ڈاکٹر دعاگو (صفحہ 125 تا 150)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

حسن علوی

محفلین
125

واپسی میں زیادہ دیر نہیں لگی تھی اور اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا تھا “اب تم چل سکتے ہو۔“

عمران نے اٹھ کر کوٹ پہنا۔ زخمی بازو والی آستین مارتھا نے بڑی احتیاط سے شانے تک چڑھالی تھی۔ لیکن اس دوران میں کچھ نہیں‌بولی تھی، انداز ایسا ہی تھا جیسے وہ عمران سے خفا ہو گئی ہو۔

عمران باہر نکل آیا۔ ڈاکٹر کے کمرے تک مارتھا ہی نے رہنمائی بھی کی۔ لیکن وہ اندر نہیں گئی۔

ڈاکٹر آرام کرسی پر نیم دراز اخبار دیکھ رہا تھا۔ عمران کو دیکھ کر اخبار ایک طرف ڈالتا ہوا سیدھا ہو بیٹھا۔ ہونٹوں پر خفیف مسکراہٹ تھی۔

“میں اٹھ کر تم سے مصافحہ نہیں کروں گا۔“ اس نے کہا۔ “بس بیٹھ جاؤ۔ اور اپنی خیریت سناؤ۔“

“سب خیریت ہی ھے ڈاکٹر۔“ عمران طویل سانس لے کر بولا اور سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔

مجھے افسوس ھے میرے بچے۔ میری وجہ سے تمہیں بڑی تکلیف اٹھانی پڑی۔“

“آپ کی وجہ سے؟“ عمران نے حیرت سے کہا۔

“ہاں میری وجہ سے۔ اور تم بھی خواہ مخواہ بننے کی کوشش نہ کرو۔ بھلا تم پر اندھیرے میں وار کئے جانے کا کیا مطلب تھا۔“

“لل۔۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔“

“کچھ نہیں پوری بات سنو! مجھے دراصل سزا مِل رہی ھے۔ کیونکہ میں نے ایک نامعلوم آدمی کا کہنا ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ کوئی نامعلوم آدمی مجھ سے یہ چاہتا تھا کہ میں اس کے لیئے جاسوسی کروں۔ اس نے مجھے ایک خط لکھا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ میں محکمہ خارجہ کی خبر رسانی بڑی آسانی سے کر سکتا ہوں۔ کیونکہ اس محکمے کے بڑے بڑے آفیسر میرے معتقد ہیں۔ میں‌ ان سے ان ککی مطلب کی بہت سی باتیں‌ معلوم کر سکتا ہوں۔ اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ اگر میں اس پر آمادہ ہو سکوں تو اسے خط لکھ کر ایک مخصوص جگہ پر رکھ دو، جہاں سے وہ اس طرف پہنچ جائے گا۔ میں نے نہ صرف انکار لکھ دیا بلکہ دھمکی بھی دی کہ اگر اس نے آئندہ مجھے کوئی خط لکھا تو وہ پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔“
 

حسن علوی

محفلین
126

عمران تھوڑی دیر کے لیئے کچھ سوچتا رہا۔ پھر بولا۔ “آخر آپ یہ سب مجھے کیوں بتانا چاہتے ہیں۔“

“ڈاکٹر دعاگو کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز سی مسکراہٹ آئی اور پھر اس نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ “برخوردار تمہیں اس لیئے بتا رہا ہوں کہ تم ڈپٹی سیکریٹری کی موت کا ذمہ دار مجھے سمجھتے ہو۔۔۔“

“ارے توبہ توبہ!“‌ عمران منہ پیٹتا ہوا بولا۔ “بھلا آپ کو کیوں۔“

“چیونکہ تمہارا پیشی یہی ھے۔ اس لیئے تم ہر چیز کو اسی عینک سے دیکھنے کے عادی ہو گئے ہو۔“

“میں نہیں سمجھا۔۔۔“

“کرتا تو ہوں۔۔۔“

“پھر۔۔۔۔؟“

“لیکن بھلا آپ کے معاملے میں اس کی گنجائش کہاں۔“ عمران نے کہا۔

“ہو یا نہ ہو۔ لیکن تم جیسے لوگ گنجائش پیدا کر ہی لیتے ہیں۔“ ڈاکٹر دعاگو بائیں آنکھ دبا کر مسکرایا۔

“ہوگا۔۔۔“ عمران لاپروائی سے شانے سکوڑ کر چھوڑتا ہوا بولا۔ “میں تو آپ سے اپنی ممی کی خیریت دریافت کرنے آیا تھا کہ ڈپٹی سیکریٹری کی خود کشی اچانک سامنے آ گئی۔ رونہ بھلا میں کیا جان سکتا تھا کہ ڈپٹی سیکریٹری قسم کے لوگ بھی دعا تعویذ کے قائل ہوتے ہیں۔“

“کچھ بھی سہی ۔۔۔ تم خطرے میں ہو۔۔۔۔ دو زہریلی سوئیوں سے بچ جانے کے بعد ریوالور کا شکار آخر ہو ہی گئے۔“

“ارے تو کیا وہ سوئیاں بھی میرے ہی لیئے تھیں۔“

“قطعی تھیں۔“

“آپ کیسے کہہ سکتے ہیں جناب۔“

“میرا منطقی شعور۔۔۔“ ڈاکٹر داہنی کنپٹی پر انگلی رکھ کر بولا۔

عمران کچھ نہ بولا۔ ڈاکٹر اسے داد طلب نظروں سے دیکھتا رہا۔ کچھ دیر بعد عمران نے کہا۔ “لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آتی۔ آخر ان سوئیوں کا مقصد کیا تھا۔ جب کہ دو شکاروں میں سے ایک بھی نہ مر سکا۔ لیکن کیا اندھیرے میں‌ چلائی جانے والی گولی بھی مجھے بخش دی۔۔۔ وہ محض اتفاق تھا کہ وہ بازو ہی میں‌لگی ورنہ تھوڑی سی اور ہٹ جاتی تو براہ راست دل ہی میں سوراخ ہوتا۔۔۔“
 

حسن علوی

محفلین
127

“ہاں یہ بات قابلِ غور ھے۔“ ڈاکٹر دعاگو کچھ سوچتا ہوا بڑبڑایا۔ پھر تھوڑی دیر بعد بولا۔ “اگر میرا معاملہ ہوتا تو میں سوچتا کہ شاید وہ لوگ اس طرح مجھے اپنی خدمت پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں۔ خوفزدہ کرکے مجھے مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا کام کرنے پر تیار ہو جاؤں اور میرے ساتھ تو شاید یہی ہوا ھے۔ مجھے یقین ھے کہ بلی کے پنجے زہریلے تھے۔ لیکن زہر مہلک نہیں تھا۔ صرف کچھ دنوں‌ کےلیئے جسمانی نظام معطل کر دینے کےلیئے کوئی ہلکے قسم کا زہر تھا تاکہ زندہ تو رہوں لیکن ان لوگوں سے مرعوب ہو جاؤں اور وہ مجھ سے جو کام چاہیں لے سکیں۔“

“لیکن وہ سوئیاں۔۔۔“ عمران نے پھر اپنا سوال دہرایا۔

“خدا جانے۔۔۔۔“ ڈاکٹر اکتائے ہوئے لہجے میں‌ بولا اور اپنی پیشانی رگڑنے لگا۔

“خیر ماریئے گولی!“ عمران تھوڑی دیر تک کچھ سوچتے رہنے کے بعد بولا۔ “اب اگر آپ ان کا کام کرنے پر آمادگی ظاہر کرنا چاہیں تو کس طرح کریں گے۔“

“تھری سیون ایٹ ناٹ پر فون کرکے۔۔۔“ ڈاکٹر بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔

“تو پھر آپ نے ٹیلی فون ڈائرکٹری کی سطریں تک گن ڈالی ہوں گی۔“

“قدرتی بات ھے۔“

“وہ کس کا نمبر ھے۔“

“اپنے یہاں کے محکمہ سراغرسانی کے ایک انسپکٹر کا۔۔۔“ ڈاکٹر نے تشویش کن لہجے میں کہا۔

“پھر آپ نے کیا کِیا۔۔۔“

“یہی کہ کبھی اس نمبر کو آزمانے کی کوشش نہیں کی۔۔۔“

“ہوں۔۔۔“ عمران متفکرانہ انداز میں‌سر ہلا کر بولا۔ “اب کیا ارادہ ھے“

“سمجھ نہیں‌آتا کہ کیا کروں۔۔“

“ڈوہرنگ سے آپ کے کیسے تعلقات ہیں۔۔۔“

“کبھی اس سے ملنے کا اتفاق نہیں‌ ہوا۔۔۔ نام اکثر سننے میں آتا ھے۔ پھر جب اسکی لڑکی تمہارے وقت زہریلی سوئی کا شکار ہوئی تو بہت زیادہ سننے میں آیا۔۔۔ یہ سنا ھے کہ اس وقت یہ شہر کے بچے بچے کی زبان پر ھے۔“

“اچھا ایک بات اور۔“ عمران اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔ “وہ بلی کیسی تھی جس کے پیچھے خونخوار بلا اندر آیا تھا۔“

“ایک ہی جھلک ہی دیکھ سکا تھا۔۔ غالباً سیامی تھی۔۔ رنگ سیاہ تھا۔“
 

حسن علوی

محفلین
128

نجانے کیوں عمران کو ایسا ‌محسوس ہوا جیسے قریب ہی کہیں کوئی تیسرا آدمی بھی موجود ہو۔۔۔ وہ اٹھ کر تیزی سے کھڑکی کے قریب پہنچا اور سر باہر نکال کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔۔ اس کھڑکی میں سلاخیں نہیں تھیں اور یہ عقبی لان کی طرف کھلتی تھی۔۔

دور تک کوئی نظر نہیں آیا۔ وہ پھر اپنی جگہ پر واپس آگیا۔ ڈاکٹر دعاگو اسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس سے نظر ملتے ہی عمران تھوڑا سا مسکرایا ار پھر بےحد سنجیدہ آنے لگا تھا۔

“کیوں نہیں۔ اب اپنے سائے سے بھی بھڑکنے لگا ہوں۔“

“تم جیسے لوگوں کےلیئے اچھی ہی بات ھے۔“ ڈاکٹر دعاگو نے بائیں آنکھ دبا کر کہا۔ پھر وہ دونوں ہی کچھ سوچنے لگے۔

“اب تم کیا کرو گے۔۔۔“ ڈاکٹر نے پوچھا۔

“آپ کو مشورہ دوں گا کہ ان لوگوں سے ضرور رابطہ قائم کیجیئے۔“

“لیکن اگر میں کسی مصیبت میں پھنس گیا تو۔۔ ہو سکتا ھے کہ۔۔!“ وہ جملہ مکمل کرنے سے پہلے ہی خاموش ہوگیا۔

عمران اسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھنے لگا لیکن وہ کچھ نہ بولا۔

دفعتاً کسی نے دروازے پر بہت زوردار قسم کی دستک دی ڈاکٹر جھنجھلا کر چیخا۔ “کون ھے؟“

“باس!“ باہر سے جوزف کی غراہٹ سنائی دی۔ “وہ سفید بندریا بیہوش ہو گئی ھے اور اس کے منہ سے بکثرت رال بہہ رہی ھے۔۔۔“


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



عمران کے ساتھ ہی ڈاکٹر دعاگو بھی دوڑ پڑا تھا! حالانکہ ڈاکٹر نے اسے کمرے سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔

وہ اس وقت کمرے کے قریب پہنچے جب بیہوش مارتھا کو اسٹیچر پر ڈال کر آپریشن تھیٹر کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔۔

عمران نے بھی اس کے منہ سے رطوبت بہتی دیکھی تھی۔ اسٹیچر کے ساتھ ایک لیڈی ڈاکٹر اور دو نرسیں بھی تھیں۔ عمران کے استفسار پر لیڈی ڈاکٹر نے کہا۔ “یہ علامات بھی زہر ہی کی ہیں۔۔“
 

حسن علوی

محفلین
129-130

وہ اسے آپریشن تھیٹر میں لے گئیں۔۔ عمران اور ڈاکٹر دعاگو باہر ہی رُک گئے تھے۔

“یہ کیا مصیبت ھے۔۔“ عمران بڑبڑایا۔

“مصیبت ھے میری۔“ ڈاکٹر دعاگو پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا۔ “وہ مردود یہی جتانا چاہتا ھے کہ جس وقت چاہے مجھے یا متعلقین کو ختم کر سکتا ھے اور اسکا بال بھی بیکا نہ ہوگا۔۔!“

عمران کچھ نہ بولا۔ اس کی آنکھوں میں گہرے تفکر کے آثار تھے۔

تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد لیڈی ڈاکٹر واپس آئی۔۔اس کی آنکھوں سے مایوسی جھلک رہی تھی۔۔

“کک کیوں۔۔ کیا بات ھے۔“ ڈاکٹر دعاگو نے ہکلا کر پوچھا۔

“اس بار قطعی امید نہیں ھے۔“

“نہیں۔۔“ دعاگو تقریباً چیخ پڑا۔ پھر اگر عمران آگے بڑھ کر دائیں بازو کا سہارا نہ دیتا تو شاید چکرا کر گر ہی گیا ہوتا۔

“لیکن۔۔ “ لیڈی ڈاکٹر آہستہ سے بولی۔ “اگر ایک منٹ کے لیئے بھی ہوش آگیا تو شاید اسے بچایا جا سکے۔۔!“

“کیا زہر ھے؟“ عمران نے پوچھا۔

“بہت ہی مہلک۔“ لیڈی ڈاکٹر نے کہا۔ “لیکن اللہ کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔“

وہ پھر اندر چلی گئی۔

“عمران۔۔“ ڈاکٹر دعاگو بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ “مارتھا بڑی اچھی لڑکی ھے۔ میری کوئی اولاد نہیں۔۔۔۔۔ میں نے اسے ہمیشہ اپنی بیٹی کی طرح چاہا ھے۔ اگر وہ مر گئی تو کیا ہوگا۔۔ میری زندگی کا وہ خلا کس طرح پُر ہوگا۔“

“حوصلہ رکھو ڈاکٹر۔۔۔ وہ واقعی بہت اچھی لڑکی ھے۔۔“

“دیکھو۔۔ اس کے خلوص ہی کا اثر ھے کہ یہاں کا عملہ کتنی جلدی اس سے مانوس ہو گیا۔“

ڈاکٹر نے کہا۔

عمران کچھ نہ بولا۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر پھر دکھائی دی۔ اب اس کے چہرے پر سراسیمگی کے آثار تھے۔

“ہوش آگیا ھے۔ لیکن۔۔ لیکن۔۔“

“لیکن کیا۔“ ڈاکٹر بوکھلا کر کھڑا ہو گیا۔ “جلدی کہو۔“

“خون کی قے ہوئی ھے۔ جس میں خون کے لختے بھی شامل ہیں۔ وہ آپ دونوں کو دیکھنا چاہتی ھے۔“

“چلو۔ چلو۔۔۔۔۔۔“ ڈاکٹر کانپتی ہوئی سی آواز میں بولا۔ “عمران مجھے سہارا دو۔۔ میری آنکھوں میں‌اندھیرا چھا رہا ھے۔“

وہ دونوں آپریشن تھیٹر میں آئے۔ مارتھا میز پر چِت پڑی تھی۔۔۔۔ویراں ویراں سی آنکھیں چھت کی طرف نگراں تھیں۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ اپنی بینائی ہی کھو بیٹھی ہو۔!

“مارتھا۔“ ڈاکٹر مضطربانہ انداز میں میز کی طرف جھپٹا۔

“ڈاکٹر۔“ وہ چھت سے نظریں ہٹائے بغیر آہستہ سے بولی۔ “عمران کہاں ھے۔“

“وہ بھی ھے۔ تم کیسی ہو“

“عمران تم ادھر آؤ بائیں جانب۔۔۔“ مارتھا نے کہا اور عمران چپ چاپ قریب چلا گیا۔

“تم چپ کیوں ہو عمران۔۔“ اس نے اپنا بایاں ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ “میرا ہاتھ پکڑ لو۔۔۔ تم بھی ڈاکٹر۔۔“

داہنا ہاتھ ڈاکٹر کی طرف بڑھ گیا۔ لیکن آنکھیں اب بھی چھت پر ہی لگی تھیں۔

“تم دونوں میرے ہاتھ پکڑ لو۔۔مجھے روک لو۔ مم۔ میں مرنا نہیں چاہتی۔۔۔۔۔ڈاکٹر اپنا فن آزماؤ۔۔مجھے بچا لو۔۔۔میں مرنا نہیں چاہتی۔۔“

“تم زندہ رہو گی بےبی۔۔ یہ مت سوچو!“ ڈاکٹر بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو ڈھلک کر داڑھی میں جذب ہوتے جارہے تھے۔

“عمران بولو۔ تم چپ کیوں ہو۔۔۔۔مجھے ہنساؤ ڈئیر۔۔۔“

عمران صرف تھوک نگل کر رہ گیا اس کا حلق خشک ہو گیا تھا! سمجھ میں نہیں‌ آ رہا تھا کہ اسے کیا کہنا چاہیئے۔ اس کے لیئے قطعی نئی سشویشن تھی۔۔ویسے وہ سوچ رہا تھا کہ مارتھا شاید ہی بچ سکے۔ چہرے پر مردنی چھا گئی تھی اور آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے بہت نمایاں ہو گئے تھے۔

“مم۔۔ میں نے اکثر بڑی سخت باتیں تمہیں کہہ دی تھیں۔ مجھے معاف کر دو عمران!“

“تم اچھی ہو جاؤ گی۔۔ بےبی۔۔ مطمئین رہو۔“

“مجھے یقین نہیں۔۔۔۔“ مارتھا نے گہری سانس لی۔ “کلیجہ کٹا جا رہا ھے ایسا محسوس ہو رہا ھے جیسے سینہ جہنم بن گیا ہو۔۔۔کیسی جلن ھے۔۔۔خدا رحم کر۔ اے خدا رحم کر۔ تم دونوں یہاں سے چلے جاؤ۔۔جتنی جلدی ممکن ہو۔۔۔ میں نے صراحی سے پانی پیا تھا۔“

عمران اس کا ہاتھ چھوڑ کر دروازے کی طرف جھپٹا۔

مارتھا کے کمرے کے سامنے جوزف اب بھی موجود تھا۔
 

حسن علوی

محفلین
131

“اس کے بعد سے کوئی اندر تو نہیں گیا۔“ عمران نے اس سے پوچھا۔

“نہیں باس!“ جوزف بولا۔ “اب وہ کیسی ھے۔“

عمران جواب دیئے بغیر اندر گھس گیا۔۔ سب سے پہلے صراحی پر نظر پڑی۔ صراحی میں پانی بھی موجود تھا۔ عمران نے جوزف کو آواز دی۔ اور اس سے کہا۔ “تم یہاں ٹھہرو اور کمرہ اندر سے بند کر لینا۔۔۔۔ میں ابھی آیا۔“

پھر پشت پر کھلنے والی کھڑکی پر نظر ڈالی جو بند تھی چٹخنی بھی چڑھی ہوئی تھی۔

“کیا بات ھے باس۔“ جوزف نے تشویش کن لہجے میں پوچھا۔

“وہ مر رہی ھے جوزف۔ اس بار اسے پانی میں زہر دیا گیا ھے۔“

“پانی میں۔۔۔“ جوزف نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ دیں۔

“اس صراحی کا پانی زہریلا ھے۔“ عمران نے صراحی کی طرف اشارہ کیا۔

“کیا۔۔۔۔!“ جوزف حلق پھاڑ کر چیخا۔

“شور مت مچاؤ۔ یہ ہسپتال ھے۔“ عمران نے نا خوشگوار لہجے میں کہا۔

“ارے اب میں بھی مر جاؤں‌ گا۔“ جوزف خوفزدہ آواز میں بولا۔ “تم کہتے ہو شور نہ مچاؤ۔۔“

“کیوں تُو کیوں مر جائے گا۔۔۔۔“ عمران نے آنکھیں نکالیں۔

“ابھی ابھی تو پیا ھے میں نے اس میں سے پانی۔۔۔۔“ وہ پیٹ پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔ “اب کیا ہوگا۔ ارے میں مر جاؤں گا؟ میں۔ میں۔ نہیں باس مجھے بچا لو۔۔۔۔“

پھر وہ کمرے میں‌ کوئی چیز تلاش کرنے لگا۔ چارون طرف ناچتا پھر رہا تھا۔

عمران اسے حیرت سے دیکھتا رہا۔ دفعتاً جوزف رک کر دھاڑا۔ “لعنت تمہاری تہذیب اور تمدن پر۔۔ جان بچانے کے لیئے مجھے ایک مکھی بھی نہیں مل رہی ھے۔“

“مکھی۔۔؟ مکھی کیا کرے گا۔“

“کھاؤں گا۔۔۔۔!“

عمران کو ہنسی آ گئی۔ ویسے وہ سمجھ گیا تھا کہ جوزف قے کرنا چاہتا ھے۔

پھر وہ اسے ساتھ لے کر کمرے سے نکل ہی رہا تھا کہ پولیس انسپکٹر سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ جو اسی طرف آ رہا تھا۔

“آپ لوگ براہ کرم کمرہ ہمارے حوالے کر دیجیئے۔“ اس نے عمران سے کہا۔

“صاحی کا خیال رکھیئے گا۔۔۔“ عمران بولا۔ “یہ بھی اس میں سے پانی پی چکا ھے۔“
 

حسن علوی

محفلین
132

اب جوزف کا ہاتھ پکڑے کنسلٹنگ روم کی طرف گھسیٹے لئے جا رہا تھا۔

کئی ڈاکٹروں نے جوزف کا معائنہ کرکے استفراعی دوائیں دیں۔ تیسرے ڈوز کے بعد جوزف کو قے ہوئی جسے کیمیاوی تجزیہ کے لیئے محفوظ کر لیا گیا۔

کچھ انجکشن بھی دیئے گئے اور عمران کو پہلی بار معلوم ہوا کہ جوزف جو نہ جانے کتنے نیزوں کے گھاؤ سہہ چکا ہوگا۔ انجکشن سے بےحد ڈرتا ھے۔ انجکشن لگنے سے قبل اس کے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگتی تھیں۔ جب سوئی بازو پر رکھی جاتی تو دوسری طرف منہ پھیر کر آنکھیں بند کر لیتا تھا اور نچلا ہونٹ بھی دانتوں میں‌دبا لیتا تھا۔

بہر حال وہ کافی دیر تک نہ مر سکا! دوسری طرف عمران کو مارتھا کی موت کی اطلاع ملی اور وہ بےحد مغموم نظر آنے لگا۔ ڈاکٹر دعاگو تو بچاڑیں کھا رہا تھا۔ بلکہ کسی ننھے سے بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔

کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی جوزف نہ مرا۔ ادھر اس کی قے اور صراحی کے پانی کا تجزیہ بھی ہو چکا تھا۔ دونوں میں زہر کا شائبہ بھی نہ ملا۔

اسی شام کیپٹن فیاض پھر عمران کا دماغ چاٹ رہا تھا۔

“پھر وہ کیسے مری۔“ اس نے کہا۔

“زہر سے۔۔۔۔ لیکن وہ صراحی کے پانی میں ہرگز نہیں تھا۔“

“پانی بدلا بھی جا سکتا ھے۔۔۔۔“

“نا ممکن۔۔جوزف دروازے سے ہلا بھی نہیں تھا۔“

“جوزف۔“ کیپٹن فیاض غرایا۔ “کیا وجہ ھے کہ میں اسی پر شبہ نہ کروں۔“

“شبہ نہ کرنے کی معقول وجہ سوچو۔“

“وہ تمہیں بےحد چاہتا ھے۔“ فیایض کچھ سوچتا ہوا بولا۔ “اس لیئے مارتھا کا وجود برداشت نہ کر سکا کیونکہ وہ شاید تمہیں چاہنے لگی تھی۔“

“اس فارمولے کے تحت تو تمہیں بھی بہت پہلے ہی اپنی بیوی کے ہاتھوں قتل ہو جانا چاہیئے تھا۔۔۔۔ کیونک تم بھی مجھے بہت چاہتے ہو۔۔ چاہتے ہو نا۔۔۔۔“

“عمران سنجیدہ ہو جاؤ۔۔۔۔ دلدل میں‌پھنس گئے ہو تم۔“

“اور تم بھنور میں چکرا رھے ہو۔۔۔“

“مجھے جوزف کو حراست میں لینا پڑے گا۔“

“ضرور کوشش کرو۔۔۔ میں خود ہی یہی چاہتا ہوں کہ کچھ دنوں کے لیئے اس سے پیچھا چھوٹ جائے۔“
 

حسن علوی

محفلین
133

فیاض کچھ نہ بولا۔

وہ ہسپتال کے اسی کمرے میں بیٹھے گفتگو کر رھے تھے جہاں مارتھا مقیم تھی۔

“بڑی اچھی لڑکی تھی۔۔۔“ فیاض نے تھوڑی دیر بعد کہا۔

“جی!“ عمران چونک پڑا۔ تھوڑی دیر تک فیاض کو گھورتا رہا پھر بولا۔ “جی ہاں۔“

“اور شاید اس کی موت کا باعث بھی تم ہی بنے ہو۔“

“جی میری ہی وجہ سے تو سوہنی مہینوال، ہیر رانجھا، لیلٰی مجنوں، حاتم طائی وغیرہ سب ہی مر گئے تھے۔“

“تم سے زیادہ شقی القلب آدمی میری نظر سے ابھی تک نہیں گزرا۔“

ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ھے۔ بچے ہو!“

“کام کی بات کرو۔۔۔۔۔۔“ فیاض جھنجھلا گیا۔ “مجھے جوزف کو گرفتار کرنا ہی پڑے گا۔۔“

“میں ‌نے کب منع کیا ھے۔ ضرور کرو۔“

“اور تمہاری پوزیشن بھی صاف نہیں ہوگی۔“

“پہلے ہی کب رہی ھے۔“

اتنے میں جوزف نے اندر آ کر کسی کا ملاقاتی کارڈ دیا۔

“آنے دو۔۔“ عمران نے طویل سانس لی اور فیاض سے بولا۔ “کرنل ڈوہرنگ۔“

دوسرے ہی لمحے دروازہ کھلا اور کرنل ڈوہرنگ اندر داخل ہوا۔

“اوہو۔۔۔“ اس نے فیاض کو مخاطب کر کے کہا۔ “آپ بھی تشریف فرما ہیں جناب!“

“ہاؤ ڈو یو ڈو کرنل۔۔“ فیاض‌ نے اٹھ کر اس سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔

“شکریہ۔ ٹھیک ہوں!“ کرنل نے کہا اور عمران کا شانہ تھپکتا ہوا بولا۔۔ “تم کیسے ہو!“

“شکریہ! غنیمت ہوں۔“

“میں نے سنا ھے کہ وہ لڑکی جو وتمہارے ساتھ تھی زہر خورانی کا شکار ہو گئی۔“

“ہاں۔۔۔“ عمران نے طویل سانس لی اور احمقانہ انداز میں اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔

“مجھے افسوس ھے!“ ڈوہرنگ نے کہا۔ “کیا تم دونوں گہرے دوست تھے۔“

“نہیں ایسے گہرے بھی نہیں! بس جان پہچان تھی۔ میرے گولی لگی تو یہاں پرائیویٹ وارڈ میں‌کوئی کمرہ خالی نہیں تھا۔ اس نے اپنا کمرہ پیش کر دیا۔“

“ خیر۔۔۔ خیر۔۔۔ وہ یقیناً کوئی نیک نفس لڑکی تھی۔۔۔“
 

حسن علوی

محفلین
134

“کلارا کا کیا حال ھے!“ عمران نے پوچھا۔

“ٹھیک ھے۔۔ کیا تم اس سے نہیں ملے۔۔ یہیں تو ھے۔“

“موقع ہی نہیں مل سکا۔ اب ملوں گا۔“

“میں نے بتایا تھا تمہارے متعلق۔ اسے افسوس ھے“

“شکریہ۔۔۔!“

دفعتاً باہر سے شور کی آواز آئی۔ جوزف کسی سے جھگڑا کر رہا تھا! دوسری آواز پہچانی نہ جا سکی۔

“کیا مصیبت ھے۔“ عمران اٹھتا ہوا بولا۔

باہر ڈوہرنگ کے باڈی گارڈ نگونڈ اور جوزف کے درمیان گالیوں کا تبادلہ ہو رہا تھا! دونوں ایک دوسرے کو مار ڈالنے پر آمادہ نظر آ رھے تھے۔ جوزف تو خصوصیت سے کسی بگڑے ہوئے ہاتھی کی مثال پیش کر رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے خون خرابہ ہوئے بغیر ان میں کوئی خاموش نہ ہو سکے گا۔

“کیا ہو رہا ھے؟“ عمران نے جوزف کو للکارا۔

“تم دخل مت دو باس اور اگر یہ مرد ھے تو اپنے باس کو بھی دخل اندازی سے باز رکھے گا۔“

“کیا قصہ ھے نگونڈا“ ڈوہرنگ غرایا۔

“کچھ نہیں باس“ نگونڈا ہنس کر بولا۔ “ یہ میرا ہموطن ھے اور پرانا شناسا ھے۔ اسے اس وقت کچھ پرانی باتیں یاد دلادی تھیں۔ بس آپے سے باہر ہو گیا۔“

“کیوں یاد دلا دی تھیں پرانی باتیں۔“

“بس یاد آ گئی تھیں باس۔“‌نگونڈا ڈھٹائی سے ہنستا رہا۔

“اچھا بس خاموش۔۔۔ ورنہ ٹھوکروں سے اڑا کر رکھ دوں گا۔“ ڈوہرنگ نے کہا۔

“جوزف۔۔ بکواس بند!“ عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔

بدقت تمام وہ دونوں خاموش ہوئے۔

فیاض نے عمران سے پوچھا۔ “اسے کتنی تنخواہ دے رہے ہو۔“

“تنخواہ۔۔۔“ عمران نے متحیرانہ لہجے میں دہرایا۔ “ارے یہ تو ولی عہد ھے اپنا راج پاٹ اسے ہی تو سونپنا ھے۔“

ڈوہرنگ عمران کی طرف ہاتھ بڑھا کر بولا۔ “اچھا لڑکے۔۔ اب میں جاؤں گا۔“

عمران نے مصافحہ کرکے اسے رخصت کر دیا۔ وہ حقیقتاً بہت مضمحل تھا۔ مارتھا کی موت نے گہرا صدمہ پہنچایا تھا۔ وہ بیچاری خواہ مخواہ ماری گئی۔ سوچتا اور ٹھنڈی سانس لے کر رہ جاتا۔
 

حسن علوی

محفلین
135

اس وقت فیاض کی موجودگی بیحد گراں گزر رہی تھی۔ کوئی اور ہوتا تو بلا تامل جوزف کو حکم دیتا کہ اسے اٹھا کر پھینک آئے۔

فیاض نے بھی گویا طے کر لیا تھا کہ بیٹھا ہی رہے گا، خواہ خاموش ہی کیوں نہ بیٹھنا پڑے۔

“پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کب ملے گی۔“ عمران نے پوچھا۔

“مل ہی جائے گی کبھی نہ کبھی۔۔ لیکن برخوردار یہ بتاؤ کہ آج یہاں اس کمرے میں کون کون آیا تھا۔“

“فہرست اس وقت بھی تمہاری جیب ہی میں موجود ہوگی۔“ عمران نے تلخ لہجے میں کہا۔

“کیا مطلب۔۔“

“میں اندھا نہیں ہوں فیاض صاحب۔۔ اچھی طرح جانتا ہوں کہ آپکے بعض ماتحت میری نگرانی فرما رہے ہیں۔۔۔“

“میں مجبور ہوں!“ فیاض نے طویل سانس لی۔ “سب کچھ رحمان صاحب کے حکم سے ہو رہا ھے۔“

“بہرحال فہرست آپ کی جیب میں موجود ھے۔“

“ھے تو۔۔“ فیاض اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا مسکرایا۔ پھر سنجیدگی اختیار کرکے بولا۔ “میرے پاس معقول وجوہ موجود ہیں کہ اس سلسلے میں اس لڑکی کو چیک کیا جائے جو آج یہاں آئی تھی اور پچھلی رات جو تمہارے ساتھ ٹپ ٹاپ میں تھی۔“

“وجوہات معلوم کرنا پسند کروں گا۔“

“وہ رقابت کی بناء پر مارتھا کو زہر دے سکتی تھی۔“

عمران ہنس پڑا۔ دیر تک ہنستا رہا۔ پھر بولا۔ “جی خوش کر دیا تم نے۔ ارے ہم جیسوں کے لیئے بھی اب شہر میں قتل ہوا کریں گے۔ زندہ باد۔“

“ہوں!“ فیاض غرایا۔ “تم ہو کس خیال میں۔ وہ اب تک حراست میں لی جا چکی ہوگی۔۔۔“


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عمران ہونٹ بھینچے کیپٹن فیاض کو گھورے جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد آہستہ سے بولا۔ “اگر وہ حراست میں لے لی گئی تو آج سے خود کو دنیا کا ناکارہ ترین آدمی تصور کروں گا۔ مالی ڈیر فیپٹن کیا ض۔۔۔۔“
 

حسن علوی

محفلین
136

“ کیا مطلب۔“

“ تم اسے حراست میں نہ لے سکو گے۔“

“ہونہہ!“ فیاض کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالتا ہوا بولا۔ “اس وقت وہ کوتوالی کی حوالات میں ہوگی۔“

“وہم ھے تمہارا۔“ عمران مسکرایا۔ “ویسے اگر میری بات پر یقین نہ ہو تو۔۔۔۔ فون کر کے معلوم کر لو، اپنے اسی ماتحت سے جسے اس کام پر لگایا تھا۔“

فیاض کی آنکھوں میں اضطراب کے آثار نظر آئے اور وہ سچ مچ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

اگر اس کے آدمی عمران کی نگرانی کرتے ہے تھے تو پھر بھلا ایکس ٹو کے آدمیوں نے خود اس کے آدمیوں کی نگرانی کیوں نہ کی ہوگی۔ عمران نے اسی وقت سے فیاض اور اس کے ماتحتوں کی نگرانی شروع کرا دی تھی جب ایک غیر ملکی سفارتخانے کے بعض افراد مشتبہ نظر آئے تھے اور فیاض کے محکمے کو ان کی طرف خصوصی توجہ دینی پڑی تھی۔

عمران نے جوزف کو آواز دی۔

“یس باس۔“

“تم جانتے ہو ڈوہرنگ کی لڑکی کس کمرے میں ھے۔“

“نہیں باس۔“

“تم جانتے ہو ڈوہرنگ کی لڑکی کس کمرے میں‌ ھے۔“

“نہیں باس۔“

“معلوم کر کے مجھے بتاؤ۔“

“تمہیں بتاؤں؟“ جوزف نے حیرت سے آنکھیں پھاڑتے ہوئے کہا۔

“ہاں کیوں؟“ عمران نے بھی آنکھیں نکالیں۔

“ابھی ایک لڑکی کا حشر دیکھ چکے ہو باس۔۔۔ اب دوسری بھی!“

“کیا بکتا ھے۔۔۔!“

“جو عورت تم سے قریب ہونے کی کوشش کرے گی اسی طرھ مر جائے گی۔“

“ہائیں۔۔۔ ہائیں۔۔۔۔ ابے کیوں؟“

“تم پر نرولی مٹیا کا سایہ ھے۔“

“نرولی مٹیا۔۔۔“ عمران بوکھلا کر بولا۔ “یہ کیا ہوتا ھے۔“

“ہوتی ھے۔۔ ہوس کی دیوی۔۔ بہت بڑی ملعونہ ھے۔۔۔۔ جس مرد پر اس کا سایہ ہو جائے اس سے تعلق رکھنے والی کوئی بھی عورت زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ سکتی۔“
 

حسن علوی

محفلین
137

“تو مارتھا کو اسی نے ختم کیا۔۔۔“

“یقیناً باس۔۔“

“اچھا۔۔۔“ عمران مردہ سی آواز میں بولا۔ “اپنی جگہ پر واپس جاؤ۔“

وہ باہر جا ہی رہا تھا کہ فیاض آندھی کی طرح دوبارہ کمرے میں داخل ہوا۔ جوزف باہر نکل گیا تھا۔ لیکن فیاض کو اس طرح گھورتا گیا تھا جیسے عمران کے کسی اشارے کا منتظر ہو۔

“ تم نے اچھا نہیں کیا۔“ فیاض دانت پیستا ہوا بولا۔

“کیا بات ھے۔“ عمران نے بھولپن سے پوچھا۔

“کچھ نہیں میں‌ تمہیں دیکھ لوں گا۔“ فیاض پھر دروازے کی طرف مڑتا ہوا بولا۔

“یہ تو سنتے جاؤ کہ مارتھا نرولی مٹیا کا شکار ہوئی تھی۔“

“ کیا مطلب۔۔۔“

“جوزف سے پوچھنا۔۔۔ ابھی مجھ سے کہہ رہا تھا۔“

فیاض باہر نکل گیا۔ عمران کی آنکھوں میں تشویش کے آثار تھے۔

پھر وہ جوزف اور فیاض کی آوازیں سنتا رہا۔ جو شاید کسی اختلافی مسئلے پر بہت ہی زور دار قسم کی بحث کر رہے تھے۔

دفعتاً دروازہ کھلا اور فیاض اندر گھستے ہوئے غصیلے لہجے میں بولا۔ “میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ بدمعاش کیا بک رہا ھے۔“

“نرولی مٹیا!“ عمران نے جلدی جلدی پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا۔

“عمران میں کہتا ہون بڑے خسارے میں رہو گے۔“ فیاض اسے گھونسا دکھاتے ہوئے بولا۔

“گٹ آؤٹ!“ عمران آنکھیں بند کر کے دھاڑا۔

فیاض کی روانگی کا اعلان دروازہ بند ہونے کی گونجیلی آواز نے کیا۔

عمران کو اطلاع مل چکی تھی کہ ڈاکٹر دعاگو بھی ہسپتال سے فارغ العلاج کر دیا گیا ھے۔ پھر معلوم ہوا کہ وہ یہاں‌ سے جا بھی چکا ھے۔

کچھ دیر بعد وہ برآمدے میں‌نکل آیا۔ بازو کی تکلیف کم ہو گئی تھی۔

دفعتاً ایک کاریڈور کے سرے پر سر سلطان کا بوڑھا اسٹینو نظر آیا۔ شاید کلارا کی خیریت دریافت کرنے آیا تھا۔

عمران کو دیکھ کر اسی طرف چلا آیا۔
 

حسن علوی

محفلین
138

“کہیئے حضرت!“ اس نے قریب پہنچ کر چبھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔ “ کیسے مزاج ہیں۔“

“شکریہ۔ آپ اپنی فرمایئے! محبوبہ دلنواز کے مزاج اقدس۔۔۔۔“

“اب جا رہا ہوں۔“ وہ ڈھٹائی سے ہنسا پھر بائیں آنکھ دبا کر بولا۔ “اب تو دوسرے ہی معاملات ہیں۔“

“خدا حافظ“ عمران نے بڑے خلوص سے کہا۔

وہ چلا گیا۔ عمران پھر ٹہلنے لگا۔ وہ دراصل اس کمرے کی نگرانی کر رہا تھا جہاں فون تھا۔۔۔ موقع کا منتظر تھا کہ کب فون خالی ہو اور کمرے میں بھی کوئی نہ ہو۔۔

کچھ دیر بعد موقع مل ہی گیا۔ اس نے ساری احتیاطوں کو بالائے طاق رکھ کر بلیک زیرو کے نمبر ڈائیل کئے اور جولیا کے متعلق رپورٹ طلب کی۔ بلیک زیرو نے بتایا کہ محکمہ سراغرسانی کے منصوبوں سے بروقت آگاہیہ ہونے پر جولیا نے روپوشی اختیار کرلی ھے۔

عمران نے اطمینان کی سانس لی اور ریسیور رکھ کر اپنے کمرے میں واپس آگیا۔

وہ رات تو سکون سے ہی گزری تھی لیکن دوسرے دن صبح ہی صبح محکمہ سراغرسانی کا ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آدھمکا۔ غالباً فیاض نے یہی سوچا تھا کہ پرانے تعلقات کی بناء پر وہ عمران پر سختی نہ کر سکے گا لہٰذا کسی دوسرے ہی کو یہ کام سونپا جائے۔

“آپ ہی مسٹر علی عمران ہیں۔“ اس نے رنگروٹوں کے سے انداز میں پوچھا۔ لہجے کا اکھڑ پن بہت نمایاں تھا۔

“جناب۔۔“

“مجھے مس جولیا نافٹزواٹر کا پتہ چاہیئے۔“

عمران نے اسے پتہ بتایا۔

“اس پتہ پر تو وہ موجود نہیں ھے، مکان بالکل خالی ملا ھے۔ فرنیچر کے علاوہ وہاں اور کوئی سامان نہیں“

“یہ کوئی ایسی تشویشناک بات نہیں اور دوسرا سامان بھی مہیا کیا جا سکتا ھے۔“

“ہوں۔“ ڈی ایس پی اسے گھورتا ہوا غرایا۔ “میں ابھی حال ہی میں کسی دوسرے شہر سے تبادلے پر آیا ہوں۔ مجھے علم نہیں کہ آپ رحمان صاحب کے صاحبزادے ہیں۔۔ کیا سمجھے جناب!“

“لاجواب آئیڈیا ھے۔“ عمران نے اسے متحیرانہ انداز میں دیکھتے ہوئے کہا۔

“پھر کیا خیال ھے۔ آپ سیدھی طرح گفتگو کریں گے یا نہیں۔۔۔۔“
 

حسن علوی

محفلین
139

“بہتر ھے تم اپنے ڈائریکٹر جنرل صاحب ہی سے پوچھ لو کہ میں کتنی سیدھی طرح گفتگو کرتا ہوں۔“

“مجھ سے نہیں چلے گی۔“ ڈی ایس پی تلخ سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔

“غالباً میرے پاس زیادہ وقت نہیں ھے!“ عمران نے کلائی کی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔

“مسٹر عمران آپ ہیں‌کس خیال میں۔ آپ کو اسا لڑکی کا پتہ بتانا ہی پڑے گا۔“

“جوزف۔۔“ عمران نے بلند آواز سے پکارا اور دوسرے ہی لمحے جوزف اندر تھا۔ عمران نے اسے عربی زبان میں سمجھانے کی کوشش کی کہ سامنے بیٹھا ہوا آدمی ناخواندہ مہمان کی طرح سر پر سوار ہو گیا ھے لہٰذا وہ کسی تدبیر سے اسے چلتا کرے۔

“مسٹر۔۔۔“ جوزف نے ڈی ایس پی کو مخاطب کر کے دانت نکالے اور چند لمحے خاموش رہا۔ پھر بولا۔ “آج موسم بڑا اچھا ھے۔ ہماری طرف ایک مثل کہی جاتی ھے کہ ایسے وقت میں دوسروں‌کو بور کرنے والا یا تو بیحد خدا رسیدہ ہوتے ہیں یا بالکل احمق۔۔۔۔“

“کیا بکواس ھے۔“ ڈی ایس پی عمران کو گھورتا ہوا غرایا۔

“اسے علم نہیں ھے کہ آپ ڈی ایس پی، سی آئی ڈی ہیں اور کہیئے تو میں بھی بھول جاؤں۔“

“اب میں تمہیں سچ مچ دیکھ لوں گا۔“

“پھر کسی وقت۔۔ اسس وقت تو چلے ہی جاؤ ورنہ۔۔۔“ عمران نے جملہ پورا نہیں کیا۔

“اچھی بات ھے۔۔۔“ وہ اٹھتا ہوا بولا۔ “تھوڑی دیر بعد ایک ایمبولینس تمہیں پولیس ہسپتال لے جائے گی۔۔ خود کو زیر حراست تصور کرو۔“

“جاتے ہو یا میں کسی خوبصورت سی نرس کو بلواؤں۔۔“

“اچھا۔۔ اچھا۔۔ دیکھوں گا!“ ڈی ایس پی پیر پٹختا ہوا باہر نکل گیا۔ جوزف نے اس کی پشت پر بچگانہ قسم کے اشارے کئے اور طرح طرح کے منہ بنا بنا کر ہنستا رہا۔

“نکل جاؤ۔۔۔“ عمران نے اسے بھی للکارا۔

معاملات الجھ گئے تھے۔ اسے سنجیدگی سے سوچنا تھا۔ کوئی راہ نکالنی تھی۔ جولیا کی پوزیشن خراب ہو گئی تھی۔ بہرحال ایک نیا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا جو اصل کام میں رکاوٹ بھی پیدا کر سکتا تھا۔

ہو سکتا تھا کہ ڈی ایس پی اپنی دھمکی کو عملی جامہ بھی پہنا دیتا۔ اس لیئے جلد ہی کچھ کرنا چاہیئے تھا۔

وہ پھر فون والے کمرے کی طرف روانہ ہو گیا، بلیک زیرو سے رابطہ قائم کر کے کچھ ہدایات دیں اور جوزف کے قریب آکر آہستہ سے بولا۔ “ایک ٹیکسی لاؤ اور عقبی پارک میں اسے روکے رکھنا۔۔“
 

حسن علوی

محفلین
140

جوزف چلا گیا۔ سپتال سے نکل بھاگنا آسان کام نہ تھا لیکن وہ تہیہ کر چکا تھا اب یہاں نہیں رہے گا۔

کچھ دیر بعد اندازہ کے مطابق اس نے فرض کر لیا کہ جوزف کی لائی ہوئی ٹیکسی عقبی پارک میں پہنچ چکی ہو گی۔

وہ ٹہلنے کے سے انداز میں نکلا اور ٹہلتا ہی چلا گیا۔ اندازہ درست تھا جوزف ٹکسی سمیت وہاں موجود تھا۔

“بیٹھ جاؤ۔۔ عمران نے اگلی نشست کی طرف اشارہ کیا اور جوزف نے چپ چاپ تعمیل کی۔ عمران نے پچھلی نشست پر بیٹھتے ہوئے ڈرائیور کو رحمان صاحب کی کوٹھی کا پتہ بتایا۔

کچھ دیر بعد جب ٹیکسی کوٹھی کی کمپاؤنڈ میں‌ داخل ہوئی تو ہلڑ مچ گیا کیونکہ خواتین صبح کی دھوپ کے لیئے لان ہی پر موجود تھیں۔۔۔ عمران کی عم زاد بہنوں نے تو ٹیکسی ہی کی بلائیں لینی شروع کر دیں تھیں۔۔۔۔۔ پھر ایک نے دروازہ کھول کر عمران کو اپنے بازو کا سہارا پیش کیا۔ ثریا البتہ دور کھڑی اسے اس طرح گھور رہی تھی جیسے کچہ ہی چبا جائے گی اور جوزف قریب ہی ‘اٹین شن‘ نظر آرہا تھا۔

عمران نے بعد آداب اماں بی کو یہ خوشخبری سنائی کہ اب وہ وہیں رہے گا۔ “کیوں؟ کیسا ھے بازو۔۔۔۔“ انہوں نے پوچھا۔ پھر جلدی سے بولیں۔ “چلو اندر چلو۔“ اور اس کی ایک چچا زاد بہن سے بولیں۔ “جاؤ۔۔۔ جلدی سے بستر درست کر دو۔“

“اب بستر کی ضرورت نہیں۔“ عمران سر ہلا کر بولا۔ “کیونکہ شاید تھوڑی دیر بعد گرفتار کر لیا جاؤں۔۔۔۔۔ ڈیڈی ابھی یہیں ہیں یا دفتر گئے ہیں؟“

“ہیں۔۔۔ لیکن تو گرفتار کیوں کر لیا جائے گا؟“

“وہ لڑکی مارتھا مر گئی نا۔ کسی نے اسے زہر دے دیا تھا۔ ڈیڈی کے ڈیپارٹمنٹ کو شبہ ھے کہ وہ حرکت جولیا کی ھے۔۔۔۔۔ ادھر وہ کمبخت جولیا اپنی خالہ سے ملنے سوئٹزرلینڈ چلی گئی ھے۔ اب وہ سب مجھ سے پتہ پوچھ رہے ہیں اس کا، بھلا میں کیا جانوں کہ اس کی خالہ جان کہاں رہتی ہیں“

“ارے آپ کو اپنی خلیا ساس کا پتہ نہیں معلوم؟“ ثریا بولی۔

“خخ خلیا ساس میں نے کبھی نہیں چکھی۔۔۔ اوہ تم شاید ٹومیٹو ساس کہنا چاہتی تھیں۔“
 

حسن علوی

محفلین
141

“بکواس بند کرو اور اندر جاؤ۔ تمہارے ڈیڈی لائبریری میں ہونگے۔“ بیگم رحمان نے کہا اور عمران نے جوزف کو شاگرد پیشہ کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔

رحمان صاحب لائبریری ہی میں ملے۔ حیرت سے عمران کو دیکھا اور کھکار کر بولے۔ “ تم ہسپتال سے کیوں چلے آئے۔۔۔۔“

“یہاں اس کوٹھی سے گرفتاری میرے لیئے فائدہ مند ثابت ہو گی۔ اخبارات بڑی شاندار سرخیاں جمائیں گے۔“

“اوہ سمجھا۔“ رحمان صاحب کچھ تامل کے بعد غرائے۔ “بیٹھ جاؤ اور بتاؤ کہ وہ لڑکی فٹزواٹر کہاں ھے۔“

“میں نہیں جانتا۔ قسم لے لیجیئے۔“

“ہوں لیکن تم بھی تو شک سے بالا تر نہیں ہو۔“

“میں تو کتے کے پلے سے بھی بالا تر نہیں ہوں۔۔۔۔ لیکن۔۔۔!“

“بکواس مت کرو۔ تم میرے لیئے بدنامی کا باعث بن رہے ہو۔ کیا کسی دوسرے شہر میں جا کر نہیں مر سکتے۔“

“مجبوری ھے۔۔۔ یہاں تو آپ ہی رحم کھا کر کفن دفن کا انتظام کر دیں گے۔ دیار غیر میں‌ میت کی بھی خرابی ہو جائے گی۔“

“جاؤ۔۔۔۔ نکلو یہاں سے۔“ وہ جھلا کر کھڑے ہو گئے۔

“کوٹھی سے؟“ عمران نے بڑے بھولپن سے پوچھا۔

“نہیں! اس کمرے سے۔“

“ویسے بڑی ضروری باتیں کرنی تھیں۔“ عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔

“آخر ڈپٹی سیکرٹری نے اس وقت خودکشی کیوں کی جب کہ آپ کا محکمہ اس میں دلچسپی لینے لگا تھا۔“

“ میں کیا جانوں۔“ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے خشک لہجے میں‌ بولے۔

“کیا ممکن نہیں کہ اسے اس نگرانی کا حکم ہو گیا ہو۔“

“ممکن ھے۔۔۔ پھر۔۔۔؟“

“اور یہ کہ آپ جانتے ہی ہونگے کہ وہ معاملہ براہ راست وزارتِ داخلہ سے تعلق رکھتا ھے۔ آپ نے یہ بھی اکثر سنا ہوگا کہ میں محکمہ خارجہ کی سیکرٹ سروس کے لیئے اکثر کام کرتا رہتا ہوں۔“

“ہوں۔“ رحمان صاحب اس کی آنکھوں میں دیکھتے رہے۔
 

حسن علوی

محفلین
142

“اور اگر اس کام میں خلل پڑا تو۔۔۔۔۔۔“

“جی ہاں۔۔۔۔ میں‌جانتا ہوں‌ آپ خاموش رہیئے!“ رحمان صاحب نے زہریلے لہجے میں کہا۔

“لیکن یہ تو فرمایئے آخر آپ نے ڈاکٹر دعاگو کو کیوں تاک لیا ھے۔“

“نہ تاکتا تو اتنے کام کی بات ہرگز معلوم نہ ہوتی۔“

“کیا مطلب۔۔۔!“

“کوئی نامعلوم آدمیم اسے محکمہ خارجہ کی سراغرسانی پر مجبور کرتا رہا ھے اس کا کہنا ھے چونکہ محکمہ خارجہ کے اکثر آفیسر تمہارے زیر علاج ہیں اس لیئے تم ان سے بہت کچھ معلوم کر سکو گے۔“

“یہ کب کی اطلاع ھے۔“

“مارتھا پر زہر کے اثرات ظاہر ہونے سے کچھ دیر قبل اس نے مجھے یہ بات بتائی تھی۔“

رحمان صاحب نے فعن کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ عمران بول پڑا۔ “ٹھہریئے!“

“کیوں؟“ رحمان صاحب ہاتھ روک کر غرائے۔

“کیا آپ اسے موت کے منہ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔۔۔“

“کیوں؟“ وہ میز پر ہاتھ مار کر بولے۔ “جلدی بتاؤ میرے پاس وقت نہیں ھے۔“

عمران نے وہ گفتگو من و عن دہرا دی جو ان دونوں کے درمیان ہوئی تھی۔

رحمان صاحب کسی فکر میں‌ پڑ گئے! عمران بیٹھا احمقانہ انداز میں ادھر اُدھر دیکھتا رہا۔ پھر اٹھا اور ہاتھ جھلاتا ہوا باہر چلا آیا۔

اس کی دونوں عم زاد بر آمدے میں‌شاید اسی کی منتظر تھیں۔

“ہائے بھائی جان!“ ان میں سے ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولی۔“ یہ رنگت کیسی نکھر آئی ھے تمہاری۔“

“کایا پلٹ ابٹن استعمال کر رہا ہوں آجکل۔“

“ یہ کونسا ابٹن ھے۔“ دوسری نے پوچھا۔

“ ارے تم نے اشتہار نہیں دیکھا اخباروں میں! ہر روز نئی سرخی کے ساتھ شائع ہوتا ھے۔ آج کے اخباروں نے سرخی جمائی تھی۔ شادی کیوں نہ ہوئی؟ کالی تھی۔ لیکن پندرہ دن کایا پلٹ ابٹن استعمال کرنے کے بعد دس شادیاں ہو گئیں۔۔ اور پھر یہ نگوڑ ماریاں منوں ابٹن کھا گئیں۔ لیکن وہی کالی۔ کالی۔۔۔ ناس جائے۔۔۔ ہاں نہیں تو۔۔۔“

عمران نے خاموش ہو کر کسی جلے تن شوہر کی طرح گردن جھٹکی۔۔
 

حسن علوی

محفلین
143

“ اوہ۔۔۔۔ بھائی جان آپ نے تو کافی ترقی کر لی ھے! کسی عمر رسیدہ بیوہ سے ٹریننگ لی ھے شاید۔۔“

“میں خود کسی بیوہ سے کم ہوں‌۔۔!“

“ہائے آپ تو رنڈے بھی نہ ہوئے!“ دوسری نے غمناک لہجے مں کہا۔ “بھائی جان رنڈوا کیا ہوتا ھے؟“ پہلی نے پوچھا۔

“یہ بیچارہ یتیم سے بھی بدتر ہوتا ھے۔۔کیونکہ یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنے والے تو بہتیرے پیدا ہو جاتے ہیں لیکن اس بیچارے کو کوئی نہیں پوچھتا۔“

“کیوں دماغ خراب کر رہی ہو تم لوگ اپنا۔“ پشت سے ثریا کھر کھرائی۔

“ہاں۔ ہاں۔ جاؤ۔ جا کر لگائی بجھائی کرو۔ عمران سر ہلا کر بولا۔ “جنت میں محل تعمیر ہو جائے گا تمہارے لیئے۔“

اتنے میں پھاٹک سے ہارن کی آواز آئی۔ ایک بہت بڑا ملٹری ٹرک آکر رکا تھا۔ جس پر مسلح سپاہی تھے۔۔ عمران نے ایک لیفٹنیٹ کو نیچے اترتے دیکھا جو دیکھا جو چوکیدار کے قریب کے پہنچ کر اس سے کچھ کہنے لگا تھا۔

عمران نے طویل سانس لی۔۔ اور خوفزدہ انداز میں لڑکیوں کی طرف دیکھنے لگا۔!


-----------------------------------------------------------------


لڑکیاں بھی متحیرانہ انداز میں ایک دوسری کی طرف دیکھ رہی تھیں۔

“اب خدا ہی ڈیڈی کی عزت آبرو بچائے۔۔۔“ ثریا بڑبڑائی۔

چوکیدار برآمدے کی طرف آرہا تھا لیکن لیفٹنیٹ پھاٹک ہی پر رک گیا تھا۔

“چھوٹا صاب۔۔۔۔ وہ آپ کو پوچھتا۔۔“ چوکیدار نے قریب پہنچ کر عمران سے کہا۔

“کیا پوچھتا۔۔“

“ملاقات چاہتا جناب۔“

“بلا لاؤ۔۔“

“نہیں۔۔“ ثریا جھلا کر بولی۔ “آپ خود تشریف لے جایئے۔“

“اچھا۔“ عمران نے طویل سانس لی اور چوکیدار کے ساتھ چل پڑا۔

جیسے ہی پھاٹک کے پاس پہنچا لیفٹنیٹ نے ایڑیاں بجا کر اسے سیلیوٹ کیا۔
 

حسن علوی

محفلین
144

“یہ خط ھے جناب!“ اس نے لفافہ عمران کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

عمران نے لفافہ لے کر چاک کیا تو خط اسی کے نام تھا۔ بغور دیکھتا رہا پھر اسے تہہ کر کے جیب میں رکھتا ہوا بولا۔ “کیا آپ کچھ دیر ڈرائینگ روم میں انتظار کر سکیں گے۔“ میں دراصل زخم کی ڈریسنگ کرانے جا رہا تھا۔“

“کیا ہسپتال جائیں گے۔۔۔۔“

“نہیں۔۔ یہیں گھر پر۔۔۔۔ آیئے!“ عمران نے کہا اور اسے اپنے ساتھ ڈرائنگ روم میں لے آیا۔ اسے بٹھا کر پھر لائبریری میں آیا اور رحمان صاحب کی موجودگی میں ہی بلیک زیرو کے نمبر ڈائیل کر کے بولا۔ “ہوں۔۔۔ میں عمران ہوں۔ کیا تمہارے علاوہ کسی اور کو بھی معلوم ھے کہ میں ہسپتال سے کوٹھی پہنچ گیا ہوں۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ ٹھیک۔ کیا ملٹری کی سیکرٹ سروس والوں کو بھی اس کا علم نہیں ہو سکتا؟ ہوں۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔ دیکھو تھری ایٹ سکس پر رنگ کر کے وائی سی سے پوچھو کہ عمران کی طلبی کے لیئے کوئی دستی خط تو نہیں بھیجا گیا؟۔۔۔ اور معلوم کر کے فوراً ہی مجھے مطلع کرو۔ جلدی۔ “عمران نے ریسیور رکھ کر کنکھیوں نے رحمان صاحب کی طرف دیکھا جو مسلسل اسے گھورے جا رہے تھے۔

“کیا قصہ ھے۔۔۔“ انہوں نے پوچھا۔

“مجھے اسٹیشن کمانڈر کے آفس میں طلب کیا گیا ھے۔“

“کیوں طلب کیا گیا ھے۔“

“خدا جانے۔۔۔ ایک سیکنڈ لیفٹنیٹ ڈرائینگ روم میں‌ میرا منتظر ھے اور ٹرک پھاٹک پر کھڑا ھے۔“

“ کیا کرتے پھر رہے ہو تم۔“ رحمان صاحب اٹھتے ہوئے غرائے۔

“بیٹھئے۔۔۔ بیٹھئے۔۔۔۔ جواب مل جانے پر ہی اس کا جواب دے سکوں گا۔“ عمران نے فون کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

“فون پر کون تھا؟“

“میرا ایک شناسا۔“ لیکن رحمان صاحب کی آنکھوں میں بے اعتباری صاف پڑھی جا سکتی تھی۔

پھر وہ دونوں ہی فون کی طرف گھور رہے تھے۔

کچھ دیر بعد فون کی گھنٹی بجی۔ عمران نے ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف سے بولنے والے کی باتوں پر ہوں ہوں کرتا رہا۔ پھر بولا۔ “وائی سی کو پھر فون کرو۔۔۔ بتاؤ کہ ایک ٹرک مسٹر رحمان کے پھاٹک پر موجود ھے اور خط لانے والا سیکنڈ لیفٹنیٹ ڈرائینگ روم میں عمران کا انتظار کر رہا ھے۔۔۔۔“
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top