حسن محمود جماعتی
محفلین
ڈاکٹر صاحب سے گزشتہ ملاقات جو کرونا وارڈ اور مریضوں بھرے ماحول میں ہوئی تھی طے پایا کہ اگلی بار اس چار دیواری سے باہر ایک ملاقات رکھیں گے۔ اور بندۂ ناچیز کی خواہش کہ اس کی جائے سکونت اس کام کے لیے انتہائی مناسب مقام ہے۔ اس دورانیے میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ خط و کتاب کا نا شروع ہونے والا سلسلہ جاری رہا۔ جس میں ڈاکٹر صاحب کسی کیفیت نامے پر کوئی طغرہ ارسال کرتے جس کا جواب بھی اسی انداز میں دے دیا جاتا۔ مزید جورابطے کا سلسلہ ڈاکٹر صاحب سے رہا اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ جب سے احباب کو معلوم پڑا کہ بندۂ ناچیز کی واقفیت ایک ڈاکٹر سے نکل آئی ہے، انہوں نے دنیا جہاں کے تمام اطباء پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا۔ کال یا میسیج پر تفصیل موصول ہوتی کہ ڈاکٹر صاحب سے علاج تجویز کروا دیں۔ ہم بھی کمال بے شرمی سے ڈاکٹر صاحب کو زحمت دیتے۔ یہاں ان کے حوصلے کی داد بنتی ہے کہ دن ہو یارات جب کبھی رابطہ کیا مایوس نہیں کیا گیا۔ جلد بدیر جواب موصول ہوا۔ میں حیران تھا پیغام میں بھی اور یقیناً چہرے پر ڈاکٹر صاحب کبھی شکن نہیں لائے ( اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو ماتھے پر اس قدر گنجائش نہیں ثانیا شکن لانے کے لیے جس قدر توانائی صرف ہوتی ہے اس کے لیے صاحب کی صحت اجازت نہیں دیتی). پھر اپنے علم، تعلیم اور تجربے کی بنیاد پر بہترین مشورہ دیتے "حسن بھائی بہتر ہے کسی قریبی ماہر ڈاکٹر کو دکھا دیں".
خیر ہر دوسرے اتوار یاد دہانی کروائی جاتی رہی کہ آپ کا ایک وعدۂ ملاقات تاحال موقوف ہے۔ اب کی بار پیغام بھیجا تو جھٹ سے حامی اس انداز میں بھری کہ براہ راست ہاں کہنے کی بجائے کہا "نین بھائی سے بھی پوچھیں اگر ان سے بھی ملاقات ہوجائے". نین بھائی کو میسیج کیا تو جوابا کہنے لگے " کل کس وقت اور کہاں"؟ عرض کی حضور کل نہیں پرسوں بروز اتوار۔ جس میں دوپہر کے اوقات میں اس طالب علم کو ایک کلاس پڑتی ہے اس کے معاً بعد بلا توقف تردد و تاخیر۔
اب ہم چونکہ شادی شدہ نہیں اس بات کا اندازہ نہیں بندہ قرون اولیٰ کے غلاموں کی زندگی بسر کرتا ہے۔ جس کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی۔ اسے دیکھنا ہوتا ہے کہ ان اوقات میں امور گھرداری میں سے تو معمول میں نہیں؟ یا مالکوں کی مرضی اجازت دیں نہ دیں۔ پھر صاحب بھی ایک نہیں دو جا غلامی کی زنجیروں میں بندھے ہیں ایک بیرون ملک اور دوسری اندرون خانہ۔ محمد علی جناح کے بعد پاکستانی تاریخ میں ایسا کامی اور ایماندار شخص شاید ہی کوئی آیا ہو۔ خیر صاحب کو دو گھنٹوں کی اجازت مل گئی۔
اتوار کے روز وقت مقررہ سے کچھ وقت پہلے ڈاکٹر صاحب اس حال میں موٹر سائیکل پر وارد ہوئے کی بزعم جوانی کوئی مناسب بندوبست سردی سے بچنے کا نہ تھا۔ اس طرف توجہ دلائی تو ناپسندیدگی کی چند وجوہات کے سامنے ہم خاموش ہو گئے۔ملاقات کا اگلا مرحلہ بہت دلچسپ ہے۔ جہاں ایک رند ایک پارسا اور ایماندار کے درمیان پھنس گیا۔ ڈاکٹر صاحب نماز قضا کرنے پر راضی نہ تھے دوسری جانب صاحب مقررہ وقت پر مقررہ جگہ موجود۔ صاحب سے بات ہوئی، بتایا ڈاکٹر صاحب تشریف لے آئے ہیں آپ کس وقت پہنچیں گے۔ بولے یہ ہی کوئی گن کے چار منٹ۔ یہاں ہم نے اندازہ لگایا کہ صاحب کو فلاں جگہ سے مقام لقاء تک آنے میں چار منٹ لگیں گے ٹریفک بھی ہے تو چار اور ڈال لیں۔ اسی اثنا میں ڈاکٹر صاحب حضور الہ میں سر بسجود تھے۔ ادھر جناح کے پیروکار وقت مقررہ کے عین مطابق چار منٹ میں وہاں موجود۔ بندہ حیران الہی ماجرہ کیا ہے؟ یہ شخص فلائنگ کار پر آیا ہے یا پہلے سے وہیں موجود انتظار میں تھا کہ کب کال آئے۔ خیر بتایا کہ بھیا یہ ہی قریب میں دو گلی آگے موجود ہیں ابھی آئے۔ جائے وقوعہ پر پہنچے تو صاحب غیر موجود۔ سامنے بغیر کسی سویٹر کوٹ کے ایک نوجوان براجمان تھا جس کی ہیئت پر اسے قطعی طور پر نظرانداز کرتے ہوئے ہم نے نگاہ دور تک دوڑائی لیکن مطلوبہ صارف موجود نہیں۔ کال کی بھیا کہاں ہیں بولے آپ کے سامنے۔ اب جو نقاب رخ سے اٹھایا تو واقعی وہ "سجیلا نوجوان" اپنے صاحب تھے۔ جناح کی طرز پر پہلے تو جھڑکے کہ آپ وقت کی پابندی نہیں کرتے۔ عرض کی حضور ہم پاکستانی وقت کے مطابق عین مقررہ وقت پر پہنچے ہیں (طے شدہ وقت سے محض 15، 20 منٹ بعد میں آنا پاکستانی مقررہ وقت ہے، ہاں اگر گھنٹہ ڈیڑھ بعد آئے تو اسے کہہ سکتے ہیں کہ دس پندرہ منٹ تاخیر سے آئے ہیں)۔ کھانے کی میز پر بیٹھے تو ڈاکٹر صاحب اور صاحب ایک دوسرے کو تاکنے بیٹھ گئے کیونکہ یہ ان احباب کی آپس میں پہلی ملاقات تھی۔ چند ساعتیں اس کیفیت میں گزریں تو مجبورا کھنگورا مارنا پڑا کہ صاحب تھوڑا فلمی ماحول بن گیا ہے۔ یہاں ابتدائیے کا حکم نامہ دیا گیا اور اب باقاعدہ گفتگو کا پہلا دور شروع ہوا۔ جس میں ابتداء صاحب نے اپنے معمولات زندگی پر روشنی ڈالی اور ڈاکٹر صاحب نے اپنی مصروفیات مختصرا ذکر کیں۔ اب کھانے کی آمد پر گفتگو کچھ سماجی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی موضوعات پر رہی۔ لیکن اس میں کچھ غیر پارلیمانی الفاظ کے استعمال پر یہ حصہ کاروائی سے حذف کیا جارہا ہے۔ کھانے کے بعد "ہماری ادبی روایات اور زوال" پر تبادلۂ خیال رہا۔ ہماری نوجوان نسل جس سمت جارہی ہے۔ ایسے میں "ابھرتے ہوئے نوجوان شعراء" کے ہتھے شاعری اور پھر وہ شاعری ہماری نوجوان نسل کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ اس دور میں بھرپور غیبتوں کا تڑکا لگا۔ ایسے میں صاحب نے "ہماری ادبی روایات" پر چند تاریخی حواجات پیش کیے ۔ جو فقیر کے لیے انتہائی اہم تھے جنہیں یاداشت میں رکھتے ہوئے فورا نوٹ کیا اور صاحب کو پھر زحمت دی کہ اس حوالے سے مزید رہنمائی فرمائیں۔ کیونکہ اگلے ہفتے یونیورسٹی میں جس موضوع پر پریزنٹیشن دینی تھی یہ حصہ اس سے متعلق اور انتہائی موزوں تھا۔ جس پر ہم صاحب کے شکرگزار ہیں کہ آرمی جنرل ( جو ہمارے پروفیسر) کے سامنے ہمیں سرخرو کروایا۔ جس پر جنرل صاحب نے داد بھی دی۔ جو ہم نے فورا صاحب کو ایصال ثواب کی۔
بڑھتی ٹھنڈ اور ضرورت کے پیش نظر اگلا پڑاؤ چائے خانے پر تھا جس دوران نماز مغرب ادا کی۔ صاحب نے کلمہ اور نماز پڑھ کر دکھائی بلکہ ماضی کے اپنے معمولات صیام و قیام کا تذکرۂ پارسائی بھی سنایا۔ چائے کی میز پر پنجابیوں کا اپنی ماں بولی"پنجابی سے رویہ، پنجابی ادب کے زوال، پنجابی ماؤں کا کردار اور ہماری پرانی روایات جو اب رخصت ہو رہی ہیں" کا تذکرہ رہا۔ نین بھائی نے کچھ اپنا پنجابی کلام سنایا اور کچھ متروک ہوتے پنجابی الفاظ پر تبصرہ کیا۔ اب باری آئی ڈاکٹر صاحب کی جہاں کلام شاعر بزبان شاعر سنا گیا۔ ساتھ کچھ تڑکا بندۂ ناچیز نے بھی لگایا۔ کہ فقیر کو بھی کلام سنانے کا شوق ہے (شعراء کا اپنا نہیں)۔ اب صورتحال یہ بنی کہ پہلا کلام سنایا تو صاحب اور ڈاکٹر صاحب ہونقوں کی طرح دیکھنے لگے۔ آنکھوں آنکھوں میں اشارہ کیا چلو یہ سن لو پھرنہیں۔ ہم نے اگلا کلام شروع کیا تو پھر کن اکھیوں سے تکنے لگے چلو آئندہ موقع نہیں دیں گے۔ تیسرا کلام شروع کیا تو حالت یہ بنی کہ آئندہ اسے ملاقات میں نہیں لانا (یہ باتیں آنکھوں آنکھوں میں ہوئیں لفظا نہیں)۔ اس پورے دورانیہ میں فقیر نے احمد فراز، مشتاق عاجز، امان اللہ خان جدون کے کلام سنائے، کوئی جدید "تہذیب" کا شعر نہ پڑھا، لیکن مجال ہے کہ داد کا ایک لقمہ بھی دیا ہو ان دونوں احباب نے۔ ایسے میں اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کے لیے چائے کا دوسرا دور چلا۔ یہاں اب ڈاکٹر صاحب کا حوصلہ سردی کے آگے جواب دے رہا تھا اور صاحب کو آقاؤں کے بلاوے۔ آئندہ کے وعدوں پر رخصت و اجازت لی۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمیں ہمارے مقام سکونت پر چھوڑا اور چل دیے۔ اپنے مکان تک جاتے جاتے سوچتا رہا کہ کیا ہی اچھا دن تھا کہ یہ ملاقات ہوگئی اور دو تین ہفتے بعد ایسے ملاقات رکھ لینے چاہیے ( اچھا کھانا اور چائے تو مل ہی جاتے ہیں)۔
خیر ہر دوسرے اتوار یاد دہانی کروائی جاتی رہی کہ آپ کا ایک وعدۂ ملاقات تاحال موقوف ہے۔ اب کی بار پیغام بھیجا تو جھٹ سے حامی اس انداز میں بھری کہ براہ راست ہاں کہنے کی بجائے کہا "نین بھائی سے بھی پوچھیں اگر ان سے بھی ملاقات ہوجائے". نین بھائی کو میسیج کیا تو جوابا کہنے لگے " کل کس وقت اور کہاں"؟ عرض کی حضور کل نہیں پرسوں بروز اتوار۔ جس میں دوپہر کے اوقات میں اس طالب علم کو ایک کلاس پڑتی ہے اس کے معاً بعد بلا توقف تردد و تاخیر۔
اب ہم چونکہ شادی شدہ نہیں اس بات کا اندازہ نہیں بندہ قرون اولیٰ کے غلاموں کی زندگی بسر کرتا ہے۔ جس کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی۔ اسے دیکھنا ہوتا ہے کہ ان اوقات میں امور گھرداری میں سے تو معمول میں نہیں؟ یا مالکوں کی مرضی اجازت دیں نہ دیں۔ پھر صاحب بھی ایک نہیں دو جا غلامی کی زنجیروں میں بندھے ہیں ایک بیرون ملک اور دوسری اندرون خانہ۔ محمد علی جناح کے بعد پاکستانی تاریخ میں ایسا کامی اور ایماندار شخص شاید ہی کوئی آیا ہو۔ خیر صاحب کو دو گھنٹوں کی اجازت مل گئی۔
اتوار کے روز وقت مقررہ سے کچھ وقت پہلے ڈاکٹر صاحب اس حال میں موٹر سائیکل پر وارد ہوئے کی بزعم جوانی کوئی مناسب بندوبست سردی سے بچنے کا نہ تھا۔ اس طرف توجہ دلائی تو ناپسندیدگی کی چند وجوہات کے سامنے ہم خاموش ہو گئے۔ملاقات کا اگلا مرحلہ بہت دلچسپ ہے۔ جہاں ایک رند ایک پارسا اور ایماندار کے درمیان پھنس گیا۔ ڈاکٹر صاحب نماز قضا کرنے پر راضی نہ تھے دوسری جانب صاحب مقررہ وقت پر مقررہ جگہ موجود۔ صاحب سے بات ہوئی، بتایا ڈاکٹر صاحب تشریف لے آئے ہیں آپ کس وقت پہنچیں گے۔ بولے یہ ہی کوئی گن کے چار منٹ۔ یہاں ہم نے اندازہ لگایا کہ صاحب کو فلاں جگہ سے مقام لقاء تک آنے میں چار منٹ لگیں گے ٹریفک بھی ہے تو چار اور ڈال لیں۔ اسی اثنا میں ڈاکٹر صاحب حضور الہ میں سر بسجود تھے۔ ادھر جناح کے پیروکار وقت مقررہ کے عین مطابق چار منٹ میں وہاں موجود۔ بندہ حیران الہی ماجرہ کیا ہے؟ یہ شخص فلائنگ کار پر آیا ہے یا پہلے سے وہیں موجود انتظار میں تھا کہ کب کال آئے۔ خیر بتایا کہ بھیا یہ ہی قریب میں دو گلی آگے موجود ہیں ابھی آئے۔ جائے وقوعہ پر پہنچے تو صاحب غیر موجود۔ سامنے بغیر کسی سویٹر کوٹ کے ایک نوجوان براجمان تھا جس کی ہیئت پر اسے قطعی طور پر نظرانداز کرتے ہوئے ہم نے نگاہ دور تک دوڑائی لیکن مطلوبہ صارف موجود نہیں۔ کال کی بھیا کہاں ہیں بولے آپ کے سامنے۔ اب جو نقاب رخ سے اٹھایا تو واقعی وہ "سجیلا نوجوان" اپنے صاحب تھے۔ جناح کی طرز پر پہلے تو جھڑکے کہ آپ وقت کی پابندی نہیں کرتے۔ عرض کی حضور ہم پاکستانی وقت کے مطابق عین مقررہ وقت پر پہنچے ہیں (طے شدہ وقت سے محض 15، 20 منٹ بعد میں آنا پاکستانی مقررہ وقت ہے، ہاں اگر گھنٹہ ڈیڑھ بعد آئے تو اسے کہہ سکتے ہیں کہ دس پندرہ منٹ تاخیر سے آئے ہیں)۔ کھانے کی میز پر بیٹھے تو ڈاکٹر صاحب اور صاحب ایک دوسرے کو تاکنے بیٹھ گئے کیونکہ یہ ان احباب کی آپس میں پہلی ملاقات تھی۔ چند ساعتیں اس کیفیت میں گزریں تو مجبورا کھنگورا مارنا پڑا کہ صاحب تھوڑا فلمی ماحول بن گیا ہے۔ یہاں ابتدائیے کا حکم نامہ دیا گیا اور اب باقاعدہ گفتگو کا پہلا دور شروع ہوا۔ جس میں ابتداء صاحب نے اپنے معمولات زندگی پر روشنی ڈالی اور ڈاکٹر صاحب نے اپنی مصروفیات مختصرا ذکر کیں۔ اب کھانے کی آمد پر گفتگو کچھ سماجی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی موضوعات پر رہی۔ لیکن اس میں کچھ غیر پارلیمانی الفاظ کے استعمال پر یہ حصہ کاروائی سے حذف کیا جارہا ہے۔ کھانے کے بعد "ہماری ادبی روایات اور زوال" پر تبادلۂ خیال رہا۔ ہماری نوجوان نسل جس سمت جارہی ہے۔ ایسے میں "ابھرتے ہوئے نوجوان شعراء" کے ہتھے شاعری اور پھر وہ شاعری ہماری نوجوان نسل کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ اس دور میں بھرپور غیبتوں کا تڑکا لگا۔ ایسے میں صاحب نے "ہماری ادبی روایات" پر چند تاریخی حواجات پیش کیے ۔ جو فقیر کے لیے انتہائی اہم تھے جنہیں یاداشت میں رکھتے ہوئے فورا نوٹ کیا اور صاحب کو پھر زحمت دی کہ اس حوالے سے مزید رہنمائی فرمائیں۔ کیونکہ اگلے ہفتے یونیورسٹی میں جس موضوع پر پریزنٹیشن دینی تھی یہ حصہ اس سے متعلق اور انتہائی موزوں تھا۔ جس پر ہم صاحب کے شکرگزار ہیں کہ آرمی جنرل ( جو ہمارے پروفیسر) کے سامنے ہمیں سرخرو کروایا۔ جس پر جنرل صاحب نے داد بھی دی۔ جو ہم نے فورا صاحب کو ایصال ثواب کی۔
بڑھتی ٹھنڈ اور ضرورت کے پیش نظر اگلا پڑاؤ چائے خانے پر تھا جس دوران نماز مغرب ادا کی۔ صاحب نے کلمہ اور نماز پڑھ کر دکھائی بلکہ ماضی کے اپنے معمولات صیام و قیام کا تذکرۂ پارسائی بھی سنایا۔ چائے کی میز پر پنجابیوں کا اپنی ماں بولی"پنجابی سے رویہ، پنجابی ادب کے زوال، پنجابی ماؤں کا کردار اور ہماری پرانی روایات جو اب رخصت ہو رہی ہیں" کا تذکرہ رہا۔ نین بھائی نے کچھ اپنا پنجابی کلام سنایا اور کچھ متروک ہوتے پنجابی الفاظ پر تبصرہ کیا۔ اب باری آئی ڈاکٹر صاحب کی جہاں کلام شاعر بزبان شاعر سنا گیا۔ ساتھ کچھ تڑکا بندۂ ناچیز نے بھی لگایا۔ کہ فقیر کو بھی کلام سنانے کا شوق ہے (شعراء کا اپنا نہیں)۔ اب صورتحال یہ بنی کہ پہلا کلام سنایا تو صاحب اور ڈاکٹر صاحب ہونقوں کی طرح دیکھنے لگے۔ آنکھوں آنکھوں میں اشارہ کیا چلو یہ سن لو پھرنہیں۔ ہم نے اگلا کلام شروع کیا تو پھر کن اکھیوں سے تکنے لگے چلو آئندہ موقع نہیں دیں گے۔ تیسرا کلام شروع کیا تو حالت یہ بنی کہ آئندہ اسے ملاقات میں نہیں لانا (یہ باتیں آنکھوں آنکھوں میں ہوئیں لفظا نہیں)۔ اس پورے دورانیہ میں فقیر نے احمد فراز، مشتاق عاجز، امان اللہ خان جدون کے کلام سنائے، کوئی جدید "تہذیب" کا شعر نہ پڑھا، لیکن مجال ہے کہ داد کا ایک لقمہ بھی دیا ہو ان دونوں احباب نے۔ ایسے میں اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کے لیے چائے کا دوسرا دور چلا۔ یہاں اب ڈاکٹر صاحب کا حوصلہ سردی کے آگے جواب دے رہا تھا اور صاحب کو آقاؤں کے بلاوے۔ آئندہ کے وعدوں پر رخصت و اجازت لی۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمیں ہمارے مقام سکونت پر چھوڑا اور چل دیے۔ اپنے مکان تک جاتے جاتے سوچتا رہا کہ کیا ہی اچھا دن تھا کہ یہ ملاقات ہوگئی اور دو تین ہفتے بعد ایسے ملاقات رکھ لینے چاہیے ( اچھا کھانا اور چائے تو مل ہی جاتے ہیں)۔
آخری تدوین: