طارق اقبال
محفلین
[ ڈارون کا نظریہٴ ارتقاء ایک دھوکہ ایک فریب
انسان کی پیدائش کسی ارتقاء کانتیجہ نہیں ہے ۔یہ نظریہ چونکہ آج کل ہمارے کالجوں میں پڑھایا جاتاہے اورمیڈیا پر بھی اکثر اس کے حق میں خبریں شائع کی جاتی ہیں جس سے بعض مسلمان بھی اس نظریہ سے مرعوب ہوچکے ہیں۔نیز اس نظریہ نے مذہبی دنیا میں ایک اضطراب سا پیدا کردیا ہے۔واضح رہے کہ انسان اور دوسرے حیوانات کی تخلیق کے متعلق دوطرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ایک یہ کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت انسان ہی پیدا کیا ہے۔قرآن واحادیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ،پھر انہی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا ،پھرا س جوڑے سے بنی نوع انسان تمام دنیا میں پھیلے۔آدم علیہ السلام کا پتلا جب اللہ تعالیٰ نے بنایا تو اس میں اپنی روح سے پھونکااور ایسی روح کسی دوسری چیز میں نہیں پھونکی گئی ۔یہ اسی روح کا اثر ہے کہ انسان میں دوسرے تما م حیوانات سے بہت زیادہ عقل وشعور ،قوت ارادہ و اختیار اور تکلم کی صفات پائی جاتی ہیں۔اس طبقہ کے قائلین اگرچہ زیادہ تر الہامی مذاہب کے لوگ ہیں تاہم بعض مغربی مفکرین نے بھی اس نظریہ کی حمایت کی ہے۔
دوسرا گروہ مادہ پرستوں کا ہے جو اسے خالص ارتقائی شکل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔اس نظریہ کے مطابق زندگی اربوں سال پہلے ساحل سمندر سے نمودار ہوئی ۔پھر اس سے نباتات اور اس کی مختلف انواع وجود میں آئیں پھر نباتات ہی سے ترقی کرتے کرتے حیوانات پیداہوئے۔ انہی حیوانات سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچا ہے۔اس تدریجی اور ارتقائی سفر کے دوران کوئی ایسا نقطہ متعین نہیں کیا جاسکتاجہاں سے غیر انسانی حالت کا وجود ختم کرکے نوع انسانی کا آغاز تسلیم کیا جائے ۔تاریخ کے مطالعہ سے معلو م ہوتا ہے کہ یہ نظریہ سب سے پہلے ارسطو) 322-384ق م( نے پیش کیا تھا ۔قدیم زمانہ میں تھیلیس ،عناکسی میندر،عناکسی مینس،ایمپی ووکل اور جوہر پسند فلاسفہ بھی مسئلہ ارتقاء کے قائل تھے۔مسلمان مفکرین میں سے ابن خلدون،ابن مسکویہ اور حافظ مسعودی نے ابھی اشیائے کائنات میں مشابہت دیکھ کر کسی حدتک اس نظریہ ارتقاء کی حمایت کی ہے۔
انیسویں صدی عیسوی سےپہلے یہ نظریہ ایک گمنام سانظریہ تھا۔1859 ء میں سر چارلس ڈارون (1818-1882) نے ایک کتاب The Origin of Species by Means of Natural Selection(یعنی ’’فطری انتخاب کے ذریعے انواع کا ظہور‘‘) لکھ کر اس نظریہ کو باضابطہ طورپر پیش کیا۔اس نظریہ کوماننے والوں میں بھی کافی اختلاف ہوئے۔ڈارون نے بندر اور انسان کو ایک ہی نوع قرار دیا کیونکہ حس وادراک کے پہلو سے ان دونوں میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے۔گویا ڈارون کے نظریہ کے مطابق انسا ن بندر کا چچیرا بھائی ہے ۔لیکن کچھ انتہاپسندو ں نے انسان کو بندرہی کی اولاد قرار دیا ۔کچھ ان سے بھی آگے بڑھے توکہا کہ تمام سفید فام انسان تو چیمپینز ی (Chimpanzy) سے پیدا ہوئے ہیں۔سیاہ فام انسانوں کا باپ گوریلا ہے او رلمبے سرخ ہاتھوں والے انسان تگنان بندر کی اولاد ہیں۔مورخین نے تو ان مختلف اللون انسانوں کو سیدنا نوح علیہ السلام کے بیٹوں حام،سام اور یافث کی اولاد قرار دیاتھا۔مگر یہ حضرات انہیں چیمپینزی ،گوریلا اور تگنان کی اولاد قرار دیتے ہیں۔
پھر کچھ مفکرین کایہ خیال بھی ہے کہ انسان بندر کی اولاد نہیں بلکہ بندر انسان کی اولاد ہے۔ اس رجعت قہقری کی مثالیں بھی اس کائنات میں موجود ہیں۔ بادی النظرمیں قرآن سے بھی اس نظریہ کی کسی حد تک تائید ہو جاتی ہے ،جیساکہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کچھ بدکردار اور نافرمان لوگوں کو فرمایا۔
تخلیق کائنات بشمولیت انسان سے متعلق تیسرا نظریہ آفت گیر ی (Cata Strophism)ہے جس کا بانی کوپیر (Cupier) (1796-1832) ہے۔ جو فرانس کا باشندہ اور تشریح الا عضاء کا ماہر تھا۔ اس کے نظریہ کے مطابق تمام اقسام کے تابئے علیحدہ علیحدہ طور پر تخلیق ہوئے ۔یہ ارضی وسماوی آفات میں مبتلا ہو کر نیست ونابو د ہوگئے ۔پھر کچھ اور حیوانات پیدا ہوئے ۔یہ بھی کچھ عرصہ بعد نیست ونابود ہوگئے ۔اسی طرح مختلف ادوار میں نئے حیوانات پیدا ہوتے اور فناہوتے رہے ہیں۔ )اسلام اور نظریہ ارتقاء ، ص 85از احمد باشمیل ۔ادارہ معارف اسلامی کراچی ،مطبوعہ البدر پبلی کیشنز لاہور (
ڈارون کے نظریہ کے مطابق زندگی کی ابتداء ساحل سمندر پر پایاب پانی سے ہوئی ۔پانی کی سطح پر کائی نمودار ہوئی پھر اس کا ئی کے نیچے حرکت پیدا ہوئی۔ یہ زندگی کی ابتداء تھی پھر اس سے نباتات کی مختلف قسمیں بنتی گئیں ۔پھر جرثومہ حیات ترقی کرکے حیوانچہ بن گیا ۔پھر یہ حیوان بنا۔یہ حیوان ترقی کرتے کرتے پردار اور بازووٴں والے حیوانات میں تبدیل ہوا۔پھر اس نے فقری جانور)ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے(کی شکل اختیار کی پھر انسان کے مشابہ حیوان بنا ۔ا ور ا س کے بعد انسان اول بنا جس میں عقل ،فہم اور تکلم کی صلاحتیں نہیں تھیں ۔بالآخر وہ صاحب فہم وذکا ء انسان بن گیا ۔ان تمام تبدلات ،تغیرات اور ارتقائے سفر کی مدت کا اندازہ کچھ اس طرح بتلایا جاتا ہے۔
آج سے دوارب سال پیشتر سمندر کےکنارے پایاب پانی میں کائی نمودار ہوئی ۔یہ زندگی کا آغاز تھا ۔60کروڑ سال قبل یک خلوی جانور پیدا ہوئے ۔پھر 3کروڑ سال بعد اسفنج اور سہ خلوی جانور پیدا ہوئے ۔45کروڑ سال قبل پتوں کے بغیر پودے ظاہر ہوئے اور اسی دور میں ریڑھ کی ہڈ ی والے جانور پیداہوئے ۔40کروڑ سال قبل مچھلیوں اور کنکھجوروں کی نمو د ہوئی ۔30کروڑ سال قبل بڑے بڑے دلدلی جانور پیدا ہوئے ۔یہ عظیم الجثہ جانور 4فٹ لمبے اور 35ٹن تک وزنی تھے۔ 13کروڑ سال بعد یا آج سے 17کروڑ سال پہلے بے دم بوزنہ(Ape) سیدھا ہو کرچلنے لگا)یعنی وہ بندر ، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کا جد اعلیٰ ہے(اس سے 30سال بعد یا آج سے 70لاکھ سال پہلے اس بے دم بوزنے کی ایک قسم” تپھکن تھروپس” سے پہلی انسانی نسل پیدا ہوئی ۔مزید 50لاکھ سال بعد یا آج سے 20لاکھ سال پہلے پہلی باشعور انسانی نسل پیدا ہوئی ۔جس نے پتھر کا ہتھیار اٹھایا ۔مزید 2لاکھ سال بعد اس میں ذہنی ارتقاء ہوا اور انسانی نسل نے غاروں میں رہنا شروع کیا ۔)زریں معلومات مطبوعہ فیروز سنز ص 7تا (9
ڈارون نے اپنی پہلی کتاب اصل الانواع 1859ء میں لکھی پھر اصل الانسان (Origin of man)اور پھر تسلسل انسانی (Decent of man)لکھ کر اپنے نظریہ کی تائید مزید کی ۔اور اپنے اس نظریہ کو مندرجہ ذیل چار اصولوں پر استوار کیا ہے۔
1۔ تنازع للبقاء (Struggle for Existence)۔ اس سے مراد زندگی کی بقاء کےلیے کشمکش ہے جس میں صرف وہ جاندارباقی رہ جاتے ہیں جو زیادہ مکمل اور طاقتور ہوں اور کمزور جاندار ختم ہوجاتے ہیں مثلا ً کسی جنگل میں وحشی بیل ایک ساتھ چرتےہیں ۔ ان میں سے جو طاقتور ہوتا ہےوہ گھاس پر قبضہ جمالیتا ہے اور اس طرح مزید طاقتور ہو جاتا ہے مگر کمزور خوراک کی نایابی کے باعث مزید کمزور ہو کر بالآخر ختم ہوجاتا ہے اسی کشمکش کا نام تنازع للبقاء ہے۔
۔دوسرا اصول طبعی انتخاب Natural Selection) ۔ مثلا ً اوپر کی مثال میں وہی وحشی بیل دور کی مسافت طے کرنے اور دشوار گزار راستوں سے گزرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو طاقتور اور مضبوط ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو خطرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور کمزور خود بخور ختم ہوتے جاتے ہیں گویا فطرت) اس کامطلب اللہ تعالیٰ کی ذات نہیں ہے ( خود طاقتور اور مضبوط کو باقی رکھتی اور کمزور اور ناقص کو ختم کرتی رہتی ہے۔
3۔ماحول سے ہم آہنگی (Adaption)۔اس کی مثال یوں سمجھیے کہ شیر ایک گوشت خور درندہ جانور ہے ۔فطرت نے اسے شکار کےلیے پنجے اور گوشت کھانے کے لیے نوکیلے دانت عطا کیے ہیں ۔اب اگر اسے مدت دراز تک گوشت نہ ملےتواس کی دو ہی صورتیں ہیں ۔یا تو وہ بھوک سے مر جائے گا یا نباتات کھانا شروع کردے گا۔اس دوسری صورت میں اس کے دانت اور پنجے رفتہ رفتہ خود بخود ختم ہوجائیں گے اور ایسے نئے اعضاء وجود میں آنے لگیں گے جو موجودہ ہیت کے مطابق ہوں ۔ اس کی آنتیں بھی طویل ہو کر سبزی خور جانوروں کے مشابہ ہوجائیں گی ۔اسی طرح اگر شیر کو خوراک ملنے کی واحد صورت یہ ہو کہ کسی درخت پر چڑھ کر حاصل کرنی پڑے تو ایسے اعضاء پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے جو اسے درختوں پر چڑھنے میں مدد دے سکیں۔
4 ۔قانون وراثت (Law of Heritance)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصول نمبر 2یعنی ہیت اور ماحول کے اختلاف سے جو تبدیلیاں پیدا ہو تی ہیں وہ نسلاً بعد نسل آگے منتقل ہوتی جاتی ہیں تاآنکہ یہ اختلاف فروعی نہیں بلکہ نوعی بن جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ نسلیں ہیں جیسے گدھا او ر گھوڑا ایک ہی نوع ہے مگر گدھا گھوڑے سے اس لیے مختلف ہو گیا کہ اس کی معاشی صورت حال بھی بدل گئی اور حصو ل معاش کے لیے اس کی جدوجہد میں بھی اضافہ ہوگیا ۔
ڈاروِن کے یہ خیالات بعض مخصوص نظریاتی اور سیاسی حلقوں کو بہت زیادہ پسند آئے، انہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور نتیجتاً یہ خیالات (نظریہ ارتقاء) بہت زیادہ مقبول ہوگئے۔ اس مقبولیت کی اہم وجہ یہ رہی کہ اس زمانے میں علم کی سطح اتنی بلند نہیں تھی کہ ڈاروِن کے تصوراتی منظرنامے میں پوشیدہ جھوٹ کو سب کے سامنے عیاں کر سکتی۔ جب ڈارون نے ارتقاء کے حوالے سے اپنے مفروضات پیش کئے تو اس وقت جینیات (Genetics)، خرد حیاتیات (Microbiology) اور حیاتی کیمیا (Biochemistry) جیسے مضامین موجود ہی نہیں تھے۔ اگر یہ موضوعات، ڈاروِن کے زمانے میں موجود ہوتے تو با آسانی پتہ چل جاتا کہ ڈاروِن کا نظریہ غیر سائنسی ہے اور اس کے دعوے بے مقصد ہیں۔ کسی نوع کا تعین کرنے والی ساری معلومات پہلے ہی سے اس کے جین (Genes) میں موجود ہوتی ہیں۔ فطری انتخاب کے ذریعے، جین میں تبدیلی کرکے کسی ایک نوع سے دوسری نوع پیدا کرنا قطعاً ناممکن ہے۔
جس وقت ڈاروِن کی مذکورہ بالا کتاب (جسے اب ہم مختصراً ’’اصلِ انواع‘‘ کہیں گے) اپنی شہرت کے عروج پر تھی، اسی زمانے میں آسٹریا کے ایک ماہر نباتیات، گریگر مینڈل نے 1865ء میں توارث (Inheritance) کے قوانین دریافت کئے۔ اگرچہ ان مطالعات کو انیسویں صدی کے اختتام تک کوئی خاص شہرت حاصل نہیں ہوسکی۔ مگر 1900ء کے عشرے میں حیاتیات کی نئی شاخ ’’جینیات‘‘ (Genetics) متعارف ہوئی اور مینڈل کی دریافت بہت زیادہ اہمیت اختیار کرگئی۔ کچھ عرصے بعد جین کی ساخت اور کروموسوم (Chromosomes) بھی دریافت ہوگئے۔ 1950ء کے عشرے میں ڈی این اے (DNA) کا سالمہ دریافت ہوا، جس میں ساری جینیاتی معلومات پوشیدہ ہوتی ہیں۔ یہیں سے نظریہ ارتقاء میں ایک شدید بحران کا آغاز ہوا کیونکہ اتنے مختصر سے ڈی این اے میں بے اندازہ معلومات کا ذخیرہ کسی بھی طرح سے ’’اتفاقی واقعات‘‘ کی مدد سے واضح نہیں کیا جاسکتا تھا۔ان تمام سائنسی کاوشوں سے ہٹ کر، تلاشِ بسیار کے باوجود، جانداروں کی ایسی کسی درمیانی شکل کا سراغ نہیں مل سکا جسے ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء کی روشنی میں لازماً موجود ہونا چاہیے تھا۔
اصولاً تو ان دریافتوں کی بنیاد پر ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ کیونکہ بعض مخصوص حلقوں نے اس پر نظرِ ثانی، اس کے احیأ، اور اسے سائنسی پلیٹ فارم پر بلند مقام دیئے رکھنے کا اصرار (اور دباؤ) جاری رکھا۔ ان کوششوں کا مقصد صرف اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب ہم نظریہ ارتقاء کے پیدا کردہ نظریاتی رجحانات (Ideological Intensions) کو محسوس کریں، نہ کہ اس کے سائنسی پہلوؤں کا جائزہ لیں۔ نظریہ ارتقاء پر یقین کو قائم و دائم رکھنے کی پوری کوششوں کے باوجود یہ حلقے جلد ہی ایک بند گلی میں پہنچ گئے۔ اب انہوں نے ایک نیا ماڈل پیش کردیا جس کا نام ’’جدید ڈارونزم‘‘ (Neo-Darwinism) رکھا گیا۔
اس نظریئے کے مطابق انواع کا ارتقاء، تغیرات (Mutations) اور ان کے جین (Genes) میں معمولی تبدیلیوں سے ہوا۔ مزید یہ کہ (ارتقاء پذیر ہونے والی ان نئی انواع میں سے) صرف وہی انواع باقی بچیں جو فطری انتخاب کے نظام کے تحت موزوں ترین (Fittest) تھیں۔ مگر جب یہ ثابت کیا گیا کہ جدید ڈارونزم کے مجوزہ نظامات درست نہیں، اور یہ کہ نئی انواع کی تشکیل کے لئے معمولی جینیاتی تبدیلیاں کافی نہیں ہیں، تو ارتقاء کے حمایتی ایک بار پھر نئے ماڈلوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔
اب کی بار وہ ایک نیا دعویٰ لے کر آئے جسے ’’نشان زد توازن‘‘(Punctuated Equilibrium) کہا جاتا ہے، اور اس کی بھی کوئی معقول سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ اس ماڈل کی رُو سے جاندار کوئی ’’درمیانی شکل‘‘ اختیار کئے بغیر، اچانک ہی ایک سے دوسری انواع میں ارتقاء پذیر ہوگئے۔ باالفاظِ دیگر یہ کہ کوئی نوع اپنے ’’ارتقائی آباؤ اجداد‘‘ کے بغیر ہی وجود میں آگئی۔ اگر ہم یہ کہیں کہ انواع کو ’’تخلیق‘‘ کیا گیا ہے (یعنی ان کا کوئی خالق ضرور ہے) تو ہم بھی وہی کہہ رہے ہوں گے جو نشان زد توازن میں کہا گیا ہے۔ لیکن ارتقاء پرست، نشان زد توازن کے اس پہلو کو قبول نہیں کرتے (جو خالق کی طرف اشارہ کررہا ہے)۔ اس کے بجائے وہ حقیقت کو ناقابلِ فہم منظر ناموں سے ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگے۔ مثلاً یہ کہ دنیا کا پہلا پرندہ اچانک ہی، ناقابلِ تشریح انداز میں، رینگنے والے کسی جانور یعنی ہوّام (Reptile) کے انڈے سے پیدا ہوگیا۔ یہی نظریہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ زمین پر بسنے والے گوشت خور جاندار کسی (ناقابلِ فہم) وجہ سے، زبردست قسم کے جینیاتی تغیرات کا شکار ہوکر، دیو قامت وہیل مچھلیوں میں تبدیل ہوگئے ہوں گے۔
یہ دعوے جینیات، حیاتی طبیعیات اور حیاتی کیمیا کے طے شدہ قواعد و ضوابط سے بری طرح متصادم ہیں اور ان میں اتنی ہی سائنسی صداقت ممکن ہے جتنی مینڈک کے شہزادے میں تبدیل ہوجانے والی جادوئی کہانیوں میں ہوسکتی ہے۔ ان تمام خرابیوں اور نقائص کے باوجود، جدید ڈارونزم کے پیش کردہ نتائج اور پیدا شدہ بحران سے عاجز آئے ہوئے کچھ ارتقاء پرست ماہرینِ معدومیات (Paleontologists) نے اس نظریئے (نشان زد توازن) کو گلے سے لگا لیا جو اپنی ذات میں جدید ڈارونزم سے بھی زیادہ عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم ہے۔
اس نئے ماڈل کا واحد مقصد صرف یہ تھا کہ رکازی ریکارڈ میں خالی جگہوں کی موجودگی (یعنی زندگی کی درمیانی شکلوں کی عدم موجودگی) کی وضاحت فراہم کی جائے، جنہیں واضح کرنے سے جدید ڈارونزم بھی قاصر تھا۔ مگر ریکارڈ کی عدم موجودگی کے ثبوت میں یہ کہنا ’’رینگنے والے جانور کا انڈا ٹوٹا اور اس میں سے پرندہ برآمد ہوا‘‘ بمشکل ہی معقول دلیل سمجھا جائے گا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ڈراوِن کا نظریہ ارتقاء خود کہتا ہے کہ انواع کو ایک سے دوسری شکل میں ڈھلنے کے لئے زبردست اور مفید قسم کا جینیاتی تغیر درکار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی جینیاتی تغیر بھی، خواہ وہ کسی بھی پیمانے کا ہو، جینیاتی معلومات کو بہتر بناتا ہویا ان میں اضافہ کرتا ہوا نہیں پایا گیا۔ تغیرات (تبدیلیوں) سے تو جینیاتی معلومات تلپٹ ہوکر رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’مجموعی تغیرات‘‘ (Gross Mutations) جن کا تصور نشان زد توازن کے ذریعے پیش کیا گیا ہے، صرف جینیاتی معلومات میں کمی اور خامی کا باعث ہی بن سکتے ہیں۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ’’نشان زد توازن‘‘ کا نظریہ بھی محض تخیلات کا حاصل ہے۔ اس کھلی ہوئی سچائی کے باوجود ارتقاء کے حامی اس نظریئے کو ماننے سے بالکل نہیں ہچکچاتے۔ وہ جانتے تھے کہ رکازات کے ریکارڈ کی عدم موجودگی، ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء سے ثابت نہیں کی جاسکتی لہٰذا وہ نشان زد توازن کو ماننے پر مجبور ہوگئے۔ مگر خود ڈاروِن کا کہنا تھا کہ انواع کا ارتقاء بتدریج ہوا تھا (یعنی وہ تھوڑی تھوڑی کرکے تبدیل ہوئی تھیں)، جس کے باعث یہ اشد ضروری تھا کہ آدھا پرندہ/ آدھا ہوّام، یا آدھی مچھلی/ آدھا چوپایہ جیسے عجیب الخلقت جانداروں کے رکازات دریافت کئے جائیں۔ تاہم اب تک، ساری تحقیق و تلاش کے بعد بھی ان ’’درمیانی (انتقالی) شکلوں‘‘ کی ایک مثال بھی سامنے نہیں آسکی۔ حالانکہ اس دوران لاکھوں رکازات، زمین سے برآمد ہوچکے ہیں۔
ارتقاء پرست صرف اس لئے نشان زد توازن والے ماڈل سے چمٹ گئے ہیں تاکہ رکازات کی صورت میں ہونے والی اپنی شکست فاش کو چھپا سکیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ نشان زد توازن کو کسی باضابطہ ماڈل کی حیثیت سے اختیار نہیں کیا گیا، بلکہ اسے تو صرف ان مواقع پر راہِ فرار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں تدریجی ارتقاء سے بات واضح نہیں ہو پاتی۔ آج کے ماہرینِ ارتقاء یہ محسوس کرتے ہیں کہ آنکھ، پر، پھیپھڑے، دماغ اور دوسرے پیچیدہ اعضاء علی الاعلان تدریجی ارتقائی ماڈل کو غلط ثابت کررہے ہیں۔ بطورِ خاص انہی نکات پر آکر وہ مجبوراً نشان زد توازن والے ماڈل میں پناہ لینے دوڑے آتے ہیں۔
سو یہ ہے ڈارون کے نظریہ ٴ ارتقاء کا خلاصہ ،جو اس وقت بھی صرف ایک نظریہ ہی تھا اور آج بھی نظریہ سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔اس نظریہ کو کوئی ایسی ٹھوس بنیاد مہیا نہیں ہوسکی جس کی بناء پر یہ نظریہ سائنس کا قانون (Scientific Law)بن سکے اس نظریہ پر بعد کے مفکرین نے شدید اعتراض کیے ہیں ۔مثلاً
(جاری ہے)
انسان کی پیدائش کسی ارتقاء کانتیجہ نہیں ہے ۔یہ نظریہ چونکہ آج کل ہمارے کالجوں میں پڑھایا جاتاہے اورمیڈیا پر بھی اکثر اس کے حق میں خبریں شائع کی جاتی ہیں جس سے بعض مسلمان بھی اس نظریہ سے مرعوب ہوچکے ہیں۔نیز اس نظریہ نے مذہبی دنیا میں ایک اضطراب سا پیدا کردیا ہے۔واضح رہے کہ انسان اور دوسرے حیوانات کی تخلیق کے متعلق دوطرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ایک یہ کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت انسان ہی پیدا کیا ہے۔قرآن واحادیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ،پھر انہی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا ،پھرا س جوڑے سے بنی نوع انسان تمام دنیا میں پھیلے۔آدم علیہ السلام کا پتلا جب اللہ تعالیٰ نے بنایا تو اس میں اپنی روح سے پھونکااور ایسی روح کسی دوسری چیز میں نہیں پھونکی گئی ۔یہ اسی روح کا اثر ہے کہ انسان میں دوسرے تما م حیوانات سے بہت زیادہ عقل وشعور ،قوت ارادہ و اختیار اور تکلم کی صفات پائی جاتی ہیں۔اس طبقہ کے قائلین اگرچہ زیادہ تر الہامی مذاہب کے لوگ ہیں تاہم بعض مغربی مفکرین نے بھی اس نظریہ کی حمایت کی ہے۔
دوسرا گروہ مادہ پرستوں کا ہے جو اسے خالص ارتقائی شکل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔اس نظریہ کے مطابق زندگی اربوں سال پہلے ساحل سمندر سے نمودار ہوئی ۔پھر اس سے نباتات اور اس کی مختلف انواع وجود میں آئیں پھر نباتات ہی سے ترقی کرتے کرتے حیوانات پیداہوئے۔ انہی حیوانات سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچا ہے۔اس تدریجی اور ارتقائی سفر کے دوران کوئی ایسا نقطہ متعین نہیں کیا جاسکتاجہاں سے غیر انسانی حالت کا وجود ختم کرکے نوع انسانی کا آغاز تسلیم کیا جائے ۔تاریخ کے مطالعہ سے معلو م ہوتا ہے کہ یہ نظریہ سب سے پہلے ارسطو) 322-384ق م( نے پیش کیا تھا ۔قدیم زمانہ میں تھیلیس ،عناکسی میندر،عناکسی مینس،ایمپی ووکل اور جوہر پسند فلاسفہ بھی مسئلہ ارتقاء کے قائل تھے۔مسلمان مفکرین میں سے ابن خلدون،ابن مسکویہ اور حافظ مسعودی نے ابھی اشیائے کائنات میں مشابہت دیکھ کر کسی حدتک اس نظریہ ارتقاء کی حمایت کی ہے۔
کیا انسان بندرکی اولاد ہے؟
انیسویں صدی عیسوی سےپہلے یہ نظریہ ایک گمنام سانظریہ تھا۔1859 ء میں سر چارلس ڈارون (1818-1882) نے ایک کتاب The Origin of Species by Means of Natural Selection(یعنی ’’فطری انتخاب کے ذریعے انواع کا ظہور‘‘) لکھ کر اس نظریہ کو باضابطہ طورپر پیش کیا۔اس نظریہ کوماننے والوں میں بھی کافی اختلاف ہوئے۔ڈارون نے بندر اور انسان کو ایک ہی نوع قرار دیا کیونکہ حس وادراک کے پہلو سے ان دونوں میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے۔گویا ڈارون کے نظریہ کے مطابق انسا ن بندر کا چچیرا بھائی ہے ۔لیکن کچھ انتہاپسندو ں نے انسان کو بندرہی کی اولاد قرار دیا ۔کچھ ان سے بھی آگے بڑھے توکہا کہ تمام سفید فام انسان تو چیمپینز ی (Chimpanzy) سے پیدا ہوئے ہیں۔سیاہ فام انسانوں کا باپ گوریلا ہے او رلمبے سرخ ہاتھوں والے انسان تگنان بندر کی اولاد ہیں۔مورخین نے تو ان مختلف اللون انسانوں کو سیدنا نوح علیہ السلام کے بیٹوں حام،سام اور یافث کی اولاد قرار دیاتھا۔مگر یہ حضرات انہیں چیمپینزی ،گوریلا اور تگنان کی اولاد قرار دیتے ہیں۔
پھر کچھ مفکرین کایہ خیال بھی ہے کہ انسان بندر کی اولاد نہیں بلکہ بندر انسان کی اولاد ہے۔ اس رجعت قہقری کی مثالیں بھی اس کائنات میں موجود ہیں۔ بادی النظرمیں قرآن سے بھی اس نظریہ کی کسی حد تک تائید ہو جاتی ہے ،جیساکہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کچھ بدکردار اور نافرمان لوگوں کو فرمایا۔
} کُونُوا قردہ خاسین{ ”تم ذلیل بندر بن جاوٴ”۔ (65:2)
تخلیق کائنات بشمولیت انسان سے متعلق تیسرا نظریہ آفت گیر ی (Cata Strophism)ہے جس کا بانی کوپیر (Cupier) (1796-1832) ہے۔ جو فرانس کا باشندہ اور تشریح الا عضاء کا ماہر تھا۔ اس کے نظریہ کے مطابق تمام اقسام کے تابئے علیحدہ علیحدہ طور پر تخلیق ہوئے ۔یہ ارضی وسماوی آفات میں مبتلا ہو کر نیست ونابو د ہوگئے ۔پھر کچھ اور حیوانات پیدا ہوئے ۔یہ بھی کچھ عرصہ بعد نیست ونابود ہوگئے ۔اسی طرح مختلف ادوار میں نئے حیوانات پیدا ہوتے اور فناہوتے رہے ہیں۔ )اسلام اور نظریہ ارتقاء ، ص 85از احمد باشمیل ۔ادارہ معارف اسلامی کراچی ،مطبوعہ البدر پبلی کیشنز لاہور (
ڈارون کے نظریہ کے مطابق زندگی کی ابتداء ساحل سمندر پر پایاب پانی سے ہوئی ۔پانی کی سطح پر کائی نمودار ہوئی پھر اس کا ئی کے نیچے حرکت پیدا ہوئی۔ یہ زندگی کی ابتداء تھی پھر اس سے نباتات کی مختلف قسمیں بنتی گئیں ۔پھر جرثومہ حیات ترقی کرکے حیوانچہ بن گیا ۔پھر یہ حیوان بنا۔یہ حیوان ترقی کرتے کرتے پردار اور بازووٴں والے حیوانات میں تبدیل ہوا۔پھر اس نے فقری جانور)ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے(کی شکل اختیار کی پھر انسان کے مشابہ حیوان بنا ۔ا ور ا س کے بعد انسان اول بنا جس میں عقل ،فہم اور تکلم کی صلاحتیں نہیں تھیں ۔بالآخر وہ صاحب فہم وذکا ء انسان بن گیا ۔ان تمام تبدلات ،تغیرات اور ارتقائے سفر کی مدت کا اندازہ کچھ اس طرح بتلایا جاتا ہے۔
ارتقائی انسان کتنی مدت میں وجود میں آیا ؟۔
آج سے دوارب سال پیشتر سمندر کےکنارے پایاب پانی میں کائی نمودار ہوئی ۔یہ زندگی کا آغاز تھا ۔60کروڑ سال قبل یک خلوی جانور پیدا ہوئے ۔پھر 3کروڑ سال بعد اسفنج اور سہ خلوی جانور پیدا ہوئے ۔45کروڑ سال قبل پتوں کے بغیر پودے ظاہر ہوئے اور اسی دور میں ریڑھ کی ہڈ ی والے جانور پیداہوئے ۔40کروڑ سال قبل مچھلیوں اور کنکھجوروں کی نمو د ہوئی ۔30کروڑ سال قبل بڑے بڑے دلدلی جانور پیدا ہوئے ۔یہ عظیم الجثہ جانور 4فٹ لمبے اور 35ٹن تک وزنی تھے۔ 13کروڑ سال بعد یا آج سے 17کروڑ سال پہلے بے دم بوزنہ(Ape) سیدھا ہو کرچلنے لگا)یعنی وہ بندر ، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کا جد اعلیٰ ہے(اس سے 30سال بعد یا آج سے 70لاکھ سال پہلے اس بے دم بوزنے کی ایک قسم” تپھکن تھروپس” سے پہلی انسانی نسل پیدا ہوئی ۔مزید 50لاکھ سال بعد یا آج سے 20لاکھ سال پہلے پہلی باشعور انسانی نسل پیدا ہوئی ۔جس نے پتھر کا ہتھیار اٹھایا ۔مزید 2لاکھ سال بعد اس میں ذہنی ارتقاء ہوا اور انسانی نسل نے غاروں میں رہنا شروع کیا ۔)زریں معلومات مطبوعہ فیروز سنز ص 7تا (9
ڈارون نے اپنی پہلی کتاب اصل الانواع 1859ء میں لکھی پھر اصل الانسان (Origin of man)اور پھر تسلسل انسانی (Decent of man)لکھ کر اپنے نظریہ کی تائید مزید کی ۔اور اپنے اس نظریہ کو مندرجہ ذیل چار اصولوں پر استوار کیا ہے۔
1۔ تنازع للبقاء (Struggle for Existence)۔ اس سے مراد زندگی کی بقاء کےلیے کشمکش ہے جس میں صرف وہ جاندارباقی رہ جاتے ہیں جو زیادہ مکمل اور طاقتور ہوں اور کمزور جاندار ختم ہوجاتے ہیں مثلا ً کسی جنگل میں وحشی بیل ایک ساتھ چرتےہیں ۔ ان میں سے جو طاقتور ہوتا ہےوہ گھاس پر قبضہ جمالیتا ہے اور اس طرح مزید طاقتور ہو جاتا ہے مگر کمزور خوراک کی نایابی کے باعث مزید کمزور ہو کر بالآخر ختم ہوجاتا ہے اسی کشمکش کا نام تنازع للبقاء ہے۔
۔دوسرا اصول طبعی انتخاب Natural Selection) ۔ مثلا ً اوپر کی مثال میں وہی وحشی بیل دور کی مسافت طے کرنے اور دشوار گزار راستوں سے گزرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو طاقتور اور مضبوط ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو خطرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور کمزور خود بخور ختم ہوتے جاتے ہیں گویا فطرت) اس کامطلب اللہ تعالیٰ کی ذات نہیں ہے ( خود طاقتور اور مضبوط کو باقی رکھتی اور کمزور اور ناقص کو ختم کرتی رہتی ہے۔
3۔ماحول سے ہم آہنگی (Adaption)۔اس کی مثال یوں سمجھیے کہ شیر ایک گوشت خور درندہ جانور ہے ۔فطرت نے اسے شکار کےلیے پنجے اور گوشت کھانے کے لیے نوکیلے دانت عطا کیے ہیں ۔اب اگر اسے مدت دراز تک گوشت نہ ملےتواس کی دو ہی صورتیں ہیں ۔یا تو وہ بھوک سے مر جائے گا یا نباتات کھانا شروع کردے گا۔اس دوسری صورت میں اس کے دانت اور پنجے رفتہ رفتہ خود بخود ختم ہوجائیں گے اور ایسے نئے اعضاء وجود میں آنے لگیں گے جو موجودہ ہیت کے مطابق ہوں ۔ اس کی آنتیں بھی طویل ہو کر سبزی خور جانوروں کے مشابہ ہوجائیں گی ۔اسی طرح اگر شیر کو خوراک ملنے کی واحد صورت یہ ہو کہ کسی درخت پر چڑھ کر حاصل کرنی پڑے تو ایسے اعضاء پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے جو اسے درختوں پر چڑھنے میں مدد دے سکیں۔
4 ۔قانون وراثت (Law of Heritance)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصول نمبر 2یعنی ہیت اور ماحول کے اختلاف سے جو تبدیلیاں پیدا ہو تی ہیں وہ نسلاً بعد نسل آگے منتقل ہوتی جاتی ہیں تاآنکہ یہ اختلاف فروعی نہیں بلکہ نوعی بن جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ نسلیں ہیں جیسے گدھا او ر گھوڑا ایک ہی نوع ہے مگر گدھا گھوڑے سے اس لیے مختلف ہو گیا کہ اس کی معاشی صورت حال بھی بدل گئی اور حصو ل معاش کے لیے اس کی جدوجہد میں بھی اضافہ ہوگیا ۔
ڈاروِن کے یہ خیالات بعض مخصوص نظریاتی اور سیاسی حلقوں کو بہت زیادہ پسند آئے، انہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور نتیجتاً یہ خیالات (نظریہ ارتقاء) بہت زیادہ مقبول ہوگئے۔ اس مقبولیت کی اہم وجہ یہ رہی کہ اس زمانے میں علم کی سطح اتنی بلند نہیں تھی کہ ڈاروِن کے تصوراتی منظرنامے میں پوشیدہ جھوٹ کو سب کے سامنے عیاں کر سکتی۔ جب ڈارون نے ارتقاء کے حوالے سے اپنے مفروضات پیش کئے تو اس وقت جینیات (Genetics)، خرد حیاتیات (Microbiology) اور حیاتی کیمیا (Biochemistry) جیسے مضامین موجود ہی نہیں تھے۔ اگر یہ موضوعات، ڈاروِن کے زمانے میں موجود ہوتے تو با آسانی پتہ چل جاتا کہ ڈاروِن کا نظریہ غیر سائنسی ہے اور اس کے دعوے بے مقصد ہیں۔ کسی نوع کا تعین کرنے والی ساری معلومات پہلے ہی سے اس کے جین (Genes) میں موجود ہوتی ہیں۔ فطری انتخاب کے ذریعے، جین میں تبدیلی کرکے کسی ایک نوع سے دوسری نوع پیدا کرنا قطعاً ناممکن ہے۔
جس وقت ڈاروِن کی مذکورہ بالا کتاب (جسے اب ہم مختصراً ’’اصلِ انواع‘‘ کہیں گے) اپنی شہرت کے عروج پر تھی، اسی زمانے میں آسٹریا کے ایک ماہر نباتیات، گریگر مینڈل نے 1865ء میں توارث (Inheritance) کے قوانین دریافت کئے۔ اگرچہ ان مطالعات کو انیسویں صدی کے اختتام تک کوئی خاص شہرت حاصل نہیں ہوسکی۔ مگر 1900ء کے عشرے میں حیاتیات کی نئی شاخ ’’جینیات‘‘ (Genetics) متعارف ہوئی اور مینڈل کی دریافت بہت زیادہ اہمیت اختیار کرگئی۔ کچھ عرصے بعد جین کی ساخت اور کروموسوم (Chromosomes) بھی دریافت ہوگئے۔ 1950ء کے عشرے میں ڈی این اے (DNA) کا سالمہ دریافت ہوا، جس میں ساری جینیاتی معلومات پوشیدہ ہوتی ہیں۔ یہیں سے نظریہ ارتقاء میں ایک شدید بحران کا آغاز ہوا کیونکہ اتنے مختصر سے ڈی این اے میں بے اندازہ معلومات کا ذخیرہ کسی بھی طرح سے ’’اتفاقی واقعات‘‘ کی مدد سے واضح نہیں کیا جاسکتا تھا۔ان تمام سائنسی کاوشوں سے ہٹ کر، تلاشِ بسیار کے باوجود، جانداروں کی ایسی کسی درمیانی شکل کا سراغ نہیں مل سکا جسے ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء کی روشنی میں لازماً موجود ہونا چاہیے تھا۔
اصولاً تو ان دریافتوں کی بنیاد پر ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ کیونکہ بعض مخصوص حلقوں نے اس پر نظرِ ثانی، اس کے احیأ، اور اسے سائنسی پلیٹ فارم پر بلند مقام دیئے رکھنے کا اصرار (اور دباؤ) جاری رکھا۔ ان کوششوں کا مقصد صرف اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب ہم نظریہ ارتقاء کے پیدا کردہ نظریاتی رجحانات (Ideological Intensions) کو محسوس کریں، نہ کہ اس کے سائنسی پہلوؤں کا جائزہ لیں۔ نظریہ ارتقاء پر یقین کو قائم و دائم رکھنے کی پوری کوششوں کے باوجود یہ حلقے جلد ہی ایک بند گلی میں پہنچ گئے۔ اب انہوں نے ایک نیا ماڈل پیش کردیا جس کا نام ’’جدید ڈارونزم‘‘ (Neo-Darwinism) رکھا گیا۔
جدید ڈارونزم‘‘ (Neo-Darwinism)
اس نظریئے کے مطابق انواع کا ارتقاء، تغیرات (Mutations) اور ان کے جین (Genes) میں معمولی تبدیلیوں سے ہوا۔ مزید یہ کہ (ارتقاء پذیر ہونے والی ان نئی انواع میں سے) صرف وہی انواع باقی بچیں جو فطری انتخاب کے نظام کے تحت موزوں ترین (Fittest) تھیں۔ مگر جب یہ ثابت کیا گیا کہ جدید ڈارونزم کے مجوزہ نظامات درست نہیں، اور یہ کہ نئی انواع کی تشکیل کے لئے معمولی جینیاتی تبدیلیاں کافی نہیں ہیں، تو ارتقاء کے حمایتی ایک بار پھر نئے ماڈلوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔
اب کی بار وہ ایک نیا دعویٰ لے کر آئے جسے ’’نشان زد توازن‘‘(Punctuated Equilibrium) کہا جاتا ہے، اور اس کی بھی کوئی معقول سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ اس ماڈل کی رُو سے جاندار کوئی ’’درمیانی شکل‘‘ اختیار کئے بغیر، اچانک ہی ایک سے دوسری انواع میں ارتقاء پذیر ہوگئے۔ باالفاظِ دیگر یہ کہ کوئی نوع اپنے ’’ارتقائی آباؤ اجداد‘‘ کے بغیر ہی وجود میں آگئی۔ اگر ہم یہ کہیں کہ انواع کو ’’تخلیق‘‘ کیا گیا ہے (یعنی ان کا کوئی خالق ضرور ہے) تو ہم بھی وہی کہہ رہے ہوں گے جو نشان زد توازن میں کہا گیا ہے۔ لیکن ارتقاء پرست، نشان زد توازن کے اس پہلو کو قبول نہیں کرتے (جو خالق کی طرف اشارہ کررہا ہے)۔ اس کے بجائے وہ حقیقت کو ناقابلِ فہم منظر ناموں سے ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگے۔ مثلاً یہ کہ دنیا کا پہلا پرندہ اچانک ہی، ناقابلِ تشریح انداز میں، رینگنے والے کسی جانور یعنی ہوّام (Reptile) کے انڈے سے پیدا ہوگیا۔ یہی نظریہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ زمین پر بسنے والے گوشت خور جاندار کسی (ناقابلِ فہم) وجہ سے، زبردست قسم کے جینیاتی تغیرات کا شکار ہوکر، دیو قامت وہیل مچھلیوں میں تبدیل ہوگئے ہوں گے۔
یہ دعوے جینیات، حیاتی طبیعیات اور حیاتی کیمیا کے طے شدہ قواعد و ضوابط سے بری طرح متصادم ہیں اور ان میں اتنی ہی سائنسی صداقت ممکن ہے جتنی مینڈک کے شہزادے میں تبدیل ہوجانے والی جادوئی کہانیوں میں ہوسکتی ہے۔ ان تمام خرابیوں اور نقائص کے باوجود، جدید ڈارونزم کے پیش کردہ نتائج اور پیدا شدہ بحران سے عاجز آئے ہوئے کچھ ارتقاء پرست ماہرینِ معدومیات (Paleontologists) نے اس نظریئے (نشان زد توازن) کو گلے سے لگا لیا جو اپنی ذات میں جدید ڈارونزم سے بھی زیادہ عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم ہے۔
اس نئے ماڈل کا واحد مقصد صرف یہ تھا کہ رکازی ریکارڈ میں خالی جگہوں کی موجودگی (یعنی زندگی کی درمیانی شکلوں کی عدم موجودگی) کی وضاحت فراہم کی جائے، جنہیں واضح کرنے سے جدید ڈارونزم بھی قاصر تھا۔ مگر ریکارڈ کی عدم موجودگی کے ثبوت میں یہ کہنا ’’رینگنے والے جانور کا انڈا ٹوٹا اور اس میں سے پرندہ برآمد ہوا‘‘ بمشکل ہی معقول دلیل سمجھا جائے گا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ڈراوِن کا نظریہ ارتقاء خود کہتا ہے کہ انواع کو ایک سے دوسری شکل میں ڈھلنے کے لئے زبردست اور مفید قسم کا جینیاتی تغیر درکار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی جینیاتی تغیر بھی، خواہ وہ کسی بھی پیمانے کا ہو، جینیاتی معلومات کو بہتر بناتا ہویا ان میں اضافہ کرتا ہوا نہیں پایا گیا۔ تغیرات (تبدیلیوں) سے تو جینیاتی معلومات تلپٹ ہوکر رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’مجموعی تغیرات‘‘ (Gross Mutations) جن کا تصور نشان زد توازن کے ذریعے پیش کیا گیا ہے، صرف جینیاتی معلومات میں کمی اور خامی کا باعث ہی بن سکتے ہیں۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ’’نشان زد توازن‘‘ کا نظریہ بھی محض تخیلات کا حاصل ہے۔ اس کھلی ہوئی سچائی کے باوجود ارتقاء کے حامی اس نظریئے کو ماننے سے بالکل نہیں ہچکچاتے۔ وہ جانتے تھے کہ رکازات کے ریکارڈ کی عدم موجودگی، ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء سے ثابت نہیں کی جاسکتی لہٰذا وہ نشان زد توازن کو ماننے پر مجبور ہوگئے۔ مگر خود ڈاروِن کا کہنا تھا کہ انواع کا ارتقاء بتدریج ہوا تھا (یعنی وہ تھوڑی تھوڑی کرکے تبدیل ہوئی تھیں)، جس کے باعث یہ اشد ضروری تھا کہ آدھا پرندہ/ آدھا ہوّام، یا آدھی مچھلی/ آدھا چوپایہ جیسے عجیب الخلقت جانداروں کے رکازات دریافت کئے جائیں۔ تاہم اب تک، ساری تحقیق و تلاش کے بعد بھی ان ’’درمیانی (انتقالی) شکلوں‘‘ کی ایک مثال بھی سامنے نہیں آسکی۔ حالانکہ اس دوران لاکھوں رکازات، زمین سے برآمد ہوچکے ہیں۔
ارتقاء پرست صرف اس لئے نشان زد توازن والے ماڈل سے چمٹ گئے ہیں تاکہ رکازات کی صورت میں ہونے والی اپنی شکست فاش کو چھپا سکیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ نشان زد توازن کو کسی باضابطہ ماڈل کی حیثیت سے اختیار نہیں کیا گیا، بلکہ اسے تو صرف ان مواقع پر راہِ فرار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں تدریجی ارتقاء سے بات واضح نہیں ہو پاتی۔ آج کے ماہرینِ ارتقاء یہ محسوس کرتے ہیں کہ آنکھ، پر، پھیپھڑے، دماغ اور دوسرے پیچیدہ اعضاء علی الاعلان تدریجی ارتقائی ماڈل کو غلط ثابت کررہے ہیں۔ بطورِ خاص انہی نکات پر آکر وہ مجبوراً نشان زد توازن والے ماڈل میں پناہ لینے دوڑے آتے ہیں۔
سو یہ ہے ڈارون کے نظریہ ٴ ارتقاء کا خلاصہ ،جو اس وقت بھی صرف ایک نظریہ ہی تھا اور آج بھی نظریہ سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔اس نظریہ کو کوئی ایسی ٹھوس بنیاد مہیا نہیں ہوسکی جس کی بناء پر یہ نظریہ سائنس کا قانون (Scientific Law)بن سکے اس نظریہ پر بعد کے مفکرین نے شدید اعتراض کیے ہیں ۔مثلاً
(جاری ہے)