مصطفی عزیز آبادی کی کیا نظم ہے ؟ اگر کوئی بھائی یہاںلکھ دیںتو عنایت ہوگی
؟
یہ لیں!
وہ، جس کی جنبشِ ابرُو سے ہو کر
پرندے اپنا رستہ ناپتے ہیں
وہ، جس کے رعبِ سلطانی سے ڈر کر
سفیرانِ وطن بھی کانپتے ہیں
کہیں مل جائے وہ سلطاں تو کہنا
سنبھل جاؤ! دسمبر آگیا ہے
اِدھر ہے اک سمندر، مال وزر کا
اُدھر، ہر ایک گھر میں مفلسی ہے
وہاں خوشحال ہیں بس چند گھرانے
یہاں فاقہ کشی ہے، خودکشی ہے
یہ کیسا دورِ بدتر آگیا ہے
سنبھل جاؤ! دسمبر آگیا ہے
اصول وظرف سے کیا کام اُن کو
فقط دولت ہو جن کا دین وایماں
ہیں جن کے واسطے کیڑے مکوڑے
غریبی میں سسکتے روتے انساں
ہے جو مشہور رہزن، سارے جگ میں
وہ بن کے آج رہبر آگیا ہے
سنبھل جاؤ! دسمبر آگیا ہے
دیا تھا جس نے مشکل میں سہارا
اسی کو داغِ رسوائی دیا ہے
دیئے جس نے بھروسے کے خزانے
اسے ہر گام پہ دھوکا دیا ہے
جسے سمجھا گیا تھا دوست، اب وہ
لئے ہاتھوں میں خنجر آگیا ہے
سنبھل جاؤ! دسمبر آگیا ہے
کہاں تک اب رفیقانِ چمن بھی
تمہارے درد کے رشتے نبھائیں
یہی بہتر ہے سب کچھ بھول کر ہم
اب اپنے راستوں کو لوٹ جائیں
جہاں پر زہر بن جائے رفاقت
سفر میں اب وہ منظر آگیا ہے
سنبھل جاؤ! دسمبر آگیا ہے