چونکہ کالم نگار نے انٹرویو سننے کا دعوٰی کیا ہے، اس سے مزید شکوک ابھرتے ہیں کہ وہ انٹرویو ہوا بھی ہے کہ نہیں۔ کالم نگار کو یہ انٹرویو لکھی ہوئی حالت میں ملا (لکھی ہوئی اس لئے کہا کہ انہوں نے سٹوڈیو تصویر کا ذکر کیا ہے)۔ یعنی اصل تک پہنچنا کافی مشکل ہےاردو اخبارات کے بعض کالم نویس اپنی تحاریر کی اشاعت سے پہلے تحقیق کے عادی نہیں ہیں۔ انہیں بس لکھنا ہوتا ہے۔
میرے مراسلے والا لنک دیکھیئے گا، وہاں کنسلٹنٹ پیڈیاٹریشن ہے