکوال: بزمِ ثقافت، اوّل ، ۱۹۶۸ء ؛ ص۱۱۶۔

(۱۳) منظور عارف، لہر لہر دریا، لاہور: مطبوعات،۱۹۸۱ء، ص۸

(۱۴) محمد یٰسین ظفر، ڈاکٹر، پوٹھوہار دی ، پنجابی شاعری، لاہور: پاکستان پنجابی ادبی بورڈ، اوّل ۱۹۹۷ء،ص۳۰۵

(۱۵) پروین ملک، کیہہ جاناں میں کون، لاہور: سارنگ پبلی کیشنز،دوجی وار، ۱۹۹۵ء،ص۹۷-۹۸

(۱۶) حامد بیگ ، مرزا، قصہ کہانی ، لاہور: پاکستان پنجابی ادبی بورڈ، ۱۹۸۴ء،ص۸

(۱۷) غلام ربانی فروغؔ، وسنا رہوے گراں: اٹک: پنجابی ادبی سنگت، ۲۰۰۴،ص۴۰-۱۳۹

(۱۸) محمد آصف خاں[ایڈیٹر]، تماہی پنجابی ادب، جلد ۳، شمارہ ۱۰، اپریل تا جون ۱۹۸۹ء،ص۵۱

(۱۹) محمد آصف خاں[ایڈیٹر]، تماہی پنجابی ادب،جلد۴،شمارہ ۱۴،اپریل تا جون ۱۹۹۰ء،ص۵۰
 

عدنان عمر

محفلین
چھاچھی بولی و ادب کے حوالے سے یہ مضمون اچھا لگا۔ پنجابی زبان کی دیگر بولیوں کے بارے میں بھی ایسے معلوماتی مضامین کا انتظار رہے گا۔
 
Top