جنگی حکمت عملی یا تعلقات عامہ کی مہم؟
آصف فاروقی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
فضائیہ کے لڑاکا طیارے میں بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی پرواز کو پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی کو سمجھنے والے ماہرین جنگی سے زیادہ تعلقات عامہ کی مہم کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔بری فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کے مطابق جنرل کیانی نے سرگودھا میں واقع پاکستانی فضائیہ کے ہوائی اڈے سے پاکستان کے سب سے کارآمد سمجھے جانے والے لڑاکا طیارے ایف سولہ میں ایک گھنٹے تک ان شمالی علاقوں پر پرواز کی جہاں مسلح افواج شدت پسندوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ ترجمان کے مطابق یہ ایک 'اورئینٹیشن' مشن تھا جس میں اس جہاز کو دشمن کے ٹھکانوں پر بمباری کا کام نہیں سونپا گیا تھا۔
صبح سویرے ہونے والی جنرل کیانی کی اس فضائی مہم کے آغاز سےلے کر سوموار کی سہ پہر تک تمام پاکستان نیوز چینلز بری فوج کے سربراہ کے اس سفر کی تصویری جھلکیاں دکھاتے رہے جسے پاکستانی کی فوجی تاریخ کا اہم باب قرار دیا جا رہا ہے جب بری فوج کے سربراہ نے لڑاکا طیارے میں میدان جنگ پر پرواز کی۔تقریباً تمام ٹیلی وژن چینلز پر بیک وقت چلنے والی اس ویڈیو میں جنرل کیانی کو ایف سولہ طیارے میں بیٹھتے اور فضائیہ کے افسروں کی مدد سے سیٹ بیلٹ باندھتے دکھایا گیا ہے اور اس کے بعد ان کا جہاز رن وے پر ٹیکسی کرتا ہے اور پھر ٹیک آف اور واپس لینڈنگ۔پاکستانی فضائیہ کے سابق افسر اور کراچی کے فضائی جنگ کے تربیتی ادارے ئر وار کالج میں استاد ائر کموڈور جمال حسین کے مطابق ان کے علم کے مطابق کسی بھی فوجی سربراہ نے لڑاکا طیارے میں اس نوعیت کا سفر نہیں کیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ویسے ایف سولہ طیارہ فوجی افسروں میں خاصا مقبول ہے۔ 'جب ایف سولہ طیارے نئے نئے پاکستان آئے تھے تو بہت سے اعلیٰ فوجی افسروں نے اس میں شوقیہ پروازیں کی تھیں'۔ کموڈور جمال حسین کے مطابق اب بھی کور کمانڈر سطح کے افسروں کی ایف سولہ میں شوقیہ پروازیں غیر معمولی واقعہ نہیں ہیں۔
لیکن جنرل کیانی کی اس پرواز کو کسی بھی طرح سے شوقیہ پرواز نہیں کہا جا سکتا۔ ان کی حالیہ چند سالوں کی سروس کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ خطرات مول لینے کے شوقین نہیں ہیں۔اسی لیے جنرل پرویز مشرف کی وردی اتروانے کا معاملہ ہو یا انتخابی سیاست میں فوج کی نام نہاد عدم مداخلت، جنرل کیانی نے اس طرح کے مشکل فیصلوں میں براہ راست فریق بننے سے گریز کیا، گو کہ ان میں سے بیشتر فیصلوں کا براہ راست اثر جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ذات اور ان کے کیرئر پر پڑا۔اسی طرح سوات میں شدت پسندوں کے ساتھ معاہدے اور اس کی ناکامی کے بعد فوجی کارروائی کے فیصلے بھی بظاہر سیاسی قیادت کے کھاتے میں جاتے ہیں۔اس پس منظر میں اگر جنرل اشفاق پرویز کیانی کو عوام کے سامنے آ کر شدت پسندوں کے خلاف ایک ایسی جنگ میں بذات خود شریک ہونے کا مظاہرہ کرنا پڑا ہے تو اس کی ماہرین کی نظر میں یقیناً بہت اہمیت ہے۔ بعض ماہرین اس پرواز کو شدت پسندی کے خلاف کارروائی میں پاکستانی فوج کے سنجیدگی تصور کرتے ہیں جس کے بارے میں امریکہ سمیت بعض دوستوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند روز سے مسلح افواج کے تعلقات عامہ کے شعبے میں یہ بحث چل رہی تھی کہ فضائیہ جس تناسب سے اس فوجی کارروائی میں حصہ لے رہی ہے کیا اس تناسب سے عوام کے سامنے اس کا تذکرہ یا اعتراف ہو رہا ہے؟دفاعی مبصرین کا کہنا ہے کہ بری فوج کے سربراہ نے اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے فضائی افواج کو بھی ان کے حصے کا 'ائیر ٹائم' دلوانے کی کوشش کی ہے۔پاک فضائیہ کے ایک افسر نے جو کہ سرگودھا کی ائیربیس پر جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مصروفیات سے آگاہ تھے، نے بی بی سی کو بتایا کہ ایف سولہ طیارے پر سوار ہونے سے قبل بری فوج کے سربراہ نے دو گھنٹوں سے زائد وقت بیس کے بریفنگ روم میں گزارا جہاں انہیں اس علاقے کے بارے میں بتایا گیا جس پر سے انہوں نے پرواز کرنا تھی۔اس کے علاوہ طیارے کے انسٹرکٹر نے چیف آف آرمی سٹاف کو ان بٹنز کے بارے میں بھی بتایا جو ان کی نشست کے سامنے اور سائڈز پر موجود تھے۔ کس بٹن کو کس وقت دبانا ہے اور کس سوئچ کو ہاتھ بھی نہیں لگانا، یہ سمجھانے کے لئے ایک غیر پائلیٹ کو اس بریفنگ روم میں تین گھنٹے گزارنے پڑتے ہیں۔لیکن جنرل کیانی نے اس سے بہت کم وقت اس کمرے میں گزارا کیوں کہ جیسا کہ ان کے کیرئیر سے واضح ہوتا ہے، جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انہیں کون سا بٹن کس وقت دبانا ہے اور کس سوئچ سے دور رہنا ہے۔