ڈاکٹر عمران انور (ایسوسی ایٹ پروفیسر، ریاضی، عبد السلام سکول برائے ریاضیاتی سائنسز)

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ڈاکٹر عمران انور
ڈاکٹر عمران انور عبد السلام سکول آف میتھیمیٹیکل سائنسز میں ریاضی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ آپ کی تحقیق کے موضوعات Commutative Algebra, Algebraic Geometry اور Enumerative Combinatorics ہیں۔ حال ہی میں سپیکٹرا نے اپنے قارئین کے لئے ڈاکٹر عمران انور کا انٹرویو کیا، جس کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔

uh73kx89btPy96NR50xaoawbrwa8dSTaY_dImTdxuCruDc5OTf0V5daiK1Mh9SCU0XOaLGskfXLRyJx_CKCpfddgfsl4BtqAlPJRFv6EJxXmMMcFbnnO8S-HnvCDvU-sJqq7OdGO_Qdm7fD8Gp_tlsXPHKrMalf2h-OsOL8YYb4GEreAotb91ciz4vrHEPX7KaWs2jyIgAXmPQIVgYAVkeOy7U_BSgveTL3_69c188RxWBOS4Z5AZzA2c4GUlArF2GFojwvLOSz3Jr-JtsAQ135Ow4bJkf7Bw4sankLuvqYcUYiJVkIzN3OkhnMpEDGG7pOCwuTxyibrWatfKN0hDb-sCarKPnknJyt24YQ03wqfBdaSaum6Eck8WH-hcIfqAWRoczNtAug8b4XupUfS8j7wkLzGoixqdVC6p1eBmoXI5zxeJiOOy9LEGWyFF6M3AtgyAPDZkpTpdKA_FBTVhcM0oGY8KBv20bmiLU8-UiGJmDJo6mFwGDbSwY1-IoyR2T-cFbEewObUxxOqcyOIr1SsT02Emx40Gm3zyTABwbUFwGS1KfoZcsdLP7eha_71E4qPG_29J8-gKVRL1ceCCeiNBah79aGbG3aDUsR7dJUFG7L4JuHW37nPD5GTVOspFK0l2YW7fcmc1T0Xx_yylsj85ok0n7YonET1JNX8vsgc2hPfz_zdYvXfo5_fqA=w984-h657-no

ڈاکٹر عمران انور عبدالسلام سکول آف میتھیمیٹیکل سائنسز میں پڑھاتے ہیں۔
ریاضی میں اپنے اب تک کے سفر کے بارے میں بتائیے۔ آپ کے تجربات کیا رہے؟ کن لوگوں نے خاص طور پر آپ کو متاثر کیا؟
مجھے بچپن سے ریاضی میں دلچسپی تھی۔ مجھے اُن مشکل مساواتوں کو حل کر کے خوشی ملتی تھی، جنہیں دوسرے حل کرتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ میں ایک ایسے پیشے کا انتخاب چاہتا تھا جہاں میں اپنی صلاحیتوں کے ذریعے مختلف ریاضیاتی تصورات کو سمجھ سکوں اور زیادہ بہتر طور پر اُن کی وضاحت کر سکوں۔ ایک طالب علم کی حیثیت میں، میں نے خود کو ہمیشہ اچھے سامع کے طور پر دیکھا لیکن ایسا سامع جس کے ذہن میں اپنے استاد سے مقابلے کا خیال بھی پنپتا رہتا تھا۔ لہٰذا میں اکثر اوقات جماعت میں پڑھائے جانے والے موضوعات خود سے تیار کر لیتا تھا اور خود کو استاد کے ذہن سے ہم آہنگ کر کے لیکچرز سنتا ۔ یہ ایک عجیب رویہ تھا مگر بحیثیتِ طالب علم یہ ہمہ وقت میرے ساتھ رہا۔ میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ہمیشہ بہترین اساتذہ ملے، جو مجھ سے میری ہمت اور سمجھ بوجھ سے زیادہ توقع رکھتے تھے۔ کسی استاد کی اپنے طالب علم سے لگائی توقعات حوصلہ افزائی سے زیادہ بہتر کام کرتی ہیں۔ میرے اِس رویے کی اُس وقت بہت تفصیلی جانچ ہوئی، جب میں نے سکول آف میتھیمیٹیکل سائنسز (اسے اب عبدالسلام سکول آف میتھیمیٹیکل سائنسز کے نام سے جانا جاتا ہے) میں داخلے کے لئے درخواست دی۔ داخلے کا دارومدار داخلہ ٹیسٹ اور اُس کے بعد ہونے والے کڑے انٹرویو پر تھا۔ بہت سے اساتذہ، جنہوں نے مجھے ریاضی پڑھائی، وہ بھی یہاں داخلے کے لئے میرے مقابلہ پر تھے۔ یہ ایک عجیب سا احساس تھا لیکن مجھے داخلہ مل گیا۔
شروع میں ایک دور ایسا آیا کہ جب مجھے پہلے سے معلوم کئی تصوارت کو ترک کر کے بالکل مختلف انداز میں نئے سرے سے سیکھنا پڑھنا۔ یہ میرے لئے اُن تصورات کو زیادہ گہرائی میں جا کے سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ میں نے ریاضیاتی نظریات و تصورات کی تجریدی وضاحت میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ روایتی لیکچروں کے ساتھ منعقدہ سیمینار اور غیر روایتی لیکچروں نے میرے اعتماد کو مزید بحال کیا۔ اِس سفر میں بہت سے نشیب و فراز رہے تاہم میں نے پیشہ وارانہ زندگی میں بھی ریاضی کے ساتھ ناطہ جوڑے رکھا۔ ڈاکٹریٹ کے دوران میرے نگران رومانیہ سے پروفیسر ڈورن پوپیسکو (Prof. Dorin Popescu) تھے۔میں نے اُنہیں ایک مشکل نگران پایا۔ وہ اپنے طلباء سے بہت توقعات وابستہ کرتے تھے اور کوئی بھی غلطی اُن کا موڈ خراب کر سکتی تھی۔ مگر اِس کے بعد باوجود وہ بہت حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔
نتیجتاً میرا ڈاکٹریٹ کا کام بہت معیاری تحقیقی جریدے "جرنل آف الجبرا" میں شائع ہوا۔ میں خوش قسمت رہا کہ مجھے بہت عظیم اساتذہ ملے، اِن میں ڈاکٹر عامر اقبال بھی شامل ہیں، جو ایک حیران کُن حد تک ذہین انسان ہیں۔ خوش قسمتی سے، مجھے بطور رفیق کار بھی عبد السلام سکول آف میتھیمیٹیکل سائنسز میں اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اُن کے کیرئیر اور شخصیت نے، بطور ایک ریاضی دان اور طبیعیات دان، مجھے کئی طرح متاثر کیا۔ کئی بار آپ دوسروں کے کسی چیز کو دیکھنے کے طریقہ کار سے سیکھتے ہیں۔ مجھے بھی تجریدی ریاضی کے بہت سے تصورات ڈاکٹر عامر اقبال کے بیانیہ اور سمجھانے کے طریقہ کی وجہ سے سمجھ آئے۔ یہ بہت اہم ہے کہ آپ ایسے لوگوں کی صحبت میں رہیں جو آپ کو زندگی میں کچھ بڑا کرنے کے لئے متاثر کرتے ہیں۔ میں ابھی بھی عبد السلام سکول آف میتھیمیٹیکل سائنسز کے بہت مسابقتی ماحول میں اپنا پیشہ وارانہ کیرئیر بنا رہا ہوں۔

کون سے ایسے ریاضی دان ہیں، جنہوں نے آپ کو متاثر کیا؟
مجھے ہمیشہ ڈیوڈ ہلبرٹ (David Hilbert) سے تحریک ملی ہے۔ ہلبرٹ کا کردار نہایت ممتاز اور فزکس اور ریاضی میں اُن کی خدمات سراہے جانے کے قابل ہیں۔ وہ بیسویں صدی میں ریاضی کا رُخ متعین کرنے والے چند ریاضی دانوں میں سے ایک ہیں۔ اُنہوں نے اپنے خیالات کو سن 1900ء میں منعقدہ بین الاقوامی کانگریس برائے ریاضی (انٹرنیشنل کانگریس آف میتھیمیٹکس) میں 23 سوالات کی شکل میں پیش کیا۔ اِن سوالات نے جدید ریاضی کے ارتقائی سفر میں ایک عملی کردار ادا کیا۔ عمومی نظریہ اضافیت کے سلسلے میں آئن اسٹائن کے ساتھ ہونے والی ہلبرٹ کی خط و کتابت بہت متاثر کُن ہے۔ ہلبرٹ کو بلا مبالغہ کوانٹم میکانیات کے سرخیل طبقے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ فزکس میں ہلبرٹ کے کردار کو Arne Schirrmacher نے اپنے مضمون Planting in his Neighbor’s Garden: David Hilbert and Early Gottingen Quantum Physics میں بھرپور طریقے سے اجاگر کیا ہے۔جتنا آپ ہلبرٹ کے بارے میں پڑھتے ہیں، وہ اُتنا زیادہ آپ کو متاثر کرتا ہے۔

Am3LgHzhawaXf7HXWCKO70z_GY5wAlwDmKBufF-Gr3ZOoBeEcrv2UI-u5rKuDu7mJBSN7dWZ0q7iDf_nqFu4Fnc6MtJwRn-DBUcRfkH664F8WoFmGLv4t-t8dpe5e98La3HqXonThDocsCEYAR3ONRBYqo1bnSWsixCM1_uIlOxHUqBht8Y5rxLBeiAOa8s5ite9sJLh7b9kWkxcMXcusa2XGbaEKYe20VJQQPaoH-hPAJUoJ4acDg7-irHjWKwP6dSLAAAl-sOVuEjGirxA2prbX5KC1g9q_7cSzgDJJ8niEC7k9gN9otfs6JNn_3RRf0OCT9K1InOOMAHAzH_ERyJeqCq2WKRHHqvI7LupgbLytJyLHPunuYYHc4UShfocadMaTGwdyDPR8IzEtOCd_lkY6Jbl73OTNOFDLQdlD9qy45UTRJT2Gdf85vlyPFrYuUqUCSoFby6m0ilq8CYpo2p4Pf4NrcSln92UkbkBo2cdv3KTSMHqi8fciPVIgXjpvghFh-VQQtMhati6zn0O4gJ9Lb4VCGiEAGkXvIDDE0XELoecJ4zKKNC9-9NlB6lnidJBpqnGKRnq_zepwCzBGmHRgXvxypLxlj0Nbb1w3JGOMePayNKNMIl_-DV8nQRNVJr9VyMvSEym3M8i5DGfgzBSXpgQuXP6s99SrjaMsArlzpbmROvwn7wBfN2wfw=w876-h657-no

ڈاکٹر عمران انور: ایک لیکچر کے دوران
عموماً "خالص" اور "اطلاقی" ریاضی میں ایک فرق روا رکھا جاتا ہے۔ کیا آپ اِس فرق کی وضاحت کرسکتے ہیں؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ریاضی کے کردار کی وضاحت میں یہ فرق اپنی اہمیت رکھتا ہے؟
یہ کافی افسوس ناک بات ہے کہ بہت سے لوگ اِس تقسیم کو فرقہ پرستی کی طرح لیتے ہیں۔ میں اِس معاملے میں جرمن ریاضی دان فیلکس کلائن (Felix Klein) کے بیانیہ سے بہت حد تک متفق ہوں۔ کلائن کے مطابق: "ریاضی ایک درخت کی طرح پروان چڑھتی ہے۔ یہ اپنی جڑ سے براہِ راست اوپر کی جانب سفر نہیں کرتی بلکہ جتنا اِس کی شاخیں اور پتے اوپر کی جانب سفر کرتے ہیں، یہ اپنی جڑوں کو اُتنا زیادہ گہرائی میں اتارتی ہے۔" ہمارے ملک میں خالص ریاضی دانوں کی تعداد اطلاقی ریاضی دانوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ نظری ریاضی کا کام کرنے کا طریقہ بھی مکمل طور پر مختلف ہے۔ بہت سے لوگ خالص ریاضی کو اُس کے تجریدی نظریات کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ مشہور ریاضی دان جی ایچ ہارڈی نے اِس مباحثے پر ایک مشہور کتاب A mathematician’s apology قلم بند کی۔ ہارڈی کی رائے زیادہ تر اِس بیانیہ کا احاطہ کرتی ہے: "ایک پیشہ وارانہ ریاضی دان کے لئے ریاضی کے بارے میں لکھنا دلگیر ہے۔ ریاضی دان کا کام کچھ کرنا، نئے مسائل کو ثابت کرنا، ریاضی میں کچھ نیا شامل کرنا ہے نہ کہ اِس بارے میں بات کرنا کہ وہ اور دیگر ریاضی دان کیا کر چکے ہیں۔ توضیح، تبصرہ، استحسان دوسرے درجے کے اذہان کے کرنے کا کام ہے۔" ہمیں اپنے اداروں میں ایک عقلی اور مدرک ماحول پیدا کرنا ہو گا تاکہ ممتاز خیالات اور تحقیق کی آبیاری کی جا سکے۔ ہمیں معیار کو قبولیت اور قدر دینی ہو گی۔ یہ بالکل نا مناسب ہو گا اگر کام کی نوعیت کو سمجھے بغیر کسی ایک کا موازنہ دوسرے سے کیا جائے۔

آپ ایک پیشہ ور ریاضی دان ہیں۔ آپ آج کے دور میں ریاضی میں ہونے والی تبدیلیوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ ریاضی میں تحقیق کے لئے موجودہ دور میں کون کون سے در وا ہیں؟
الجبرا کا کلاسیکی مطالعہ ہی دراصل تجریدی اور مسلَّم فریم ورک ہے۔ اپنی تجریدی خاصیت کی وجہ سے یہ مظاہر کی تصوراتی ساخت کے متعلق زیادہ سمجھ بوجھ کا متقاضی ہے۔ ساتھ ہی combinatorial commutative الجبرا کی شمولیت نے اِسے مزید پُر کشش اور دلفریب بنا دیا ہےکیونکہ اِس کے ذریعے discrete geometrical چیزوں کو بھی متصوّر کیا جا سکتا ہے۔ اِس تحقیق کا بنیادی نکتہ ریاضیاتی مسائل کو جیومیٹری سے الجبراء کی زبان میں ترجمہ کرنا اور الجبرائی اصول و ضوابط کے استعمال سے اُن کا حل تلاش کرنا ہے۔ ایسے سوالات کی فہرست بہت طویل ہے جن کے بارے میں صرف قیاس کیا جا سکتا ہے (یعنی اُن کا کوئی حل ابھی موجود نہیں ہے) اور اُن میں سے کسی ایک کو بھی حل کرنا کسی بھی ریاضی دان کا خواب ہو سکتا ہے۔ میں خوش قسمت رہا کہ ایسے ہی ایک مسئلے Stanley’s decomposition پر Stanley’s conjecture کا ضمنی ثبوت اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں دیا۔ بعد میں مَیں نے دیگر کئی مسئلوں پہ بھی کام کیا لیکن میری تحقیق کا بنیادی میدان commutative algebra اور discrete geometry ہی رہے۔یہ بہت مشکل کام ہے کہ تدریسی کے اعلیٰ معیارات کے ساتھ اپنی تحقیقی شبیہ بھی قائم رکھیں جبکہ آپ پر کئی انتظامی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ہو۔ تاہم میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میں نے ریاضی میں اپنے اب تک کے سفر کے بارے میں کتنی کامیابی سے بتایا ہے۔

پاکستان میں ریاضی اور سائنس کی تعلیم کی صورتحال کئی وجوہات کی وجہ سے تسلی بخش نہیں ہے۔ آپ کے خیال میں اِن کا سدباب کیسے ممکن ہے؟
اِس کا سادہ جواب یہ ہے کہ تعلیمی حلقوں میں علمی بد دیانتی کو معیاری اساتذہ کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں سائنسی تنظیموں کا کردار مکمل طور پر غیر ذمہ دارانہ رہا ہے۔ اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی جانب دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ وہاں سائنسی تنظیمیں کس قدر با اختیار ہیں جیسے امریکن میتھیمیٹیکل سوسائٹی اور یورپئین میتھیمیٹیکل سوسائٹی۔یہ ادارے نہ صرف پالیسی سازی کرتے ہیں تاکہ تعلیم و تحقیق کے اعلیٰ معیارات کو ممکن بنایا جا سکے بلکہ تعلیمی و تحقیقی مراکز میں ذہین اور قابل افراد کی تعیناتی کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ پاکستان میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ اساتذہ کی تعیناتی اور ترقی سے متعلقہ پالیسیاں کسی بھی طرح عالمی معیار سے میل نہیں کھاتیں۔ یہ کمزور پالیسیاں، سیاست اور نا اہلی پاکستان میں اہل اور قابل لوگوں کی اداروں میں تعیناتی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کسی بھی مضمون میں متعلقہ شخص کو ترقی دینے کا اختیار ایسے انسان کے پاس ہونا چاہیے جو مضمون کی نوعیت اور کام سے بخوبی واقف ہو۔
عالمی معیارات کے بر عکس، ایچ ای سی کی پالیسیوں کے نیتجے میں، غیر ریاضی دانوں کے پاس پالیسی بنانے کا اختیار ہے جو ملک میں ریاضی کی ترقی کو مکمل طور پر کچلنے کے مترادف ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اِس سلسلے میں ایچ ای سی اپنا بھرپور کردار ادا کرےاور امریکن میتھیمیٹیکل سوسائٹی کی مثال سامنے رکھتے ہوئے سائنسی تنظیموں کو با اختیار بنائے۔

بہت سے لوگوں ریاضی کا سائنس میں کردار اور دیگر مضامین کے ساتھ تعلق نہیں سمجھتے۔ آپ کے خیال میں ریاضی کا پبلک پالیسی سازی میں کیا کردار ہے؟
یہ کافی بچگانہ خیال ہو گا کہ ریاضی کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ہم آہستہ آہستہ ای بینکنگ اور ای کوڈنگ سے متعارف ہو رہے ہیں بلکہ اب تو یہ زندگیوں کا لازمی حصہ بنتا جا رہا ہے۔ اب ہر چیز کو اعداد کے ذریعے دیکھا جانے لگا ہے۔ حتیٰ کہ ہماری ظاہری خصوصیات بھی بائیومیٹرکس کے ذریعے ریاضیاتی ماڈلز میں تبدیل ہو رہی ہیں مثال کے طور پر آنکھوں کی اسکیننگ اور ہاتھوں کی جیومیٹری۔ آہستہ آہستہ ہم ای ڈیٹا اور ای منی کے عادی ہو رہے ہیں۔ بینک پہلے ہی رقوم کی ترسیل برقی طور پر کرتے ہیں۔ الیکٹرانک کیش نے بینکوں میں نوکریوں کے رجحانات کو تبدیل کر دیا ہے اور مزید تبدیلیاں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ متوقع ہیں، جیسے جیسے ڈیجیٹل کیش کا استعمال بڑھتا جائے گا۔ اِس سارے قصے میں مصنوعی ذہانت اور پالیسی سازی کی بنیاد ریاضی کے اصولوں پر ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں ریاضی کا کردار کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ بطور استاد، مجھ سے یہ سوالات بارہا مواقع پر پوچھے گئے ہیں۔ لہٰذا میں نے مختصر دورانیے کی ایسی ویڈیوز کا ایک ذخیرہ جمع کیا ہے، جو میں اِن سوالات کے جوابات دینے کے لئے وقتاً فوقتاً اپنی جماعت میں دکھاتا رہتا ہوں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ریاضی کا استاد خود کو ایسے سوالوں کے جوابات کے لئے ہمہ وقت تیار رکھے۔ دراصل انجینئرنگ کے طلباء کو ریاضی پڑھانے کا سب سے دلچسپ پہلو یہی ہے۔

ہائی اسکول میں پڑھنے والے طلباء کو، جو ریاضی کو بطور پیشہ اپنانا چاہتے ہیں، آپ کیا نصیحت کریں گے؟ انڈرگریجویٹ کی ڈگری کے لئے اُنہیں کن اداروں کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے؟
میں اِس بات پہ یقین رکھتا ہوں کہ ریاضی کے بارے میں آگہی کا براہِ راست تعلق ریاضی دانوں کی زندگی کے بارے میں جاننے اور سوالات و مسائل کو حل کرنے کے لئے مختلف ریاضیاتی نظریات کے استعمال سے ہے۔ سوالات اور اُن کا حل ہی ریاضی کی اصل ہے۔ ریاضیاتی اصول و ضوابط اور تکنیک میں مہارت کا تعلق منطقی خیالات کو تصوراتی سطح پہ سمجھنے سے ہے۔ میری صلاح ہو گی کہ طلباء اپنا وقت مختلف کتابیں، بلاگز، امریکن میتھیمیٹیکل سوسائٹی پہ شائع ہونے والے فیچرڈ کالمز کے ساتھ ساتھ نیچر اور کوانٹا میگزین پہ شائع ہونے والے مضامین پڑھنے پہ صرف کریں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے آج کے دور میں مطالعہ کرنا اور خیالات کو دوسروں تک پہنچانا اور بھی آسان ہے۔ ایک طالب علم کو ہمیشہ متجسس رہنا چاہیے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ وہ تنقیدی نظر سے سائنسی مضامین پڑھے اور پھر اُن سے متعلقہ سوالات حل کرے۔ اِس سارے سلسلے میں پہلے سے ریکارڈ شدہ لیکچرز اور ڈاکیومینٹریز بہت سود مند ثابت ہوتی ہے۔
پاکستان میں ریاضی کے سب سے بہترین ادارے کے بارے میں بات کرنا قدرے مشکل ہے۔ ہر ادارے میں بہت قابل اور اہل افراد موجود ہیں۔ اگرچہ بہت سے اساتذہ یا تو غیر ضروری تحقیقی دباؤ کی وجہ سے تدریس پہ چاہنے کے باوجود زیادہ توجہ نہیں دے سکتے یا وہ نا اہل ہیں۔ لہٰذا استعداد و قابلیت میں تقریباً تمام ادارے ایک جیسے ہیں۔
مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ اِس معاملے میں سب سے زیادہ اہمیت خود طلباء رکھتے ہیں کہ وہ کتنی محنت کرتے ہیں۔ جتنی محنت کریں گے، نتائج اُتنے ہی اچھے ہوں گے۔

NJChGttGvLpZ-Bg2pGglsjP_-tvDVyFMEjUgreoCjSa8SxKo1Cb8217-K3h9FUO5v4_tYLuCuWC6gSjr4rCCqrHMcSAAQvWfRj_gQh33g4z09as8-3-q12GduuRLsxuG2ukyrJZjnalWmjlBI2F9RC4FnHOBXRffdxNIogzKPDThG5WvBpdcedwwSbX8C9hYQ1pl_tAEHfbtyOSqd_L0rMlrLQ_Av0z1SovIaeDxXb1mFgKXCuUc9ua4U1T2HMpHD7Uhwbr7vqow2g0uRHFSioOIQVDGaNN4mQdNQEGBZY2pziS_3QphTbUpcRuKJ7LWUFjj4DbEvvSpjKP1wUSrShYcH62DPV1khsmy51FG9TwI3rq1-6Udl8ZAXV55Loz-Bygyv9wjP_AoSdZ0LdROsDyeZo3HwkATLyo-XF3IFS6LKhAa3bp2xH8EzvQZVJryoZcRpQbC0q4C38aCWsTQMjYTz4-PzGy0CFbalmLbHhIliva7MdVExn1qllWZDQuu0lX8r7tiVMj94SA2esDH8xDqiST6JVprSpbZUlcbPCR7V_5WNwyrJ91zFlVk0yzw1etCpCx1U9M5tkTDuf3ZhSOujfIGfM_5JpfbfU2Icf42snORr3HKka-1BQ2f2mAv3yNBP--cBw9VihJ-MiHlM4z5zsWipMjsiVi7C9-jCFm9aUdYQDdjPSHugghE_w=w876-h657-no

ڈاکٹر عمران اور ڈاکٹر سارہ فریدی ڈلہوزی یونیورسٹی کینیڈا میں
آپ کے خیال میں ہم کس طرح ریاضی، خاص طور پر منطق، کی سکولوں میں ترویج کر سکتے ہیں؟
ہمارے ہاں اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں براہِ راست رابطے کا شدید فقدان ہے۔ "میتھ سرکلز" Math Circles سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو ریاضی کی جانب راغب کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہیں۔ میں نے یہ ڈلہوزی یونیورسٹی کینیڈا میں دیکھا تھا کہ شام چار بجے کے بعد سکولوں کے طلباء ریاضی کے شعبہ میں آتے تھےا ور میتھ سرکل کے رضاکار اُنہیں دلچسپ طریقوں سے مشکل ریاضیاتی نظریات سمجھاتے تھے۔ اِسی طرح وہاں آؤٹ ریچ کا بھی ایک پروگرام ہے، جس میں میتھ سرکل کے رضاکار مقرر کردہ اوقات میں سکولوں میں جا کر تقریباً ایک پیریڈ ہر جماعت میں گزارتے ہیں۔ یہ رضاکار نہ صرف طلباء کی منطقی سوچ کو مزید سنوار سکتے ہیں بلکہ انہیں ریاضی کی ترغیب بھی دے سکتے ہیں۔ اِن سرکلز میں ریاضی کے ہر طرح کے سنجیدہ موضوعات جیسے منطق، الجبرا، جیومیٹری، نمبر تھیوری، ایڈوانسڈ کمبی نوٹیرکس اور ٹوپولوجی وغیرہ سکھائے جاتے ہیں۔
محمد بلال اعظم
 
Top