ڈاکٹر انور سدید انتقال کر گئے۔

محمد وارث

لائبریرین
نامور نقاد، محقق، ادیب ، شاعر جناب ڈاکٹر انور سدید آج(۲۰ مارچ ۲۰۱۶) لاہور میں وفات پا گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ کا کام ایک لمبے عرصے تک اردو کے قارئین اور طالب علموں کی مدد کرتا رہے گا۔۔

ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادے مسعود انور صاحب کی فیس بُک وال سے ایک تفصیلی تعارفی نوٹ ۔


ڈاکٹر انور سدید
نامور ادیب، صحافی ڈاکٹر انورسدید 4 دسمبر 1928ء کو ضلع سرگودھاکے دور افتادہ قصبہ مہانی میں پید اہوئے۔ ابتدائی تعلیم سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان کے عام سکولوں میں حاصل کی۔میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔مزید تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ ان کا رجحان ادب کی طرف تھا لیکن والدین سائنس کی تعلیم دلا کر انجینئر بنانا چاہتے تھے۔ اس دور میں اسلامیہ کالج لاہور میں تحریک پاکستان کی سرگرمیاں زور پکڑ چکی تھیں، انور سدید بھی ان میں شرکت کرنے لگے اور ایف ایس سی کا امتحان نہ دیا۔ اس وقت ان کے افسانے رسالہ بیسوی صدی، نیرنگ خیال اور ہمایوں میں چھپنے لگے تھے۔ عملی زندگی کی ابتدا محکمہ آبپاشی میں لوئر گریڈ کلرک سے کی۔
بعد ازاں گورنمنٹ انجینئرنگ سکول رسول(منڈی بہائو الدین) میں داخل ہو گئے۔ اگست1948ء میں اول آنے اور طلائی تمغہ پانے کے بعد اری گیشن ڈیپارٹمنٹ میں سب انجینئر کی ملازمت پر فائز ہو گئے۔ یہاں انہوں نے ناآسودگی محسوس کی تو دوبارہ تعلیم کی طرف راغب ہوئے اور ایف اے، بی اے اور ایم اے کے امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے دئیے۔ ایم سے فرسٹ کلاس حاصل کی اور خارجہ طلبہ میں ریکارڈ قائم کیا۔

انور سدیدنے’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، ان کے نگران راہنما وزیر آغا تھے، پنجاب یونیورسٹی نے ڈاکٹر سید عبداللہ اور ڈاکٹر شمس الحسن صدیقی کو ان کا ممتحن مقرر کیا۔دونوں نے ان کے مقالے کو نظیر قرار دیا جو آئندہ طلبہ کو راہنمائی فراہم کر سکتا تھا۔ ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘ کےاب تک نو اڈیشن چھپ چکے ہیں -اس دوران انور سدید نے انجینئرنگ کا امتحان اے ایم آئی، انسٹی ٹیوٹ آف انجینئر ڈھاکہ سے پاس کیا۔

محکمہ آبپاشی پنجاب سے ایگز یکٹو انجینئر کے عہدے سے 60 برس کی عمر پوری ہونے پر دسمبر 1988ء میں ریٹائر ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ ماہنامہ ’’قومی ڈائجسٹ ‘‘ہفت روزہ’’زندگی‘‘ روزنامہ ’’خبریں‘‘ لاہور میں چند سال کام کرنے کے بعد وہ ملک کے نظریاتی اخبار’’نوائے وقت‘‘ کے ادارے میں شامل ہو گئے، اس ادارے سے انہوں نے’’دوسری ریٹائرمنٹ‘‘جولائی2003ء میں حاصل کی لیکن مجید نظامی چیف ایڈیٹر’’نوائے وقت ‘‘ نے انہیں ریٹائر کرنے کی بجائے گھر پر کام کرنے کی اجازت دے دی ۔ ’’نوائے وقت‘‘ کے ساتھ سلسلہ آخر دم تک قائم رہا - تنقید، انشائیہ نگاری، شاعری اور کالم نگاری ان کے اظہار کی چند اہم اصناف ہیں۔

ڈاکٹر انور سدید نے اپنے بچپن میں ہی ادب کو زندگی کی ایک بامعنی سرگرمی کے طور پر قبول کر لیا تھا، ابتدا بچوں کے رسائل میں کہانیاں لکھنے سے کی، افسانے کی طرف آئے تو اس کے دور کے ممتاز ادبی رسالہ’’ہمایوں‘‘ میں چھپنے لگے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے’’اوراق‘‘ جاری کیا تو انہیں تنقید لکھنے کی ترغیب دی اور اپنے مطالعے کو کام میں لانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے رسالہ’’اردو زبان‘‘ سرگودھا کے پس پردہ مدیر کی خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے ساتھ’’اوراق‘‘ کے معاون مدیر کی حیثیت میں بھی کام کیا۔ روزنامہ ’’جسارت‘‘، روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘، ’’مشرق‘‘، ’’حریت‘‘، ’’امروز‘‘، ’’ زندگی‘‘، ’’قومی زبان‘‘اور ’’خبریں ‘‘ میں ان کے کالم متعدد ناموں اور عنوانات سے چھپتے رہے۔ ’’دی سٹیٹسمن‘‘اور ’’دی پاکستان ٹائمز‘‘میں انگریزی میں ادبی کالم لکھے۔ انہیں تعلیمی زندگی میں تین طلائی تمغے عطا کیے گئے۔ ادبی کتابوں میں سے ’’اقبال کے کلاسیکی نقوش‘‘، ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘اور ’’اردو میں حج ناموں کی روایت‘‘پر ایوارڈ مل چکے ہیں۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی نے انہیں بہترین کالم نگار کا اے پی این ایس ایوارڈ عطا کیا۔ ٢٠٠٩ میں ادبی خدمات پر صدر پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازا .

اب تک انور سدید نے٨٨کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں، چند کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں:
۱۔’’فکرو خیال‘‘، ۲۔’’اختلافات‘‘، ۳۔ ’’کھردرے مضامین‘‘، ۴۔’’اردو افسانے کی کروٹیں‘‘، ۵۔’’موضوعات‘‘، ۶۔ ’’بر سبیل تنقید‘‘، ۷۔’’شمع اردو کا سفر‘‘، ۸۔’’نئے ادبی جائزے‘‘، ۹۔‘’’میر انیس کی اقلم سخن‘‘، ۱۰۔’’محترم چہرے‘‘، ۱۱۔’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘، ۱۲۔’’اردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘، ۱۳۔’’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘‘، ۱۴۔’’اردو ادب میں سفر نامہ‘‘، ۱۵۔’’اردو ادب میں انشائیہ‘‘، ۱۶۔’’اقبال کے کلاسیکی نقوش‘‘، ۱۷۔ ’’اردو افسانے میں دیہات کی پیشکش‘‘،۱۸۔’’؟‘‘، ۱۹۔’’ غالب کے نئے خطوط‘‘، ۲۰۔’’ دلاور فگاریاں‘‘، ۲۱۔’’ قلم کے لوگ‘‘، ۲۲۔’’ادیبان رفتہ‘‘، ۲۳۔’’آسمان میں پتنگیں‘‘، ۲۴۔’’دلی دور نہیں‘‘، ۲۵۔ ’’ادب کہانی 1996ء‘‘، ۲۶۔’’ادب کہانی 1997ء‘‘، ۲۷۔’’اردو افسانہ: عہد بہ عہد‘‘، ۲۸۔’’میر انیس کی قلمرو‘‘، ۲۹۔’’ وزیر آغا ایک مطالعہ‘‘، ۳۰۔’’ مولانا صلاح الدین احمد، فن اور شخصیت‘‘، ۳۱۔’’حکیم عنایت اللہ سہروردی، حالات و آثار‘‘۔ ۳۲۔ ’’ جدید اردو نظم کے ارباب اربعہ‘‘، ۳۳۔’’کچھ وقت کتابوں کے ساتھ‘‘، ۳۴۔’’مزید ادبی جائزے‘‘۔

ڈاکٹر انور سدید کی چند کتابوں مثلاً ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘، ’’اردو افسانے میں دیہات کی پیشکش‘‘،’’ اردو ادب میں سفر نامہ‘‘،’’ پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘‘، ’’اردو ادب میں انشائیہ‘‘ کو موضوع کے اعتبار سے اولین تصنیف ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ انور سدید ان دنوں ’’نوائے وقت‘‘ سنڈے میگزین میں کتابوں پر تبصرے بھی لکھتے رہے ہیں۔ 2003ء میں انہوں نے ایک سال میں 225کتابوں پر تبصرے لکھ کر ریکارڈ قائم کیا تھا۔

انور سدید کے فن اور شخصیت پر پروفیسر سید سجاد نقوی نے ایک کتاب’’گرم دم جستجو‘‘ شائع کی ہے۔ رسالہ ’’اوراق‘‘، ’’تخلیق‘‘، ’۔’ارتکاز‘‘، ’’جدید ادب‘‘، ’’ کو ہسار جرنل‘‘، ’’ چار سو‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ میں ان پر گوشے چھپ چکے ہیں۔

ڈاکٹر انور سدید کی بیشتر کتابیں کالج اور یونیورسٹی طلبا کے علاوہ اعلیٰ ملازمین کے مقابلے کے امتحانوں میں شریک ہونے والوں کی معاونت کرتی ہیں اور کئی یونیورسٹیوں کے اردو نصاب میں شامل ہیں۔

ڈاکٹر انور سدید کی چار تصنیفات اور بھی ہیں، یہ ان کے چار بیٹے [م*]سعود، امتیاز، انس او ر ندیم ہیں ، جنہیں وہ اپنے انشائیے تصور کرتے ہیں۔ ان کے دو بیٹے ڈاکٹر اور دو انجینئر ہیں۔ ان کے ہاں فیملی سسٹم خوش اسلوبی سے چل رہا ہے۔ وہ ڈاکٹر وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی کو اپنا محسن تصور کرتے اور کہتے کہ ان دونوں نے انہیں ہمیشہ متحرک رکھا ہے۔“

* یہاں شاید ٹائپو ہے، ان کےصاحبزادے کا نام مسعود انور ہے مضمون میں سعود لکھا گیا ہے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
مختلف تحقیقی و تخلیقی جہتوں کے حامل ڈاکٹر انور سدید 88 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ ان کی نمازِ جنازہ آج بعد از عصر سرگودھا کے بڑے قبرستان میں ادا کی جائے گی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

انور سدید 4 دسمبر 1928ء کو سرگودھا کی تحصیل بھلوال کے نواحی قصبے میانی میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک نومسلم راجپوت خاندان سے تھا۔ ابتدائی تعلیم سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان میں حاصل کی۔ 1944ء میں ایف ایس سی کے لیے اسلامیہ کالج لاہورمیں داخلہ لیا لیکن تحریک پاکستان میں سرگرمیوں کی وجہ سے امتحان نہیں دے سکے۔ 1946ء کے انتخابات میں انھوں نے مسلم لیگ کے لیے خدمات انجام دیں۔ بعدازاں، ان کے بڑے بھائیوں نے میٹرک کی بنیاد پر انھیں محکمہ آبپاشی میں کلرک بھرتی کروادیا۔ 1947ء میں انھوں نے گورنمنٹ انجینئرنگ اسکول، رسول سے سول انجینئرنگ کے ڈپلومے میں داخلہ لیا اور امتحان میں اول بدرجہ اول کامیابی حاصل کرنے کے بعد آبپاشی کے محکمے میں ہی اوورسیئر کے طور پر ملازم ہوگئے۔ ملازمت کے دوران میں انھوں نے ادیب فاضل کا امتحان اول بدرجہ اول پاس کیا اور آزادی کے بعد اس امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ بعدازاں، انھوں نے ایف اے، بی اے (صرف انگریزی) اور ایم اے (اردو) کی اسناد بطور پرائیویٹ امیدوار حاصل کیں۔ ایم اے میں سب سے زیادہ نمبر لینے پر انھیں طلائی تمغہ اور بابائے اردو مولوی عبدالحق گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی ترغیب پر انھوں نے ”اردو ادب کی تحریکیں“ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران میں انھوں نے انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرز ڈھاکہ سے ایسوسی ایٹ ممبر آف دی انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرز (اے ایم آئی ای) کا امتحان پاس کیا جو ان کے نوکری میں ترقی کا وسیلہ بنا۔ یوں وہ پہلے سب ڈویژنل آفیسر (ایس ڈی او) بنے اور پھر 1977ء میں ایگزیکٹو انجینئر کے عہدے پر ترقی پائی۔ دسمبر 1988ء میں اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
سدید صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد عملی صحافت میں قدم رکھا۔ 1990ء سے 1995ء تک وہ ’قومی ڈائجسٹ‘ کے مدیر رہے۔ پھر روزنامہ ’خبریں‘ سے ڈپٹی ایڈیٹر کی حیثیت میں وابستہ ہوگئے اور 1998ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ بعدازاں،’نوائے وقت‘ سے وابستہ ہوگئے اور یہ سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا۔ سرگودھا میں قیام کے دوران میں وہ کالم نگار کی حیثیت سے ’جسارت‘، ’حریت‘ اور ’مشرق‘ سے منسلک رہے اور ماہنامہ ’اردو زبان‘ کے پسِ پردہ مدیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔


1966ء میں سدید صاحب نے اپنے تخلیقی اور تنقیدی سفر کا آغاز کیا۔ بچوں کے رسالے ’گلدستہ‘ اور فلمی پرچے ’چترا‘ میں لکھنے سے شروعات کی۔ اسی دور میں ڈاکٹر وزیر آغا نے ’اوراق‘ نکالا تو اس کے لیے لکھنے لگے۔ بعدازاں، انھوں نے افسانہ، انشائیہ، سفرنامہ، جائزہ، تحریف، خاکہ، دیباچہ، تبصرہ، ترجمہ، کالم اور شعر کی مختلف اصناف سمیت بہت سی صورتوں میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ ’اردو ادب کی تحریکیں‘، ’اردو ادب کی مختصر تاریخ‘ اور ’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘ جیسی تصنیفات سے تحقیق اور تاریخ نگاری کے میدان بھی انھوں نے اپنا لوہا منوایا۔ ان کی دیگر اہم تصانیف میں ’میر انیس کی قلمرو‘، ’غالب کا جہاں اور‘، ’اقبال کے کلاسیکی نقوش‘، ’شاعری کا دیار‘، ’اردو نثر کے آفاق‘، ’اردو ادب میں سفرنامہ‘، ’انشائیہ اردو ادب میں‘، ’اردو افسانہ - عہد بہ عہد‘، ’مولانا صلاح الدین احمد - شخصیت اور فن‘، ’ڈاکٹر وزیر آغا - ایک مطالعہ‘ اور ’شام کا سورج‘ شامل ہیں۔
ان کی شادی 9 مئی 1956ء کو ان کے چچیرے بھائی میاں بشیر احمد کی بیٹی نصرت بیگم سے ہوئی۔ ان کے چار بیٹے ہیں جو روزگار کے سلسلے میں مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں۔
 

فلک شیر

محفلین
اللہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ وارزقہ بالجنۃ الفردوس برحمتک یاارحم الراحمین
 

ساقی۔

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اکثر بیشتر ان کے کتابوں پر تبصرے، اخبارات و جرائد میں پڑھنے کا موقع ملتا رہا ہے​
 

اوشو

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون
اعلی پائے کے نقاد,
اللہ کریم مغفرت فرمائے
آمین
 
Top