نور وجدان
لائبریرین
کیوں رے من موہن، دور کیوں تھے؟ ایسا وار دوری نے کِیا، چُنر کی پروا نَہ رہی، کملی میں توری صَدا رہی ۔۔۔۔
میں دور نَہ تھا
ہر وقت رگِ جان سے قریب تھا
جیسے آج تُم مجھے جانِ قرین ،جانِ حزین سمجھتی ہو
میں تُمھاری لقاء کا پرندہ ہو
میں تُمھاری دید سے متعارف ہوں
تُم بھی ...... ،کتنی انجان ہو
رقص ہوتا کیا ہے؟ جب تک رقاص کا وجود نَہ ہو داسی کو اب رقص سے رقاص اور رقاص سے رقص تک کا فاصلہ ناپید ہوتا دکھائی دینے لگا ...
گھنگھرو باندھ کے
سج دھج کے
کنگنا بانہوں کو پہنا کے
سندور کو مانگ میں ڈال کے
کہنے لگی
داسی ....
اوری بگھوان داسی
رقص کر
رقاص سے ملنا ہے
جھومر پہن
چہرہ دیکھنا
سندور لگا
سہاگ سلامت رہے
وہ پگلی، بات سے بات سے نِکال محو گفتگو رہی ... اور گول دائرے میں رقص کرتے پیار کی غزل بننے لگی ... اسکی روح نے تال و سر ملا کے اک ہی تسبیح میں سجدہ کیا
من موہن، من موہن، چندر مکھ مورے ساجن
تجھ بن داسی کو چین نہ اک پل
شبد کامنائیں تجھ میں تحریر
تری کہانی کا پنکھ سرا ہوں میں
تجھ سے جڑا ہیرا ہوں میں
میری تنہائی کی یاترا ہوں تم
من موہن سامنے
پردہ ہٹ گیا رقص میں
بدن زخمی ہوتا گیا
روح سرشار و مخمور
جسم زمین پر ڈھے گیا، وہ من موہن کے ساتھ بامِ فلک پر بے جان بدن کو دیکھ کے کہنے لگی
.
تم نے کہا تھا محبت امر ہے
لو دیکھو
امر ہوگئی
بھگوان داسی من موہن کی ہے
سدا تری گونج بن کے
اک نغمہ سناتی رہوں گی
میں تو بن کے آتی رہوں گی
کون پہچانے گا مجھے؟
وہی جو بھگوان داسی و من موہن کی تلاش میں ہوں گے .... یا وہ جو شناسائی سے گھائل ہوں گے ...من موہن نے فلک کی سرخی سے مانگ کا سندور اور گہرا کیا اور بندیا لگا کے کہا
چلو رشکِ طائر ہو جاؤ
میرا دھواں تمھارے ساتھ ہے
نغمہ بن کے مرا
تم رہو زمانے کے ساتھ
میں دور نَہ تھا
ہر وقت رگِ جان سے قریب تھا
جیسے آج تُم مجھے جانِ قرین ،جانِ حزین سمجھتی ہو
میں تُمھاری لقاء کا پرندہ ہو
میں تُمھاری دید سے متعارف ہوں
تُم بھی ...... ،کتنی انجان ہو
رقص ہوتا کیا ہے؟ جب تک رقاص کا وجود نَہ ہو داسی کو اب رقص سے رقاص اور رقاص سے رقص تک کا فاصلہ ناپید ہوتا دکھائی دینے لگا ...
گھنگھرو باندھ کے
سج دھج کے
کنگنا بانہوں کو پہنا کے
سندور کو مانگ میں ڈال کے
کہنے لگی
داسی ....
اوری بگھوان داسی
رقص کر
رقاص سے ملنا ہے
جھومر پہن
چہرہ دیکھنا
سندور لگا
سہاگ سلامت رہے
وہ پگلی، بات سے بات سے نِکال محو گفتگو رہی ... اور گول دائرے میں رقص کرتے پیار کی غزل بننے لگی ... اسکی روح نے تال و سر ملا کے اک ہی تسبیح میں سجدہ کیا
من موہن، من موہن، چندر مکھ مورے ساجن
تجھ بن داسی کو چین نہ اک پل
شبد کامنائیں تجھ میں تحریر
تری کہانی کا پنکھ سرا ہوں میں
تجھ سے جڑا ہیرا ہوں میں
میری تنہائی کی یاترا ہوں تم
من موہن سامنے
پردہ ہٹ گیا رقص میں
بدن زخمی ہوتا گیا
روح سرشار و مخمور
جسم زمین پر ڈھے گیا، وہ من موہن کے ساتھ بامِ فلک پر بے جان بدن کو دیکھ کے کہنے لگی
.
تم نے کہا تھا محبت امر ہے
لو دیکھو
امر ہوگئی
بھگوان داسی من موہن کی ہے
سدا تری گونج بن کے
اک نغمہ سناتی رہوں گی
میں تو بن کے آتی رہوں گی
کون پہچانے گا مجھے؟
وہی جو بھگوان داسی و من موہن کی تلاش میں ہوں گے .... یا وہ جو شناسائی سے گھائل ہوں گے ...من موہن نے فلک کی سرخی سے مانگ کا سندور اور گہرا کیا اور بندیا لگا کے کہا
چلو رشکِ طائر ہو جاؤ
میرا دھواں تمھارے ساتھ ہے
نغمہ بن کے مرا
تم رہو زمانے کے ساتھ