طارق شاہ
محفلین
غزلِ
ہر غمِ روزگار چھوڑ دِیا
بے ثمر اِنتظار چھوڑ دِیا
تب مِلی جبْر سے یہ آزادی
جب سے ہر اِختیار چھوڑ دِیا
چھوڑ دی بوریا نشینی بھی
دائمی اِقتدار چھوڑ دِیا
فتح اوروں کے نام کرتے ہُوئے
دَم بَخود کارزار چھوڑ دِیا
غیر تو خیر ساتھ کیا دیتے
خود پہ بھی اِنحصار چھوڑ دِیا
چل دِیا وہ بھی دُوسری جانِب
میں نے بھی وہ دیار چھوڑ دِیا
دفن کردِیں بَھلی بُری یادیں
یاریاں چھوڑیں، یار چھوڑ دِیا
میں یہ سمجھا، کہ میں نے ہی شاید
یارِ مطلب برار چھوڑ دِیا
قافلے نے گزر کے رستے سے
گرد اُڑائی، غُبار چھوڑ دِیا
اپنی خوش بختِیاں تو یاد رَکِھیں
حسرتوں کا شُمار چھوڑ دِیا
سِینْت کر عِجز رکھ لِیا دِل میں
برمَلا اِنکسار چھوڑ دِیا
بے دِلی باقی رہ گئی یاسر
بے کلی، اِضطرار چھوڑ دِیا
ڈاکٹر خالد اقبال یاسر