چیزیں کیسے کام کرتی ہیں؟

زہیر عبّاس

محفلین
کہکشانی سطح مستوی کیا ہے؟

ہماری کہکشاں کے خط استوا کے بارے میں سب کچھ جانئے






اکثر کہکشانی مستوی سطح ہماری اپنی ملکی وے کہکشاں کے سلسلے میں بیان کی جاتی ہے۔

کہکشانی مستوی ایک ایسی سطح مستوی ہوتی ہے جہاں قرص کی صورت کی کہکشاں کی اکثریت واقع ہوتی ہے۔ یہ کہکشاں کے ایک حصّے کو دوسرے حصّے سے الگ کرتی ہے اور سطح مستوی کے متوازی سمتیں کہکشانی قطبین کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ عام طور پر سائنس دان جب کہکشانی سطح مستوی اور قطبین کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں تو وہ ملکی وے ہی کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں۔ کہکشانی سطح مستوی کی وضاحت کرنا ہمیشہ ہی آسان نہیں ہوتا؛ بلکہ ملکی وے جو خود بھی ایک سلاخ نما مرغولہ کہکشاں ہے اور بڑی حد تک قاعدے میں ہونے کے باوجود بھی اس کے تمام ستارے ٹھیک ٹھیک سطح مستوی کے اندر موجود نہیں ہیں۔ بین الاقوامی فلکیاتی یونین کہکشانی شمالی اور جنوبی قطبین کو کہکشانی محدد نظام کے حصّے کے طور پر بیان کرتے ہیں، ایک کروی محدد نظام جو سورج اور کہکشانی سطح مستوی کی نسبت سے کسی بھی جسم کے محل وقوع کو بیان کرتا ہے۔ کہکشانی ،محدد نظام بعینہ ارضیاتی محدد نظام کے کام کرتا ہے جس کو ہم زمین پر مقامات کا تعین کرنے کے لئے طول بلد (بی) اور عرض بلد (ایل) درجات کے ذریعہ کرتے ہیں۔

مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
ہائیڈروجن سے چلنے والی کاریں کس طرح کام کرتی ہیں؟

گیس سے چلنے والی یہ گاڑیاں کس طرح سے صفر گیس کا اخراج کرتی ہیں




ہائیڈروجن سے چلنے والی گاڑیاں، بالفاظ دیگر وہ کاریں جو ایندھن خانے والی گاڑیوں (ایف سی ویز) سے جانی جاتی ہیں، ان کو ماحول دوست مستقبل کی متبادل موٹر گاڑیوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ہائیڈروجن سے چلنے والی گاڑیاں اس طرح کام کرتی ہیں کہ بلند دباؤ کی ہائیڈروجن اور آکسیجن کو کیمیائی طور ملا کر برقی قوت پیدا کرتی ہیں ۔ اگرچہ اس کیمیائی تعامل کے لئے آکسیجن فضا سے لی جاتی ہے تاہم ہائیڈروجن بڑی ٹنکیوں میں ذخیرہ کی جاتی ہے جو کار کے جسم میں نیچے لگی ہوئی ہوتی ہیں تاکہ گاڑی کا مرکز ثقل پست ہو سکے جو استحکام اور چلانے کے لئے بہت اہم ہوتا ہے۔

ہائیڈروجن کائنات میں سب سے زیادہ پایا جانا والا عنصر ہے، جس کا ذخیرہ کرنا اور اسے نقل و حمل میں لانا آسان ہے، اور ہائیڈروجن سے چلنے کاریں ضمنی پیداوار میں صرف پانی کو پیدا کرتی ہیں، یعنی صفر نقصان دہ گیسی اخراج ماحول میں چھوڑا جاتا ہے۔ یہ ہی وہ وجوہات ہیں کہ کچھ سب سے بڑے تیار کنندگان اس ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔

ہائیڈروجن سے چلنے والی کاروں کو بہرحال کچھ بنیادی مسائل سے نمٹنا ہوگا جیسا کہ چھوٹی جدید گاڑی میں ایسی مناسب جگہ بنانی ہوگی جس میں ہائیڈروجن کی ٹنکیاں اور اضافی برقی موٹریں سما سکیں۔ وزن بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ بھاری ہائیڈروجن کی ٹنکیوں کو لادنے سے گاڑیوں کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔​
مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
رائٹ طیار

روایتی طیارہ جو سب سے مشہور بھائیوں کی شراکت میں تیار ہوا​



اورول اور ولبر رائٹ نے اپنی زندگی طاقتور طیارے کو تیار کرنے کے لئے وقف کر رکھی تھی ۔ انتہائی احتیاط کے ساتھ جانچا ہوا رائٹ طیار ڈیٹن، اوہائیو میں بنایا گیا تھا تاہم اسے 14 دسمبر 1903ء کو پہلی مرتبہ تجرباتی پرواز کے دوران ناکامی سے دوچار ہونا پڑا ۔ بالآخر بعد میں یہ 17 دسمبر کو اڑان بھرنے میں کامیاب ہوگیا اور ولبر اور اورول نے اپنی ایجاد کو 260 میٹر (852 فٹ) کی اونچائی تک اڑایا۔ طیارے کو ایک مختصر سی یک پٹری سے سائیکل کے دو تبدیل شدہ ہب سے چھوڑا گیا تھا۔ انجن بہت ہی بنیادی تھا اور صرف ایک ہاتھ سے چلنے والے بیرم سے کام کرتا تھا جس کا کام صرف ایندھن کی رسد کو کھولنا اور بند کرنا تھا۔ طیار کو بنانے سے قبل، بھائیوں نے 1900ء سے 1903ء کے دوران مختلف گلائیڈرز بنائے جن کی جانچ عظیم کامیابی کے ساتھ کی گئی۔ بالآخر انھیں وہ مکمل کلیہ مل گیا جس کی مدد سے انہوں نے دنیا کی پہلی ہوا سے بھاری مشین کو ہوا میں معلق کرلیا تھا۔

دو پنکھی ہوائی جہاز کی ساخت کے طور پر بنا ہوا رائٹ طیار بناگہانی بد قسمت موت سے اس وقت ہمکنار ہوا جب وہ اپنی پہلی اڑان کے چار دن بعد ہوا کے بڑے جھونکے سے تباہ ہوگیا۔ طیارے کے ڈیزائن کا کام 1948ء میں اورول کی موت کے بعد یو ایس اے میں واقع اسمتھسونین نیشنل ایئر اینڈ اسپیس میوزیم میں منتقل ہونے سے پہلے برٹش سائنس میوزیم میں ہوا۔​
مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
کس طرح سے ڈائی لائسز خون صاف کرتا ہے؟


دیکھئے کہ کس طرح سے ڈائی لائسز کا حیرت انگیز عمل آپ کے جسم سے ضرر رساں مادّوں کو نکالتا ہے


ہمیں ڈائی لائسز (رق پاشی) پر اس وقت انحصار کرنا پڑتا ہے جب گردے آپ کے خون سے فاضل مادّے اور غیر ضروری پانی صاف کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ ڈائی لائسز (رق پاشی) ایک مصنوعی عمل ہے جو دوران خون سے مضر رساں مادّوں جیسا کہ اضافی نمک اور اضافی سیال کو مرتکز اجزاء اور نفوذ کے سائنسی اصول کی بنیاد پر چھانتا ہے ۔ ڈائی لائسز مشین یہ کام کر سکتی ہے کہ کس مادّے کو کتنے ارتکاز پر نکالنا ہے، جس سے نا صرف فاضل مادّوں کے اخراج کو بلکہ الیکٹرولائٹ (برق پاش) توازن جیسا کہ سوڈیم اور پوٹاشِيَم کو بھی قابو کیا جا سکتا ہے۔ ڈائی لائسز کی اس وقت ضرورت ہوتی ہے جب گردوں کا قدرتی نظام ناکارہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ آپ ایک گردے پر زندہ رہ سکتے ہیں لہٰذا ڈائی لائسز اسی وقت ہوتا ہے جب دونوں متاثر ہوں۔ ڈائی لائسز کروانے کی عمومی وجوہات شدید ذیابیطس، دائمی فشار خون ہیں جبکہ شاذونادر یہ جنیاتی بیماری کی وجہ بھی کروانا پڑ جاتا ہے۔

ڈائی لائسز مشینوں کی تاریخ دوسری جنگ عظیم تک جاتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے تیزی سے ترقی اس لئے کی کیونکہ اس نے ثابت کر دیا تھا کہ یہ انسانی جان بچا سکتی ہے اور اس کی اب دو قسمیں ہیں: ہیمو ڈائی لائسز جو خون کو صاف کرتی ہے اور پیریٹونیل ڈائی لائسز جو پیٹ میں سے سیال کو صاف کرتی ہے۔ اگرچہ اس کے استعمال سے زندگی کو بچایا جا سکتا ہے تاہم اس کے لئے اس کو ہفتے میں چار مرتبہ تک استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا استعمال کوئی کم پیچیدہ نہیں ہے۔ لمبے عرصے کی صحت حاصل کرنے کے لئے گردے کی تبدیلی سب سے بہتر چناؤ ہوتا ہے تاہم گردے کو تبدیل کروانے والے مریضوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جتنی کہ گردے کے عطیات دینے والے ہوتے ہیں لہٰذا ڈائی لائسز پوری دنیا میں رہنے والے لوگوں کے لئے اب بھی ایک اہم ضرورت بنی ہوئی ہے۔

ڈائی لائسز مشین کس طرح کام کرتی ہے


جراثیم سے پاک نلکیاں رگ (تاکہ جسم سے خون نکال سکیں) سے اور مریض کے بازو کی ایک شریان (تاکہ صاف خون کو واپس کر سکیں) سے منسلک ہوتی ہیں۔ اس عمل میں ایک نیم نفوذ پذیر جھلی، ایک ننھے سوراخوں والی مہین چادر، استعمال ہوتی ہے جو اپنے آپ میں سے کچھ مخصوص حجم کے سالمات کو گزرنے کی اجازت دیتی ہے۔ جھلی کے ایک طرف خون لے جانے والے اجزاء اور فاضل مادّے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف گردہ ہوتا ہے جس میں پیشاب کے ابتدائی اجزاء موجود ہوتے ہیں۔ مسام بڑے ذرّات جیسا کہ خون کے سرخ خلیات کو خون کی گردش سے مفر ہونے سے روک کر رکھتے ہیں۔ یہ عمل مشین میں بالکل ایسے ہی دہرایا جاتا ہے۔ ایک طرف الگ کیا ہوا خون ہوتا ہے اور دوسری طرف محلول جو خون میں سے فاضل مادّوں کو نکالتا ہے۔
مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
اسٹیفن ہاکنگ کی وہیل چیئر کیسے چلتی ہے؟

اسٹیفن ہاکنگ کی ویل چیئر ایک بٹن کے ساتھ کنٹرول کی جاتی ہے


اسٹیفن ہاکنگ جب 21 برس کا تھا تو اس میں خشکی بغلی تصلب انساج (اے ایل ایس) کی بیماری کو تشخیص کیا گیا تھا۔ اے ایل ایس موٹر نیوران بیماری کی ایک قسم ہے جس کا نتیجہ ان اعصاب کی بتدریج موت کا سبب بنتا ہے جو پٹھوں کو قابو کرتے ہیں۔ اس بیماری کے اکثر شکار پانچ برس کے اندر ہی مرجاتے ہیں تاہم طبیعیات اور پروفیسر ہاکنگ کی اپنی خوش قسمتی سے ان کی اس بیماری نے بہت ہی سست رفتاری سے بڑھنا شروع کیا۔ اس کے باوجود بھی 73 سال کی عمر میں ہاکنگ کے موٹر کے افعال تھوڑے سے ہی باقی رہ گئے ہیں خاص طور پر اس کے چہرے کے پٹھوں کے۔ دنیا سے اس کا رابطہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی مدد سے رہتا ہے جو اس کی وہیل چیئر میں لگا ہوا ہے۔

پروفیسر ہاکنگ اپنے تمام ٹیبلٹ پی سی کے افعال کو صرف ایک ہی بٹن سے چلاتے ہیں - ذرا تصور کریں کہ آپ اپنا ذاتی کمپیوٹر صرف اسپیس کی کلید سے چلائیں! ہاکنگ کا پی سی ایک خاص انٹرفیس استعمال کرتا ہے جو ای زی کیز کہلاتا ہے جب ہاکنگ اپنے گالوں کو حرکت دیتا ہے تو ایک سراغ رساں اس کی حرکت کو دیکھتا ہے اور کمپیوٹر اسکینر وہیں رک جاتا ہے اور اس حرف کو اٹھا لیتا ہے۔ وہ اس عمل کو ایک کلید یا ایک مینو سے دوسرے مینو تک اسکین کرنے کے لئے استعمال کرسکتا ہے اور اس طرح وہ اپنا ای میل کا پروگرام (یوڈورا)، ویب براؤزر (فائر فاکس) کو چلا لیتا بلکہ اسکائپ سے کال بھی ملا لیتا ہے۔

کیونکہ ہاکنگ کی جسمانی حالت بتدریج خراب ہورہی ہے لہٰذا اس کی لکھنے کی رفتار ایک یا دو الفاظ فی منٹ تک ہوگئی ہے۔ انٹیل کے سائنسدانوں نے ہاکنگ کے ذخیرہ الفاظ اور لکھنے کے طریقہ کار کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک الوگرتھمب نایا ہےجو درست طریقے اس اگلے الفاظ کا اندازہ لگا تا ہے جو وہ لکھنا چاہتا ہے۔

خیالات سے چلنے والی وہیل چیئر


آپ جب بولتے ہیں تو آپ کا دماغ اعصابی اشارے آپ کے گلے کو بھیجتا ہے چاہئے آپ کے پٹھے اتنا توانا نہ بھی ہوں کہ وہ اصل میں قابل سماعت آواز کو نکال سکیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ذیلی تقریر اس وقت بھی وقوع پذیر ہوتی ہے جب آپ اپنے دماغ میں کسی لفظ کو سوچتے بھی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی ابتداء میں ناسا کے ایمز ریسرچ سینٹر میں بنائی گئی تھی جس کو اب شدید معذرو افراد کے لئے دستیاب کردیا گیا ہے تاکہ وہ موٹر سے چلنے والی وہیل چیئر کو خود سے چلا سکیں یا اپنے خیالات کو اسپیچ سینتھیسائزر (بولنا کو بنانے والے آلے) تک پہنچا سکیں۔ صارف اپنے گلے کی جلد سے چپکے ہوئے برقیرے کو پہنتا ہے اور صرف احکام دینے والے الفاظ کا استعمال کرتا ہے جیسے کہ 'بائیں طرف جاؤ' یا 'رکو'۔ ننھی برقی دھڑکنوں کا سراغ لگایا جاتا ہے اور ان کی رمز کشائی کی جاتی ہے اور درست حکم وہیل چیئر کو بھیج دیا جاتا ہے۔ ہاکنگ دماغی انٹرفیس کو اسی طرح سے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے تاہم وہ اب بھی اس سے ٹھیک طرح سے استعمال نہیں ہوپاتے۔ فی الوقت برقیرے کو اگر ٹھیک جگہ پر رکھنے میں ذرا سی بھی غلطی ہو تو شناخت کی شرح 94 فیصد سے گر کر 50 فیصد تک ہوجاتی ہے۔​
مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
3ڈوڈلر سہ جہتی پرنٹر

3ڈوڈلر آپ کو ہوا میں خاکہ بنانے کی اجازت دیتا ہے

دنیا کا پہلا سہ جہتی چھاپنے والا قلم - ووبل ورکس کا 3 ڈوڈلر - کک اسٹارٹر میں 2013ء میں شروع کیا گیا جہاں اس نے صرف 34 دن میں 13 لاکھ سے زائد برطانوی پونڈ (20 لاکھ یو ایس ڈالر) کی صورت میں سرمایہ حاصل کیا۔

یہ آلہ آپ کو اس قابل کرتا ہے کہ آپ مکمل سہ جہتی طور پر خاکوں کو کسی بھی سطح پر کسی بھی سافٹ ویئر یا کمپیوٹر کے بغیر بنا سکیں۔ ایک عام قلم کے برعکس 3ڈوڈلر سیاہی استعمال نہیں کرتا بلکہ وہ اے بی ایس یا پی ایل اے پلاسٹک کے مادّے کے ریشوں پر انحصار کرتا ہے جس کو زیادہ تر سہ جہتی پرنٹر استعمال کرتے ہیں۔

اپنے زیادہ مہنگے ڈیسک ٹاپ ساتھیوں کی طرح 3ڈوڈلر تین ملی میٹر (0.1 انچ) پتلی پلاسٹک کی ڈوری کو گرم کرکے پرنٹ کرتا ہے جسے اس کے پیچھے موجود ہونا ضروری ہے۔ 3ڈوڈلر کو چلانے اور چند منٹوں تک اس کے گرم ہونے کا انتظار کرنے کے بعد ایل ای ڈی روشنی کا اشارہ نیلا ہوجاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گرم پلاسٹک پگھل کر 3ڈوڈلر کی دھاتی نوک کے سوراخ سے نکل سکتا ہے - یہ قلم کا سب سے زیادہ خطرناک حصّہ ہے جو 270 ڈگری سیلسیس (518 ڈگری فارن ہائیٹ) تک گرم ہوسکتا ہے۔

ایک مرتبہ جب گرم پلاسٹک نوک سے نکل جاتا ہے تو وہ تیزی سے مضبوط ، پائیدار صورت میں ٹھوس ہوجاتا ہے جس سے آپ مختلف شکلیں آسانی کے ساتھ بنا سکتے ہیں۔ کیونکہ گرم پلاسٹک کسی بھی سطح پر نکالا جاسکتا ہے بشمول دوسرے پلاسٹک کے یہاں تک کہ آئی فون کے کیس کو بھی مختلف رنگوں میں ذاتی طور پر بنایا جاسکتا ہے۔

درجہ حرارت کو حاصل کرنے کی دو ترتیبات ہیں تاکہ صارفین آسانی سے اے بی ایس اور پی ایل اے کے درمیان آ جا سکیں اور رفتار کو قابو کرنے کے دو کلیدیں گرم پلاسٹک کو تیزی یا آہستگی کے ساتھ بہنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ نہ صرف بڑی اشیاء کو بڑے علاقہ کو بھرنے کے لئے بنایا جاسکے بلکہ زیادہ پیچیدہ اور نفیس تفصیلات بھی بنائی جاسکتی ہیں۔


سہ جہتی پرنٹنگ کے لئے اے بی ایس اور پی ایل اے کے درمیان فرق



پی ایل اے اور اے بی ایس دونوں کا قلم کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے جو دو مختلف درجہ حرارت پر گرم ہوتے ہیں۔
آج سب سے زیادہ عام پایا جانے والا پلاسٹک اے بی ایس یا ایکرائیلو نائٹرائل بیوٹے ڈین اسٹائرین ہے۔ تیل کے جوہر سے بنایا گیا یہ کافی مضبوط ہوتا ہے اور پی ایل اے کے مقابلے میں مڑنے پر اس کے چٹخنے کا امکان کم ہوتا ہے، 3ڈوڈلر کے لئے اس کا نقطہ پگھلاؤ 225 تا 250 ڈگری سیلسیس (437 تا 482 فارن ہائیٹ) ہے۔ یہ قلم سے مزید لچک دار مادّے کو نکالتا ہے اور یہ 3ڈوڈلر پی ایل اے کے مقابلے میں کاغذ پر سے آسانی سے اتارا جاتا ہے۔روایتی سہ جہتی پرنٹنگ میں اے بی ایس وہ پلاسٹک ہے جسے اگر گرم سطح جیسا کہ گرم بنائے گئے پلیٹ فارم پر نہیں چھاپا جائے تو وہ آسانی سے خراب ہوسکتا ہے۔

پی ایل اے یا پولی لیکٹک ایسڈ حیاتی طور پر تحلیل ہونے والا پولیمر ہے اور اس کو ماحولیاتی لحاظ سے اس وقت بہتر سمجھا جاتا ہے جب اس یہ ٹھیک طرح سے باز یافت کیا جائے۔ یہ کافی قسم کے رنگوں میں دستیاب ہوتا ہے اور یہ شفاف بھی ہوسکتا ہے۔ 3ڈوڈلر کے لئے 190 تا 240 ڈگری سیلسیس (374 تا 464 ڈگری فارن ہائیٹ) کے پست نقطہ پگھلاؤ کی وجہ سے ، پی ایل اے کا زیادہ گرم ہونے کا امکان کافی ہوتا ہے اور یہ اگر بہت زیادہ گرم ہوجائے تو گر بھی سکتا ہے۔ اور کیونکہ یہ بہت اچھی طرح چپکتا ہے لہٰذا اے بی ایس کی طرح کاغذ پر سے اتارنے کے لئے مناسب نہیں ہے، تاہم یہ مخلوط ذریعہ کے لئے اضافی خصوصیت ہے جیسا کہ شیشے کی سطح پر 3ڈوڈلر کی تخلیقات کو چپکانا۔


3ڈوڈلر آپ کو اجازت دیتا ہے کہ آپ پلاسٹک سے جو چاہئے بنانا چائیں بنائیں

3ڈوڈلر کسی کو بھی اے بی ایس یا پی ایل اے پلاسٹک کو گرم کرکے سیدھا ہوا میں خاکہ بنانے کی اجازت دیتا ہے۔
 

یاز

محفلین
بہت ہی شاندار سلسلہ ہے زہیر عباس صاحب۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے کہ بہت ہی نیک کام سرانجام دے رہے ہیں اس طرح کی معلومات کو اردو اور آسان فہم زبان میں ترجمہ کر کے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
بوئنگ 747

747 ہوائی جہاز 50,000 لوگوں پر مشتمل جماعت نے بنایا جس میں میکینک، انجنیئر اور معتمدین شامل تھے

آسمان کے شہنشاہ، 747 کا حجم اور فقط پیمانہ ہی افسانوی ہے​




1960ء میں، ہوا بازی کی کمپنیاں ایک بڑے مسئلے سے دوچار ہو گئی تھیں۔ ہوا بازی کی صنعت کاروبار، تفریح اور تجارت کے میدانوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کر چکی تھی اور طیاروں کی فراہمی کی مانگ کو پورا کرنے کے لئے زبردست جدوجہد کر رہی تھی۔ تاہم بوئنگ کے پاس اس کا حل موجود تھا، اس وقت تک کا بنایا جانے والا سب سے بڑا شہری جہاز، 747۔ 16 ماہ سے کم عرصے کے دوران ان مزدوروں کی جماعت نے اس کو بنایا تھا جو 'ناقابل یقین' کے نام سے جانے جاتے تھے، اس کو تین مختلف اقسام کی صورت میں بنایا گیا تھا - مسافر بردار، بار بردار اور اور مسافر/مال بردار – اس نے پہلی مرتبہ 1968ء میں اڑان بھری۔ 1970ء تک یہ عظیم الجثہ جیٹ دنیا کی فضائی ٹریفک میں بے عیب طریقے سے کھپ گیا تھا اور ناقدین کے منہ پر قفل لگا دی تھی۔ اپنے قیام کے آغاز کے بعد سے، 747 کئی طرح کے نمونوں میں پیش کیا گیا۔ 747-400 سب سے پہلے 1988ء میں اڑا اور اس سے قبل یہ مال بردار اور مسافر جہاز کے نمونے کا ایک مجموعہ تھا۔ یہ سب سے زیادہ بکنے والا نمونہ تھا۔ 2005ء میں کی جانے والی شماریات بتاتی ہیں کہ 747 کے 1,365 جہاز بین الاقوامی سطح پر 80 سے زائد مختلف قسم کے صارفین کو بیچے گئے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس میں 3 ارب 50 کروڑ مسافروں نے ہوائی سفر کیا۔ حالیہ برسوں میں نئے عظیم الجثہ جیٹ جیسا کہ ایئر بس نے 747 کو حجم میں مات دے دی ہے تاہم یہ آسمانوں کے لئے اب بھی ایک مثال ہے اور اس نے ثابت کیا کہ عظیم الجثہ ہوائی جہازوں کو بنانا ممکن تھا۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
برف کے ٹکڑے بنانے کی ٹیکنالوجی

ہمارے مشروبات کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے کس طرح سے یہ مشینیں برف کے ٹکڑے بناتی ہیں؟



برف کے ٹکڑے بنانے والی مشین اصل میں فوری استعمال کے لئے برف کے ٹکڑوں کی ایک کنوئیر بیلٹ (منقالہ پٹی) ہوتی ہے۔ یہ آئس میکر (برف بنانے کی مشین)مختلف شکل و صورت میں مختلف مقاصد کے لئے دستیاب ہوتی ہے، تاہم سب کی سب پانی کو ایک سانچے میں جما دینے کا طریقہ استعمال کرتی ہیں اور اس کے بعد برف کے ٹکڑے کو تھوڑا سا گرم کرتی ہیں تاکہ واہ آسانی سے لڑک جائے۔ یہاں ہم دیکھیں گے کہ کس طرح سے ایک روایتی برف بنانے کی مشین گھریلو فرج کے فریزر میں کام کرتی ہے۔ اس کی ایک مثال نیچے دی ہوئی تصویر میں موجود ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
برقی مقناطیسی طیف




خلاء میں دوڑتی ہوئی مختلف اقسام کی شعاعوں کو آپس میں برقی مقناطیسی طیف کی صورت ترتیب دیا جاسکتا ہے ۔ اپنی خصوصیات کی بنا پر ہم ان اشعاع کو اس طرح سے ترتیب دے سکتے ہیں جیسے کہ پیانو کی موسیقی کے نوٹس۔ برقی مقناطیسی طیف کے پست نوٹ وہ ہیں جن میں زبردست توانائی کی امواج موجود ہیں، ان کی شروعات ہوتی ہے ریڈیائی لہروں سے اور یہ بتدریج بلند نوٹس کی طرف جاتی ہیں - گیما اشعاع کی طرف جو بہت ہی زیادہ توانا ہوتی ہیں۔

'لہریں' کہلانے کی وجہ سے یہ تصور کرنا آسان ہے کہ ہم طیف کو صوتی امواج جیسا سمجھیں، جو ہوا کے ذرّات کو تھرتھراتی ہیں تاکہ وہ آپ کے کانوں تک پہنچ سکیں۔ برقی مقناطیسی اشعاع کے ساتھ چیزیں تھوڑا الگ ہیں - ان کو سفر کرنے کے لئے ہوا کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مقناطیسی اور برقی میدانوں میں اپنی حرکت ہوتی ہے لہٰذا ان کو کسی کے ساتھ چلنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خلائی دوربینوں - جیسا کہ چاندرا ایکس رے رصدگاہ ہے- اور زمینی دوربینوں کی ایجاد کے ساتھ ہم کائنات کو کئی طول موجوں میں دیکھنے کے قابل ہوگئے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
آتشی گرد باد (Firenadoes)




اگر گرد و باد کے مہلک طوفان میں آگ کو شامل کردیا جائے تو حقیقت میں ان کی زیادہ قربت بگولوں اور جھکڑوں سےہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ آگ کے جھکڑ اور آگ کے بگولوں کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ یہ عام طور پر جنگل میں لگنے والی آگ میں بنتے ہیں تاہم ا ن کو گھروں میں لگنے والی آگ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے اور یہ بہت ہی مختلف حجم کے ہوسکتے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
طوفانی ژالہ باری

دیوہیکل طوفانی ژالہ باری


برف کے ٹکڑوں کے بجائے برف کی ضخیم گیندیں جو آسمان سے ژالہ باری میں گرتی ہیں اصل میں پیاز کی طرح کئی پرتوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اس سے یہ ناقابل یقین حد تک سخت بن جاتی ہیں اور اسی وجہ سے یہ بڑھتی رہتی ہیں اور ایسے اولوں کی صورت اختیار کرلیتی ہیں جو انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں۔ ژالہ باری کو اکثر برف باری سمجھا جاتا ہے حالانکہ برف باری میں بارش کے منجمد قطرے ہوتے ہیں جو صرف ایک ہی پرت پر مشتمل ہوتے ہیں اور اولوں سے کہیں زیادہ کمزور ہوتے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوسلز (رکازات) کی تلاش

کیا آپ جانتے ہیں ؟ 2006 ء میں ہونے والی ایک تحقیق نے عندیہ دیا ہے کہ ابھی تک صرف ڈائنوسارس کی 28 فیصد نسلیں ڈھونڈی گئی ہیں؟

قبل از تاریخ کی باقیات کو کس طرح سے نکالا جاتا ہے اور ان سے سائنس دان کیا سیکھ سکتے ہیں ؟ ہم آپ کو اس کی حقیقت بتاتے ہیں ۔ ۔ ۔​



۱۹ ویں صدی کی ابتداء میں جب سے میری ایننگ نے پہلی مرتبہ جراسک جانوروں کے فوسلز کو جوڑنا شروع کیا تب سے سائنس دان جانتے جا رہے ہیں کہ ڈائنوسارس نے دنیا پر کروڑوں برس پہلے حکمرانی کی ہے۔ زمین کی گہرائی میں عرصہ دراز سے دفن لاتعداد معدوم مخلوق کی باقیات انتظار کررہی ہیں کہ ان کو ماہرین رکازات ڈھونڈیں جو بتدریج ان کے رازوں سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔

ڈائنوسارس اور قبل از تاریخ کے دوسرے رکازات ہزار ہا برس سے پوری دنیا میں دریافت ہوتے رہے ہیں، چین میں پائی جانے والی 'ڈریگن کی ہڈیوں ' کی اطلاعات عندیہ دیتی ہیں کہ وہ ابتدائی طور پر پائے جانے والے ڈائنوسارس میں ہی سے کچھ تھے۔ بہرحال یہ صرف ۱۸ ویں اور ۱۹ ویں صدی کے روشن فکر لائق سائنس دان ہی تھے جنہوں نے واضح کیا کہ یہ قدیمی ڈھانچے کس قدر پرانے ہیں۔

بہت عرصہ پہلے عجیب معدوم 'چھپکلی' کے پوری دنیا میں مختلف جگہوں پر دریافت ہونے کے بعد رکازات کی تلاش شوقیہ اور نیچرلسٹ کے درمیان ایک جنون بن گئی تھی۔

اگرچہ زمین کے اندر گھس جانے والے ریڈار اب آثار قدیمہ کے ماہرین کی مدد زیر زمین چھپی ہوئی باقیات کو تلاش کرنے میں دیتے ہیں تاہم جدید ماہرین رکازات اب بھی 19 ویں صدی کے اپنے پیش رو کے طریقوں پر ہی انحصار کرتے ہیں یعنی کہ خالص قسمت کی یاوری پر۔ بلاشبہ ارضیات اور نام نہاد رکازات کے ہاٹ سپاٹ کی بہتر سمجھ کے ساتھ یہ ممکن ہو گیا ہے کہ اندازہ قائم کیا جا سکے کہ ان کے پانے کا امکان کہاں زیادہ ہے۔ ایک مرتبہ رکاز کی جگہ کی شناخت ہو جائے تو پھر ڈائنوسارس کی باقیات کو نکالنے کا لمبا اور نازک عمل شروع ہو جاتا ہے۔

رکازات کی کھدائی ریت میں سے چھنائی کرنے اور رسوب میں ننھے دانتوں کی تلاش کرنے جتنا سادہ بھی ہو سکتی ہے، یا پھر بڑی چٹانوں کو ہتھوڑے اور چھینی کی مدد سے توڑ کر دیکھا جاتا ہے کہ اندر کیا پڑا ہے۔ پہاڑیاں، کانیں، پہاڑی ڈھلانیں اور گھاٹیاں رکازات پائے جانے والی اہم جگہیں ہیں کیونکہ چٹانوں کی گہری پرتیں کروڑ ہا برس کے کٹاؤ کے بعد ہی بے نقاب ہوتی ہیں۔ ان صورتوں میں بھاری کھودنے اور سوراخ کرنے والی مشینیوں کو تلاش کی جگہ پر پہنچانا انتہائی اہم ہوتا ہے۔ کھدائی کے دوران درجنوں سائنس کے طالبعلم بلکہ پرجوش رضاکار برش اور کھرپیوں سے لیس ہو کر مصروف تلاش ہوتے ہیں۔ تاہم نمونوں کی نازکی کی وجہ سے کہ وہ کروڑ ہا برس پرانے ہیں اکثر پورے ڈائنوسارس کے ڈھانچے کو حفاظت سے اوپر آنے میں مزید دسیوں لاکھ برس لگ جاتے ہیں۔

بلاشبہ ماہرین رکازیات پرانی ہڈیوں کو کھودنے کے علاوہ بھی کافی کام کرتے ہیں۔ ارضیات اور حیاتیات کے مضامین ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مخلوط رکازیات بناتے ہیں جو زمین پر زندگی کی تاریخ کو ظاہر کرنے کے رکازات کا مطالعہ کا نام ہے۔ لہٰذا ایک مرتبہ جب رکازات کی باقیات مکمل طور پر کھود کر نکال لی جاتی ہیں تو اصل کام تجربہ گاہ میں شروع ہوتا ہے۔ یہاں سائنس دان سخت محنت کے بعد نمونوں میں سے مٹی و پتھر کا باقیات کو الگ کرتے ہیں تاکہ مکمل طور پر اس کا تجزیہ کر سکیں برقی خرد بین، کیٹ اسکینرز اور ایکس رے مشینیں تمام کی تمام کو مخلوق کی معلومات حاصل کرنے کے لئے ممکنہ حد تک استعمال کیا جاتا ہے۔

سراپے، لمبائی اور ہر رکازی ہڈی کی ترتیب کا مطالعہ کر کے ماہرین رکازیات اس قابل ہو جاتے ہیں کہ نہ صرف اس بات کا تعین کر سکیں کہ کچھ ڈائنوسارس کس طرح کے دکھائی دیتے ہوں گے بلکہ وہ کس طرح چلتے ہوں گے اور کیا کھاتے ہوں گے۔ رکازی بازو کی ہڈیوں میں دندانے بعینہ عصر حاضر کے پرندوں جیسے ہیں جو اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ ڈائنوسارس کی کئی اقسام اصل میں پروں والی ہوں گی۔

بڑے سے بڑی، عجیب سے عجیب تر بلکہ اور زیادہ ناقابل یقین ڈائنوسارس کی دریافتیں ہر وقت ہوتی رہی ہیں، جن میں سے ہر نئی دریافت ماضی کی نظریات کو تبدیل کرنے پر مجبور کرتی ہیں اور دور دراز کی دنیا کے میان حیاتیہ (قدیم حیاتی دور اور نو حیاتی دور کے درمیانی دور سے مُتعَلِق) کے جانوروں پر مزید نئی روشنی ڈالتی ہے۔ ماضی کے سائنس دانوں اور جوشیلوں کے اہم کام کی بدولت ہر نیا پایا جانے والا رکاز قبل از تاریخ کے آڑے کٹے معمے کے حل کا ایک نیا ٹکڑا ثابت ہو رہا ہے۔


اہم رکازات کے بارے میں پانچ اہم حقائق

1۔ ہماری پیاری اصلیت​

2004 ء میں دریافت کیا گیا ٹیکٹالک ارتقائی سائنس کے لئے سب سے اہم دریافت تھی، کیونکہ یہ آبی اور زمین پر رہنے والی حیات کے درمیان کچھ 37 کروڑ 50 لاکھ برس پہلے ایک عبوری رابطہ تھا۔
2۔ کیا یہ ایک پرندہ ہے​

سب سے پہلے جرمنی میں پایا گیا اوبی طائر (آرکیوپٹریکس) کا حجری نمونہ ڈائنوسارس اور پرندوں کے درمیان عبوری انواع کے ہونے کا عندیہ دیتی ہے۔ ایسی اشارے موجود ہیں کہ مخلوق کے پر بھی تھے اور وہ درختوں پر چڑھنے کے قابل بھی تھا۔
3۔ ارتقائی ربط​

سمجھا جاتا ہے کہ حیوانات رئیسہ اور انسانوں میں کھویا ہوا ربط ہومو ایرگاسٹر میں پایا جاتا ہے، وہ پہلا رکاز جس کا نام ترکان لڑکا رکھا گیا۔ ہومو ایرگاسٹر دو پیروں پر چلتا تھا۔
4۔ خالی جگہ میں رنگ بھریں​

سائنو ساروپٹیریکس کے پروں کے رکاز نے رنگوں کو بنانے کے مادّوں کو ظاہر کیا ہے۔ سائنس دانوں نے اندازہ لگایا کہ مخلوق کی گہری سرخ بھوری دم تھی۔
5۔ مادری جبلت​

دیوہیکل مایاسارا کے گھونسلے کی دریافت جس میں شیرخوار رکازی نمونے بھی شامل ہیں تصدیق کرتے ہیں کہ کچھ ڈائنوسارس میں مادری جبلت بھی تھی اور وہ اپنے بچوں کو انڈے میں سے نکلنے کے بعد بھی پالتے تھے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
لڑاکا طیارے کا ارتقاء

پرانی جنگ کے آسمان کے شاہینوں کو کس طرح سے حالیہ دور میں نئی بلندی حاصل ہوئی


جیسے ہی ہم نے پرواز حاصل کرنے کی صلاحیت حاصل کی اس کے ساتھ ہی تقریباً ہم نے ہوا میں دوسروں کو تباہ کرنے کے نئے طریقے ڈھونڈ لئے تھے۔ فضائی جنگ کا آغاز اس وقت سے شروع ہوا جب پائلٹ اپنے کاک پٹ سے نکل کر ہدف کا نشانہ اپنی پستول سے لیتے تھے۔

جنگ تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے تاہم یہ ہوا بازی کی ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی کے لئے مثالی ہوتی ہے۔ آج ہمارے جانے والے جدید جنگی جہاز کافی سارے سنگ میل عبور کر کے بنے ہیں، باز گرداں نزولی گیئر، ملفوف کاک پٹ، اندرونی ہتھیاروں کے نظام، جیٹ انجن، خارج کرنے والی سیٹ، مکمل نظارہ کرنے والی اسکرین اور بہت کچھ۔

یہاں دو تاریخی طیاروں کی اختراعی خصوصیات کا ذکر کیا جا رہا ہے جس یہ یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ کس طرح سے انہوں نے نئی ٹیکنالوجی کو جنگ میں استعمال کیا۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
جنگی جہازوں کا مستقبل

میسرشمٹ بی ایف 109




دشمنوں اور جنگجوؤں کے مقام پر نظر رکھنے اور ان کو نشانہ بنانے کے لئے بغیر پائلٹ ڈرونز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ روایتی طیارے بالآخر مستقبل کی جنگوں میں اپنا مقصد کھو دیں گے۔ 2013ء میں نارتھروپ گرومین X-47B پروٹوٹائپ بغیر پائلٹ طیارہ اپنی نوعیت کا پہلا کیریئر سے چھوڑا اور اترنے والا طیارہ تھا جس نے مستقبل کے ممکنہ بغیر پائلٹ کے بمبار طیاروں کو بنانے کا عندیہ دیا ہے۔ بوئنگ کا QF-16 - کنارہ کش تبدیل شدہ F-16 جیٹ جس کو دور سے چلایا جا سکتا ہے - اب باقاعدہ ہوائی اہداف کی تربیت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ پائلٹ کے بغیر اڑنے والے طیارے میزائل کے نظام کو جانچنے کے لئے حقیقی اہداف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں تاہم یہ ساتھ ساتھ یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ دور سے بیٹھ کر کس قدر درستگی کے ساتھ جہاز اڑایا جا سکتا ہے۔


حکومت اور صنعتی پیشوا تسلیم کرتے ہیں کہ مستقبل کے عسکری طیارے مصنوعی ذہانت کے ساتھ مزید نتھی ہوں گے بلکہ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ انسان بردار طیارے پائلٹ کے بغیر اڑنے والے طیاروں کے ہمراہ مل کر کام کریں گے۔ ڈیفینس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی (ڈارپا) نے بتایا کہ ڈرون جھنڈ کی صورت میں زیادہ بہتر کام کرتے ہیں، اس بات نے مزید تحقیق کے دروازے کھول دیئے جس میں دیکھا جائے گا کہ کس طرح سے صرف انسانوں سے چلنے والے طیاروں کے بجائے ڈرون ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جنگی صورتحال میں کام کر سکتے ہیں۔ بلکہ لڑاکا طیاروں کی پانچویں نسل بشمول F-35 برق دوم اور شینیانگ J-31 کے دستیاب ہونے سے بھی پہلے دنیا کی حکومتیں نہ صرف مؤثر سرمایہ کاری کی تلاش میں ہیں بلکہ چھٹی نسل کے عسکری طیارہ سازی کے لئے جدید حل بھی دیکھ رہی ہیں۔
 
Top