125
واپسی میں زیادہ دیر نہیں لگی تھی اور اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا تھا “اب تم چل سکتے ہو۔“
عمران نے اٹھ کر کوٹ پہنا۔ زخمی بازو والی آستین مارتھا نے بڑی احتیاط سے شانے تک چڑھالی تھی۔ لیکن اس دوران میں کچھ نہیںبولی تھی، انداز ایسا ہی تھا جیسے وہ عمران سے خفا ہو گئی ہو۔
عمران باہر نکل آیا۔ ڈاکٹر کے کمرے تک مارتھا ہی نے رہنمائی بھی کی۔ لیکن وہ اندر نہیں گئی۔
ڈاکٹر آرام کرسی پر نیم دراز اخبار دیکھ رہا تھا۔ عمران کو دیکھ کر اخبار ایک طرف ڈالتا ہوا سیدھا ہو بیٹھا۔ ہونٹوں پر خفیف مسکراہٹ تھی۔
“میں اٹھ کر تم سے مصافحہ نہیں کروں گا۔“ اس نے کہا۔ “بس بیٹھ جاؤ۔ اور اپنی خیریت سناؤ۔“
“سب خیریت ہی ھے ڈاکٹر۔“ عمران طویل سانس لے کر بولا اور سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔
مجھے افسوس ھے میرے بچے۔ میری وجہ سے تمہیں بڑی تکلیف اٹھانی پڑی۔“
“آپ کی وجہ سے؟“ عمران نے حیرت سے کہا۔
“ہاں میری وجہ سے۔ اور تم بھی خواہ مخواہ بننے کی کوشش نہ کرو۔ بھلا تم پر اندھیرے میں وار کئے جانے کا کیا مطلب تھا۔“
“لل۔۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔“
“کچھ نہیں پوری بات سنو! مجھے دراصل سزا مِل رہی ھے۔ کیونکہ میں نے ایک نامعلوم آدمی کا کہنا ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ کوئی نامعلوم آدمی مجھ سے یہ چاہتا تھا کہ میں اس کے لیئے جاسوسی کروں۔ اس نے مجھے ایک خط لکھا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ میں محکمہ خارجہ کی خبر رسانی بڑی آسانی سے کر سکتا ہوں۔ کیونکہ اس محکمے کے بڑے بڑے آفیسر میرے معتقد ہیں۔ میں ان سے ان ککی مطلب کی بہت سی باتیں معلوم کر سکتا ہوں۔ اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ اگر میں اس پر آمادہ ہو سکوں تو اسے خط لکھ کر ایک مخصوص جگہ پر رکھ دو، جہاں سے وہ اس طرف پہنچ جائے گا۔ میں نے نہ صرف انکار لکھ دیا بلکہ دھمکی بھی دی کہ اگر اس نے آئندہ مجھے کوئی خط لکھا تو وہ پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔“