ناصر علی مرزا
معطل
ڈالڈا‘ کے موجد ڈاکٹر عبد العزیز جیسا بھی آج کوئی ہے؟
ہمارے بچپن میں ایک لفظDalda (ڈالڈا) مذاق بن گیا تھا جسے جعلی یا نقلی کہنا ہوتا تھا اسے ڈالڈا کہہ دِیا جاتا تھا۔ اس ہفتے جو کچھ
ہم نے پڑھا اس میں یہ ’ڈالڈا‘ بھی شامل ہے۔ دراصل ڈالڈا نقلی گھی کو کہتے تھے اور اب تو گھی یعنی اصلی گھی عام نہیں رہا بلکہ اب گھر گھر ڈالڈا(نقلی گھی) ہی کا استعمال ہوتا ہے۔ ہماری نئی نسل کے اکثر افراد تو اصلی گھی کو نا پسند کرتے ہےں۔ ہماری عمر کے اکثر لوگ ڈالڈا کسے کہتے ہیں یقیناً جانتے ہیں مگر نئی نسل کو تو جانے دیں ہماری عمر کے لوگ بھی یہ نہیں جانتے کہ جسے ڈالڈا(نقلی گھی) کہا جاتا ہے وہ کس کی ایجاد ہے ؟ اور اسے ڈالڈا ہی کیوں کہا جاتا ہے ؟ ڈالڈا یعنی نقلی گھی ایک ہندوستانی مسلم سائنٹسٹ ڈاکٹر محمد عبد العزیزکی ایجاد ہے۔ ڈاکٹر محمدعبد العزیز(۲۳ مارچ۱۸۹۳ تا۱۹ مارچ۱۹۷۷ ) کی روداد اُن تمام لوگوں کےلئے ایک روشن سبق ہے جو دُنیا میں کچھ کر گزرنے کی تمنا اور خواہش رکھتے ہیں۔ ہم نے لکھنو¿ کے ادبی رِسالے ’ گلبُن‘ میں کرنل نجم الاسلام کے مضمون میں جو کچھ پڑھا ہے اس کا لبِ لباب یوں ہے کہ اُس زمانے میں عموماً اصلی گھی استعمال ہوتا تھا ، جس کی پیداوار بہت کم تھی اس لئے سرسوں کا تیل زیادہ استعمال ہوتا تھا۔ سرسوں کے تیل کی دوباتیں عجب تھیں ایک تو اس کا رنگ اور دوسری اس کی ب¾و جو کھانے میں اپنا عنصر چھوڑتی تھی۔ لہٰذا ڈاکٹر محمدعبد العزیز کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس موضوع پر ریسرچ کی جائے اور انہوں نے ریسرچ ورک شروع کیا، سرسوں کے تیل کی مذکورہ خامیوں پر تو انہوں نے جلد ہی قابو پا لیا مگر اسی کے ساتھ ان کے ذہن میں اس بات نے بھی سر اٹھایا کہ کیوں نہ اس تیل کو گھی کی ’شکل ‘ دیدی جائے۔ جس سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو سکتا ہے (جیسا کہ ہوا) ڈاکٹر محمدعبد العزیز نے اپنا ریسرچ ورک جاری رکھا اور وہ دن آہی گیا جب اُنہوں نے اپنی ریسرچ میں کامیابی حاصل کر لی۔( جس کی تفصیل ہم آئندہ کسی روز اسی اخبار میں دیں گے۔) ملک میں اس زمانے میں برطانیہ کےLever Brothers انگریزوں کےلئے بیکری اشیا کی تیاری میں کام آنے والی چیزیں سپلائی کرتے تھے۔ لیور برادرس نے اس ریسرچ کی آئندہ مقبولیت کا اندازہ کر لیا کیو نکہ ان کی نگاہ میں پورے ہندوستان کا بازار تھا۔ مختصر عرض ہے کہ یہ تحقیق لیور برادرس نے ’ دلدا ‘کے نام کے ساتھ حاصل کر لی۔ کہتے ہیں کہ اس وقت گوالے(گھوسی) جو گھی تیار کرتے تھے اس میں بڑے بڑے Crystals ہوتے تھے جن کو اودھ کی بولی میں’ دل‘ کہتے تھے اور اعلیٰ درجے کا گھی ’دل دار‘ ہوتا تھا ۔ اس طرح ڈاکٹر محمدعبد العزیز کی تحقیق کو ایک نام بھی مل گیا ’دلدا‘ جسے جب انگریزی (Dalda ) میں لکھا گیا تو وہ ڈالڈا ہوگیا جو ابتک رائج ہے یہ اور بات کہ ونسپتی سے بنایا گیا یہ ’گھی‘ بعد میں دوسری تجارتی کمپنیوں نے بنایا تو انہوں نے اپنے اپنے نام رکھ لیے۔ ڈاکٹر محمدعبد العزیز اتر پردیش میں واقع بارہ بنکی کے ایک دور اُفتادہ گاو¿ں’ بدو سرائے‘ کے رہنے والے تھے جہاں قاعدے کی سڑک تک نہیں تھی اس گاو¿ں کے سپوت ڈاکٹر محمدعبد العزیز نے کسی طور ابتدائی تعلیم کے بعد ایم اے او کالج میں داخلہ لیا ۔ ریاضی اس کا پسندیدہ مضمون تھا مگر اپنے استاد سر ضیا ¿ الدین کے مشورے پر اس نے کیمیا(کیمسٹری) کو اپنے مضمون کے طور پر اختیار کر لیااور اس مضمون کے اصل موضوع پر یعنی Original تحقیقی کام کیا، جس میں کیمیا کے ان پہلوو¿ں پر توجہ مبذول کی جو انسانوں کےلئے مفید ہوں اور جن کی روز مرہ میں ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر محمدعبد العزیز اپنے وقت کے ایک مثالی سائنسداں ہی کہے جائیں گے۔ یہاں ان کے بارے میں یہ بھی بتا دِیا جائے کہ ڈاکٹر موصوف کی ابتدائی تعلیم میں قرآنِ کریم کا ناظرہ ہی نہیں حافظہ بھی شامل تھا اور وہ اُردو فارسی بھی اتنی جانتے تھے کہ دونوں زبانوں کے ادب سے انھیں خاصا شغف ہو گیا تھا۔ روایت ہے کہ انھیں اُردو اور فارسی کے ہزارہا اشعار ازبر تھے اور یہی نہیں انگریزی، جرمنی اور عربی کے اشعار بھی ان کے حافظے کا حصہ تھے۔ اغلب ہے کہ وہ خود بھی نظم کہتے تھے۔ روایت یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر عزیز ،ملک کی کئی یونیورسٹی میں External Examiner کے طور پر بھی کام کر چکے تھے۔ جب وہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ ہو کر اپنے وطن لوٹے تو لوگوں نے محسوس کیا کہ سائنس کو تو وہ وہیں چھوڑ آئے ہیں اور اس کے برعکس دین وادب ساتھ لائے ہیں۔ داڑھی رکھ لی، گاو¿ں کی جامع مسجد کی امامت اپنے ذمے لے لی، یہی نہیں گاو¿ں میں لڑکیوں کا پہلا مدرسہ بھی قائم کیا جو، ابتک علم کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ جامعہ ہمدرد(دہلی) میں بھی ڈاکٹر عزیز کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ڈاکٹر عزیز۱۸ مارچ(۱۹۷۷ )کی صبح نیند سے بیدار نہیں ہوئے اور اللہ کو پیارے ہوگئے۔ (واضح رہے کہ کرنل نجم الاسلام انہی ڈاکٹر موصوف کے فرزند ارجمند ہیں۔ اس کا خلاصہ بھی خود انہوں نے نہیں کیابلکہ مدیر گُلبُن کے نوٹ سے ہمیں یہ اطلاع ملی۔) قومِ مسلم کا یہ سپوت اس طرح اپنی ایک تاریخ مرتب کر گیا۔ آج ہمارے ہاں ایک سے ایک انجینئر، ڈاکٹر وغیرہ موجود ہیں مگر کیا ان میں ڈاکٹر محمدعبد العزیز جیسی متنوع کردار کی ایک مثال بھی ہے؟ اور اگر نہیں تو کیوں؟ کیا یہ سوال بھی تحقیق طلب نہیں ہے۔
ندیم صدیقی، ممبرا
ہمارے بچپن میں ایک لفظDalda (ڈالڈا) مذاق بن گیا تھا جسے جعلی یا نقلی کہنا ہوتا تھا اسے ڈالڈا کہہ دِیا جاتا تھا۔ اس ہفتے جو کچھ
ہم نے پڑھا اس میں یہ ’ڈالڈا‘ بھی شامل ہے۔ دراصل ڈالڈا نقلی گھی کو کہتے تھے اور اب تو گھی یعنی اصلی گھی عام نہیں رہا بلکہ اب گھر گھر ڈالڈا(نقلی گھی) ہی کا استعمال ہوتا ہے۔ ہماری نئی نسل کے اکثر افراد تو اصلی گھی کو نا پسند کرتے ہےں۔ ہماری عمر کے اکثر لوگ ڈالڈا کسے کہتے ہیں یقیناً جانتے ہیں مگر نئی نسل کو تو جانے دیں ہماری عمر کے لوگ بھی یہ نہیں جانتے کہ جسے ڈالڈا(نقلی گھی) کہا جاتا ہے وہ کس کی ایجاد ہے ؟ اور اسے ڈالڈا ہی کیوں کہا جاتا ہے ؟ ڈالڈا یعنی نقلی گھی ایک ہندوستانی مسلم سائنٹسٹ ڈاکٹر محمد عبد العزیزکی ایجاد ہے۔ ڈاکٹر محمدعبد العزیز(۲۳ مارچ۱۸۹۳ تا۱۹ مارچ۱۹۷۷ ) کی روداد اُن تمام لوگوں کےلئے ایک روشن سبق ہے جو دُنیا میں کچھ کر گزرنے کی تمنا اور خواہش رکھتے ہیں۔ ہم نے لکھنو¿ کے ادبی رِسالے ’ گلبُن‘ میں کرنل نجم الاسلام کے مضمون میں جو کچھ پڑھا ہے اس کا لبِ لباب یوں ہے کہ اُس زمانے میں عموماً اصلی گھی استعمال ہوتا تھا ، جس کی پیداوار بہت کم تھی اس لئے سرسوں کا تیل زیادہ استعمال ہوتا تھا۔ سرسوں کے تیل کی دوباتیں عجب تھیں ایک تو اس کا رنگ اور دوسری اس کی ب¾و جو کھانے میں اپنا عنصر چھوڑتی تھی۔ لہٰذا ڈاکٹر محمدعبد العزیز کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس موضوع پر ریسرچ کی جائے اور انہوں نے ریسرچ ورک شروع کیا، سرسوں کے تیل کی مذکورہ خامیوں پر تو انہوں نے جلد ہی قابو پا لیا مگر اسی کے ساتھ ان کے ذہن میں اس بات نے بھی سر اٹھایا کہ کیوں نہ اس تیل کو گھی کی ’شکل ‘ دیدی جائے۔ جس سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو سکتا ہے (جیسا کہ ہوا) ڈاکٹر محمدعبد العزیز نے اپنا ریسرچ ورک جاری رکھا اور وہ دن آہی گیا جب اُنہوں نے اپنی ریسرچ میں کامیابی حاصل کر لی۔( جس کی تفصیل ہم آئندہ کسی روز اسی اخبار میں دیں گے۔) ملک میں اس زمانے میں برطانیہ کےLever Brothers انگریزوں کےلئے بیکری اشیا کی تیاری میں کام آنے والی چیزیں سپلائی کرتے تھے۔ لیور برادرس نے اس ریسرچ کی آئندہ مقبولیت کا اندازہ کر لیا کیو نکہ ان کی نگاہ میں پورے ہندوستان کا بازار تھا۔ مختصر عرض ہے کہ یہ تحقیق لیور برادرس نے ’ دلدا ‘کے نام کے ساتھ حاصل کر لی۔ کہتے ہیں کہ اس وقت گوالے(گھوسی) جو گھی تیار کرتے تھے اس میں بڑے بڑے Crystals ہوتے تھے جن کو اودھ کی بولی میں’ دل‘ کہتے تھے اور اعلیٰ درجے کا گھی ’دل دار‘ ہوتا تھا ۔ اس طرح ڈاکٹر محمدعبد العزیز کی تحقیق کو ایک نام بھی مل گیا ’دلدا‘ جسے جب انگریزی (Dalda ) میں لکھا گیا تو وہ ڈالڈا ہوگیا جو ابتک رائج ہے یہ اور بات کہ ونسپتی سے بنایا گیا یہ ’گھی‘ بعد میں دوسری تجارتی کمپنیوں نے بنایا تو انہوں نے اپنے اپنے نام رکھ لیے۔ ڈاکٹر محمدعبد العزیز اتر پردیش میں واقع بارہ بنکی کے ایک دور اُفتادہ گاو¿ں’ بدو سرائے‘ کے رہنے والے تھے جہاں قاعدے کی سڑک تک نہیں تھی اس گاو¿ں کے سپوت ڈاکٹر محمدعبد العزیز نے کسی طور ابتدائی تعلیم کے بعد ایم اے او کالج میں داخلہ لیا ۔ ریاضی اس کا پسندیدہ مضمون تھا مگر اپنے استاد سر ضیا ¿ الدین کے مشورے پر اس نے کیمیا(کیمسٹری) کو اپنے مضمون کے طور پر اختیار کر لیااور اس مضمون کے اصل موضوع پر یعنی Original تحقیقی کام کیا، جس میں کیمیا کے ان پہلوو¿ں پر توجہ مبذول کی جو انسانوں کےلئے مفید ہوں اور جن کی روز مرہ میں ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر محمدعبد العزیز اپنے وقت کے ایک مثالی سائنسداں ہی کہے جائیں گے۔ یہاں ان کے بارے میں یہ بھی بتا دِیا جائے کہ ڈاکٹر موصوف کی ابتدائی تعلیم میں قرآنِ کریم کا ناظرہ ہی نہیں حافظہ بھی شامل تھا اور وہ اُردو فارسی بھی اتنی جانتے تھے کہ دونوں زبانوں کے ادب سے انھیں خاصا شغف ہو گیا تھا۔ روایت ہے کہ انھیں اُردو اور فارسی کے ہزارہا اشعار ازبر تھے اور یہی نہیں انگریزی، جرمنی اور عربی کے اشعار بھی ان کے حافظے کا حصہ تھے۔ اغلب ہے کہ وہ خود بھی نظم کہتے تھے۔ روایت یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر عزیز ،ملک کی کئی یونیورسٹی میں External Examiner کے طور پر بھی کام کر چکے تھے۔ جب وہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ ہو کر اپنے وطن لوٹے تو لوگوں نے محسوس کیا کہ سائنس کو تو وہ وہیں چھوڑ آئے ہیں اور اس کے برعکس دین وادب ساتھ لائے ہیں۔ داڑھی رکھ لی، گاو¿ں کی جامع مسجد کی امامت اپنے ذمے لے لی، یہی نہیں گاو¿ں میں لڑکیوں کا پہلا مدرسہ بھی قائم کیا جو، ابتک علم کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ جامعہ ہمدرد(دہلی) میں بھی ڈاکٹر عزیز کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ڈاکٹر عزیز۱۸ مارچ(۱۹۷۷ )کی صبح نیند سے بیدار نہیں ہوئے اور اللہ کو پیارے ہوگئے۔ (واضح رہے کہ کرنل نجم الاسلام انہی ڈاکٹر موصوف کے فرزند ارجمند ہیں۔ اس کا خلاصہ بھی خود انہوں نے نہیں کیابلکہ مدیر گُلبُن کے نوٹ سے ہمیں یہ اطلاع ملی۔) قومِ مسلم کا یہ سپوت اس طرح اپنی ایک تاریخ مرتب کر گیا۔ آج ہمارے ہاں ایک سے ایک انجینئر، ڈاکٹر وغیرہ موجود ہیں مگر کیا ان میں ڈاکٹر محمدعبد العزیز جیسی متنوع کردار کی ایک مثال بھی ہے؟ اور اگر نہیں تو کیوں؟ کیا یہ سوال بھی تحقیق طلب نہیں ہے۔
ندیم صدیقی، ممبرا