السلام علیکم
اس تھریڈ کے
مراسلہ نمبر:11 میں ایک عنوان یوں دیا گیا ہے :
ابن حجر العسقلانی قدم بوسی کے موضوع پر
اور اس کے بعد اس سائیٹ (
Kissing the hand of a scholar is Sunna) کا مواد یوں نقل کیا گیا ہے :
***
Umar Ibn Khattab kneeling down in front of Rasool Allah (saw)
Tabari narrates it mursal [missing the Companion-link] through al-Suddi in his Tafsir in commenting on verse 5:101:
"Do not ask of things which once shown to you would hurt you" with the wording: "`Umar ibn al-Khattab got up and kissed the foot of Allah's Messenger and said: O Messenger of Allah, we are pleased with Allah as our Lord, with Islam as our religion, and with Muhammad as our Prophet, and with the Qur'an as our Book. Forgive, and Allah will forgive you (fa`fu `afallahu `anka). And he did not cease until the Prophet softened."
The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih:
al-Zuhri said: Anas bin Malik told me: The Prophet came out after the sun passed the mid-point of the sky and offered the Zuhr prayer (in congregation). After finishing it with Taslim, he stood on the pulpit and mentioned the Hour and mentioned there would happen great events before it. Then he said, "Whoever wants to ask me any question, may do so, for by Allah, you will not ask me about anything but I will inform you of it as long as I am at this place of mine." The people were weeping profusely (because of the Prophet's anger). Allah's Apostle kept saying, "Ask Me! " Then a man got and asked, ''Where will my entrance be, O Allah's Apostle?" The Prophet said, "The Fire." Then `Abd Allah ibn Hudhafa got up and asked, "Who is my father, O Allah's Apostle?" The Prophet replied, "Your father is Hudhafa." The Prophet then kept on saying (angrily), "Ask me! Ask me!" `Umar then fell to his knees and said,"We have accepted Allah as our Lord and Islam as our religion and Muhammad as our Apostle." Allah's Apostle became quiet when `Umar said that. Then Allah's Apostle said, "Woe! By Him in Whose Hand my life is, Paradise and Hell were displayed before me just now, across this wall while I was praying, and I never saw such good and evil as I have seen today."
Bukhari narrates it in the third chapter of Kitab al-i`tisam bi al-kitab wa al-sunna, entitled:
"What is disliked in asking too many questions, and those who take on what does not concern them, and Allah's saying: "Do not ask about things which once shown to you would hurt you" (5:101)"
English: Sahih Bukhari, Volume 9, Book 92, Number 397
The Sahih contains other versions of this hadith such as in Kitab al-`ilm, chapter 28:
"On anger during exhortation" and chapter 29: "On kneeling before the Imam or muhaddith."
English: Sahih Bukhari, Volume 1, Book 3, Number 90-93
And in Kitab mawaqit al-salat, chapter 11:
"The time of Zuhr is after the sun passes the zenith."
Sahih Bukhari, Volume 1, Book 10, Number 515
Ibn Hajar in his commentary on the collated accounts of this hadith says (Fath al-Bari 1989 ed. 13:335):
"There is in this hadith [evidence for]:
* the Companions' acute observation of the states of the Prophet and the intensity of their fear when he became angry, lest it result in a matter that would become generalized and extend to all of them;
* `Umar's confidence in the Prophet's love (idlal);
* the permissibility of kissing the foot of a man;
* the permissibility of anger in exhortation;
* the student's kneeling in front of the one who benefits him;
* the follower's kneeling before the one followed if he asks him for a certain need;
* the lawfulness of seeking refuge from dissension when something occurs which might result in its foreshadowings;
* the use of pairing [subjects] in du`a in his words: Forgive, and Allah will forgive you (fa`fu `afallahu `anka)."
***
اس کے بعد سسٹر مہوش علی "میرا سوال" کے عنوان کے تحت یوں رقمطراز ہیں :
ہم لوگوں نے بات شروع کی تھی "طاہر القادری صاحب سے پرخاش نہیں" اور اللہ کے نام پر انصاف کرنا ہے۔
میرا سادہ سا سوال یہ ہے کہ آپ اب امام ابن حجر العسقلانی پر وہ الزام کیوں نہیں لگا رہے جو کہ آپ نے طاہر القادری صاحب پر اوپر لگایا ہے؟
امام ابن حجر العسقلانی Ultimate Hadith Master سمجھے جاتے ہیں (حافظ حدیث)۔ اب یہ نہ کیجئے گا کہ انکا رتبہ گرانا شروع کر دیں کیونکہ انکا فتوی ہماری تمناؤں کے خلاف ہے۔ بلکہ سمجھئے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جس کی بنا پر وہ یہ اجتہاد فرما رہے ہیں۔
سب سے پہلے تو میری ادباً گذارش ہے کہ کاپی پیسٹ کرنے والوں کے پاس اگر تحقیق کے لیے وقت اور قوت میسر نہیں ہے تو اپنا فلسفہ بیان کرنے سے قبل کم سے کم حوالہ دی گئی کتاب سے اصل متن ہی چیک کرنے کی زحمت اٹھا لیا کریں۔ اس طرح وہ کم سے کم بند آنکھوں کی تقلید کے الزام سے تو بچ جائیں گے۔
خیر۔ قارئین سے میری گذارش ہے کہ بالا اقتباس میں ذرا غور سے شیخ ھشام کی تحقیق سلسلہ وار ملاحظہ فرمائیں۔
1: سب سے پہلے شیخ محترم نے طبری کی مرسل روایت پیش کی
2: اس کے بعد یوں لکھا :
The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih
3: پھر صحیح بخاری کی کتاب الاعتصام ، کتاب العلم اور کتاب مواقیت الصلاة سے احادیث پیش کیں۔
4: اختتام پر یوں نتیجہ برآمد کیا :
Ibn Hajar in his commentary on the collated accounts of this hadith says (Fath al-Bari 1989 ed. 13:335):
5: اور سب سے آخر میں وہ 8 مسائل ذکر کئے جو کہ بقول مہوش علی ، ابن حجر عسقلانی کا فتویٰ ہیں۔
فتح الباری کوئی معمولی کتاب نہیں کہ نیٹ پر مل نہ سکے۔
اس ربط پر فتح الباری کا وہ مواد ملاحظہ فرمائیں جس کا حوالہ شیخ ھشام نے دیا ہے :
[ARABIC]قوله (فقال: انا نتوب الى الله عز وجل) زاد في رواية الزهري " فبرك عمر على ركبته فقال: رضينا بالله ربا وبالاسلام دينا وبمحمد رسولا " وفي رواية قتادة من الزيادة " نعوذ بالله من شر الفتن "
وفي مرسل السدي عند الطبري في نحو هذه القصة " فقام اليه عمر فقبل رجله وقال: رضينا بالله ربا".
فذكر مثله وزاد " وبالقران اماما، فاعف عفا الله عنك فلم يزل به حتى رضي "
وفي هذا الحديث غير ما يتعلق بالترجمة،
مراقبة الصحابة احوال النبي صلى الله عليه وسلم وشدة اشفاقهم اذا غضب، خشية ان يكون لامر يعم فيعمهم، وادلال عمر عليه، وجواز تقبيل رجل الرجل، وجواز الغضب في الموعظة، وبروك الطالب بين يدي من يستفيد منه، وكذا التابع بين يدي المتبوع اذا ساله في حاجة، ومشروعية التعوذ من الفتن عند وجود شيء قد يظهر منه قرينة وقوعها، واستعمال المزاوجة في الدعاء في قوله " اعف عفا الله عنك " والا فالنبي صلى الله عليه وسلم معفو عنه قبل ذلك.
[/ARABIC]
امام زھری کی روایت جس میں انہوں نے کہا :
[ARABIC]فبرك عمر على ركبته فقال: رضينا بالله ربا وبالاسلام دينا وبمحمد رسولا[/ARABIC]
حضرت عمر نے دو زانو ہو کر عرض کیا : ہم اللہ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے نبی ہونے پر راضی ہیں
صحیح بخاری کتاب الاعتصام میں
یہاں دیکھئے
اور قتادہ کے الفاظ :
[ARABIC]نعوذ بالله من شر الفتن[/ARABIC] (ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں فتنوں کے شر سے)
صحیح بخاری کتاب الفتن میں
یہاں دیکھیں۔
اس کے بعد امام ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں :
اسی کے ساتھ ملتا جلتا مرسل واقعہ طبرانی میں بھی السدی کے حوالے سے موجود ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو ئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کو چوما اور کہا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہو گئے ۔۔۔
اور مزید کہا کہ قرآن کے امام ہونے پر (راضی ہو گئے) آپ مجھ سے درگزر فرمائیے اللہ آپ سے درگزر فرمائے گا ۔ اسی حالت میں ہی رہے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوگئے ۔
[ARABIC]وفي هذا الحديث غير ما يتعلق بالترجمة[/ARABIC]
اور اس حدیث میں جو باتیں ترجمة الباب سے متعلقہ نہیں ہیں وہ یہ ہیں:
[ARABIC]مراقبة الصحابة احوال النبي صلى الله عليه وسلم وشدة اشفاقهم اذا غضب، خشية ان يكون لامر يعم فيعمهم، [/ARABIC]
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع رہنا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہو جائیں تو انکا بہت زیادہ ڈرنا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ کسی عمومی کام کی بناء پر نہ ہو جسکی بنا پر وہ سب سے ناراض ہو جائیں۔
[ARABIC]وادلال عمر عليه، [/ARABIC]
عمر رضی اللہ عنہ کا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو منانے کی جراءت کرنا
[ARABIC]وجواز تقبيل رجل الرجل، [/ARABIC]
اور قدم بوسی کا جائز ہونا۔
[ARABIC]وجواز الغضب في الموعظة، [/ARABIC]
وعظ کے دوران غضبناک یا جذباتی ہونے کا جواز۔
[ARABIC]وبروك الطالب بين يدي من يستفيد منه، [/ARABIC]
طالب علم کا استاذ کے سامنے ادب کے ساتھ دو زانو ہونا۔
[ARABIC]وكذا التابع بين يدي المتبوع اذا ساله في حاجة،[/ARABIC]
اسی طرح جب ماتحت کسی ضرورت کے بارے میں سوال کرے تو اپنے متبوع کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھے
[ARABIC]ومشروعية التعوذ من الفتن عند وجود شيء قد يظهر منه قرينة وقوعها، [/ARABIC]
مستحب ہے فتنوں سے پناہ طلب کرنا جب کوئی ایسی چیز وجود میں آئے جس سے فتنے کے واقع ہونے کا قرینہ ملے
[ARABIC]واستعمال المزاوجة في الدعاء في قوله " اعف عفا الله عنك " والا فالنبي صلى الله عليه وسلم معفو عنه قبل ذلك.[/ARABIC]
دعا میں دونوں جانبین کا ذکر کرنا جیسا کہ عمر کا کہنا " اُعْفُ عَفَا اللَّه عَنْك " ورنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو پہلے ہی معفو یعنی بخشے ہوئے ہیں۔
اب فتح الباری کی اوپر والی اصل عبارت کو غور سے دیکھیں اور بتائیں کہ وہ الفاظ کہاں ہیں جس کے ترجمے کے طور پر شیخ ھشام نے یوں لکھا :
The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih:
( یہ حدیث بخاری کی ذیل کی روایات کی بنا پر مصدقہ قرار پاتی ہے )
جبکہ فتح الباری میں تو امام عسقلانی کے الفاظ صرف اتنے ہیں :
[ARABIC]وفي مرسل السدي عند الطبري في نحو هذه القصة[/ARABIC]
اسی کے ساتھ ملتا جلتا مرسل واقعہ طبرانی میں بھی السدی کے حوالے سے موجود ہے
اس بات پر بھی غور کریں کہ امام عسقلانی نے پہلے بخاری کی روایات پیش کیں پھر لکھا کہ اس سے ملتا جلتا مرسل واقعہ الطبری میں بھی ہے
جبکہ شیخ ھشام پہلے طبری کے مرسل واقعے کو پیش کر رہے ہیں اور اس کو معتبر و مستند قرار دینے کے لئے (شائد اپنی طرف سے) کہہ رہے ہیں :
The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih:
کیوں ؟؟
یقیناً اس لیے کہ شیخ ھشام کو معلوم ہے کہ محدثین اور محققین کے نزدیک "مرسل حدیث" ضعیف اور مردود ہوتی ہے۔ یہ علوم حدیث کا وہ عام سا اصول ہے جو ہر طالب علم جانتا ہے۔
یقین نہ آئے تو علوم حدیث پر محمود طحان کی کتاب دیکھ لیں ، جس کا سلیس اردو ترجمہ
یہاں آن لائن مہیا کیا گیا ہے ، لکھا ہے :
مرسل حدیث کو مسترد کیا جائے گا۔ محدثین، فقہاء اور اصول فقہ کے ماہرین کی اکثریت کا یہی نقطہ نظر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں صحیح حدیث کی شرائط میں سے اتصال سند کی شرط موجود نہیں ہے۔ جو راوی حذف کیا گیا ہے، ہمیں اس کے حالات کا علم نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ صحابی نہ ہو اور ضعیف ہو۔
ممکن ہے ۔۔۔۔ کوئی اٹھ کر کہہ دے کہ :
مرسل حدیث صحیح ہے اور اس سے نتائج اخذ کیے جائیں گے۔ یہ تین بڑے ائمہ یعنی ابو حنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل کا نقطہ نظر ہے۔
تو عرض ہے کہ ان تینوں ائمہ نے مرسل حدیث کی قبولیت اس شرط سے مشروط کی ہے کہ :
مرسل حدیث صرف ثقہ راوی سے ہی روایت کی گئی ہو۔
جبکہ امام عسقلانی طبری کی جو روایت پیش کر رہے ہیں وہ السدی سے مروی ہے۔ جرح و تعدیل کی کتب چھان لیجئے ، ہر جگہ آپ کو یہی لکھا ملے گا کہ
السدی محدثین کے نزدیک دجال اور کذاب ہے۔
یہ سب بھی جانے دیں ۔۔۔ آئیے ذرا امام عسقلانی سے ہی معلوم کر لیتے ہیں کہ شیخ ھشام جس "مرسل روایت" کو امام صاحب کے حوالے سے "مستند (authentic)" قرار دینے کی عطیم ترین کوشش فرما رہے ہیں ، خود امام صاحب کے نزدیک "مرسل روایت" کیا معنی رکھتی ہے؟؟
حافظ ابن حجر العسقلانی نے علوم حدیث پر تحریر کردہ اپنے کتابچہ "
نخبة الفكر في مصطلح اهل الاثر" میں مرسل روایت کو نہایت واضح طور سے "مردود" کہا ہے۔
اب اس کے بعد بھی کوئی مرسل روایت کو حافظ صاحب کے حوالے سے "مستند" قرار دینے کی کوشش کرے تو یہ بےشرمی اور ہٹ دھرمی ہی نہیں بلکہ ظلم ہے۔
آخر میں مہوش علی کے سوال کا جواب :
میرا سادہ سا سوال یہ ہے کہ آپ اب امام ابن حجر العسقلانی پر وہ الزام کیوں نہیں لگا رہے جو کہ آپ نے طاہر القادری صاحب پر اوپر لگایا ہے؟
امام ابن حجر العسقلانی Ultimate Hadith Master سمجھے جاتے ہیں (حافظ حدیث)۔ اب یہ نہ کیجئے گا کہ انکا رتبہ گرانا شروع کر دیں کیونکہ انکا فتوی ہماری تمناؤں کے خلاف ہے۔ بلکہ سمجھئے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جس کی بنا پر وہ یہ اجتہاد فرما رہے ہیں۔
محترمہ ! حافظ ابن حجر العسقلانی پر الزام ہم اس لیے نہیں لگاتے کہ انہوں نے ایسا کوئی فتویٰ دیا ہی نہیں جس کی بنیاد صحیح احادیث یا آثار پر ہو۔ اگر آپ کی نظر میں حافظ صاحب کا ایسا کوئی فتویٰ ہو جس کی بنیاد صحیح احادیث پر قائم ہوں تو براہ مہربانی پیش فرمائیں۔
اور یہ تو آپ کا ظلم ہے بچارے حافظ صاحب پر ، جو آپ زبردستی چند اقوال کو حافظ صاحب کے فتوے کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔
جو محدث ، مرسل حدیث کو قابل احتجاج ہی نہ جانے ، وہ کیسے اس کی بنیاد پر فتویٰ دے سکتا ہے؟؟
ہاں یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ :
جو محدث کسی روایت کو ضعیف سمجھے ، وہ کیونکر اسے پیش کرتا ہے اور کیوں اس سے مسائل اخذ کرتا ہے؟ جیسا کہ پاؤں چومنے کی اس السدی والی روایت کا معاملہ ہے۔
تو اس کا جواب آسان ہے کہ یہ اکثر محدثین کا طرز ہے۔
جب بھی کوئی محدث کسی بھی حدیث پر کسی باب کا عنوان قائم کرتا ہے یا اس حدیث میں مذکور مسائل کا استنباط کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہوتا کہ مستنبط شدہ مسائل یا ترجمة الباب اس محدث کا فتویٰ ہے۔
ذیل میں اس کی دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں :
امام ابوداؤد علیہ الرحمة نے سنن ابی داؤد کی کتاب الطہارة میں ایک روایت یوں پیش کی ہے :
حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء کو جاتے تو انگوٹھی نکال لیتے۔
اور اس روایت پر امام صاحب نے باب کا عنوان دیا ہے :
[ARABIC]باب الخاتم يكون فيه ذكر الله يدخل به الخلاء[/ARABIC]
باب : جس انگوٹھی پر اللہ کا نام ہو بیت الخلا میں اس کو نہ لے جائے
حالانکہ ۔۔۔۔ یہی حدیث بیان کرنے کے بعد امام ابو داؤد خود لکھتے ہیں :
یہ حدیث منکر ہے !
اسی طرح ۔۔۔ امام ترمذی علیہ الرحمة نے، جامع ترمذی کی کتاب الصیام میں ایک روایت یوں دی ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کسی قوم کے ہاں مہمان بن کر پہنچے تو ان کی اجازت کے بغیر ہرگز روزہ (نفل) نہ رکھے۔
اور اس روایت پر امام صاحب نے باب کا عنوان دیا ہے :
[ARABIC]باب ما جاء فيمن نزل بقوم فلا يصوم إلا بإذنهم[/ARABIC]
باب : اس بیان میں کہ جو شخص کسی قوم میں اُترے تو ان سے پوچھے بنا روزہ نہ رکھے
مگر ۔۔۔۔ یہی حدیث بیان کرنے کے بعد امام ترمذی خود لکھتے ہیں :
یہ حدیث منکر ہے !
احکام کے جواز اور عدم جواز میں تفریق ، کسی باب کا اثبات اور دوسرے کا ردّ ، کسی روایت کے افضل یا غیر افضل ہونے کا بیان ۔۔۔۔۔۔ ایسی کئی دیگر وجوہات ممکن ہیں جن کے سبب ضعیف روایات پیش کی جاتی ہیں ، ان کے ابواب قائم کئے جاتے ہیں یا ان سے مسائل اخذ کئے جاتے ہیں۔
اب یہ تو ناقد یا طالب علم کی بصیرت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے فہم سے اس بات کو سمجھے کہ :
جس دلیل سے قدم بوسی کا جواز نکلتا ہو یا اس سے دیگر مسائل اخذ کئے جا سکتے ہوں ، وہی روایت اگر پایہ ثبوت کو نہ پہنچے تو پھر یہ دلیل اور اس دلیل سے اخذ کئے جانے والے سارے ہی مسائل کالعدم ہیں !!
اور یہ کہنا کہ : کسی ضعیف روایت سے اخذ شدہ مسائل ، محدث کا اپنا فتویٰ ہوتا ہے ، اگر کہنے والے کی لاعلمی یا کم علمی نہیں تو پھر یہ درحقیقت محدثین کی عظیم خدمات پر رکیک اور واہیات الزام ہے !!