معمہ نمبرا
کراچی پولیس نے لوگوں کو اس بات سے آگاہ کرنے کے لیے کے اس علاقہ میں یہ جرم عام ہے کا ایک اشتہار لگایا۔ لیکن اس اشتہار کی بنا پر اس قسم کے جرائم کی تعداد بڑھ گئی
کیسے بڑھ گئی؟
اشارہ :
پولیس کا خیال تھا کہ اگر عوام کو پتہ ہو کے اس جگہ پر کس قسم کا جرم عام ہے وہ اپنی حفاظت کرسکیں گے مگر جرم کا نام بتانے سے جرم کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ کونسا جرم؟
معمہ نمبر 2
ایک اچکا اور ایک جھوٹا
فرزانہ محمود، شالیمار کلوتھنگ اسٹور کی مینیجر نے دسویں بار سوچا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر آج اس کی چھٹی کا دن ہوتا۔ اور ا بھی وہ یہ ہی سوچ رہی تھی کہ اسٹور کا سراغ رساں آفس میں داخل ہوا۔ اس کے ساتھ ایک لڑکا تھا جس کے چہرہ کا رنگ سرخ تھا
“یہ لڑکا اس قمیض کو چُرا کر لےجارہا تھا"۔ سراغ رساں نے کہا اور فرزانہ کےسامنےمیز پرقمیض ڈال دی۔
“ میں نے اسےگلی کے نکڑ پر پکڑ لیا اور یہ اقرار کرتاہے کہ اس نے قمیض چُرائی ہے“۔ سراغ رساں نے کہا
“ ٹھیک ہے“ ۔ فرازانہ نے لڑکے کی طرف دیکھ کر ایک سانس لی۔
“ تمہارا نام اور پتہ لیں گے اور تم کو پتہ ہے کے اس میں پولیس کو بھی لانا پڑے گا۔ سمجھے؟“ اس کو غصہ آنے لگا۔
“ تم لوگوں کو اتنی عقل کیوں نہیں کہ دوکانوں سے اٹھائی گیری آسان نہیں “۔
لڑکے کا چہرہ لال ہوگیا اور ایسا لگ رہا تھا کے وہ اپنے آپ کو رونے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے“ ۔
“ یہ اس طرح نہیں ۔۔۔ میرا مطلب ۔۔۔ میں نے اس کو نہیں چُرایا ۔۔۔ اور میں اس کو لے بھی نہیں جاتا، لیکن میں یہاں اس لئے نہیں آیا تھا ۔۔۔ مگر ایسا ہوگیا!“
“ یہ کہانی تو میں نے پہلی دفعہ سننی “۔ فرزانہ نے پلٹ کر کہا۔“ تو قمیض تم سے چپک گئی اور تم اس کے ساتھ دوکان سے باہر نکل گئے ۔ نیلی، لمبے آستین، وی نیک، اون ۔ ہاں یہ قمیضیں ہمیشہ لوگوں پر چپک جاتی ہیں“۔
فرزانہ کا جواب سن کر لڑکا پیچھے ہٹا۔
“ نہیں!“ وہ چلایا “۔ میں اس کو ڈریسنگ روم میں پہن کرٹرائی کر رہا تھا۔ر میں نے اسے اس طرح پہن لی کے اندر کی سائیڈ باہر تھی اور پچھلی سائیڈ سامنے ہوگئی تھی۔ اور اب لیبل سامنے اندر ہوگے تھے۔ میں سوچا کے کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ یہ اس اسٹور کی مرچینڈائیز ہے۔۔۔ میں اسٹور سے باہر نکل آیا ۔۔۔ میں نے یہ پلان بنا کر نہیں کیا تھا۔ کسی نے نوٹ بھی نہیں کیا۔ ۔۔ میرا مطلب ہے اس وقت تک جب اس آدمی نے مجھے روکا۔“
فرزانہ نے سراغ رساں کی طرف دیکھا۔“ تو تم کو کس نے بتایا؟“
“ یہاں مسلہء کھڑا ہوتا ہے!“۔ سراغ رساں نے جواب دیا۔
“ جب یہ اسٹور سے نکلا ، سیکیورٹی لائٹ آن ہوگئ۔ تو میں نے اس کاتعاقب کیا لیکن اب پرابلم یہ ہے کہ دو اسٹور کلرک یہ کہتے ہیں کے انہوں نے اسے اسٹور سے باہر جاتے دیکھا۔ اور وہ دونوں کا کہنا ہے کہ اس نے سیکیورٹی لائٹ آن کی۔ اور اسکا انعام مانگتے ہیں“۔
فرزانہ نے سراغ رساں کو ٹٹولتے نگاہوں سے دیکھا اور کہا۔“ یہ تو منٹ بہ منٹ جھنجھٹ بن رہا ہے۔ وہ کون ہیں؟“۔شاہدہ طاہر۔ اس کا کہنا ہے کے اس نے لڑکےکو اپنےطرف آتے دیکھا جب اس نے قمیض کے لیبل کے تاگے دیکھےتو اس نے پہچان لیا کے یہ لڑکا کیا کر رہا ہےاورجیسے ہی لڑکا دروازےے پر پہونچا اس نےسیکیورٹی لائٹ کا بٹن دباد“۔
فرزانہ نے ایک لمحہ اس بیان پر غور کیا۔“ اور دوسری کا کیا کہنا ہے؟“
“ وہ ممتاز ہے“ سراغ رساں نے جواب دیا “ وہ پارٹ ٹائم ملازم ہے ۔اس کی کہانی یہ ہے لڑکا ایک منٹ کے لیے دروازے پر رُکا اور لڑکے نےسڑک کا جائزہ لیا اس وقت ممتازنےقمیض کا لیبل دیکھا اور اس نے پہچان لیا کے یہ لڑکا کیا کر رہا ہے اس نے سیکیورٹی لائٹ کا بٹن دبادی]۔
سراغ رساں نے فرزانہ کی طرف جھک کر کہا۔“ ان دونوں کے اسٹیشن باہر جانے والے دروازے کے قریب ہیں۔ میراخیال ہے کہ دونوں کی کہانی صحیح لگتی ہے“۔
“ ہرطور پر“ ۔ فرزانہ نے کہا۔ “ مگر اب صرف ایک اچکا ہی نہیں بلکہ ایک جھوٹا بھی ہمارے درمیان ہے “۔
فرزانہ کو کیوں یہ شبہ ہوا؟ اور وہ کس کو جھوٹا سمجھ رہی ہے؟
کراچی یعنی پاکستانی پولیس ، اشتہار کچھ یوں ہوگا:
"یہاں پارکنگ کرنا منع ہے"
میرے خیال میں ممتاز جھوٹ بول رہا ہے کیونکہ بقول بچے کہ لیبل سامنے تھا تو پھر پیچھے سے ممتار کو کیسے نظر آیا
[FONT="Urdu_Umad_Nastaliq"]تفسیر صاحب یہ تصویر میں کچھ گربڑ ہے
معمہ نمبر 3
Each line, across and down, is to have each of the letters
الف، ب،پ، ت، ٹ
appearing once
Also, every shape shown by thick lines, must also have each of letters in it,
Can you fill this grid?
وارث بھائی۔۔۔ یہ جواب صحیح ہوسکتاہے۔۔۔
لیکن اس کلیو کو بھی شامل کرنا ضروری ہے " اپنی حفاظت کرسکیں گے"
اور پھر میرے پاس دوسرا جواب لکھا ہے
پھر سے کوشش کریں۔
شکریہ تفسیر صاحب،
یہ کوئی ریلوے کی کراسنگ بھی ہو سکتی ہے بغیر پھاٹک کے یا کسی نہر، ندی کا ٹوٹا ہوا جنگلہ، کہ جہاں پر خود کشی کا جرم بڑھ گیا ہو