یہاں حکومت اسے بند کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ یہ ماحولیاتی آلودگی پھیلاتے ہیں
راشد بھائی،
اور میرا تاثر یہ ہے کہ حکومت ان موٹر سائیکل رکشوں کو ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ یہ خطرناک ہیں۔ [موٹر سائیکل رکشہ اور ویسپا رکشے میں فرق ہے]
بہت سے لوگ مرسڈیز کے خواب دیکھتے ہیں، مگر میں پاکستان کے لیے انہی موٹر سائیکل رکشوں کے خواب دیکھتی ہوں [اگر یہ کسی حد تک محفوظ بنائے جا سکیں]
1۔ ہماری قوم اتنی امیر نہیں ہے کہ وہ پیلی ٹیکسی کے نام پر ہنڈا اور دیگر امپورٹڈ کاروں کو بطور ٹیکسی استعمال کر سکے۔ نہ صرف ٹیکسی خریدنے میں زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے، بلکہ ڈیزل بھی مہنگا پڑتا ہے اور ماحولیاتی آلودگی بھی زیادہ ہے اور کار کی مینٹیننس بھی مہنگی۔
اور سب سے بڑھ کی بات یہ کہ پیلی ٹیکسی آ جانے کے بعد بھی عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ اس کا استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ ان کے پاس پیلی ٹیکسی کے سٹینڈرڈ کا کرایہ دینے کی پیسے نہیں۔
2۔ موٹر سائیکل رکشہ بنانے والے انجینئر یا مکینک کو سلام۔
ہماری قوم کی غربت ہمیں صرف اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ایسی ہی سستی سواری بنائی جائے۔
بذات خود یہ موٹر سائیکل رکشہ بہت سستا ہے۔ اور پاکستان میں ہی اسکے بڑے حصے کی اسمبلنگ ہوتی ہے۔
اس رکشے میں جگہ کو بہت اچھے طریقے سے استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے چھ بندے سواری کر سکتے ہیں۔
اس میں چھوٹے سائز کا انجن استعمال ہوا ہے [مجھے پاکستانی موٹر سائیکلوں کے انجنوں کی پاور وغیرہ کا کوئی اندازہ نہیں ہے، لیکن اتنا پتا ہے کہ اسکا انجن چھوٹا ہے]۔ مجھے نہیں علم کہ یہ ایک لیٹر میں کتنا سفر کرتا ہے، مگر اندازہ یہ ہی ہے کہ کافی اکنامیکل ہو گا۔
یہ عموما ڈیزل کی جگہ پٹرول سے چلتا ہے جو کہ تھوڑا مہنگا پڑتا ہے۔
مگر اچھی بات یہ ہے کہ آخری دفعہ جب ہم پاکستان میں تھی تو پرانا ویسپا رکشا دیکھا تھا جو کہ پٹرول کی جگہ گیس استعمال کرتا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستانی مکینکوں نے اس موٹر رکشے کے لیے بھی گیس استعمال کی کٹ ایجاد کر لی ہو گی جس کے بعد یہ بہت ہی اکنامیکل ہو گیا ہو گا۔
مجھے اس موٹر رکشے کی سپیڈ کا علم نہیں۔
مگر میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ "شہر" کے اندر سپیڈ سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ یورپ میں عوام کی زندگیوں کو تحفظ دینے کی خاطر شہر کی آبادی والی سڑکوں پر زیادہ سے زیادہ تیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی اجازت ہے، جبکہ شہر کی بڑی سڑکوں پر زیادہ سے زیادہ پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی اجازت ہے۔ جبکہ دو شہروں کے درمیان سپر ہائی وے پر اکثر جگہ کوئی Limit ہی نہیں ہے۔
اگر یہ موٹر رکشا بڑی کشادہ سڑک پر پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار حاصل کر سکتا ہے تو یہ کافی ہے۔
اور مجھے یہ موٹر رکشا سب سے زیادہ اس لیے پسند ہے کیونکہ میرے ملک کی غریب عوام کی اکثریت صرف اسی قابل ہے کہ اس کو بطور سواری استعمال کر سکے۔ مجھے یاد ہے کہ میں پاکستان میں کار کے اندر بیٹھی سوچ رہی ہوتی تھی کہ کاش ہماری قوم اس سٹینڈرڈ کے چکر میں نہ پڑی ہوتی تو میں بھی اس کار یا ٹیکسی کی جگہ اپنی فیملی کے ساتھ اس موٹر رکشے میں سفر کر رہی ہوتی کہ جس میں میرے ملک کی غریب آبادی سفر کرتی ہے۔
میں نے اس مسئلے پر بہت زیادہ تو نہیں سوچا ہے، مگر میں محسوس کرتی ہوں کہ میں اندر سے پکی سوشلسٹ ہوں اور سرمایہ دارانہ نظام میرے خون میں نہیں ہے۔