@سیدزبیر
سید زبیر
آپ کی اس محنت کو بزم قلم و دیگر فورمز پر آپ کے شکریے کے ساتھ پیش کیا تھا۔ جوابات ملاحظہ کیجیے:
ضمیر جعفری کے قرابت دار ضامن جعفری صاحب کا پیغام:
عزیزم راشد!
اس تحریر کو پڑھنے کا موقع فراہم کرنے پر ممنون ہُوں۔ کیا زبان، کیا اندازِ بیان اور کیا روانی ہے۔
’’رہتا نہیں انسان تو ہوتے نہیں غم بھی سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی
کون جانتا تھا کہ ابھی چند ہی لمحوں میں ا س حقیقت کی تجلی ہونے والی ہے احسان صاحب نے جو حقیقت الفاظ میں بیان کی ہے ماہر صاحب جان دے کر اس میں جان ڈال دیں گے‘‘۔۔۔۔
اور یہ کہ ۔۔۔
’’قبر کے چو کھٹے خالی ہیں انہیں مت بھولوجانے کب کونسی تصویر لگادی جائے
کون جانتا تھا کہ ابھی چند منٹوں کے بعد ایک تصویر بڑی دلآویز اور محبوب تصویر اس چوکھٹے میں لگنے والی ہے اور نہ اس کو پتہ ہے اور نہ کسی کو معلوم ۔‘‘
مندرجہ بالا اشعار نے زندگی کی دو بہت بڑی حقیقتوں کی کتنی خوبصورتی سے عکاسی کی ہے۔
خیر اندیش ضامن جعفری
----
امریکہ میں مقیم ادیب و براڈ کاسٹر امین ترمذی صاحب:
واہ واہ راشد واہ۔۔ گو کہ میری نظر میں یہ منظر موجود تھا اور میں بالکل اسی طرح اپنے ریڈیو پروگرام میں سامعین کو کئی بار سنا بھی چکا ہوں لیکن ان خوبصورت الفاظ میں اس کی عکاسّی۔ کیا کہنے۔ مجھے یوں لگا کہ یہ سب میرے لئے بالکل نئی بات ہے اللہ تمہیں خوش رکھے کہ اس کاوش سے بہتوں نے ماہر صاحب کے بارے میں یہ خوبصورت تحریر پڑھی۔ جزاک اللہ۔
---------
معروف ادیبہ محترمہ عابدہ رحمانی:
راشد بەت پیاری تحریر ەے اسطرح کا جانا جانے والے کے لیئے آسانی کا باعث ەوتاەےلیکن لواحقین کو تا دیر یقین نەیں آتا ۔۔۔
--------------------------------