نور وجدان
لائبریرین
وہ اِلہامی گفتار بہ رفتار مژگانِ دل سے نکلی کہ نوکِ قلم کی فریاد سے قرطاس مہک لیے ....... وہ عشق جو شانتا دیوی کے سینے میں الہام بَن کے اُترا ... شانتا دیوی گردوارے کی راکھی تھی ... اُس کو اس کے ماں باپ نے وہیں چھوڑ دیا تھا تاکہ گیان کی بھینٹ چڑھا دیا جائے. شانتا دیوی کو گُرو لوگ میزبان بَنا لیا کرتے تھے ...اسکا قرطاس چیخوں سے بھر گیا ..... چیخ ماری ... وجد میں ہُد ہُد الہام القا کرگیا .... داسی نے ابراہیمی نعرہ لگا دیا ... تُم انسان کے بَنائے کو پیشوا بناتے ہو مگر اسکو نہیں جس نے تُم کو پیشوائی دی ... داسی کو اس کے ماں باپ بھینٹ کرگئے مگر وہ صدا خدا کی تھی .... داسی کو خدا نے اتنا قریب کرلیا کہ اک دن اک آرزو مند نے خواہش کا پیالہ مانگا ..... زمین خشک کر دی گئی ...قحط سالی .... ایک منگتا آیا، جسکو تلاش تھی اللہ کی ... وہ گردوارے میں روازنہ آتا ...داسی کی نگاہ نے اس کے دل میں ایسا چشمہ پھوڑا، جیسا سیدہِ عشق بی بی حاجرہ کے قدمین مبارک سے صحرا نے زم زم اگلا تھا ...اسکو آشنائی ملی کہ گردوارے کسی شناسا سے چلتے ہیں ... چشمے نگاہ سے پھوٹ جاتے ہیں ..پتھر دل پھٹ جاتے ہیں ...پہاڑ ریزہ ریزہ... لگتا زمین پر زلزلہ آیا ہے مگر جانو کہ مسبب کون ہے کہ کائنات کار اسباب ہے ... اس لیے ڈھونڈنے والوں کو شناسا سے آشنا تک جانا ہی پڑتا ہے ...کبھی کنواں پیاسے کے پاس تو کبھی پیاسا کنواں کے پاس ..