دربارِ عام از مفتی منیب الرحمن مدظلہ
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے چار ماہ سے زیادہ عرصے پر محیط دھرنے اور مسلسل احتجاج کے نتیجے میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان 2013ء کے عام انتخابات کے آزادانہ ، منصفانہ اور غیرجانبدارانہ ہونے کے حوالے سے تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے ایک عدالتی کمیشن کے قیام پر اتفاقِ رائے ہوا، اس اتفاقِ رائے تک پہنچنے کے لیے طویل مذاکرات ہوئے اور آخرِ کار صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اسے قانونی شکل دے دی گئی۔ عدالتی کمیشن کی ٹرمزآف ریفرنس یا دائرۂ اختیار حسبِ ذیل قرار پایا: کمیشن تحقیق کے بعد یہ طے کرے گا کہ
الف) 2013ء کے قومی انتخابات قانون کے مطابق غیرجانبدارانہ ، شفاف اور منصفانہ طور پر منعقد کیے گئے تھے؟،(ب)یہ کہ 2013ء کے قومی انتخابات میں دھاندلی یاہیرا پھیری کی گئی اور کسی فرد یا ادارے کی جانب سے پہلے سے تشکیل شدہ منصوبے کو منظم انداز میں روبہ کار لایا گیاتھا؟،(ج)یہ کہ 2013ء کے قومی انتخابات کے نتائج بحیثیتِ مجموعی رائے دہندگان کی جانب سے تفویض کردہ حقِ نمائندگی کی سچی اور بے داغ نمائندگی کے عکاس تھے؟۔ Manipulation کے معنی : ہیرا پھیری، جوڑ توڑ اور ساز باز کے ہیں ، اسی کو ہماری سیاسی اصطلاح میں دھاندلی اور جھرلو سے بھی تعبیر کیا جاتاہے۔ آرڈیننس میں درج الفاظ سے یہ بات واضح ہے کہ جابجا مقامی طور پر اگر کسی نے کسی بھی طور سے انتخاب پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے تو ایسی شکایات کا مداوا کرنا اس مجوزّہ عدالتی کمیشن کاکام نہیں ہے۔ اس کے لیے پہلے ہی الیکشن کمیشن،الیکشن ٹربیونلز اور عدالتی نظام موجود ہے۔ آرڈیننس میں تین الفاظ Systematicیعنی منظم، Designedیعنی من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے پہلے سے طے شدہ حکمتِ عملی اور Influencedیعنی اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ کوئی بے اثر اور بے اختیار شخص تخیُّلاتی طور پر کسی منصوبے کی بابت سوچے بلکہ ایسی حکمتِ عملی مراد ہے کہ جسے روبہ عمل لانے کا اختیار منصوبہ ساز کے پاس موجود ہو اور وہ اپنے اختیارات اور تصرُّفات سے کام لے کر ایسا کرسکتا ہو۔ سو حکومت نے جاری کردہ آرڈیننس میں اپنے تحفظات کا مناسب اور محفوظ قانونی بندوبست کرلیا ہے اور اب یہ ساری کارروائی ایک ذہنی مشق یا تماشا گاہِ عالم ہے۔
چیف جسٹس عزت مآب جناب ناصر الملک نے اپنی سربراہی میں فوراً ہی کمیشن تشکیل دے دیا اور جناب جسٹس اعجاز افضل اور جناب جسٹس امیرہانی مسلم کو کمیشن کا رکن مقرر کردیا اور تمام سیاسی جماعتوں اور افراد کو دعوتِ عام دے دی کہ کسی کی پٹاری یا زنبیل میں کوئی مستورراز ہیںتو عدالت کے سامنے لے آئے، گویا عدالتی کمیشن نے ایک دربارِ عام منعقد کرنے کا فیصلہ کرلیا تاکہ سیاست دانوں کی دوعملی ، ایک دوسرے کے ساتھ مکروفریب اور فکری وعملی تضاد قوم کے سامنے آئے۔ ہمیں حیرت اس بات پر ہوئی کہ وہ تمام پارلیمانی جماعتیں جو دھرنے کے زمانے میں نظام کو بچانے کے لیے یاآسان لفظوں میں اپنے آپ کو بچانے کے لیے حکومت کی پشت پر کھڑی ہوگئی تھیںاور تکرار کے ساتھ یہ کہہ رہی تھیں کہ الیکشن میں جو ہوا سوہوا، لیکن حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع ملناچاہیے، اب سب کی سب دھاندلی کا نعرہ لگا کر اور انصاف کی طلب گار بن کر جوڈیشل کمیشن میں جا پہنچیں ؛ حالانکہ اُن میں سے کوئی بھی جماعت وسط مدتی قومی انتخابات کے لیے نہ تیار ہے اور نہ ایسا چاہتی ہے، تو اس تضاد کے کیا معنی ؟۔
ماضی میں جنرل محمد ضیاء الحق نے ایک نامزد مجلسِ شوریٰ تشکیل دی تھی، ان سے پوچھا گیا کہ شوریٰ کے انتخاب (Selection) کے لیے آپ نے کیا معیار رکھا ہے؟، تو انہوں نے جواب دیا: ''ہم نے سب کے نسب نامے دیکھ لیے ہیں‘‘، یعنی صاحبِ اقتدار سے غیرمشروط وفاان کی ذہنی ساخت میں ہے یانہیں؟۔ اسی طرح انہوں نے یہ پھبتی بھی کسی تھی کہ اگر میں سیاست دانوں کو اشارہ کروں تو وہ دُم ہلاتے ہوئے چلے آئیں گے۔ اس شوریٰ کا انتظامیہ پر کوئی اثر ورسوخ نہیں تھا، نہ اُن کا تھانے اور پٹوار کلچر پر اثر انداز ہونے کا کوئی اختیار تھا،نہ ہی بجٹ یا کسی قانون کا پاس ہونا اُن کی منظور ی پر موقوف تھا، بس یہ محض ایک مجلسِ مباحثہ تھی۔ ان کے اختیار کو ہم اس کہاوت کے مشابہ قرار دے سکتے ہیں :''I am master of this house and I am saying this with the permission of my wife‘‘یہ مقولہ بہ زعم خویش ایک ''بااختیار ‘‘شوہر کی طرف منسوب ہے کہ میں اس گھر کا مالک ومختار ہوںاور میری مرضی کے بغیر پتّہ بھی نہیں ہلتا اور یہ بات میں اپنی بیوی کی اجازت سے کہہ رہا ہوں۔ سو وہ مجلسِ شوریٰ ہمہ مقتدر جنرل محمد ضیاء الحق کے اشارۂ ابرو کی محتاج تھی اور اس کی جان اُسی پنجرے میں محصور تھی۔ لہٰذا اس کی ساری دلچسپیاں قومی اسمبلی کے ہال تک محدود تھیں ، یہی وجہ ہے کہ ان کے مباحثے کا معیار ہماری منتخب اسمبلیوں سے قدرے بہتر تھا اور گالی گلوچ کی روایت بھی نہیں تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ عام آدمی کوئی بیہودہ لفظ کہے تو اسے گالی کہا جاتاہے، قوم کے منتخب نمائندے وہی لفظ یا اس سے بھی انتہائی گھٹیا الفاظ استعمال کریںتو اسے گالی نہیں کہا جا سکتا، اس کے لیے ایک مہذّب لفظ ''غیر پارلیمانی‘‘ تجویز کیا گیا ہے۔
کاش !کہ ہمارے سیاسی رہنما اپنے وقار اور اعتبار کاپاس رکھیں، لیکن : ''اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘۔ اب جو ں جوں مَنظَر سامنے آرہا ہے تو یہ واضح ہورہا ہے کہ منظم دھاندلی اور طے شدہ منصوبے کے تحت قومی انتخابات کے نتائج برآمد کرنے کا براہِ راست ثبوت کسی کے پاس نہیں ہے ؛ حتی کہ اصل مُدّعی جماعت تحریک انصاف کے پاس بھی نہیں ہے ، کبھی کہتے ہیں کہ ثبوت تھیلوں میں ہیں، جناب جہانگیر ترین نے کہا کہ :''ہمارے پاس اتنے ثبوت ہے کہ ٹرک بھرا جاسکتاہے‘‘، امید قائم کرنے اور خواب دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ تاہم برسرِ زمین دستیاب حقائق وشواہد کی روشنی میں ہم کم فہم لوگوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ لیکن اس کے باوجود جناب عمران خان، اُن کے رفقائِ کار اور ان کی آئینی وقانونی ٹیم کے فاضل ارکان کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ کئی اہلِ قلم اور ماہرین اس جانب متوجہ کرتے رہے ہیں ،لیکن وہ اپنی دانش وبصیرت کا پورا زور لگانے کے باوجود جناب عمران خان کے یقین کو متزلزل نہیں کرسکے۔
ہماری رائے میں اس سے بہتر مشق یہ ہونی چاہیے کہ نظامِ انتخاب کی اصلاح کے لیے جو پارلیمانی کمیٹی کام کررہی ہے، وہ اپنی معاونت کے لیے آئینی وقانونی ماہرین کا ایک آزاد کمیشن تشکیل دے، وہ ہمارے نظامِ انتخاب کی اصلاح کے لیے آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسی سفارشات مرتّب کرے ، جو قابلِ عمل ہوں اور اُن کو روبہ کار لانے کے لیے وسائل بھی دستیاب ہوں اورپھر اس انتخابی اصلاحی پیکج کی پارلیمنٹ سے منظوری لی جائے، جہاں قانون سازی کی ضرورت ہو قانون بنایا جائے اور جن سفارشات کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہو، اس مقصد کے لیے اتفاقِ رائے سے آئینی ترمیم منظور کی جائے تاکہ ہماری سیاسی اصطلاح کے مطابق الیکشن چرانے یا جھرلو پھیرنے کے لیے جوخفیہ سوراخ ہیں، انہیں حتَّی الامکان ہمیشہ کے لیے بند کیا جاسکے ،مزید یہ کہ الیکشن کمیشن کو مالی، انتظامی اور قانونی اعتبار سے طاقت ور بنایا جائے۔
آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے اٹھارہویں ترمیم میں ہماری پارلیمنٹ کی سیاسی دانش نے یہ حل تجویز کیا تھا کہ منتخب حکومت کی مدت ختم ہونے پر صوبوں اور وفاق کی سطح پر وزیراعظم /وزیر اعلیٰ اور قائد حزبِ اختلاف کی مشاورت سے ایک نگران سیٹ اپ تشکیل دیا جائے۔ اسی طرح چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کے چناؤ کے لیے بھی یہی حل تجویز کیا گیاتھا، مگر یہ تجزیہ بے نتیجہ ثابت ہوا ۔ نگران سیٹ اپ بنانے کا ماڈل بنگلہ دیش نے اختیار کیا تھا، مگر وہاں بھی حسینہ واجد نے اُسے ختم کردیا۔ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کا منصب بیک وقت عدالتی بھی ہے اور انتظامی بھی۔ اس کے لیے ایسا الیکشن کمیشن چاہیے جو مکمل طور پر آزاد ہو، اس کے ارکان مضبوط اَعصاب اور قوتِ فیصلہ کے مالک ہوں، ان کے سامنے صرف اور صرف ملک وقوم کا مفاد ہو، ان کا ریٹائرڈ جج ہونا ضروری نہیں ہے۔ بھارت میں ایک اعلیٰ انتظامی استعداد، مضبوط اعصاب اور بروقت قوتِ فیصلہ کے حامل چیف الیکشن کمشنر نے اپنی دھاک بٹھائی اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے انتخابات کا اعتبار دنیا بھر میں قائم کردیا، جس پر بحیثیتِ مجموعی کوئی انگلی نہیں اٹھا تا۔
- See more at:
http://dunya.com.pk/index.php/author/mufti-muneeb-ul-rehman/2015-05-05/11152/64981271#tab2