چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں، میں انگلیاں اُس کی جانتا ہوں - شاد عارفی

مغزل

محفلین
ہر ایک کہتا ہے اُوس میں سو کے اپنی حالت خراب کر لی
کسی کو اس کی خبر نہیں ہے کہ رات بھر جاگتا رہا ہوں
کیا کہنے کاشفی بھائی کیا عمدہ انتخاب ہے واہ واہ بہت خوب سبحان اللہ
 

الف عین

لائبریرین
یہ اطلاع بھی بہم کر دوں کہ مرحوم شاد عارفی مشہور شاعر اور نقاد مظفر حنفی کے استاد تھے، دونوں کا تیکھا لہجہ ان کا اپنا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہر ایک کہتا ہے اُوس میں سو کے اپنی حالت خراب کر لی
کسی کو اس کی خبر نہیں ہے کہ رات بھر جاگتا رہا ہوں
شکریہ کاشفی بھائی شریک محفل کرنے کا۔
اوپر قافیہ تا ہوں ہے، یہاں بیچ میں ایک لفظ "رہا" آ گیا ہے۔ ایسے ہی ہے یا ۔۔۔
 
خوبصورت سوال شمشاد بھائی!
آدھا جواب ہم آپ کو دیے دیتے ہیں اور ساتھ ہی باقی آدھے سوال میں آپ کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں۔
اس غزل میں ردیف صرف ہوں ہے جو شعر کے ہر دوسرے مصرع میں موجود ہے جبکہ قوافی مندرجہ ذیل استعمال ہوئے ہیں
جانتا، جما چکا، ہورہا، دیکھتا، آرہا، جاگتا رہا، پوچھتا، جارہا۔​
اساتذہ کے انداز پر سوال کرنے کا ہمارا منہ نہیں مگراپنی معلومات کے لیے ہماراسوال یہ ہے کہ کیا قوافی کا یہ انداز غیر روایتی ( ان آرتھوڈوکس) نہیں؟​
 

کاشفی

محفلین
غزل
(شاد عارفی - 1929)
چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں، میں اُنگلیاں اُس کی جانتا ہوں
مگر غلط نام لے کے دانستہ لطف اندوز ہو رہا ہوں

فریبِ تخیل سے میں ایسے ہزار نقشے جما چکا ہوں
حقیقتاَ میرا سر ہے زانو پہ تیرے یا خواب دیکھتا ہوں

پیام آیا ہے،تم مکاں سے کہیں نہ جانا، میں آرہا ہوں
میں اس عنایت کو سوچتا ہوں، خدا کی قدرت کو دیکھتا ہوں

ہر ایک کہتا ہے اُوس میں سو کے اپنی حالت خراب کر لی
کسی کو اس کی خبر نہیں ہے کہ رات بھر جاگتا رہا ہوں

حسیں ہوتم، آپ کی بلا سے، پری ہو تم، آپ کی دُعا سے
جواب ملتا ہے سخت لہجے میں اُن سے جو بات پوچھتا ہوں

ہلال اور بدر کے تقابل نے محوِ حیرت بنا دیا ہے
وہ عید کا چاند دیکھتے ہیں، میں اُن کی صورت کو دیکھتا ہوں

شراب، ساقی، صراحی، میخانہ قابل قدر ہوں، مجھے کیا
کسی کی آنکھوں کے سرخ ڈوروں سے پی کے مخمور ہو رہا ہوں

میں‌کیا کہوں‌ گا، وہ کیا سنیں‌گے، وہ کیا کہیں‌گے، میں کیا سنوں‌گا
اسی تذبذب میں‌ شاد میں اُن کے در پہ ڈر ڈر کے جا رہا ہوں
 

کاشفی

محفلین
یہ غزل تلاش کررہا تھا تو معلوم ہوا کہ کاشفی یہ غزل پہلے ہی شیئر کرچکے ہیں۔۔ تھینکس فار شیئرنگ جناب! :)

غزل
(شاد عارفی - 1929)
چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں، میں اُنگلیاں اُس کی جانتا ہوں
مگر غلط نام لے کے دانستہ لطف اندوز ہو رہا ہوں

فریبِ تخیل سے میں ایسے ہزار نقشے جما چکا ہوں
حقیقتاَ میرا سر ہے زانو پہ تیرے یا خواب دیکھتا ہوں

پیام آیا ہے،تم مکاں سے کہیں نہ جانا، میں آرہا ہوں
میں اس عنایت کو سوچتا ہوں، خدا کی قدرت کو دیکھتا ہوں

ہر ایک کہتا ہے اُوس میں سو کے اپنی حالت خراب کر لی
کسی کو اس کی خبر نہیں ہے کہ رات بھر جاگتا رہا ہوں

حسیں ہوتم، آپ کی بلا سے، پری ہو تم، آپ کی دُعا سے
جواب ملتا ہے سخت لہجے میں اُن سے جو بات پوچھتا ہوں

ہلال اور بدر کے تقابل نے محوِ حیرت بنا دیا ہے
وہ عید کا چاند دیکھتے ہیں، میں اُن کی صورت کو دیکھتا ہوں

شراب، ساقی، صراحی، میخانہ قابل قدر ہوں، مجھے کیا
کسی کی آنکھوں کے سرخ ڈوروں سے پی کے مخمور ہو رہا ہوں

میں‌کیا کہوں‌ گا، وہ کیا سنیں‌گے، وہ کیا کہیں‌گے، میں کیا سنوں‌گا
اسی تذبذب میں‌ شاد میں اُن کے در پہ ڈر ڈر کے جا رہا ہوں
 
Top