ڈاکٹرعافیہ کو سات الزامات کے تحت86سال قید کی سزا

نیویارک: امریکی عدالت نے پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سات الزامات کے تحت 86سال قید کی سزا سنادی ہے۔ عافیہ صدیقی کا کہنا ہے کہ ان کی سزا کے خلاف خون خرابہ نہ کیا جائے۔ کمرہ عدالت میں سزا سنائے جانے کے دوران شیم شیم کے نعرے لگائے گئے۔

عدالت کی جانب سے سزا سنانے سے قبل ڈاکٹر عافیہ نے عدالت میں بیان دیتے ہو ئے کہا کہ مجھ پر جیل میں تشدد کئے جانے کی خبروں میں صداقت نہیں ہے، انہوں نے کہا میں امریکا یا اسرائیل کے خلاف نہیں ہوں ۔عدالت میں ڈاکٹر عافیہ پر اعتماد اور مطمئن نظر آئیں۔

امریکی فوج کا دعوی ہے کہ ان کو غزنی کے گورنرکے کمپاونڈ کے باہر دھماکہ خیزمواد کے ساتھ گرفتار کیاگیاتھا۔ اور ان پر فوجی افسر پر فائر کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ عافیہ صدیقی کو دو ہزار دو میں کراچی سے گرفتار کیا گیا۔

http://www.arynews.tv/urdusite/newsdetail1.asp?nid=43999
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ڈاکٹر عافيہ کيس کے حوالے سے امريکہ پر جو تنقید کی جاتی ہے وہ ان کے مبينہ طور پر کئ برسوں تک گمشدہ رہنے اور امريکی حکام کی جانب سے ان پر اس دوران ڈھائے جانے والے الزامات پر مبنی ہے۔ يہ الزامات اور کہانياں، جو کہ اکثر خود ايک دوسرے کی نفی کرتی ہيں پاکستانی ميڈيا کے ايک مخصوص حصے کی جانب سے اس کيس کو سياسی رنگ دينے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ خود ان کی قانونی ٹيم نے يہ واضح کيا ہے کہ ان پر گرفتاری کے دوران کسی بھی قسم کا تشدد نہيں کيا گيا۔ اس کے علاوہ ان کے وکيل کا يہ بيان ريکارڈ پر موجود ہے کہ ان کی کئ برسوں تک گمشدگی کا نيويارک ميں ہونے والے مقدمے سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

اس معاملے ميں تو "مدعی سست اور گواہ چست" والی کہاوت صادق آتی ہے۔

يہ معاملہ ميڈيا پر اٹھائے جانے والے شور اور سياسی بيان بازی سے قطع نظر ايک فرد کے خلاف قانونی مقدمے پر مبنی ہے۔ يہ دو ممالک کے درميان کوئ سياسی يا سفارتی ايشو نہيں ہے۔ اس حوالے سے اس کيس کی کاروائ اور اس پر آنے والے فيصلے کو اس کے درست تناظر اور ميرٹ پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ يہاں تک کہ ڈاکٹر عافيہ اور ان کی قانونی ٹيم نے بھی اس بات کی ضرورت پر زور ديا ہے کہ اس کيس کے حوالے سے قياس کی بجائے متعلقہ حقائق پر توجہ دی جائے۔

امريکہ ميں کسی بھی عدالتی مقدمے کی طرح، ملزم کی شہريت سے قطع نظر ڈاکٹر عافيہ صديقی کو بھی اس وقت تک بےگناہ تصور کيا گيا تھا جب تک کہ ان پر لگائے جانے والے الزامات شواہد کی روشنی ميں مکمل طور پر ان کو مجرم ثابت نہ کريں۔ انھيں اس بات کا پورا موقع فراہم کيا گيا تھا کہ وہ ايک کھلی اور غير جانب دار عدالت ميں قانونی ماہرين کے تعاون سے اپنا کيس پيش کريں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر عافيہ کو حکومت پاکستان کے عہديدران کی جانب سے کونسلر کی سطح پر معاونت کا آپشن بھی موجود تھا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
فوادبھائی، امریکی فوجی پرفائرکاالزام ہےلیکن وہ بندوق پیش نہیں کی گئیں اس پران کی انگلیوں کےنشان کاثبوت نہیں دیاگیا۔ اورایک عام فہم بات ہےکہ وہ ڈاکٹرتھیں اوراس شعبہ میں کتناپیسہ یہ ہم سب جانتےہیں توانہوں نےمشکل راستہ کواپنایا؟ اس کےپیچ۔ھےکیارازہےاوربھی بہت سی باتیں جوکہ ان کےمتعلق اٹھائی گئیں کہ ان کےپہلےشوہرتھےبچےتھےجن کوانہوں نےزہردینےکی کوشش کی وغیرہ وغیرہ یہ باتیں ہضم نہیں ہورہیں ہیں ان کےبارےمیں امریکی حکومت کاموقف ہےاورہاں چھیاسی برس کی سزابھی تاریخ میں پہلی دفعہ سنائی گئی ہےاس کےپیچھےکیامحرکات ہیں ذراان پربھی توروشنی ڈالیئے

والسلام
جاویداقبال
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اس معاملے کے حوالے سے يہ ابہام دور کرنا ضروری ہے کہ امريکی حکومت يا اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کو اس بات کا اختيار نہيں تھا کہ وہ اس کيس کی کاروائ اور فيصلے پر اثر انداز ہو۔ امريکی نظام قانون اس بات کی اجازت نہيں ديتا کہ امريکی حکومت يا صدر ايک قانونی مقدمے کی کاروائ ميں عدالت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔ ڈاکٹر عافيہ کا کيس اس اصول سے مبرا نہيں تھا۔

اس کے علاوہ اس مقدمے کی کاروائ کے ضمن ميں نہ ہی کوئ نيا قانون تشکيل ديا گيا اور نہ ہی کوئ نئے قواعد وضوابط تشکيل ديے گئے۔ جو بھی طريقہ کار اختيار کيا گيا، وہ ملک ميں رائج قوانين کے عين مطابق تھا۔ ملک ميں کسی بھی دوسرے قانونی مقدمے کی طرح ڈاکٹر عافيہ کے وکيل اور ان کی ٹيم کو يہ حق اور اختيار حاصل تھا کہ وہ جج کے سامنے اس کيس کے کسی بھی پہلو کو چيلنج کر سکتے تھے۔

جيسا کہ ميں نے پہلے واضح کيا کہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اس طرح کے قانونی معاملات ميں مداخلت نہيں کرتا۔

ميں آپ کو يہ بھی ياد دلا دوں کہ محض چند ہفتے قبل 5 امريکی شہريوں کو 10 سال قید کی سزا سنائ گئ ہے جو کہ اس وقت پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قيد ميں ہيں۔ امريکی حکومت ان کو قواعد و ضوابط کے مطابق کونسلر کی سطح پر معاونت فراہم کر رہی ہے ليکن ہم پاکستان ميں نظام قانون اور متعلقہ کاروائ ميں نہ تو رخنہ ڈال رہے ہيں اور نہ ہی اس پر اثرانداز ہو رہے ہيں۔

http://www.washingtonpost.com/wp-dyn/content/article/2010/06/24/AR2010062400843.html

جس طرح سے امريکی حکومت کی جانب سے پاکستان ميں عدالتی کاروائ کا احترام کيا جاتا ہے، اسی طرح سے ہم پاکستان کی عوام سے بھی يہ اميد اور توقع رکھتے ہيں کہ وہ امريکی عدالتی کاروائ کا احترام ملحوظ رکھيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Top