بہت شکریہ خاور بلال۔ میں نے فلسطین کی آزادی کی دعوےدار جماعتوں میں سے صرف ان جماعتوں کے ان افعال کے بارے بات کی ہے جو وہ اپنے مخالف ملک کے شہریوں کے خلاف سرانجام دیتے ہیں
کیا اس بات سے آپ اتفاق کرتے ہیں کہ اسلام میں جہاد یا جدوجہد کے لئے دشمن کے شہریوں پر حملے یا ان کا قتل جائز ہے؟ یا آپ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے؟
بھائی میرے، اگر میرے پاس طاقت نہ ہو، میری عزت اور جان اور مال خطرے میں ہو تو میرے لئے ہجرت کا دروازہ کھلا ہے۔ کیا اس سلسلے میں ہمارے سامنے ہمارے اپنے پیارے نبی پاک ﷺ کی مثال نہیں موجود؟ جب آپ کے پاس مناسب طاقت موجود نہیں، جان اور مال اور عزت خطرے میں ہیں تو اللہ کی راہ میں ہجرت کر کے اس طرف چلے جائیں جہاں اللہ پاک نے آپ کے لئے آسانیاں رکھی ہوں؟
یہ سوال میرا تمام معزز دوستوں سے ہے۔ اگر آپ کمزور ہیں، دشمن آپ کے ملک پر قبضہ کر کے آپ کی عزت، مال اور جان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ آپ کے پاس مزاحمت کے لئے کوئی مناسب انتظام نہیں تو آپ کیا کریں گے؟ اللہ کی راہ میں ہجرت کر کے نہ صرف رضائے الہٰی حاصل کریں بلکہ آرام سے تیاری کر کے دشمن سے بدلہ بھی لے سکیں؟ یا اپنے ملک میں موجود رہ کر ظلم اور زیادتیاں برداشت کرتے رہیں؟
قیصرانی بھائی! آپ جس "دردمندی" کے ساتھ فلسطینیوں کو اتنی اہم "تجاویز" دے رہے ہیں وہ یقیناً قابل قدر ہیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ آپ اب تک اتنی "شاندار" تجاویز کو دبائے بیٹھے تھے۔ کیا آپ نے ہجرت کا یہ پیغام فلسطین بھیج دیا ہے؟ اگر نہیں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ فلسطینی اب تک ان "عظیم" مشوروں سے محروم رہے۔ خیر کسی بھی تجویز کو پیش کرنے سے قبل زمینی حقائق کا جائزہ لینا ضروری تھا بہرحال آپ نے دو تحاریک کا حوالہ دیا ہے تحریک اسلام (بوقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) اور تحریک فلسطین۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دونوں تحاریک کے مقاصد بالکل الگ الگ تھے اور ہیں اور ان کے اہداف بھی جدا جدا۔ تحریک اسلام کا مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کی بالا دستی اور اللہ کے بندوں کو شرک کے اندھیروں سے نکال کے ایک اللہ کی بندگی کی راہ ڈالنا ہے جبکہ تحریک آزادی فلسطین کا مقصد اس مقدس سرزمین کو صیہونی پنجے سے آزاد کرانا اور علاقے کی اکثریت (مسلمانوں) کو ان کے پنجۂ استبداد محفوظ رکھنا ہے۔ اس لیے دونوں تحاریک کا طریقہ کار بھی بالکل جدا جدا ہے۔ ان دونوں تحاریک کے مکمل جائزے کے لیے سیرت النبی، ریاست مدینہ، جنگ عظیم، یہودیوں کی جدید تاریخ، فلسطین میں ان کے کردار اور تاریخ فلسطین کا مطالعہ ضروری ہے، ان کا مطالعہ کیے بغیر بات کرنا فضول ہے لیکن آپ کی تجویز کے ضمن میں "دقیانوسی" اور "کُند" ذہنوں میں کئی معصوم سے سوالات کلبلا رہے ہوں گے۔
مقاصد میں اہداف میں فرق کے باعث ترجیحات بھی تبدیل ہو جاتی ہیں بالکل اس طرح جیسے اسلام کا آمد کے بعد سب سے بڑا مقصد اللہ کے دین کی تبلیغ تھا اور اس کے لیے صلح حدیبیہ جیسے معاہدے بھی کرنے پڑے جس کی تمام شرائط بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھیں لیکن کیونکہ اس سے اسلام کے بنیادی مقصد پر کوئی ٹھیس نہیں پہنچ رہی تھی اور مسلمانوں کو تبلیغ کی کھلی اجازت مل گئی اس لیے مسلمانوں نے اس معاہدے کو بھی دمِ آخر تک نبھایا۔
ہجرت مدینہ اسلام کو بچانے کے لیے ایک محفوظ مقام پر منتقلی کا عارضی مرحلہ تھا، اس کا مقصد اپنی سرزمین چھوڑنا نہیں بلکہ دعوت دین کی تحریک کو تقویت دینے کے لیے اپنی قوتیں مجتمع کرنا تھا۔ اسی مقصد کے لیے مسلمانوں نے مدافعت میں تلواریں بھی اٹھائیں اور نور الٰہی کو بجھا دینے کی کوششیں کرنے والوں کی سعی کو ناکام بھی بنایا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو مدینہ کے باسیوں نے ہجرت کی خود دعوت دی تھی اور اپنا جینا مرنا تک آپ کے ساتھ جوڑ لیا تھا اور آخر وقت تک اس عہد کو نبھایا حتٰی کہ فتح مکہ کے بعد بھی آنحضرت نے مدینہ میں قیام کو ترجیح دی۔
اب آپ کی تجویز کے ضمن میں بنیادی ترین سوال کی جانب آتے ہیں کہ اس دور ابتلا میں کون سا مسلم ملک اتنی بڑی تعداد میں فلسطینی مہاجرین کو قبول کرے گا؟ سلطنت عثمانیہ سے بغاوت کے صلے میں عربوں کو ملنے والا اردن، یا امریکی پٹھو حکومت کے زیر نگیں عراق؟ یا عرب قوم پرستی پر بھی مصر کا ساتھ نہ نبھا پانے والا شام؟ یا مشرق وسطٰی میں جدیدیت کا سرخیل مصر؟ یا مشرق وسطٰی کا پیرس لبنان؟ یا حماس اور پی ایل او دونوں کے درمیان ناکام معاہدے کرانے والا اور امریکہ کا یار سعودی عرب؟ گذشتہ 60 سالوں میں کون سا ملک سرکاری سطح پر فلسطینیوں کا حقیقی خیر خواہ بن کر سامنے آیا ہے جس پر فلسطینی کو مکمل اعتماد بھی ہو؟ اور ہمارے سامراجی پٹھو حکمرانوں میں سے کس میں اتنا حوصلہ ہے کہ وہ ان فلسطینیوں کو نہ صرف پناہ دے بلکہ اپنی سرزمین کی واپسی کے لیے کوششوں میں مدد بھی دے۔ اس وقت فلسطینی اپنے ارد گرد کے تمام ممالک کی بے حسی کے باعث اس پوزیشن پر آ گئے ہیں کہ وہ بم باندھ کر خود کو اڑا دیں اور حماس کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کریں۔ انتفاضہ کا آغاز صیہونی ریاست کے قیام کو دہائیاں گذر جانے کے بعد ہوا، اس سے پہلے وہ پڑوسی ممالک کی دوغلی پالیسیاں بھگت چکے تھے اور انتفاضہ عربوں کی بڑھتی ہوئی بے حسی اور صیہونیوں کے بڑھتے ہوئے مظالم کا ایک زبردست ردعمل تھا۔ لیکن حماس کو بھی معلوم ہے کہ وہ ہر طرح کے جدید اسلحے سے لیس اسرائیل کو عسکری محاذ پر شکست نہیں دے سکتا لیکن کم از کم وہ انہیں یہ احساس ضرور دلاتی رہے گی کہ وہ اسرائیل کے وجود سے نفرت کرتے ہیں اور انتفاضہ اسی نفرت کا اظہار ہے جو ہر فلسطینی کے دل میں صیہونیوں کے خلاف بھڑک رہی ہے۔ دوسری بات یہ توقع عبث ہے کہ اگر کوئی مسلم ملک فلسطینیوں کو اپنے ہاں پناہ دے بھی دے تو وہ امریکہ اور اسرائیل کی شر انگیزیوں سے محفوظ رہے گا۔ وہ ملک اسی طرح ہر جانب سے نشانہ بنے گا جس طرح مدینہ عرب بھر کے مشرکین کی شر انگیزیوں کا شکار ہوا۔
اور اس نفرت کا بنیادی سبب یہ ہے کہ خاک فلسطین پر یہودی کا حق کیونکر قبول کیا جائے؟ یہ بات کس طرح قابل قبول ہو سکتی ہے کہ فلسطین جیسی مقدس سرزمین یہودیوں کو صرف اس بنا پر دے دی جائے کیونکہ جنگ عظیم کے دوران یورپ میں ان پر مظالم توڑے گئے؟ (جس کے بارے میں آپ کو اچھی طرح علم ہوگا)۔ لیکن ذہنوں میں ایک چھوٹا سا سوال اٹھتا ہے کہ جب یہودی مبینہ مظالم کا شکار یورپ میں ہوئے تو اس کا خمیازہ فلسطین کیوں بھگتے؟ ان کی سرزمین کیوں انہیں دی جائے؟ انہیں جرمنی میں کیوں نہیں بسایا گیا؟ ہولوکاسٹ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو دونوں صورتوں میں اس کی ذمہ داری کلی طور پر یورپ خصوصاً جرمنی پر عائد ہوتی ہے اس لیے یہودی پر سرزمین فلسطین پر منتقل کرنے کا کوئی اخلاقی و قانونی جواز نہیں۔
ویسے خدانخواستہ خدانخواستہ (میرے منہ میں خاک) کل اگر مکہ پر کسی کا قبضہ ہو گیا تو تب بھی تجویز کردہ حکمت عملی اختیار کرنے کو ترجیح دی جائے گی؟ یہ بھی بعید نہیں شاید جواب اثبات میں ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حوالے سے قرآن مجید سے دو منتخب سورتوں (احزاب اور حشر) کا کچھ اجمالی جائزہ درج ذیل روابط پر ہے، اور اس موضوع پر دو غزوات (خیبر اور بنی قریظہ) پر مطالعہ بھی افاقے کا باعث ہوگا، ملاحظہ کیجیے:
http://ur.wikipedia.org/wiki/الاحزاب
http://ur.wikipedia.org/wiki/الحشر
http://ur.wikipedia.org/wiki/غزوہ خیبر
http://ur.wikipedia.org/wiki/غزوہ بنی قریظہ