سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 21 اپریل ، 2016
چھوٹو کیسے چھوٹو بنتا ہے
تحریر: سید انور محمود
آجکل میڈیا پر غلام رسول عرف چھوٹو کا بہت چرچا ہورہا ہے، غلام رسول نےبیس اپریل 2016ء کی صبح پاک فوج کی جانب سے ہتھیار پھینکنے کی وارننگ کے بعد ہتھیار ڈال کر خود کو فوج کے حوالے کردیا ہے۔ غلام رسول عرف چھوٹو کے علاوہ میں جب بھی کسی چھوٹو سے ملا یا اسکے بارئے میں پڑھا، مجھے چھوٹو ہمیشہ عجیب سا لگا اور یہ احساس جاگا کہ ہمارئے ملک کے حالات ہمارئے بچوں کو کیسے چھوٹو بناتے ہیں یا چھوٹو کیسے چھوٹو بنتا ہے۔ 1980ء کے عشرے میں کراچی ، تین ھٹی کے سرکاری مارٹن کواٹر کے مین روڈ کے گھروں کو حکومت نے توڑ دیا ، تین ھٹی سے گرومندرتک روڈچوڑا کرنا تھا، حکومت کا کام تھا حکومت بھول گئی، لوگوں نے ٹوٹے ہوئے گھروں پر قبضے کرکے کاروبار شروع کردیے، میرئے گھر کے سامنے مین روڈ کے مکان میں ایک موٹرگیراج کھل گیا، اس موٹر گیراج کی تعریف یہ تھی کہ یہ صرف مرسٹیز گاڑیوں کو ٹھیک کرتے تھے، پی ٹی وی کے معروف فنکار اطہر شاہ خان عرف جیدی بھی اکثراپنی مرسٹیز ٹھیک کرانے آتے تھے، اس گیراج کا اصل کاریگر ایک بارہ سال کا بچہ تھا جو مرسٹیز کی خرابی دور کرنے کا ماہر تھا، اس ماہر کاریگر کو سب چھوٹو کہہ کر پکارتے تھے اور آج سے تقریبا 36 سال قبل اس چھوٹو کاریگرکی تنخواہ 3000 روپے تھی اور اس گیراج کا مالک اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا تھا۔ ایک دن یہ چھوٹو ہمارئے گھر پانی لینے آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے پڑھا کیوں نہیں، چھوٹو کا جواب تھا میں جب چھ سال کا تھا تو میرئے والد کا انتقال ہوگیا، والدہ اور تین بہنوں کی وجہ سے موٹر میکینک کا کام سیکھ لیا۔ اگر اس چھوٹو کو صیح تعلیم ملتی تو وہ ایک قابل میکنیکل انجینر بن سکتا تھا۔
یہ بھی1980ء کے عشرے کی بات ہے کہ ایک دن صبح میں آفس جانے کےلیے بس میں بیٹھا ہواتھا، بس ڈرائیو نے گرومندر کے اسٹاپ پر بس کھڑی کردی ، پانچ منٹ بعد مسافروں نے شور مچانا شروع کردیا اور بس ڈرائیو سے بس چلانے کا مطالبہ کرنے لگے لیکن بس ڈرائیو خاموش بیٹھا رہا ۔ اچانک میرئے برابر میں بیٹھےدس یا بارہ سال کے بچے نے جو حلیے سے کسی موٹر گیراج میں کام کرنے والا لگا اور بعد میں تصدیق بھی ہوگئی زور سے بس ڈرائیو کو مخاطب کرکے بولا ‘‘ابے جانے دئے میری گھر والی کے بھائی’’، یہ سننا تھا کہ بس ڈرائیو نے اپنی سیٹ چھوڑی اور بہت غصے میں اس بچے کو مارنے آیا، میں نے بس ڈرائیو کو سمجھایا کہ یہ بچہ کسی موٹر گیراج کا چھوٹو ہے، ہوسکتا ہے گذشتہ دو تین دن میں اس کے استاد نے کسی کو ایساہی کچھ کہا ہو تو اس کو اچھا لگا اور اب آپ کو کہہ دیا۔ بچے سے جب پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کا استاد اس کو چھوٹو کہتا ہے اور کل چائے لانے والے چھوٹو سے کہہ رہا تھا ‘‘جلدی سے دو چائے لے آ میری گھر والی کے بھائی’’۔ یہ چھوٹو بھی شاید حالات کا شکار ہوا ہوگا اور جس طرح کے استاد کے پاس وہ کام کررہا تھا، پتہ نہیں اور کیا کیا برایئاں سیکھیں ہونگی۔
راجن پور کے غلام رسول کی عمر صرف 13 سال تھی جب اس کے خاندان پر ناگہانی مصیبت ٹوٹ پڑی ۔ اس کے علاقے کے دو قبائل چاچڑ اور کوش جو آپس میں بدترین دشمن تھے ایک عورت کی وجہ سے آپس میں لڑپڑئے جس کے نتیجے میں کوش قبیلے کے آٹھ افراد مارئے گئے۔ غلام رسول کے ایک بھائی رسول بخش شوبی چاچڑوں کا دوست تھا، کوشوں نے غلام رسول کے بھائی شوبی اورگھر والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور گھر کو آگ لگا دی، انھوں نے اپنے آٹھ لوگوں کے قتل میں شوبی کا بھی نام لیا، پولیس نے شوبی کو گرفتار کر لیا، اس کا خاندان گائوں سے بھاگ گیا اور لوگوں نے اس کے گھر اور زمینوں پر قبضہ کر لیا۔ غلام رسول جیل میں بھائی سے ملنے گیا، پولیس نے اسے گرفتار کیا اور اس پر موٹر سائیکل چوری کا مقدمہ بنا دیا۔ غلام رسول تین سال بعدجیل سے نکلا تو پولیس نے اسےپھر گرفتار کرلیا، تھانے میں تشدد کے دوران اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی،پولیس کےبےجا تشدد نے غلام رسول کو جرم کی دنیا میں دھکیل دیا۔
چھوٹو کے علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ غلام رسول عرف چھوٹو تو ایک مزدور بچہ تھا جو مزدوری کی خاطر ایک چائے کےہوٹل پر کام کرتا تھا۔شروع میں اپنے آپ کو تحفظ دینے کے لئے چھوٹو نے علاقہ کے سردار کے پاس بطور گارڈ بھی کام کیا اور پولیس کے لئے مخبری کا کام بھی کرتا رہا۔ پھر وہ خود مویشی چوروں اور دوسرے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ کام کرنے لگا اور بوسن گینگ کے ساتھ رابطوں کے بعد اغواء برائے تاوان کے گھناؤنے دھندے میں اپنے علاقہ میں محفوظ پناہ گاہ ہو نے کی وجہ سے بڑا نام بن گیا۔ اس کے جیل میں بننے والے دوست جیل سے باہر آئے توچھوٹو نے اپنا گینگ بنالیا، پولیس سے اسکو سخت نفرت ہے اس لیے یہ اور اس کے گینگ کے لوگ پولیس کو اغوا کرکے ان پر بدترین تشدد کرتے یا ان کو دیکھتے ہی گولی مار دیتے۔ مختلف سرداروں اور جاگیرداروں کے یہ کام آتا رہا، اسے جرائم کی دنیا میں اہم مقام دلانے میں پولیس کی زیادتیوں، قبائلی رسم و رواج اور سرداری نظام نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
اوپر ذکر کیے گئے تمام چھوٹوں کسی نہ کسی طرح ہمارئے ملک میں رائج خراب نظام کی پیداوار ہیں، اگر پہلے چھوٹو کو تعلیم کا موقعہ ملتا اور بچپن میں اس کے معاشی مسائل حل کردیے جاتے تو شاید وہ ملک و قوم کےلیے ایک اثاثہ ثابت ہوتا، دوسرئے چھوٹو کے بارئے میں میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ ملک و قوم کا اثاثہ ثابت ہوتا، ہاں جب بھی مجھے وہ یاد آیا تو یہ ہی خیال آیا کہ چونکہ وہ اور اسکے استاد دونوں ہی تعلیم سے دور تھے لہذا دوسرا چھوٹو نہ صرف زبان کا برا بنا ہوگا بلکہ شاید کردار کا بھی۔ تیسرا چھوٹو جس کا اصل نام غلام رسول ہے اس کو چھوٹو بنانے میں اصل کردار تو ہماری بدنام زمانہ پولیس کا ہے لیکن اس چھوٹو کو ایک جزیرے کچا جمال کا بادشاہ بنانے کا کام یقیناً اس علاقے کے سرداروں، جاگیر داروں اور سیاست دانوں کا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ پولیس اپنے متعدد آپریشن میں کامیاب نہیں ہوئی جو اس نے چھوٹو کو پکڑنے کے لیے کیے تھے۔
اب راجن پور کا چھوٹو جو خوف اور دہشت کی ایک علامت بن چکا تھا،قانون کے رکھوالوں کے پاس ہے۔ قانون کے ماہرین کو چھوٹو اور اسکے ساتھیوں سے وہ تمام معلومات حاصل کرنا چاہیے کہ کیسے ایک بےضررسا13 سال کا بچہ جوچائے کی دوکان پر مزدوری کرتا تھا ایک خطرناک چھوٹو ڈاکو بن گیا۔ قانون کے ماہرین کا فرض ہے کہ وہ ان ذمہ داروں کا تعین کریں جنہوں نے غلام رسول کو چھوٹو بننے پر مجبور کیا، اس کے ساتھ ہی قانون کے ماہرین کو وہ تجاویز بھی دینی ہونگی کہ موجودہ نظام میں وہ کونسی بنیادی تبدیلیاں کی جایں کہ معصوم بچے چھوٹو بننے سے بچ سکیں۔