چیزیں کیسے کام کرتی ہیں؟

زہیر عبّاس

محفلین
ہم سب ستاروں کی خاک ہیں!!!!

"عمر رسیدہ پھٹے ہوئے ستاروں کی باقیات مزید نظام ہائے شمسی بناتی ہیں "


ہائیڈروجن سب سے چھوٹا عنصر ہے، اور بگ بینگ کے بعد کافی وسیع مقدار میں بنا ہے اس کے ساتھ کچھ مقدار میں ہیلیئم ، اور اس سے بھی کم مقدار میں لیتھیم اور بیریلیم بھی بنے تھے ۔ تاہم بھاری عناصر بننے میں مزید توانائی درکار ہوتی ہے۔ ہائیڈروجن اور ہیلیئم گیس بادل بنانے کے لئے ایک ساتھ جمع ہوتی ہے، اور بادل ستارے بنانے کے لئے منہدم ہوتے ہیں جہاں کافی حرارت اور دباؤ نیوکلیائی گداخت کو چلانے کے لئے ہوتی ہے؛ ستاروں کے اندر ہائیڈروجن کے جوہر ایک دوسرے میں ضم ہو کر، ہیلیئم کی گداخت کرتے ہیں۔

جب ستارے عمر رسیدہ ہوتے ہیں، تو ہیلیئم کے جوہر کاربن، نائٹروجن اور آکسیجن سمیت بھاری عناصر بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ ستارے کی کمیت پر منحصر یہ عمل کبھی جاری بھی رہتا ہے اور زیادہ تر عناصر کا مرکزہ عدد 26، لوہے تک بناتا ہے۔ اس نازک مرحلے پر، توانائی پیدا کرنے والا گداختی عمل رک جاتا ہے۔ جب ستارے میں قابل استعمال ایندھن ختم ہو جاتا ہے، تو وہ منہدم ہو جاتے ہیں، اور کھلائے بسیط میں بھاری عناصر اور گیس کو پھینک دیتے ہیں۔

زیادہ تر ضخیم ستاروں کے لئے، اس عمل میں سپرنووا کہلانے والا ایک طاقت ور دھماکہ ملوث ہوتا ہے، جو اتنی توانائی پیدا کرتا ہے کہ لوہے سے بھاری عناصر بن سکیں۔ ان عمر رسیدہ پھٹے ہوئے ستاروں کی باقیات مزید ہائیڈروجن گیس سے ملتی ہیں اور مزید ستاروں کے نظام کو تشکیل دیتی ہیں، جیسا کہ ہمارا سورج اور سیارے، اس سے ہمیں وہ متنوع فیہ عناصر ملتے ہیں جس کو ہم آج زمین پر دیکھتے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ایٹمز میں کتنی خالی جگہ ہوتی ہے؟

اگر آپ ہمارے تمام جوہروں میں سے خالی خلاء کو نکال دیں، تو نسل انسانی صرف ایک شکر کی ڈلی میں سما سکتی ہے




ہماری دنیا کو بنانے والے جوہر ٹھوس لگتے ہیں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ 99.99999 فیصد سے بھی زیادہ وہ خالی جگہ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ایک جوہر ننھے، کثیف مرکزے پر مشتمل ہوتا ہے جس کے ارد گرد الیکٹران کا بادل ایک متناسب وسیع علاقے پر پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بطور ذرّات کے الیکٹران موج کی طرح بھی برتاؤ کرتے ہیں۔ الیکٹران صرف وہیں پر موجود ہو سکتے ہیں جہاں پر ان امواج کے نشیب و فراز ٹھیک طور پر جمع ہوتے ہیں۔ اور بجائے کسی ایک مقام پر موجود ہونے کے، ہر الیکٹران احتمالات کی حد کے اندر پھیلے ہوئے - ایک مدار - میں ہوتے ہیں۔ اس طرح سے وہ وسیع خالی جگہ پر قابض ہوتے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
بالوں کی پیوند کاری (ہیئر ٹرانسپلانٹ )کیسے کی جاتی ہے؟

جدید سائنس نے حال ہی میں قدیم تراکیب کو بہتر کیا ہے


جراحی کس طرح سے گنجے پن سے جنگ کرتی ہے

بالوں کی پیوند کاری کی سائنس پچھلے 20 برسوں میں بہت زیادہ بہتر ہوئی ہے

مردوں میں گنجے پن کا ہونا ایک عام سی بات ہے، تاہم کچھ لوگ اس کی وجہ سے ظاہری شکل و صورت پر ہونے والی تبدیلی پر خدشات کا شکار ہو سکتے ہیں بلکہ کچھ میں تو اعتماد کی کمی بھی ہو جاتی ہے۔ زیادہ تر تو اسے قبول کر لیتے ہیں تاہم کچھ گنجے پن کے عمل سے نبرد آزما ہونا پسند کرتے ہیں۔ جدید سائنس نے حال ہی میں قدیمی تیکنیک کو بہتر کیا ہے، یعنی کہ بالوں کی پیوند کاری اب بڑی حد تک گنجے پن کا خاتمہ کر سکتی ہے۔

بالوں کی پیوند کاری کا عمل شروع کرنے سے پہلے مریضوں کی احتیاط کے ساتھ جانچ کی جاتی ہے بعینہ جس طرح سے حسن افروز کاروائی (کاسمیٹک سرجری)سے پہلے مریضوں کی جانچ کی جاتی ہے۔ اگرچہ بالوں کی پیوند کاری خود اعتمادی کو بحال کر دیتی ہے، تاہم اہم بات یہ ہے کہ اس کا استعمال کر کے مریضوں کی زندگی کے ان مسائل کو حل نہیں کیا جانا چاہئے جو صرف ظاہری شکل و صورت میں ہونے والی تبدیلی سے حل نہیں ہو سکتے۔

بالوں کی پیوند کاری 19 ویں صدی سے زیر استعمال ہے۔ بہرحال یہ صرف پچھلے بیس برسوں کی بات ہے جب جدید تیکنیک نے معتبر اور حقیقی نتائج کی طرف رہنمائی کی۔ فی الحال، دو تراکیب کو سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلے میں سر کے پچھلے حصّے سے ایک بالوں کی مہین پٹی لی جاتی ہے، بالوں کے غدود کو الگ کر کے بالوں کو کاسہ سر کے شروع یعنی ابروں سے اوپر والے حصے میں پیوند کر دیا جاتا ہے۔ دوسرے طریقہ میں پٹی کو الگ نہیں کیا جاتا؛ اس کے بجائے دو سے چار بالوں کے غدودوں کے لچھے کو الگ کر کے مطلوبہ جگہ پر پیوند کر دیا جاتا ہے۔

یہ تراکیب اس قدر نفیس بن چکی ہیں کہ بالوں کے غدود کی سمت کو اس وقت قابو کیا جا سکتا ہے جب اس کو نئی جگہ لگایا جا رہا ہو۔ اس سے قدرتی بالوں کی نشوونما کی سمت اور حقیقی نمونہ حاصل ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ طریقہ کار بھی خطرات سے پاک نہیں ہے۔ یہ تکلیف دہ ہو سکتا ہے، اور کسی بھی جراحی سے ہونے والے زخم کی طرح اس میں انفیکشن بھی ہوسکتا ہے۔ کامیابی کی ضمانت اس لئے نہیں ہوتی کیونکہ گنجا پن واپس پلٹ سکتا ہے۔ بہرحال یہ ایک کامیاب طریقہ ہے اور کھویا ہوا اعتماد بحال کر سکتا ہے۔


بالوں کی پیوند کاری کے طریقہ کار کی اقسام کا موازنہ


دو سب سے زیادہ عام تراکیب میں پٹی کی کٹائی اور غدودی اکائی کشید (ایف یو ای) ہے۔ پٹی کی کٹائی میں جلد اور بالوں کی ایک پٹی ہوتی ہے جو جراحی کی مدد سے کھوپڑی کے پیچھے سے الگ کی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ کامیاب اور تیز رفتار ہوتی ہے تاہم اس میں مریض کو مکمل بے ہوش کرنے کے لئے بے ہوشی کی دوائی دی جاتی ہے اور اس عمل میں ایک چھوٹا سا داغ بن جاتا ہے۔

ایف یو ای میں صرف مخصوص حصّے کو سن کیا جاتا ہے اور طویل عرصہ درکار ہوتا ہے اکثر دو سے تین مرتبہ علاج کی ضرورت مختلف دنوں میں ہوتی ہے۔ انفرادی بالوں کے غدود ایک خاص آلے کی مدد سے اتار لئے جاتے ہیں اور اس کے بعد کھوپڑی کے سامنے کے حصے پر ان کی پیوند کاری کر دی جاتی ہے۔ اس میں کوئی داغ نہیں پڑتا یا مکمل طور پر بے ہوش کرنے کے لئے بے ہوشی کی دوائی کی ضرورت بھی نہیں ہوتی اور یہ بہت ٹھیک طرح سے ہوتا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
حمل کے دوران ایپی ڈیورل حاملہ کے درد کو کیسے کم کرتی ہے؟


درد کو مسدود کرنے کے پیچھے کی سائنس کی وضاحت


"بے ہوش کرنے والی دوا گرم احساس اور سن کر دینے کی کیفیت کا سبب بنتی ہے جس سے جسم کا حصّہ مکمل طور پر سن ہو جاتا ہے"

ایپی ڈیورل (یعنی کہ 'ڈیورا کے اوپر') مقامی بے ہوشی کی دوا کی ایک قسم ہے جس کا استعمال مکمل طور پر درد کو مسدود کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اس دوران مریض مکمل ہوش و حواس میں رہتا ہے۔ اس میں احتیاط کے ساتھ ایک بہت ہی باریک لمبی سوئی پشت کے نچلے حصے میں ریڑھ کی ہڈی کے دو مہروں کے درمیان گہرائی میں گھسائی جاتی ہے۔

یہ جوف ایپی ڈیورل خلاء کہلاتی ہے۔ بے ہوش کرنے والی دوا کو اس جوف میں ڈالا جاتا ہے تاکہ درد کے احساس کو کم کیا جائے یا جسم کے ایک حصے کو احساس کی حس کو کم کر کے اور ان عصبی جڑوں کو مسدود کر کے سن کر دیا جائے جو دماغ میں اشاروں کو منتقل کرتی ہیں۔

لگ بھگ 20 منٹ کے بعد بے ہوش کرنے والی دوا گرم احساس اور سن کر دینے کی کیفیت کا سبب بنتی ہے جس سے جسم کا حصّہ مکمل طور پر سن ہو جاتا ہے۔ طریقہ کار کی طوالت پر منحصر ایک اضافی خوراک بھی درکار ہو سکتی ہے۔ اس قسم کے درد کا علاج خاص طور پر جراحی کے بعد اور حمل کے دوران کافی برسوں سے وسیع پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے ۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
پکے ہوئے گوشت کا ذائقہ کچے گوشت سے بہتر کیوں ہوتا ہے


بھورے رنگ کا پکا ہوا گوشت، سینکی ہوئی روٹی، اور سینکے ہوئے کافی کے دانوں میں ایک کیمیائی عمل رونما ہوتا ہے جس کو ملارڈ رد عمل کہتے ہیں۔ جب کھانے کو گرم کیا جاتا ہے، امینو ایسڈ (جو پروٹین کی بنیادی اینٹیں ہوتے ہیں) شکر کے ساتھ متعامل ہو کر ذائقے کے سینکڑوں مرکبات کو بناتے ہیں۔

کھانے میں مختلف امینو ایسڈ کی مقدار اور اقسام پر منحصر، مختلف ذائقے بنتے ہیں جیسا کہ یہ خاکہ بتاتا ہے:
 

زہیر عبّاس

محفلین
سمندری لباس - سمندر کی گہرائی میں دباؤ کو برداشت کرنے والا لباس

انفرادی طور پر گہرے سمندر کی کھوج کرنے کا لباس



بطور انسان، مافوق الفطرت قوت ہماری پہنچ سے باہر ہے تاہم اکثر اوقات ٹیکنالوجی ہمیں اس طرح کی قوتوں کی اچھی طرح سے نقل کرنے کی اجازت دے دیتی ہے۔ اگر آپ نے کبھی پانی کے اندر سانس لینے یا سمندر کی گہرائی کی کھوج کا خواب بغیر آب دوز کے دیکھا ہے، تو پھر ذرا آئرن مین- ایکزو سوٹ پر ایک نظر ڈالیں۔ عام اسکوبا گیئر کے ساتھ، غوطہ خوروں پر انسانی جسم پر پڑنے والے اثر کی قدغن لگی ہوتی ہے اور طویل رفع دباؤ رک جاتا ہے۔ بہرحال یہ 'پہننے کے لائق' آب دوز ایک ایسا لباس ہے جو پائلٹ کو سطح سمندر سے لے کر 305 میٹر (1، 000 فٹ) کی گہرائی میں نسبتاً آرام سے لے جاتا ہے، اس لباس کے اندر رہتے ہوئے 50 گھنٹے تک زندہ رہا جا سکتا ہے۔ ایلومینیم کی بھرت سے بنا ہوا اور 250 کلوگرام (550 پاؤنڈ) وزنی یہ خلا نوردوں جیسے لباس میں چار دھکیلو اس کو دھکا دینے کے لئے لگے ہیں۔ لباس میں ساتھ لگے ہوئے ایک آر او وی سے آراستہ کیمرہ اور ویڈیو کے آلات سمندری سائنس دانوں کو اس قابل کرتے ہیں کہ وہ حیات کا وہ پہلا تجربہ لہروں کے نیچے کرنے والی تحقیق میں حاصل کریں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے آنسو کیسے اور کیوں بنتے ہیں؟


دیکھئے کہ کس طرح سے وقت کے آغاز سے ہی ہمارے آنسو ہماری حفاظت میں مدد گار ثابت ہوتے رہیں ہیں​

چاہے کوئی غمگین فلم ہو، خوشی کا ملاپ ہو یا آپ نے میز پر اپنا گھٹنا مارا ہو، ہر کوئی اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موقع پر رویا ضرور ہوتا ہے۔

لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم روتے ہیں؟ اس وجہ کو بیان کرنے کے لئے ایک نظریہ موجود ہے جس کی جڑیں سیدھی ماضی میں ہمارے ارتقاء سے پہلے کے دنوں تک جاتی ہیں، اس وقت آنسو ہماری قدیمی آنکھوں سے بہتے اور ہماری دھندلی آنکھیں اپنے مخالف کو نقصان نہ پہنچانے اور اس کے آگے ہتھیار ڈالنے کا اشارہ ہوتی تھیں۔

تاہم دور حاضر میں سائنس بتاتی ہے کہ رونے کی کافی زیادہ ٹھوس حیاتیاتی وجوہات موجود ہیں۔

اضطراری آنسو وہ ہوتے ہیں جو دھواں یا کٹی ہوئی پیاز سے نکلنے والا سلفینک ایسڈ کی وجہ سے آپ کی آنکھ سے آنسو کو بہانے کا سبب بنتے ہیں۔ جب آپ روتے ہیں تو آپ کے قرنیہ کے حساس عصبانیے دماغ کو اشارہ بھیج کر بتاتے ہیں کہ آپ کی آنکھوں کو حفاظت کی ضرورت ہے۔ دماغ پھر پپوٹے کے پیچھے واقع اشکی غدودوں میں ہارمونز کو جاری کرتا ہے، جو حفاظتی تہ کے طور پر آنسو پیدا کرتے ہیں اور پھر خراش آور کو بہا دیتے ہیں۔ بہرحال رونے کی زیادہ عام صورت جذباتی قسم ہے۔ جب شدید جذبات امنڈتے ہیں - چاہئے خوشی، غم یا تکلیف سے – تو دماغ کا بالائی حصّہ آگاہ ہوتا ہے کہ آپ اس کی وجہ سے شدید جذباتی رد عمل سے گزر رہے ہیں۔ اینڈوکرائن نظام ہارمونز کے جوڑے کا اجراء اشکی غدود میں کرتا، جو آنکھ میں مائع رطوبت نکالتا ہے۔ اضافی پانی ناک سے آنسو کی نالی کے ذریعے نکلتا ہے۔ آنسوں کی تحقیق بتاتی ہے کہ جذباتی رونے کی وجہ حیاتی کیمیا ہے۔

اگرچہ اضطراری آنسو 98 فیصد پانی پر ہوتے ہیں، تاہم جذباتی آنسوؤں میں، آرڈینوکورٹیکوٹروپک ہارمونز جو دباؤ کے وقت موجود ہوتے ہیں اور لیوسین اینکیفلین، جو ایک درونی افیون ہوتا ہے جو درد کو دور بھگاتا اور آپ کی طبیعت کو خوشگوار بناتا ہے ،سمیت کئی کیمیائی عنصر ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ شدید جذباتی لمحات کے دوران جسم میں جمع ہونے والے ہارمونز اور سم کا اخراج رونے کے ذریعہ ہوتا ہے۔



صنفی مقابلہ​

اگرچہ یہ ایک دقیانوسی بات ہے کہ عورتیں مردوں سے زیادہ روتی ہیں، تاہم وجوہات کی کچھ سائنسی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ عورتیں مردوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ روتی ہیں، اور اگرچہ ثقافتی پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا تاہم اس کے حیاتیاتی عوامل بھی ہیں۔

آغاز شباب تک، لڑکے اور لڑکیاں دونوں برابر روتے ہیں۔ جب ٹیسٹوسٹیرون کی سطح لڑکوں میں بڑھتی ہے تو ان کے غصے میں آنے کا امکان پریشان ہونے کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ دریں اثناء، جب لڑکیوں میں ہارمُون اوسٹراڈیول کی سطح زیادہ ہوتی ہے تو یہ درونی افیونی پیداوار کو تبدیل کر دیتی ہے، اس کا نتیجہ اکثر مشتعل ہونے کے بجائے جذباتی ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔

تاہم ادھیڑ عمری تک پہنچنے میں، آدمیوں اور عورتوں کے ہارمُون اوسٹراڈیول توازن میں آ جاتے ہیں، اور جب بات جب رونے کی آئے تو ایک بار پھر دونوں اصناف برابری کی سطح پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔



کیا آپ جانتے ہیں؟​

ایک اوسط شخص اپنی آنکھوں کو نم کرنے کے لئے 140-280 گرام (5-10 اونس) بنیادی آنسو پیدا کرتا ہے ۔


آنسوؤں کے لعاب کے بارے میں پانچ اہم حقائق​

1 ۔بہتی ناک​

جب آپ روتے ہیں تو آپ کی ناک بہنا شروع کر دیتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اضافی آنسو آپ کی آنکھ سے نکلتے ہیں وہ ناک کے ذریعہ نکلتے ہیں جس سے آپ کی ناک سڑ سڑ کرتی ہے۔

2۔ ہش!! چھوٹے بچے​

بچے عام طور پر دن میں لگ بھگ ایک سے تین مرتبہ روتے ہیں۔ اس کی کافی وجوہات ہو سکتی ہیں، وہ بھوکے، پیاسے، تھکے ہوئے، خوفزدہ یا پاخانہ کئے ہوئے ہو سکتے ہیں ۔

3 ۔پیاز سے نکلنے والے آنسو​

کٹی ہوئی پیاز سے سین پرو پینی تھیل ایس آکسائڈ نامی خامرہ پیدا ہوتا ہے۔ جب یہ اڑ جاتا ہے، تب یہ مرکب ہمارے اشکی غدودوں کو مشتعل کرتے ہیں اور اس کو سکون میں لانے کے لئے آنسوں نکلتے ہیں۔

4۔ مگرمچھ کے آنسو​

اگرچہ مگرمچھ شکار کئے ہوئے کھانے کو کھاتے وقت اداس لگتے ہیں، تاہم وہ اداس ہوتے نہیں ہیں۔ جب وہ پانی سے باہر وقت گزارتے ہیں تو آنسو صرف ان کی آنکھوں میں روغن لگانے کے کام آتے ہیں ۔

5۔ ڈارون کی دریافت​

ایک حالت 'جذباتی تحمل کا فقدان' (پی بی اے ) کہلاتی ہے جس میں لوگ بے قابو طور پر روتے یا ہنستے ہیں۔ سب سے پہلے چارلس ڈارون نے اس حالت کو بیان کیا تھا یہ اکثر دماغی چوٹ کا نتیجہ ہوتی ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ہم سانس کیسے لیتے ہیں؟



عمل تنفس​

ہر اس سانس کے پیچھے کی سائنس کو جانئے جو آپ لیتے ہیں

پس منظر​

ہمارے جسم میں تمام خلیات کو زندہ رہنے کے لئے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، یہ آکسیجن ہم اس ہوا سے حاصل کرتے ہیں جس میں سانس لیتے ہیں۔ خلیات آکسیجن کو خوراک سے توانائی پیدا کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائڈ بطور ضمنی پیداوار کے پیدا ہوتی ہے۔ جسم میں کاربن ڈائی آکسائڈ کا زیادہ ہونا نقصان دہ ہوتا ہے جو خون میں تیزابیت پیدا کرتی ہے، لہٰذا ہمیں اس سے جان چھڑانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ عمل جس میں سانس آکسیجن کو ہوا سے حاصل کر کے جسم میں داخل کرکے غیر ضروری کاربن ڈائی آکسائڈ کو باہر نکالے وہ عمل تنفس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مختصراً​

ہمارے خلیات میں آکسیجن کے سفر کا آغاز سانس لینے سے شروع ہوتا ہے، جس کو دماغ کا تنفسی مرکز(ریسپائیریٹری سینٹر ) کہلانے والا حصہ قابو کرتا ہے۔ یہ پسلیوں کے درمیان پٹھوں (انٹر کوسٹل مسلز) اور پردہ شکم (ڈایافرام)کو اشارے بھیجتا ہے، اس کو سکڑنے، پھیپھڑوں کو پھیلنے اور نرخرے سے ہوا کو نیچے اور پھیپھڑوں کی نالیوں کی شاخوں میں کھینچنے کی ہدایات دیتا ہے۔ ہر نالی کا اختتام جوف دندان (الویلائی )کہلانے والی غبارے جیسی تھیلی میں ہوتا ہے، جس کے ارد گرد ننھی خون کی شریانیں ہوتی ہیں۔ سانس میں لی ہوئی ہوا میں 21 فیصد آکسیجن ہوتی ہے تاہم خون کے بہاؤ میں اس کی کم سطح ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں سے کچھ استعمال ہو چکی ہوتی ہے۔ بعینہ ہوا میں 0.05 فیصد سے بھی کم کاربن ڈائی آکسائڈ ہوتی ہے، تاہم خون میں کاربن ڈائی آکسائڈ اس شرح سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آکسیجن جوف دندان (الویلائی )سے گزر کر خون میں- جذب ہونے کے عمل کے ذریعہ - اندر آتی ہے جبکہ کاربن ڈائی آکسائڈ اس کے الٹ باہر نکلتی ہے۔

خلاصہ​

ہمارے خلیات کو توانائی پیدا کرنے کے لئے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ کاربن ڈائی آکسائڈ کو بطور ضمنی مصنوعہ کے بناتے ہیں۔ عمل تنفس بیان کرتا ہے کہ کس طرح سے آکسیجن ہوا سے ہمارے جسم میں آتی ہے اور غیر ضروری کاربن ڈائی آکسائڈ باہر نکل جاتی ہے۔

دوڑنے والے اپنے پٹھوں میں جو جلنے کی کیفیت محسوس کرتے ہیں وہ نا ہوا باش تنفس کا نتیجہ ہوتا ہے۔

عمل تنفس کی اقسام​

ہمیں مسلسل سانس لینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ہمارے خلیات توانائی پیدا کر سکیں اور جسم میں موجود ہر فعل کو انجام دے سکیں۔ اس میں کبھی بھی کسی قسم کی کوتاہی سے بچنے کے لئے ہمارے جسم میں عمل تنفس کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ 'ہوا باش تنفس'(ایروبیک ریسپائر یشن ) میں آکسیجن درکار ہوتی ہے، کاربن ڈائی آکسائڈ اور پانی بطور ضمنی پیداوار کے بنتا ہے۔ ایک متبادل 'ہمہ وقت تیار' نا ہوا باش تنفس (این ایروبیک ریسپائر یشن) کہلانے والا عمل اس وقت واقع ہوتا ہے جب آکسیجن دستیاب نہیں ہوتی، تاہم اس میں ایک لبنی تیزاب (لیکٹک ایسڈ)کہلانے والا کیمیائی عنصر بنتا ہے۔ اگر لبنی تیزاب (لیکٹک ایسڈ ) خلیات و بافتوں میں جمع ہونا شروع ہو جائے تو یہ زہریلا ہو سکتا ہے، اور سخت ورزش کے دوران اور بعد میں ہمارے پٹھوں میں جلنے کی کیفیت کا سبب بن سکتا ہے۔ نتیجتاً، ہم نا ہوا باش تنفس پر کافی طویل عرصے تک انحصار نہیں کر سکتے، اس بات سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آیا کیوں آپ میراتھن دور میں بگ ٹٹ نہیں دوڑ سکتے۔​
 
السلام علیکم
ماشاءاللہ آپ کافی مفید معلومات شیئر کرتے ہیں جو خاصہ افادہ رکھتی ہے۔
دراصل میں ایک کتاب ترتیب دے رہا ہوں تو اسی معاملے میں کیا آپ اس معلومات کو میری کتاب میں شامل کرنے کے لیے اجازت دے سکیں گے۔۔۔؟
محمد عثمان
[فون نمبر اور ای میل محذوف]
 
مدیر کی آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
دراصل میں ایک کتاب ترتیب دے رہا ہوں تو اسی معاملے میں کیا آپ اس معلومات کو میری کتاب میں شامل کرنے کے لیے اجازت دے سکیں گے۔۔۔؟
جی ضرور شامل کرسکتے ہیں لیکن مکمل حوالہ دے کر۔ اور حوالہ میرے بلاگ کا دیجئے گا جہاں پر اسے سب سے پہلے شایع کیا گیا تھا۔
 
Top