arifkarim
معطل
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنوا مطابق ملک کے مغربی صوبے شنگ جیانگ میں بڑے پیمانے پر ہونے والے نسلی تشدد میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک سو چھپن ہوگئی ہے۔ آٹھ سو افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
ژنوا کے مطابق سینکڑوں افراد کو گرفتار کر لیاگیا ہے۔
ہنگامے ان اطلاعات کے بعد شروع ہوئے کہ پچھلے ماہ ملک کے جنوبی شہر شوہگان میں ہن نسل کے چینی باشندوں نے اوغر باشندوں پر اس وقت حملے شروع کر دیے جب ایک شخص نے انٹرنیٹ پر ایک پیغام لکھا کہ اوغر باشندوں نے ایک نوجوان لڑکی سے جنسی زیادتی کی ہے۔
پولیس کا کہنا کہ انٹرنیٹ پر لکھے گئے ’جھوٹے‘ پیغام کے بعد پرتشدد کاررائیوں شروع ہوگئیں جن میں دو اوغر باشندے ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔
ژنوا کا کہنا ہے کہ پولیس نے ایک دوسرے شہر کاشغر میں بھی دو سو سے زیادہ مظاہرین کو منتشر کر دیا ہے۔
نیدر لینڈ سے ملنی والی اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ وہاں بھی پولیس نے ایک سو چالیس سے زیادہ افراد کو اس وقت حراست میں لے لیا جب انہوں نے بظاہر شنگ جیانگ میں تشدد کے بعد چینی سفارتخانے پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔
شنگ جیانگ کی حکومت نے الزام لگایا ہے کہ ہنگاموں کے پیچھے امریکہ میں مقیم اوغر علیحدگی پسندوں کی رہنما ربیعہ قدیر ہیں۔
جلاوطن اوغر کانگریس کے ایک رہنما نے کہا ہے کہ آج اوغر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب ایک پرامن جلوس کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
چین کی خبررساں ادارے ژنوا نے کہا کہ پولیس نے شنگ جیانگ صوبے کے شہر اورمچی میں امن بحال کر دیا ہے۔
عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز کئی سو افراد نے شنگ جیانگ میں مظاہرے شروع کیے جن کی تعداد بعد میں ایک ہزار تک پہنچ گئی۔
سرکاری خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے چاقو، لاٹھیاں اور پتھر اٹھا رکھے تھے جس سے انہوں نے کئی سو گاڑیوں اور دکانوں کو نقصان پہنچایا۔ شنگ جیانگ حکومت کے نیوز ڈائریکٹر وونانگ نے الزام لگایا ہے کہ مظاہرین نے دو سو ساٹھ گاڑیوں اور دو سو گھروں کو نقصان پہنچایا۔
شنگ جیانگ میں اوغر مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے جن میں سے بہت سے لوگ چین سے آزادی کے خواہاں ہیں۔چین میں اولمپک گیمز کے انعقاد سے پہلے جب وہاں سے اولمپک مشعل گزری تھی تو شنگ جیانگ میں تشدد کے واقعات ہوئے تھے جن میں سولہ چینی پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
تبصرہ: New World Order.
ژنوا کے مطابق سینکڑوں افراد کو گرفتار کر لیاگیا ہے۔
ہنگامے ان اطلاعات کے بعد شروع ہوئے کہ پچھلے ماہ ملک کے جنوبی شہر شوہگان میں ہن نسل کے چینی باشندوں نے اوغر باشندوں پر اس وقت حملے شروع کر دیے جب ایک شخص نے انٹرنیٹ پر ایک پیغام لکھا کہ اوغر باشندوں نے ایک نوجوان لڑکی سے جنسی زیادتی کی ہے۔
پولیس کا کہنا کہ انٹرنیٹ پر لکھے گئے ’جھوٹے‘ پیغام کے بعد پرتشدد کاررائیوں شروع ہوگئیں جن میں دو اوغر باشندے ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔
ژنوا کا کہنا ہے کہ پولیس نے ایک دوسرے شہر کاشغر میں بھی دو سو سے زیادہ مظاہرین کو منتشر کر دیا ہے۔
نیدر لینڈ سے ملنی والی اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ وہاں بھی پولیس نے ایک سو چالیس سے زیادہ افراد کو اس وقت حراست میں لے لیا جب انہوں نے بظاہر شنگ جیانگ میں تشدد کے بعد چینی سفارتخانے پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔
شنگ جیانگ کی حکومت نے الزام لگایا ہے کہ ہنگاموں کے پیچھے امریکہ میں مقیم اوغر علیحدگی پسندوں کی رہنما ربیعہ قدیر ہیں۔
جلاوطن اوغر کانگریس کے ایک رہنما نے کہا ہے کہ آج اوغر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب ایک پرامن جلوس کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
چین کی خبررساں ادارے ژنوا نے کہا کہ پولیس نے شنگ جیانگ صوبے کے شہر اورمچی میں امن بحال کر دیا ہے۔
عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز کئی سو افراد نے شنگ جیانگ میں مظاہرے شروع کیے جن کی تعداد بعد میں ایک ہزار تک پہنچ گئی۔
سرکاری خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے چاقو، لاٹھیاں اور پتھر اٹھا رکھے تھے جس سے انہوں نے کئی سو گاڑیوں اور دکانوں کو نقصان پہنچایا۔ شنگ جیانگ حکومت کے نیوز ڈائریکٹر وونانگ نے الزام لگایا ہے کہ مظاہرین نے دو سو ساٹھ گاڑیوں اور دو سو گھروں کو نقصان پہنچایا۔
شنگ جیانگ میں اوغر مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے جن میں سے بہت سے لوگ چین سے آزادی کے خواہاں ہیں۔چین میں اولمپک گیمز کے انعقاد سے پہلے جب وہاں سے اولمپک مشعل گزری تھی تو شنگ جیانگ میں تشدد کے واقعات ہوئے تھے جن میں سولہ چینی پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
تبصرہ: New World Order.