ڈاکٹر شیخ عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ

ڈاکٹر شیخ عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ
ہم بچپن سے پرھتے آرہے ہیں کہ سرزمین ہند میں پہلے مسلمان سپہ سالار محمد بن قاسم نے ایک مسلمان عورت کی فریاد پر سندھ میں آکر معرکہ آرائی کی تھی اور راجہ داھر کی ظلم کا خاتمہ کر دیا تھا ۔ پھر یہاں ان کی عظیم اسلاف کی انکسار اور حسن خلق دیکھ کر پسے ہوئے اور مظلوم عوام جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہو گئے ۔ پھر ہم بھی یہ پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں کہ برصغیر سے جزائر شرق الہند تک عرب تاجروں نے اپنے کردار اور اخلاق سے بے شمار ہندؤو، اچھوتوں اور بدھؤو کو مسلمان کیا ۔ یہ امر عربوں کی ہمہ گریت و عظمت کے علاوہ انکے سچے فہم اسلاف پر دلالت کرتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایمان اور عمل کی لگن اور فہم دین کے علاوہ اسلامی فلسفہ جہاد کا شعور ہی اصل سرمایہ ہے ۔ لیکن ایک شخصیت جسکا ذکر خیر ہی اس تحریر کا مقصد ہے ایسی ہے جسے اپنوں اور غیروں بلکہ اس سے شدید اختلاف رکھنے والوں نے بھی مانا ۔
اس کی عظمت ، علم و عمل کی پختگی اور اہل اسلام کے لیے تڑپ کسی بھی شک و شبہ سے بالا تر تھی۔
وہ تھے اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے استاد شیخ عبد اللہ عزام شہید رحمہ اللہ جو سر زمین فلسطین میں پیدا ہوئے اور اردن میں پناہ گزین ہوئے جنہوں نے ملک سعودی عرب کو اپنا روحانی وعملی مرکز ٹھہرایا اور جہاد افغانستان میں شرکت کے لیے سرزمین پاکستان کو اپنی جدوجہد کا ہیڈکوارٹر بنایا ۔ بالآخر اسی راہ شہادت میں اپنی جان جان آفرین ک سپرد کردی ۔ محترم عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ سر زمین انبیاء فلسطین میں 1931ء میں پیدا ہوئے قیام اسرائیل کے ابتدائی دنوں ہی سے انہوں نے برطانوی و یہودی مسلح دستوں کے خلاف مزاحمت میں حصہ لیا ۔
پھر شرق اردن منتقل ہو گئے شریعت کالج دمشق سے 1966ء میں گریجویشن کی 1969ء میں اردن یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔ اسی دوران میں الاخوان المسلمون کی دعوت پر لبیگ کہتے ہوئے ان اخوانی دستوں میں شامل ہوگئے ۔جو اسرائیل کے خلاف جہاد میں شریک ہونے کے لیے جارہے تھے ۔ فلسطین کے قیام کی جدوجہد میں عملی طور پر اس قدر مگن ہوئے کہ دنیا و ما فیہا سے بے نیاز ہوگئے ۔ اس دور میں صاعقہ اور الفتح تنظیموں کے تحت فلسطینی مسلمان یہودیوں کے خلاف برسر پیکار تھے ۔ آپ نے تنظیم آزادی فلسطین کو لادین بنیادوں کی بجائے دینی بنیادوں پر استوار کرنے اور اس میں جہاد کی روح پھونک دینے کے لیے کوششیں کیں تاکہ آزادی کی منزل بہت جلد حاصل ہو سکے ہے ۔ مگر سرخ استعمار کے سہارے لڑنے والوں کو مجاہد کی بات کب سمجھ آسکتی تھی ۔ عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ ایک عرصے تک شام فلسطین میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گوریلا کاروائیوں میں مصروف رہے ۔ بالآخر مایوس ہو کر انہوں جامعۃ الازہر میں علوم فقہ اور حدیث کی اعلی تعلیم کے لیے داخلہ لیا 1973ء میں انہوں نے P.h.d کی ڈگری امتیازی حثیت سے حاصل کی وہ کچھ عرصہ عمان میں بحثیت مدرس نونہالوں کو علم و عمل کی تلقین کرتے رہے ۔ الاخوان المسلمون سے منسلک ہونے کے بعد تعلیم و تدریس کا باقاعدہ سلسلہ منقطع ہو گیا تھا ۔ لیکن P.h.d کرنے کے بعد انہوں نے اردن یونیورسٹی میں بطور استاد تعلیم و تدریس کا دوبارہ آغاز کیا ایک محقق اور دانشور کی حیثیت سے عالم اسلام کے چوٹی کے علماء اور سکالرز سے انکا رابطہ تھا ۔ امریکہ ، برطانیہ ، مصر ، فلسطین ، اردن ، شام ، عراق اور پاک و ہند کے ہر سفیروں اور دانشوروں سے انکی براہ راست جان پہچان تھی ۔ دسمبر 1979 میں جب روسی افواج سرزمین افغانستان میں داخل ہوئیں اور کمیونزم کے گہرے بادل سرزمین افغانستان پر منڈلانے لگے تو عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ کا جذبہ جہاد اپنی پوری تابانی سے چمک اٹھا ۔ 1981 میں رابطہ عالم اسلامی کے توسط سے وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وابستہ ہو گئے اور پھر اسلام آباد میں وہ رہ کر افغانستان کے جہاد میں حصہ لینے لگے ۔

1981 میں افغانستان کے اتحاد کے لیے کی گئی کاوشیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ، پروفیسر عبدالرب سیاف کے فہم دین اور عربی فصاحت و بلاغت سے وہ خاصے متاثر تھے ۔ پروفیسر سیاف جامعہ الازہر کے فارغ التحصیل بھی ہیں اس لیے عرب طور و اطوار سے بھی آشنا ہیں ان ہی کاوشوں سے عبدالرسول سیاف سات جماعتی اتحاد کے امیر منتحب ہوئے اور پھر امیر المجاہدین کے لقب سے مشہور ہوئے یہ محترم عبد اللہ عزام شہید رحمہ اللہ ہی تھے جنہوں نے انہیں "عبدالرسول " یعنی رسول کے بندے سے " عبد الرب الرسول " یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رب ( اللہ ) کا بندہ بنایا جس وقت یہ اتحاد قائم ہوا تو وہ ساتوں لیڈروں سیاف ، حکمت یار ، ربانی مجددی ، جیلانی ، خالص اور نبی محمد کو لے کر حج کے لیے لے گئے خانہ کعبہ کے دروازے تک ان کے لیے کھلوائے اور ان تمام قائدین کو اندر لاکر خلف لیا کہ آزادی افغانستان تک وہ کبھی الگ نہیں ہوں گے اور ایک خدا ، ایک قرآن ، ایک نبی کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ایک امیر کی زیر قیادت جہاد بالسیف جاری رکھیں گے۔
ساڑھے تین گھنٹے تک خانہ کعبہ کے اندر چاردیواری کے حصار میں ، عرش مصلی کے سائے میں وہ مرد درویش افغان لیڈروں لے کر بیٹھا رہا ، ان سے اقرار لیتا رہا ان سے خلف اٹھواتا رہا کہ وہ آخری فتح تک جہاد افغانستان کا پرچم بلند رکھیں گے ۔ پھر اس اللہ کے بندے کے شب و روز اسی جہاد کے لیے وقف ہو گئے ۔ جہاد کے لیے مالی و عسکری اسباب مہیا کرنا ، فیلڈ کمانڈروں کی تالیف قلب ، روسی حکمت عملی کا مطالعہ مہاجرین کے لیے رہائش اور ان کے بچوں کے لیے علاج معالجے کی سہولت کی فراہمی اور سب سے بڑھ کر جہاد افغانستان کی اہمیت اور فرضیت کو مسلمان نوجوانوں میں متعارف کروانا ہی انکا اوڑھنا بچھونا تھا ۔ ڈاکٹر عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ نے افغانستان ہی میں جہاد کی روح کو پروان ثرھایا بلکہ شرق اوسط اور عرب ریاستوں کے نوجوانوں میں بھی جذبہ جہاد بیدار کیا ۔
24 نومبر 1989 جمعۃ المبارک کو یونیورسٹی روڈ پشاور پر ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے ایک کار دھماکے سے اڑا دی گئی ۔ اس دھماکے میں چار افراد شہید ہوئے ایک بزرگ اسکے دو بیٹے اور ایک ڈرائیور ، شہید ہونے والے بزرگ عرب شیخ عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ تھے ان کے ہمراہ دو صاحبزادے احمد تمیم ( 18 سالہ ) اور ابراھیم ( 7 سالہ ) اور ڈرائیور ابو حارث بھی شہادت پاگئے ۔
شیخ عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ مختلف محاذوں پر بنفس نفیس جہاد افغانستان میں حصہ لیتے رہے اگر ایک روز خوست کے محاذ پر دیکھے جاتے تو دوسرے روز جلال آباد کے میدانوں میں معروف جہاد نظر آتے ۔ کبھی بنجشیر کے پہاڑوں میں اور کبھی قندھار کی وادیوں میں باطل کے مقابلے میں دکھائی دیتے ہیں ۔ انہوں نے بندہ صحرائی کی حیثیت سے جہاد افغانستان میں بھرپور شرکت کی آخر کار اسلام کا عظیم فرزند شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہو گیا ۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن
یہ چراغ پھونکوں سے بجھایا نہ جائے گا ۔​
 
Top