[محفلین کے لئے ڈاکٹر اسلم فرخی کے انتقال پر ہم سب ویب سائٹ پر اُن کے صاحبزادے آصف فرخی کی تین قسطوں میں شائع ہونےوالی تحریر]
نام کی کہانی
یہ گھپلا بہت پہلے سے چلا آ رہا ہے۔
اس وقت میرے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ وہ کون شخص تھا جو جیتے جی مر گیا اور وہ کون جو موت کے مرحلے سے گزر کر بھی زندہ ہے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ وہ، وہ تھے۔ اپنی ذات میں ایک انجمن، ایک شخص میں رچی بسی تہذیب، زبان و ادب کا جیتا جاگتا مرقع۔ مگر میں، مَیں نہ بن سکا۔ میں ان کی تعزیت کیسے کروں، میں تو بس اپنے آپ سے اپنی تعزیت کرسکتا ہوں اور دعائے مغفرت اپنے لیے۔
میرے ابّو میرے سارے وجود میں اس طرح سرایت کرگئے تھے کہ ان کا نقش بول اٹھتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر کچھ ہے تو تہمتِ چند جو اپنے ذمّے دھر چلے۔ اگر اپنے آپ میں سے ان کے نام کو علیحدہ کر دیا جائے تو پھر گنّے کا پھوک رہ جاتا ہے اور چند ایک بُرائیاں جن کا میں مجموعہ بن گیا ہوں۔
یہ بات میں چُھپانا بھی چاہوں تو چُھپا نہیں سکتا۔ ابھی میں اندازہ نہیں لگا پایا ہوں کہ کتنے فی صد مر چکا ہوں اور کتنے فی صد زندہ رہ گیا۔
یہ خبر مجھے جاننے پہچاننے والوں میں بھی پھیل چکی ہے۔ ابھی چند دن پہلے لاہور سے ایک تعزیتی پیغام آیا۔ بہت محترم اسکالر اور استاد، جن کو دوست کہتے ہوئے مجھے فخر ہوتا ہے۔ وہ بات کرتی ہیں تو جیسے منھ سے پھول جھڑتے ہیں۔ انھوں نے لکھا، عزیزم اسلم فرّخی۔ ابھی اخبار کے ذریعے آصف فرّخی کے انتقال کی خبر ملی۔ بہت صدمہ ہوا۔ پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ۔ ‘‘
یہ التباس کئی بار ہوا اور اس کے دل چسپ حوالے ہیں جن سے میری یادیں منّور ہیں۔ منیر نیازی کراچی آتے تھے تو مجھ سے اور میرے والد سے ملنے آتے، دیر تک باتیں کرتے، بہت خوش ہوتے۔ ایک بار کراچی آئے تو شاید میرا نام فوراً ذہن میں نہیں آیا۔ فاطمہ حسن سے کہنے لگے، بھئی کہاں ہیں وہ ایک جیسے باپ بیٹے۔ اس کے بعد انہوں نے کئی مرتبہ اسی نام سے یاد کیا۔
ہاجرہ مسرور کے افسانوں کا کلیّات ایک جلد میں شائع ہوا تو انہوں نے کمال مہربانی سے ایک نسخہ مجھے عنایت کیا۔ دستخط کرتے کرتے رُک گئیں لکھا: اسلم فرّخی، آصف فرّخی یعنی باپ، بیٹا اور۔۔۔۔
ان کی مسکراہٹ نے جملہ پورا کرنے کی ضرورت نہیں رہنے دی۔
اصل میں اچھا بھلا میرا نام تو آصف اسلم تھا۔ ابّا نے یہی نام رکھا تھا۔ اس میں ان کی نسبت سے فرّخی کا اضافہ یار لوگوں نے ازخود کر دیا تو میں نے بھی قبول کر لیا۔ خوشی کے ساتھ مگر پھر اس میں سے آصف، غیر ضروری سمجھ کر نکالا جانے لگا۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اوراق میں میرا ایک افسانہ شائع کیا۔ لکھنے والے کا نام اسلم فرّخی۔ میں نے نشان دہی کی تو ڈاکٹر صاحب پوچھنے لگے، اس میں غلطی کیا ہے۔
لیکن یہ معاملہ اس سے بھی پرانا ہے۔ میرے بچپن کا ایک واقعہ ہے۔ جوش ملیح آبادی کی رباعیات کے دو مجموعے نجوم و جواہر اور الہام و افکار شائع ہوئے تھے۔ رائٹرز گلڈ اس زمانے میں فعال تھا۔ اعلان ہوا کہ جوش صاحب گلڈ کتاب گھر میں آئیں گے، کتابوں پر دستخط کریں گے۔ ابّو مجھے بھی لے گئے__ وہ ادبی تقریبات میں مجھے بہت شوق سے لے جایا کرتے تھے__ کتابیں خرید کر انہوں نے جوش صاحب سے کہا اس بچّے کا نام لکھ کر دستخط کر دیجیے۔ جوش صاحب نے میرا نام پوچھا جو میرے والد نے بتایا۔ جوش صاحب نے میرے والد کی طرف دیکھا۔ شاہد احمد دہلوی سے قرابت کا علم بھی ہوگا اور اس چشمک کی کوئی چنگاری یادوں کی بھوبل میں چمکی۔ جوش صاحب نے لکھا: آصف صاحب کے بیٹے اسلم کے لیے، اور لکھ کر دستخط کر دیے۔
نام اُلٹ گئے، ابّو نے ان سے تصحیح کرنے کے لیے کہا۔ جوش صاحب نے نام کاٹ کر وہی نام دوبارہ لکھ دیے۔ مجھے یاد ہے، ابّو خاموش ہوگئے اور کتابیں لے کر وہاں سے چلے آئے۔ دستخط شدہ مجموعے مدّتوں ان کی الماری میں رکھے رہے۔
رہ گیا میں تو اس کے بعد سے میری ساری کہانی، نام کی کہانی ہے ۔ اور غالب کے الفاظ میں:
نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا
ان کے نام سے منسوب اور ان کی یادوں سے مزّین کتنے بہت سے اوراق ہیں، دل پر چھائی اداسی کی یلغار تھمے تو میں ان کو پلٹتا رہوں گا۔
’زندگی بے ہودگیوں کا مجموعہ بن گئی ہے‘
ابّو کے چلے جانے کے بعد سے جیسے ایک سناٹا سا چاروں طرف طاری ہوگیا ہے۔ ہر شے برف کی دبیز چادر میں لپٹی ہوئی ہے۔ برف بگھلے گی تب شاید کچھ کہہ سُن سکوں گا۔ ادب و تہذیب میں رچی بسی پوری شخصیت کے بارے میں لکھنا تو دور کی بات، اس کو پوری طرح تصوّر کرنا بھی میرے لیے محال ہے۔ چند خصوصیات کے تذکرے سے زیادہ کچھ کہنے کی تاب ہے نہ طاقت۔
ان کی پوری شخصیت محنت، لگن اور استقامت سے عبارت تھی۔ انہوں نے زندگی میں جو کچھ حاصل کیا، اپنے قوّت بازو سے اور مشقت کے بعد حاصل کیا۔ زندگی میں کوئی چیز انہیں پلیٹ پر رکھی ہوئی نہیں ملی۔ وہ مال دار اور رئیسانہ مزاج کے حامل خاندان میں پیدا ہوئے جس کو بُرے وقتوں نے آلیا تھا۔ ابّو نے مجھے بتایا کہ تنگ دستی کی وجہ سے آگرہ کے سینٹ جانز کالج سے ڈگری حاصل کرنے کا خواب ادھورا رہ گیا۔ مسلم لیگ کی سیاست اور ترقّی پسند فکر سے لب ریز ہو کر وہ فرّخ آباد سے بمبئی آگئے۔ بیس، اکیس سال کی عمرمیں بمبئی سے کراچی۔ بحری جہاز کا یہ سفر بڑی حد تک ایک حادثہ تھا۔ اس کے بعد واپسی کے راستے بند ہوچکے تھے۔ ان کے پاکستان چلے آنے کی پاداش میں ہندوستان کے کسٹوڈین نے میرے دادا کو آبائی مکان سے محروم کر دیا اور پورے خاندان کو پاکستان کا عازم ہونا پڑا۔ انہوں نےوالدین کے ساتھ چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالا، خود اپنے قدم اس نئے وطن میں جمائے۔ نوکری کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، پورٹ ٹرسٹ سے ریڈیو پاکستان اور ریڈیو سے پھر شعبۂ تعلیم میں آئے۔ ساری عمر کی محنت سے انہوں نے سفید پوشی کا بھرم رکھا اور عزّت کمائی۔ محنت اور مصروفیت ان کی عادت سی بن گئی تھی۔
کڑی محنت کے ذریعے انہوں نے مرتبہ اور مقام تو حاصل کیا لیکن یہ مرتبہ ان کے لیے منزل نہیں تھا۔ ان کے مزاج میں بہت استغنا اور قناعت تھی۔ کسی عہدے یا مرتبے کی خواہش نہیں کی۔ جو مل گیا اس پر خوش ہولیے، خوشی خوشی کام کیا اور کام مکمل کرکے سبک دوش ہوئے۔ کراچی یونیورسٹی اس زمانے میں سازشوں کا گڑھ تھی۔ انہوں نے بہت سلیقے کے ساتھ دوستی اور انسانی تعلقات نبھائے۔ پروفیسر شپ میں تاخیر اور صدر شعبہ نہ بن سکنے پر ملال کیا اور نہ اس کی وجہ سے کسی قسم کی تلخی اپنے اندر آنے دی۔
بلکہ ایک آدھ موقع پر تلخ بھی ثابت ہوسکتا تھا، اس کو اپنے مخصوص متبسّم انداز میں جھیل لیا۔ بہت عرصے کے بعد پروموشن کا سوال اٹھا اور ابّو کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔ ایک مخصوص شانِ بے نیازی کے ساتھ وہ اس انٹرویو میں گئے اور جب ان سے پوچھا گیا کہ ڈاکٹر صاحب، آپ کی بدیہہ گوئی کی بڑی شہرت ہے۔ اس موقع کے لیے کوئی شعر کہہ دیجیے۔ انہوں نے سامنے بیٹھے ہوئے وائس چانسلر اور ڈین کی طرف رخ کیا اور فی الفور کہہ دیا۔
نہ کرو خیال وی سی نہ فریب ڈین کھائو
وتعّزو من تشاؤ وتذّل من تشاؤ
خود بتایا کرتے تھے کہ سننے والوں کو سانپ سونگھ گیا، وہ کندھے جھٹک کر وہاں سے چلے آئے۔
نوجوانی میں مالی مشکلات کا سامنا کیا تو بڑی پامردی کے ساتھ۔ ان میں خود داری بہت تھی۔ مالی معاملات میں اور بھی زیادہ۔ اگر میں کسی مد میں پیسے خرچ کردیتا تو جب تک روپے گن کر واپس نہ کر لیتے، ایک بے چینی سی رہتی۔ پیسوں کے معاملے میں تو نہیں، ہاں کتاب واپس کرنے میں غچّہ دے جاتے تھے۔ ایک آدھ کتاب پر یہ بھی کہا کہ یہ بحکم سرکار ضبط ہوئی۔ تم دوسری کاپی خرید لوگے، تب مجھ سے واپس مانگ لینا۔
ظاہر ہے کہ ان کے حصّے کی کتاب ان کے پاس رہتی تھی۔ وہ کتابیں حاصل کرنے اور جمع کرنے کے بعد شوقین تھے۔ انہوں نے مجھے سب سے زیادہ جس بات پر ٹوکا ہے وہ یہی کتابوں کا شوق تھا۔ بچپن میں، مَیں ان کی کتابوں پر ان کے دستخط کے ساتھ ساتھ اپنا نام بھی لکھ دیتا تھا۔ لیکن ان کی ڈاٹ ڈپٹ میں بھی خوش گواری کا ذائقہ گُھلا ہوتا تھا۔
محنت و قناعت کے ساتھ ان کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی میں ان کی سلیقہ مندی اور نفاست کا ذکر ہونا چاہیے، اور پھر جس نظم و ضبط کے وہ قائل تھے۔ اپنے استعمال کی ایک ایک چیز وہ اس کی مخصوص جگہ پر اتنے اہتمام سے رکھتے تھے کہ مہینوں بعد بھی وہ چیز آنکھیں بند کرکے اس جگہ سے اٹھا سکتے تھے۔ کتابوں کی بہتات سے گھبرانے لگے تھے مگر الماری پر ان کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ چُنتے تھے۔ چناں چہ تصّوف کی کتابوں کے فوراً بعد غزلیات خسرو۔ نذیر احمد اور آٓزاد سب سے الگ۔ نوجوانی میں اعلیٰ تراش خراش کے سوٹ پسند کرتے تھے۔ روزانہ خود استری کرکے بڑے اہتمام سے پہنتے۔ آخری دنوں میں بھی یہ معمول رہا کہ شیو کرنے اور کپڑے بدلنے کے بعد ، کتابوں اور کاغذوں کے درمیان اپنی مسہری پر جاکر بیٹھ جاتے تھے۔ گویا کام کرنے کے لیے تیار اور مُستعد ہیں۔
کسی کام کے لیے دوسروں کا شرمندہ احسان نہ ہونا چاہتے تھے۔ خود داری اور استقامت کا یہ حال آخری دم تک رہا۔ اپنی آخری آرام گاہ کے لیے کراچی یونیورسٹی کے قبرستان میں جگہ پسند کر لی تھی۔ چناں چہ الاٹ منٹ لیٹر اور این او سی حاصل کرکے ان کی دو کاپیاں ایک فائل میں لگا دیں۔ تجہیز و تکفین کے اخراجات ایک لفافے میں بند کرکے فائل کے ساتھ رکھ دیے۔ ایک آدم مہینے پہلے مجھ سے کہا میرے شناختی کارڈ کی مدّت ختم ہوگئی ہے۔ اس کو جاری کروا دو۔
میں نے ٹالتے ہوئے پوچھا، کیا آپ کو پاسپورٹ بھی بنوانا ہے۔
انہوں نے اپنی مخصوص سادگی سے کہا، قبرستان میں کفن دفن کے لیے چاہیے ہوتا ہے۔ بعد میں تمہیں دقّت ہوگی۔
شناختی کارڈ بن کر آیا ہے تو اس کے پندہ دن بعد اس کے استعمال کی ضرورت پڑ گئی۔
دل کی بیماری کو انہوں نے ایک عرصے تک جھیلا۔ لیکن اس بیماری نے ان کو چڑ چڑا بنایا اور نہ بدمزاج۔ زندگی پہلے بھی دھیمی تھی، اب بالکل معتدل ہوگئی۔ وہ احتیاط کے قائل تھے اور اپنے مزاج کی حدّت کو نرمی میں ڈھال لیا تھا۔
وہ مریض بھی اپنی وضع کے تھے۔ انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا موقع ملتا تو ڈاکٹر سے بات چیت بھی وہ اپنے مخصوص انداز میں کرتے۔ آنکھوں کی ڈاکٹر کے پاس علاج کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر مرتبہ اپنا حال بتانے سے پہلے آنکھوں کے بارے میں کسی کلاسیکی استاد کا شعر سناتے۔ ایک مرتبہ اس ڈاکٹر نے پوچھا، کیا شکایت ہے۔
ابّو نے جواب دیا، گوشۂ چشم میں خارش ہے۔
ایسے موقعوں پر مجھے ترجمانی کے فرائض انجام دینے پڑتے تھے کہ ابّو کی آراستہ و پیراستہ اردو کو ڈاکٹر صاحبان کی اردو میں منتقل کرتا رہوں۔
میرے ایک ہم جماعت امراض جلد کے ماہر ہیں۔ ساتھ میں باتوں کے رسیا بھی۔ ابّو کو ان کی یہ بات پسند تھی کہ انگریزی میں اپنے نام کے ہجّے اردو کے درست تلفّظ کے مطابق لکھتے تھے۔ ان کے پاس جانا ہوتا تو ابّو پہلے سے تیار ہو کر بیٹھ جاتے۔ وہ حال پوچھتے تو ابّو مسکرا کر جواب دیتے۔ ’’ڈاکٹر صاحب آپ کے اعجازِ مسیحائی اور حُسن توجہ کی بدولت پہلے سےبہتر ہوں۔‘‘
پہلی مرتبہ تو یہ الفاظ سُن کر ڈاکٹر صاحب کو پسینے آ گئے۔ اس نے کہا، یہ مجھے لکھ کر دے دیجیے۔ میں ان الفاظ کو فریم کروا کر رکھوں گا۔
آخری چند دنوں کی دوچار باتیں بھی بار بار یاد آتی رہتی ہیں۔
انہوں نے بیماری کے دوران شکایت کی اور نہ واویلا مچایا۔ جب تک بات کرتے رہے، گفتگو اسی طرح نستعلیق رہی۔ ٹانگ کے فریکچر کے باعث ٹریکشن بندھا ہوا تھا۔ غذا کے لیے ناک میں نلکی ڈالی گئی تھی۔ پیشاب کے لیے بھی نلکی لگی ہوئی تھی۔ میں نے جُھک کر پوچھا، کیا حال ہے۔ کہنے لگے، زندگی بے ہودگیوں کا مجموعہ بن گئی ہے۔
اسی دوران سیمیں نے ان سے کہا، آج آپ پہلے سے بہتر لگ رہے ہیں۔
انہوں نے جواب دیا، میں جھڑوس معلوم ہورہا ہوں۔
میں بار بار ان کے پاس آتا تو وہ پوچھتے، کہاں سے آ رہے ہوں۔ کہاں جا رہے ہو، ہر بار پوچھتے، کیا لکھ رہے ہو، کیا پڑھ رہے ہو۔
کبھی سوال کرتے، شہر کا کیا حال ہے، ادبی محاذ پر کیا سرگرمیاں ہیں۔
ایک دن میں نے پوچھا کہ طبیعت کیسی ہے تو الٹا مجھی سے پوچھنے لگے۔ تم بتائو تمہاری صحت کیسی ہے۔ تم بہت کام کرتے ہو، آٓرام نہیں کرتے۔
ایسا لگ رہا تھا وہ تیمار دار ہیں اور میں مریض۔
بدن کی طرح ذہن آہستہ آہستہ ساتھ چھوڑ رہا تھا۔ کبھی بھول جاتے، کبھی کسی اور جگہ پہنچ جاتے۔ لیکن میں جب بتاتاکہ فلاں شخص نے آپ کی خیریت پوچھنے کے لیے فون کیا ہے تو جواب دیتے۔ ن م دانش کا میسج آیا تو مجھ سے کہا، مجھے یاد ہے۔ ایسے شاگردوں کو کون بھول سکتا ہے۔ ہندوستان سے شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے فون کیا تو مجھ سے کہا، ان کا شکریہ ادا کر دینا، فاروقی صاحب بڑے آٓدمی ہیں۔ ایک دن سحر انصاری صاحب کو بہت دل چسپ انداز میں یوں یاد کیا گویا وہ لندن میں ہیں اور وہاں سے واپس آ رہے ہیں۔
طرز ادا کی دلکشی کے باوجود وہ اپنے کام کی بات پوری کر لیتے تھے۔ امراض قلب کے جس ماہر کے پاس زیرعلاج تھے۔ اپنی حالت بھانپ کر انہوں نے بڑی سادگی سے کہا تھا، میرا وقت آ رہا ہے۔ زندگی کی ذمہ داریاں پوری ہوگئی ہیں۔ آپ مجھے تختۂ مشق نہیں بنائیں گے۔ کاغذ پر دستخط کر دیے کہ مصنوعی ذریعے سے زندہ نہیں رکھا جائے گا۔
زندگی کی ہر حقیقت کی طرح وہ موت کے لیے بھی تیار تھے۔
دعاؤں کا حصار
جس یونیورسٹی میں، مَیں پڑھاتا ہوں وہاں کے ایک استاد نے مجھ سے دریافت کیا کہ میں اردو کی کس لُغت کو حوالے کی کتاب کے طور پر زیادہ استعمال کرتا ہوں۔
میرے منھ سے بے ساختہ نکلا، ’’ابّو!‘‘
میرے رفیق کار میرے والد کے علمی و ادبی حوالوں سے کسی قدر واقف تھے۔ وہ مرعوب ہو کر کہنے لگے، مجھے نہیں معلوم تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے کوئی لُغت بھی ترتیب دی ہے۔ اس کا کیا نام ہے؟
پھر مجھے بتانا پڑا کہ وہ لُغت دراصل خود ہیں۔ لُغت کی ورق گردانی کون کرے؟ مجھے یہ آسان معلوم ہوتا تھا کہ کسی لفظ کے معنی یا تلفّظ پر اشتباہ ہے، یا کسی شعر پر ذہن اٹک گیا، کوئی ادھورا مصرع یاد آرہا ہے یا کسی شعر کا محض ایک مصرع۔ ابّو سے پوچھ لیا۔ وہ بتا دیتے۔ اور اگر کہیں اٹکتے تو جب تک پوری طرح معلوم نہ کر لیتے، بے چین رہتے۔ پھر تلاش کرکے جواب حاصل کر لیتے تو بتا دیتے اور سکون کا سانس لیتے گویا یہ مسئلہ انہیں ہی تنگ کررہا تھا۔ بہت عرصے تک انہوں نے کسی بھی لغت سے بے نیاز رکھا۔ ہنس کر کہتے کتابیں دیکھتے دیکھتے ہم خود کتاب ہوگئے ہیں۔
سینکڑوں لوگ ان کے پاس صرف اسی مقصد کے لیے آتے یا ٹیلی فون کرتے۔ صاحب، فلاں لفظ۔۔۔۔ فلاں شعر کا پہلا مصرعہ۔۔۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے جن سے کوئی جان پہچان بھی نہ ہوتی۔ ابّو نے اپنی معلومات دوسروں تک پہنچانے میں کبھی بُخل سے کام نہیں لیا۔
ان کا علم حاضر اور حافظہ غیرمعمولی تھا۔ شعر تو شعر، انہیں نثر کی عبارتیں یاد تھیں۔ آزاد کے تو خیر مدّاح تھے، فسانۂ عجائب کے ٹکڑے روانی کے ساتھ دُہرا دیتے اور کیا مجال کہ کوئی لفظ اِدھر سے اُدھر ہوجائے۔
ان کی بینائی رفتہ رفتہ ساتھ چھوڑتی جارہی تھی اور پڑھنا ان کے لیے مشکل ہوتا جارہا تھا۔ ایک چھوڑ دو اخبار روزانہ کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کرنے والا شخص مجبور ہوگیا کہ صرف موٹی موٹی سُرخیوں پر اکتفا کر لے۔ ڈاکٹر نے تجویز کیا کہ محدّب شیشے کی مدد سے کام چلائیں مگر وہ اس طریقے سے ایڈجسٹ نہ کرپائے۔ کتاب پڑھنا کم ہوا تو وقت گزاری کا مسئلہ بھی بڑھ گیا۔ لیکن حافظہ مدد کو آیا۔ کتاب سے فاصلہ بڑھا تھا، ادب سے تو نہیں۔ انہوں نے یہ طریقہ وضع کر لیا کہ صبح اٹھ کر طے کر لیتے کہ آج کس شاعر کو پڑھنا ہے، پھر دن بھر اس کے اشعار حافظے کی مدد سے دُہرائے جاتے، زیر لب ان کا جیسے ورد کیے جاتے۔ ایک دن مجھ سے کہا، آج آتش کو پڑھ رہا ہوں۔ آتش کو دل ہی دل میں دُہرائے جاتے۔ یوں بھی آتش ان کے پسندیدہ شاعروں میں سے ایک ٹہرے۔ ان کو شکوہ تھا کہ اردو نقادوں نے آتش و ناسخ کے سلسلے کے شاعروں کے ساتھ انصاف نہیں کیا، یہاں تک کہ مجلس ترقّی ادب نے بھی رند، صبا اور وزیر کے دیوان نہیں شائع کیے۔
ایک بار میں نے کہا کہ ماضی کے بعض شاعروں کی شخصیات بہت مسحور کرتی ہیں، ہزاروں سوالوں کو جنم دیتی ہیں۔ مجھے کسی ایک شاعر سے ملاقات کا موقع مل جائے تو میرا انتخاب آرتھر راں بو (Arthur Rimbaud) ہوگا۔ پھر ان سے پوچھا، آپ کس سے ملاقات کرنا پسند کریں گے؟
آتش، ان کا جواب تھا۔
یوں ان کی پسند ناپسند بہت واضح ہوتی اور دوٹوک۔
انگریزی کے جاسوسی اور سراغ رسانی ناول بہت شوق سے اور کثرت سے پڑھتے تھے۔ مگر قائل چند ہی ناموں کے تھے۔ شرلاک ہومز کے قصّے تو نہ جانے کتنی بار پڑھ چکے تھے۔ پھر بھی مجھ سے کہتے، ایک جلد والا نسخہ بڑے ٹائپ میں مل جائے تو میرے لیے دیکھتے رہنا۔ ایک زمانے میں ارل اسٹینلے گارڈز کے ناول پڑھتے تھے، خاص طور پر پیری میسن والے سلسلے کے۔ پھر ایک وقت آیا کہ ان کی تمام تر توّجہ فرانسیسی ادیب Georges Simenon جارجز سیمینوں پر مُنعطف ہوگئی۔ اس کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھتے اور جمع کرتے جاتے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ سیمینوں صرف جرائم نہیں بلکہ انسانی نفسیات پر اپنے ناولوں کی بنیاد رکھتا ہے۔
نوعمری میں انہوں نے تیرتھ رام فیروز پوری کے ترجمے کثرت سے پڑھے تھے اور رینالڈز کے سینکڑوں ناول جو اردو میں دستیاب تھے۔ کتنی ہی کتابوں کے نام وہ گنوایا کرتے تھے۔ ادبی مرتبے کے لحاظ سے قدرے بہتر، رائڈر ہیگرڈ بھی ان کے پسندیدہ لکھنے والوں کی فہرست کا ایک اہم نام تھا۔ اس کے ناول کنگ سولومنز مائنز بلکہ اس سے بھی بڑھ کر شی اور رٹرن آف شی کو نہ جانے کتنی دفعہ پڑھ چکےتھے۔ شی کا اردو ترجمہ عذرا اور عذرا کی واپسی ان کو بہت پسند تھا، ایک مرتبہ میں پرانی کتابوں میں سے اس کا صاف ستھرا ایڈیشن لے آیا تھا تو بہت خوش ہوئے تھے۔ ہیگرڈ سے دل چسپی اتنی بڑھی کہ اس کی نہ جانے کون کون سی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ خاص طور پر ’دی مون آف ازرائیل ‘ کا نام لیا کرتے تھے۔
موجودہ زمانے کے جاسوسی ناول یا تھرلرز کی طرف انہوں نے کوئی خاص توّجہ نہیں دی۔ ایک آدھ کتاب مجھ سے لے لی تو پڑھے بغیر ٹال گئے۔ لیکن اس سے پہلے اپنے شوق سے جو کتابیں پڑھ چکے تھے، وہ ان کے حافظے پر جیسے مُرتسم تھیں۔ اپنے خیالوں میں ان کو نہ جانے کتنی مرتبہ دہراتے رہتے۔
کتابیں جمع کرنے کا شوق وقت کے ساتھ کم ہوگیا۔ کتابیں بانٹنے لگے۔ نئی آنے والی کتابیں باقاعدگی سے بیدل لائبریری بھجوا دیا کرتے، جہاں 0کے منتظمین نے ان کی دی ہوئی کتابوں کی الگ الماری بنوادی۔
تازہ ادبی رجحانات اور نئی کتابوں سے ازحد دل چسپی تھی۔ یہاں تک کہ بہت عرصے تک ایک مقبول عام رسالے میں نئی کتابوں پر تبصرے کرتے رہے، کیوں کہ اس طرح کتابوں سے واقفیت بڑھتی تھی۔ ان کا شوق اور تجسّس آخر تک زندہ و بیدار رہا۔
ان کے مزاج میں متانت اور سنجیدگی تھی۔ مگر ایسا بالکل نہیں کہ چیزوں کے لُطف نہ لیتے ہوں ہلّڑ بازی یا پھکّڑ پن ان کے مزاج سے بہت دور تھے۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ زاہد خشک ہوں۔ دوستوں اور بے تکلّف ساتھیوں کی محفل میں خوب ہنستے بولتے۔ فقرے بازی سے ذرا نہ چوکتے اور اس کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ دوستوں کی محفل ہوتی تو ہزار داستاں کی طرح چہکتے۔
ان کے بے تکلّف دوستوں میں معروف شاعر احمد فراز بھی شامل تھے۔ دونوں نے تقریباً ایک ہی ساتھ ریڈیو پاکستان، کراچی میں قدم رکھا تھا۔ فراز صاحب ان معدودے چند لوگوں میں سے تھے جو ان کو ’’اسلم‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ ضیاء الحق دور میں طویل جلاوطنی کے بعد فراز صاحب اسلام آباد میں مقیم تھے اور جب بھی میری ان سے ملاقات ہوتی وہ اپنے دوست کی خیرت پوچھا کرتے۔ دن کیسے گزارتے ہیں، شاعری کرتے ہیں؟ وہ مجھ سے پوچھتے۔ ایک مرتبہ میں نے بتایا کہ فرض نمازوں کے علاوہ چاشت، اشراق اور تہجّد کی نمازوں میں بھی ناغہ نہیں ہونے دیتے۔
ان سے کہو نمازیں کم پڑھا کریں، فراز صاحب نے مجھ سے کہا۔ میں نے جواب دیا کہ یہ بات میں نہیں کہہ سکتا۔ ایسی بات آپ ہی کرسکتے ہیں۔ چناں چہ طے پایا کہ اگلی بار فراز صاحب کراچی آئیں گے تو میں دونوں دوستوں کی ملاقات کروائوں گا۔
اس کے بعد جب فراز صاحب کراچی آئے تو میرے ساتھ ابّو سے ملنے کے لیے بھی آئے۔ اسلم، سُنا ہے تم نمازیں بہت پڑھنے لگے ہو۔ اس کو کم کرو، فراز صاحب نے چھوٹتے ہی ان سے کہا۔
میں نے سنا ہے تم شراب بہت پینے لتے ہو۔ اس کو کم کرو۔ ابّو نے فوراً جواب دیا۔
اس پر دونوں میں طے پایا کہ وہ شراب کم کردیں گے بشرط کہ ابّو نمازیں کم کردیں۔ معاہدہ طے پاگیا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا کہ کمرے کے باہر چلے جائو کیوں کہ اب نثر میں گفتگو ہوگی۔
ہشاش بشاش اور خوش باش فراز صاحب اس ملاقات کے بعد جانے لگے تو ابّو نے آہستہ سے مجھ سے کہا، میں نماز کم نہیں کرسکتا لیکن اس کی وجہ سے اس کی شراب کم ہو جائے تو اچھا ہے۔
فراز صاحب کو رُخصت کرنے باہر آیا تو گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے انہوں نے بھی قدرے آہستگی سے کہا، شراب تو کم کیا ہوگی، ان کی نمازیں کم ہو جائیں تو اچھا ہے۔
دونوں اپنی اپنی جگہ خوش اور مطمئن۔ ابّو اس کو اپنی کامیابی سمجھ کر بہت خوش تھے۔ میں نے ان کو بتایا کہ عمل درآمد کے لیے فراز صاحب کے بھی ویسے ہی ارادے ہیں جیسے آپ کے۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے، مجھے خوب اندازہ ہے۔ میں ہر نماز میں اس کے لیے دعا کروں گا۔ چناں چہ فراز صاحب کا نام انہوں نے دوستوں، واقف کاروں کی اس فہرست میں شامل کر لیا جن کے لیے ہر نماز میں دعا کرتے تھے۔
یہ فہرست پہلے ہی طویل تھی، مگر وہ دعا کے بہت قائل تھے۔ میں جتنی بار بھی ان کے پاس آتا، وہاں سے اٹھ کر اس وقت تک جا نہیں سکتا تھا جب تک کہ وہ حفاظت کی دعا پڑھ کر پھونک نہ دیں۔ اب تم جا سکتے ہو، زیرلب دعا پڑھنے کے بعد وہ مجھ سے کہتے۔ ان کا یہ معمول اس وقت تک قائم رہا جب تک زندگی کی آخری گھڑیوں میں ہوش و حواس پوری طرح قائم تھے۔ آخری مرتبہ کی دعا کے بعد میں وہیں رہ گیا، وہ خود اٹھ کر چلے گئے، جہاں سے کوئی واپسی نہیں آیا۔ وہ پہلے چلے گئے تو کیا ہوا۔
ان کی دعائوں کا حصار مرتے دم تک ٹوٹ نہیں سکے گا۔