ناصر علی مرزا
معطل
ڈاکٹر سرفراز خان نیازی مشہور اردو ادیب و مدیر، علامہ نیاز فتح پوری کے صاحب زادے ہیں۔ فوٹو : فائل
جب وہ والدین کے ہمراہ لکھنؤ سے کراچی پہنچے، تو متوسط طبقے کے ایک علاقے میں سر چھپانے کو جگہ ملی۔ اس محلے میں بعض غریب خاندان بھی آباد تھے۔ 13 سالہ سرفراز خان نیازی نے وہیں پہلی بار غربت کی تباہ کاریاں دیکھیں۔ان غریب گھرانوں میں سبھی لوگ بہ مشکل دو وقت کی روٹی کھا کر جسم و جاں کا ناتا برقرار رکھتے۔ لیکن جب کوئی فرد بیمار پڑتا تو، پورا گھرانا عجیب آفت میں مبتلا ہوجاتا۔ آمدن محدود تھی لہٰذا باپ اس مخمصے میں گرفتار رہتا کہ چندا کی دوا لائے یا روز کا کھانا جس سے سب پیٹ بھرتے تھے؟
سرفراز نے بچشم خود دیکھا کہ غریبوں کو مہنگی دوا نہ ملتی، تو وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دیتے۔ ان واقعات نے حساس سرفراز پر گہرا اثر کیا۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ ادویہ سازی کا ماہر بنے گا تاکہ غربا کے لیے سستی دوائیں ایجاد کرسکے۔
نصف صدی قبل ایک پاکستانی لڑکے نے جو خواب دیکھا تھا، آج وہ امریکا میں اسے عملی جامہ پہنانے کی بھر پور کوشش کررہا ہے اور یہ کوئی عام سعی نہیں۔ماہرین طب کا کہنا ہے کہ اس کی کامیابی ادویہ سازی میں انقلاب برپا کرسکتی ہے۔ وجہ یہ کہ سرفراز انتہائی مہنگی مگر بہت مفید ادویہ کی سستی نقول بنانے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔
یہ 1995ء کی بات ہے جب ڈاکٹر سرفراز نیازی ماہر ادویہ سازی بن چکے تھے۔ انہیں احساس ہوا کہ مستقبل میں ’’حیاتی ادویہ‘‘ (biologics) انسانوں کے زیادہ کام آئیں گی۔ وجہ یہ ہے کہ جراثیم جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے خود کو طاقتور بنانے لگے تھے اور کئی اینٹی بائیوٹک ادویہ انہیں مارنے میں ناکام رہی تھیں۔
آج ڈاکٹر سرفراز نیازی کی زیر قیادت کمپنی کے سائنس داں ’’نو‘‘ حیاتی مماثل ادویہ پر کام کررہے ہیں۔ اسی حقیقت نے غیر معروف پاکستانی ماہر ادویہ سازی کو اچانک امریکا کی دنیائے طب میں مشہور ہستی بنادیا۔ وجہ یہی کہ ڈاکٹر سرفراز نیازی قیمتی انسانی زندگیاں بچانے والی ایسی ادویہ ایجاد کررہے ہیں جو بہترین ہونے کے ساتھ ساتھ سستی بھی ہوں گی۔
ڈاکٹر سرفراز نیازی کی شخصیت اس امر کا ثبوت ہے کہ ایک پاکستانی کو مواقع میسر آئیں، تو وہ اپنی ذہانت، محنت اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایسے محیر العقول کارنامے انجام دے سکتا ہے کہ دنیا والے دنگ رہ جائیں۔ اگلے ڈیڑھ برس میں ڈاکٹر سرفراز نیازی اپنی کمپنی میں تیار کردہ ’’چار حیاتی مماثل ادویہ‘‘ مارکیٹ میں لانا چاہتے ہیں۔ یہ حقیقی حیاتی ادویہ کے مقابلے میں ’’50 تا 75 فیصد‘‘ سستی ہوں گی جبکہ بیماری دور کرنے کی صلاحیت میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔
مکمل تحریر کے لیے لنک
http://www.express.pk/story/299713/