کاشفی
محفلین
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری آج رٹائر ہوجائیں گے
اسلام آباد…چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری آج رٹائر ہوجائیں گے۔ پاکستان میں عدلیہ آج جس مقام پر ہے اور عوام میں جو مثبت تاثر رکھتی ہے اس کے لیے افتخار محمد چوہدری کے کردار کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ابتدائی دور پر اگر نظر ڈالی جائے تو کوئٹہ میں پیدا ہونے والے اور یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والے افتخار چودھری نے اپنے قانون کی ڈگری حیدرآباد سندھ سے حاصل کی اور پھر پریکٹس کا آغاز 1974میں کوئٹہ سے کیا اور ڈسٹرکٹ کورٹ میں بطور ایڈوکیٹ اپنا اندراج کروایا۔ انہوں نے آئینی، فوجداری ،سول اور محصولات جیسے معاملات پر گہری نگاہ رکھی۔ 1989 میں ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان اور پھر اگلے سال ہی بلوچستان ہائی کورٹ کے جج کے طور پر ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ اپریل1999 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ فروری 2000 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے عہدے پر ترقی پائی۔ اس زمانے میں جنرل پرویز مشرف اقتدار کی گدی پر براجمان تھے۔ جیف جسٹس افتخار محمد چوہدری حالانکہ ان بینچز میں شامل تھے جس نے مشرف کے اقتدار میں آنے، ریفرنڈم ، لیگل فریم ورک آرڈر، 17 ویں آئینی ترمیم کی توثیق کی مگر کبھی اس کی سربراہی نہیں کی۔ 30 جون 2005 کو انہیں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ وہ پاکستان کے 20ویں چیف جسٹس بنے اوروہ اس عہدے پر منتخب ہونے والے دوسرے کم عمر چیف جسٹس تھے اور یہی وہ وقت تھا جب انھوں نے عدالتی نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کا عزم کیا۔ 2006 میں پاکستان اسٹیل مل کی غیر شفاف نیلامی کو روکا جبکہ حسبہ بل اور خاص طور پر جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کا معاملہ بھی اٹھایا۔ اس دوران جنرل پرویز مشرف کے دو عہدوں کا کیس بھی سپریم کورٹ میں آگیا۔ اس صورتحال نے اس وقت کے آمر کے لئے مشکلات کھڑی کردیں۔ 9مارچ 2007 کو اسی کمرے میں ایک آمر نے یعنی جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بلایا اور پانچ گھنٹے تک نظر بند رکھ کر استعفے کا مطالبہ کیا، مگر ان کی اس وقت کی ایک ناں نے تاریخ میں ایک نیا باب رقم کردیا۔ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو معطل کیا اور کرپشن کے الزامات لگا کرریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیج دیا۔ لیکن سول سوسائٹی اور وکلا ان کے اس فیصلے کیخلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور ایک ایسی تحریک کا آغاز کیا جس کی پاکستانی تاریخ میں کوئی مثال نہ تھی۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے 20 جولائی 2007 کو الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر انہیں بحال کر دیا۔ اس دوران صدارتی انتخابات میں پرویز مشرف نے حصہ لیا۔ مگر دو عہدوں سے متعلق کیس کی سماعت نے آمر کو پریشان کیے رکھا جس کے فیصلے سے بچنے کیلئے 3 نومبر 2007 کو اس نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی۔چیف جسٹس سمیت دیگر جج صاحبان کو نظر بند کیا اور نئے چیف جسٹس کو تعینات کرکے دو عہدوں سے متعلق کیس میں اپنے حق میں فیصلہ لیا اور دوسری بار صدارتی عہدے کا حلف اٹھایا۔ لیکن ”چیف تیرے جاں نثار بے شمار بے شمار“ کے نعرے ہر طرف بلند ہوئے اور سیاسی جماعتیں بھی اس تحریک میں شامل ہوگئیں۔ 2008 کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی انتخابات میں فاتح ٹھہری اور اس وقت کے وزیراعظم نے ججزکی نظربندی ختم کرنے کے احکامات دیئے۔مگر وہ ججز کو ان کے عہدوں پر بحال کرنے میں ناکام رہی۔ لیکن 16 مارچ 2009 کو وکلاء اور سیاسی جماعتوں کے لانگ مارچ نکلنے کے چند گھنٹوں بعد ہی چیف جسٹس سمیت تمام جج صاحبان کو ان کے عہدوں پر بحال کردیا گیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے 22 مارچ 2009 کو اپنے عہدے کا چارج دوبارہ سنبھالا اور کئی تاریخی فیصلہ کئے جس میں جہاں نظریہ ضرورت کوہمیشہ کیلئے دفن کیا، وہیں ساتھ ساتھ کرپشن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر بھی کڑی نظر رکھی اور اپنے فیصلوں سے عدلیہ کو عوام کی امید بنا کر سامنے لے آئے۔
اسلام آباد…چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری آج رٹائر ہوجائیں گے۔ پاکستان میں عدلیہ آج جس مقام پر ہے اور عوام میں جو مثبت تاثر رکھتی ہے اس کے لیے افتخار محمد چوہدری کے کردار کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ابتدائی دور پر اگر نظر ڈالی جائے تو کوئٹہ میں پیدا ہونے والے اور یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والے افتخار چودھری نے اپنے قانون کی ڈگری حیدرآباد سندھ سے حاصل کی اور پھر پریکٹس کا آغاز 1974میں کوئٹہ سے کیا اور ڈسٹرکٹ کورٹ میں بطور ایڈوکیٹ اپنا اندراج کروایا۔ انہوں نے آئینی، فوجداری ،سول اور محصولات جیسے معاملات پر گہری نگاہ رکھی۔ 1989 میں ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان اور پھر اگلے سال ہی بلوچستان ہائی کورٹ کے جج کے طور پر ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ اپریل1999 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ فروری 2000 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے عہدے پر ترقی پائی۔ اس زمانے میں جنرل پرویز مشرف اقتدار کی گدی پر براجمان تھے۔ جیف جسٹس افتخار محمد چوہدری حالانکہ ان بینچز میں شامل تھے جس نے مشرف کے اقتدار میں آنے، ریفرنڈم ، لیگل فریم ورک آرڈر، 17 ویں آئینی ترمیم کی توثیق کی مگر کبھی اس کی سربراہی نہیں کی۔ 30 جون 2005 کو انہیں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ وہ پاکستان کے 20ویں چیف جسٹس بنے اوروہ اس عہدے پر منتخب ہونے والے دوسرے کم عمر چیف جسٹس تھے اور یہی وہ وقت تھا جب انھوں نے عدالتی نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کا عزم کیا۔ 2006 میں پاکستان اسٹیل مل کی غیر شفاف نیلامی کو روکا جبکہ حسبہ بل اور خاص طور پر جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کا معاملہ بھی اٹھایا۔ اس دوران جنرل پرویز مشرف کے دو عہدوں کا کیس بھی سپریم کورٹ میں آگیا۔ اس صورتحال نے اس وقت کے آمر کے لئے مشکلات کھڑی کردیں۔ 9مارچ 2007 کو اسی کمرے میں ایک آمر نے یعنی جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بلایا اور پانچ گھنٹے تک نظر بند رکھ کر استعفے کا مطالبہ کیا، مگر ان کی اس وقت کی ایک ناں نے تاریخ میں ایک نیا باب رقم کردیا۔ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو معطل کیا اور کرپشن کے الزامات لگا کرریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیج دیا۔ لیکن سول سوسائٹی اور وکلا ان کے اس فیصلے کیخلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور ایک ایسی تحریک کا آغاز کیا جس کی پاکستانی تاریخ میں کوئی مثال نہ تھی۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے 20 جولائی 2007 کو الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر انہیں بحال کر دیا۔ اس دوران صدارتی انتخابات میں پرویز مشرف نے حصہ لیا۔ مگر دو عہدوں سے متعلق کیس کی سماعت نے آمر کو پریشان کیے رکھا جس کے فیصلے سے بچنے کیلئے 3 نومبر 2007 کو اس نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی۔چیف جسٹس سمیت دیگر جج صاحبان کو نظر بند کیا اور نئے چیف جسٹس کو تعینات کرکے دو عہدوں سے متعلق کیس میں اپنے حق میں فیصلہ لیا اور دوسری بار صدارتی عہدے کا حلف اٹھایا۔ لیکن ”چیف تیرے جاں نثار بے شمار بے شمار“ کے نعرے ہر طرف بلند ہوئے اور سیاسی جماعتیں بھی اس تحریک میں شامل ہوگئیں۔ 2008 کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی انتخابات میں فاتح ٹھہری اور اس وقت کے وزیراعظم نے ججزکی نظربندی ختم کرنے کے احکامات دیئے۔مگر وہ ججز کو ان کے عہدوں پر بحال کرنے میں ناکام رہی۔ لیکن 16 مارچ 2009 کو وکلاء اور سیاسی جماعتوں کے لانگ مارچ نکلنے کے چند گھنٹوں بعد ہی چیف جسٹس سمیت تمام جج صاحبان کو ان کے عہدوں پر بحال کردیا گیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے 22 مارچ 2009 کو اپنے عہدے کا چارج دوبارہ سنبھالا اور کئی تاریخی فیصلہ کئے جس میں جہاں نظریہ ضرورت کوہمیشہ کیلئے دفن کیا، وہیں ساتھ ساتھ کرپشن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر بھی کڑی نظر رکھی اور اپنے فیصلوں سے عدلیہ کو عوام کی امید بنا کر سامنے لے آئے۔