یہ غزل تلاش کررہا تھا تو معلوم ہوا کہ کاشفی یہ غزل پہلے ہی شیئر کرچکے ہیں۔۔ تھینکس فار شیئرنگ جناب!
غزل
(شاد عارفی - 1929)
چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں، میں اُنگلیاں اُس کی جانتا ہوں
مگر غلط نام لے کے دانستہ لطف اندوز ہو رہا ہوں
فریبِ تخیل سے میں ایسے ہزار نقشے جما چکا ہوں
حقیقتاَ میرا سر ہے زانو پہ تیرے یا خواب دیکھتا ہوں
پیام آیا ہے،تم مکاں سے کہیں نہ جانا، میں آرہا ہوں
میں اس عنایت کو سوچتا ہوں، خدا کی قدرت کو دیکھتا ہوں
ہر ایک کہتا ہے اُوس میں سو کے اپنی حالت خراب کر لی
کسی کو اس کی خبر نہیں ہے کہ رات بھر جاگتا رہا ہوں
حسیں ہوتم، آپ کی بلا سے، پری ہو تم، آپ کی دُعا سے
جواب ملتا ہے سخت لہجے میں اُن سے جو بات پوچھتا ہوں
ہلال اور بدر کے تقابل نے محوِ حیرت بنا دیا ہے
وہ عید کا چاند دیکھتے ہیں، میں اُن کی صورت کو دیکھتا ہوں
شراب، ساقی، صراحی، میخانہ قابل قدر ہوں، مجھے کیا
کسی کی آنکھوں کے سرخ ڈوروں سے پی کے مخمور ہو رہا ہوں
میںکیا کہوں گا، وہ کیا سنیںگے، وہ کیا کہیںگے، میں کیا سنوںگا
اسی تذبذب میں شاد میں اُن کے در پہ ڈر ڈر کے جا رہا ہوں