سید زبیر
محفلین
منقسم سانسوں کی بپتا
سیہ کاغذوں پرپرندوں کی قبریں بناتے ہوئے
تم نے دیکھا تو ہو گا
کہ سب اتروں،دکھنوں،پوربوں،پچھموں پھرنے والی ہوا
وصل کے گیت گاتے ہوئے
سب پرندوں سے اٹھکیلیاں کرنے والی ہوا
خوشبوؤں کی کہانی سناتی مہکتی ،لہکتی ،مچلتی ہوا
مجرموں کی طرح اک کٹہرے میں سر کو جھکائے ہوئے
منہ بسورے کھڑی ہے
ابھی جرم الزام کی حد میں ہے
اورحدلگ گئی ہے
سوالی نگاہیں لئے سب پرندے تڑپنے لگے
اورکہنے لگے
''جانے کس کی بھڑکتی ہوئی تند خواہش نے
کیسے یکا یک
ہوا سے ہماری ہزاروںبرس کی رفاقت کو توڑا
کہ اب نیند کے فرش پر
وصل کا خواب چلنے سے قاصرہے
کرچوں کے دُکھ جاگتے ہیں ''
(سوچ کے ہر ورق پرجدائی کی لکھی ہوئی داستاں توسبھی جانتے ہیں)
نصابوں میں لکھا گیا ہے
''ہوا سازشی ہے
پرندوں سے اپنی رفاقت کو دولخت کرنااسی کا کیا ہے''
مگر یہ ہوا مانتی ہی نہیں ہے
(ڈاکٹر ارشد معراج ، کے مجموعہ کلام " کتھا نیلے پانی کی " سےانتخاب )