سید شہزاد ناصر
محفلین
ذیا بیطس بیماریوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو ہائی بلڈ گلوکوزیعنی بلڈ شوگر سے وجود میں آتا ہے، یا انسانی جسم میں انسولین کی پیداوار کم ہو نے کی و جہ سے یا جب جسم کے خلیے صحیح طریقے سے انسولین کو رسپانڈ نہ کریں یا پھر یہ دونوں وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ محترمہ ڈاکٹر لبنٰی مرزا صاحبہ جو کہ ایک اینڈوکرینالوجسٹ اور ذیابیطس سپیشلسٹ ہیں انہوں نے ذیابیطس پر اردو میں ان لوگوں کے لئے بلاگ بنایا ہے جو صحیح طریقے سے انگریزی نہیں پڑ ھ سکتے۔ ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ ضیعف الاعتقادی پائی جاتی ہے اور ذیا بیطس پر ا ردو میں جدید سائنسی ریسرچ کی روشنی میں درست معلومات بھی دستیاب نہیں ہیں ایسے حالات میں یہ بلاگ بہت مفید اور معلوماتی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ذیابیطس پر ایک کتاب ” وہ سب کچھ جو آپ کو ذیابیطس کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے“اردو میں لکھی ہے۔ ڈاکٹر لبنٰی مرزا کا مادرِوطن تو پاکستان ہے لیکن وہ ایک امریکی شہری ہیں۔ وہ نارمن ریجنل ہسپتا ل ، نارمن ، اوکلوہاما ، امریکہ میں کام کرتی ہیں۔ان کی زندگی کا اولین مقصد اپنے دو بچوں کو تعلیم یافتہ بنانا اور دنیا میں ذیابیطس سے متعلق شعور کو فروغ دینا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ذیابیطس کے مریضوں کو اس بیماری کے بارے میں تعلیم یافتہ اور خود اعتماد بنانا، ان مریضوں کی صحت اور زندگی کو بہتر بنانے میں معاونت کا سبب بنے گا۔ اور ذیابیطس کی فیلڈ میں تحقیق اور دلچسپی لینے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔میں ڈاکٹر لبنٰی مرز اصاحبہ کا انتہائی ممنون ہوں کہ انہوں نے اس تفصیلی انٹرویو کے لئے وقت دیا۔اس انٹر ویو میں انہوں نے جو معلومات فراہم کی ہیں وہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کے لئے ہی نہیں بلکہ سب کے لئے بہت مفید ہیں۔
سوال: آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں ، آپ نے اپنی تعلیم کہا ں سے حاصل کی ؟
جواب: سب سے پہلے تو میں اس انٹرویو کی دعوت پر بہت شکر گزار ہوں۔میں نوجوانوں کو سخت محنت اور ترقی کرتا دیکھ کر بہت خوش ہوں۔ ہماری اُمیدیں اپنی نوجوان نسل سے وابستہ ہیں۔ میں سکھر میں پیدا ہو ئی اور 1989 میں سینٹ میری ہائی سکول سکھر سے ہی میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور پھر 1990 میں پری میڈیکل کے لئے گورنمنٹ گرلز کالج گئی کیونکہ اس وقت سکھر میں کوئی میڈیکل کالج نہیں تھا۔ اس لئے ایم بی بی ایس کرنے کےلئے چانڈکا میڈیکل کالج گئی۔ 1993 میں میری فیملی اوکلوہاما ، امریکہ میں شفٹ ہو گئی جبکہ میں نے واپس آکرایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کی۔مجھے پٹس برگ کے مرسی ہسپتال میں انٹرنل میڈیسن میں کام کرنے کا موقع ملا اور پھر میں نے یونیورسٹی آف اوکلوہا ما سے اینڈوکرینالوجی میں فیلوشپ مکمل کی۔ میں انٹرنل میڈیسن اور اینڈوکرینالوجی دونوں میں بورڈ سرٹیفائیڈ ہوں۔ اب میں نارمن ریجنل ہسپتال میں کام کرتی ہو ں اور نارمن ، اوکلو ہاما ، امریکہ میں اپنے شوہر ڈاکٹر نذیر بلوچ اور اپنے دو بچوں نویداور ایشاکے ساتھ رہتی ہوں۔
سوال: امریکہ میں رہنے والے ڈاکٹرز کے شب و روز کس طرح گزرتے ہیں ؟
جواب: یہ تو ڈاکٹر کی سپیشلٹی پر مبنی ہے۔ میرے آفس کا وقت پیر سے جمعہ تک صبح 8:30سے شام 5:00بجے تک ہے۔ ہفتہ اور اتوار کے دن آفس کھلا نہیں ہوتا لیکن اگر ہسپتال میں کسی مریض کو اینڈوکرینالوجسٹ کو دیکھنے کی ضرورت ہو تو ویک اینڈ پر بھی جا کر ان کو دیکھ لیتے ہیں۔
سوال: ابھی تک آپ کو کن کن ہسپتالوں میں فرائض سر انجام دینے کا موقع ملا ؟آپ کے خیال میں پاکستان اورامریکہ کے ہسپتالوں کے طریقہ علاج میں بنیا دی فرق کیا ہے اور اسی طرح وہا ں کے مریضوں اور پاکستانی مریضوں کے مزاج میں کیا بنیا دی فرق ہے ؟
جواب: جیسا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں میرا تجربہ پاکستا ن میں ایک طالب علم کی حد تک ہے۔میڈیکل کی تعلیم کے دوران مجھے چانڈکا ٹیچنگ ہسپتال ، سول ہسپتال ، شیخ ز ائد ومن ہسپتال اور چلڈرن ہسپتال میں جانے کا موقع ملا۔ایم بی بی ایس کرنے کے بعد میں نے بحیثیت ماہر نفسیات ،لاڑکانہ سول ہسپتا ل میں ہاﺅس جاب کی۔ میرے مشاہدے کے مطابق، ان دونوں ممالک کے درمیان صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے درمیان بنیادی فرق نظم وضبط، وسائل اور ٹیکنالوجی کا ہے۔امریکہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور پاکستا ن ابھی ترقی کے مراحل طے کرر ہا ہے۔صحت کی انشورنس پاکستان میں عام نہیں ہے۔زندگی بچانے والی ادویات کو استعمال کرنے کا شعور بھی بہت کم ہے۔ لوگ اس وقت تک ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے جب تک طبیعت اچھی خاصی خراب نہ ہوجائے۔ یقینی طور پر اس کے کچھ فوائد اورکچھ نقصانات ہیں۔مثال کے طور پر، ذیابیطس خاموشی سے وار کرتی ہے اورمرض کے آغاز میں اس کی کوئی نشانیاں اور علامات نہیں ہوتیں۔ اگر آپ کو سالانہ چیک اپ کرانے کی عادت نہیں ، تو آپ کو کبھی معلوم ہی نہیں ہو سکے گا کہ آپ بھی اس کا شکار ہو چکے ہیں۔
سوال: امریکہ میں بحیثیت ڈاکٹر اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کوئی ایسا واقعہ جس نے آپ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہوں ؟
جواب: بحیثیت ڈاکٹر مجھے مریضوں کے مشاہدات کا موقع ملتا رہتا ہے۔ میں روزانہ حیرت انگیز لوگوں سے ان کی ناقابل یقین کہانیا ں سنتی ہوں۔ایک مرتبہ مجھے ایک مریض نے کہا کہ جیسے جیسے ہماری عمر میں اضافہ ہو تا جاتا ہے ،زندگی ہمیں خوشگوار چیزیں دینا بند کر دیتی ہے اور ہم سے چیزیں لینا شروع کر دیتی ہے۔میں نے حا ل ہی میں ایک عورت کو نارمن ہسپتا ل میں دیکھا۔ میں اس کی صحت کے متعلق جدوجہد سن کر حیران رہ گئی۔ انہیں چار سال پہلے بتایا گیا تھا کہ ان کےلئے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔مجھے اس بات نے متاثر کیا کہ ہسپتال میں اس کے بیڈ کے آگے ایک کمپیوٹر پڑا تھا اور وہ ایک آن لائن کلاس لے رہی تھی۔اس نے مجھ سے کہا کہ میں کبھی کالج نہیں گئی ، اور اب میں اداس بیٹھنے کی بجائے کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے ان مریضوں میں ہمت اور شعور نظرآیا۔
سوال: اپنی بے پناہ مصروفیا ت کے باوجو د آپ نے عوام کی فلاح و بہبوداور خدمت کے جذبے کے تحت جو”بلا گ“ بنا یا ہے ، اس کے بارے میں کچھ بتائیں اوریہ بھی کہ اتنی مصروفیت کے باوجودآپ اس کام کے لئے کس طرح وقت نکالتی ہے؟
جواب: دنیا میں ہر روز معلومات کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔گذشتہ کچھ عرصہ سے ہر موضو ع پر جرائد و رسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے۔بی بی سی اردو اور کچھ اور ویب سائٹس کے علاوہ اردو میں جو معلومات موجود ہیں وہ بہت پرانی ہیں۔ اس خلاءکو پ±ر کر نے کی اشد ضرورت ہے۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اردو/ہندی دنیا کی تیسری بڑی بولی جانے والی زبان ہے۔ذیابیطس کے متعلق ہزاروں ویب سائٹس ، میگزین اور اخبارات موجود ہیں، ہمیں ایسے مقام کی ضرورت ہے جہا ں اردو جاننے والے آ کر یہ دیکھ سکیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ہفتہ وارچھٹیوں یا عام چھٹیوں میں زیا دہ تر میں اپنے بلا گ پر کام کرتی ہوں۔
سوال: آپ ذیا بیطس کے بارے میں کچھ بنیا دی معلومات فراہم کر یں کہ ذیا بیطس کی کتنی اقسام ہیں اور اس کو کن علامات سے پہنچانا جاتا ہے ؟
جواب: ذیا بیطس صرف ایک بیماری ہی نہیں بلکہ بیماریوں کا مجموعہ ہے جوکہ انسولین میں بے قاعدگی کی وجہ سے ہو جاتی ہے۔ذیا بیطس کی دو اقسام ہیں۔ذیا بیطس کی پہلی قسم میں جسم سے انسولین بالکل ختم ہو جا تی ہے۔جبکہ ذیا بیطس کی دوسری قسم میں انسولین درست طریقے سے کام نہیں کرتی۔
ذیابیطس کی شروع میں کوئی علامت نہیں ہوتی۔ جیسے جیسے بیماری بڑھتی ہے ، مریض کو بہت زیادہ بھوک، پیاس اور پیشاب کی زیادتی شروع ہو جاتی ہے۔
اگر یہ بیماری بڑھتی جائے اور مناسب علاج شروع نہ کیا جائے تو اس کی مختلف پیچیدگیاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ ذیابیطس کی آخری سطح کی پیچیدگیوں میں اندھاپن، گردوں کا ناکارہ ہوجانا، پیروں میں بے حسی پیدا ہوجانا، پیروں میں نہ بھرنے والے زخم ہو جانا اور دل کے دورے اور فالج وغیرہ شامل ہیں۔
سوال : جب کسی کویہ علم ہوجائے کہ وہ ذیابیطس میں مبتلا ہو گیا ہے تو اس مریض کو سب سے پہلا کام کیا کرنا چاہئے ؟
جواب: جب کسی مریض کو پہلی بار پتا چلتا ہے کہ وہ ذیا بیطس میں مبتلا ہے تو وہ بجا طور پر بہت خوف زدہ ہو جا تا ہے۔ذیا بیطس ایک سنجیدہ اور پیچیدہ بیماری ہے۔اگرآپ یا آپ کا کو ئی جاننے والا ذیا بیطس میں مبتلا ہے تو اپنے فیملی ڈاکٹرسے رجوع کریں اور اس کا صحیح طریقے سے علا ج کرائیں۔ علم ایک دولت ہے اس لئے آپ جتنا زیادہ سے زیا دہ سیکھ سکتے ہیں سیکھیں تا کہ آپ اس سنجیدہ بیماری کی مزید پیچیدگیوں سے بچ سکیں۔
سوال: کچھ لوگ ذیا بیطس کو لا علا ج مرض سمجھتے ہیں اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دم درود، تعویز اور درباروں پر حاضری سے بھی اس مر ض پر قابوپایا جاسکتا ہے ؟ آپ اپنی قیمتی آراءسے نوازیں۔
جواب: منیب ! یہ بہت دلچسپ سوال ہے اور اس کا جواب اتنا آسان نہیں ہے۔میں چاہوں گی کہ آپ میتھیو ہٹسن کی کتاب پڑھیں۔ مریض مختلف قسم کے مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ دنیا میں زیادہ تر لوگ ایک یاایک سے زیا دہ غیرمعقول عقائد پر یقین رکھتے ہیں وہ انہیں اتنی گہرائی سے نہیں جانچتے ، وہ ان فر سودہ رسومات کو اداکرتے ہیں۔ہم ان کے دعوں کو صحیح یا غلط ثابت نہیں کر سکتے۔یہاں تک کہ بہت سے تعلیم یافتہ اور ذہین لوگ بھی مافوق الفطرت سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔ ہمارا کام یہ نہیں کہ ان سے بحث کریں کہ آپ تعویز پہنیں یا نہیں، دربار پر دعا مانگیں یا کسی پیر فقیر کے پاس جائیں یا نہیں۔ آپ کس خدا سے دعا مانگیں۔ یہ تو مریضوں کاذاتی معاملہ ہے۔ اگر ان سب چیزوں سے ان کو تسلی ہوتی ہے تو وہ علاج کے لئے متبادل طریقے استعمال کرسکتے ہیں۔ ہم بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ آپ ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ دوا کا باقاعدہ استعمال جاری رکھیں۔
ہم سارے مریضوں سے کہتے ہیں کہ وہ متبادل طور پر حکیمی یا ہومیوپیتھک ادویات جو وہ استعمال کرتے ہیں اس کی تفصیل سے ہمیں آگاہ کریں تاکہ ہم یہ یقینی بنا سکیں کہ ان کا ہماری دی ہوئی دوائیوں کے ساتھ ری ایکشن نہ ہوتا ہو۔
سوال: کیا دوا کے استعما ل کے بغیر صرف احتیاطی تدابیر اختیا ر کر کے ذیابیطس کے مرض پر قابو پایاسکتا ہے ؟
جواب: ذیابیطس کی بیماری کا خطرہ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے، اگر کسی کی فیملی میں اور لوگوں کو بھی ذیابیطس ہو تو ان کا خطرہ زیادہ ہے، وزن زیادہ ہونا، بلڈ پریشر کی بیماری، کولیسٹرول زیادہ ہونا، غیر صحت مند کھانے کھانا، باقاعدگی سے ورزش نہ کرنا ذیابیطس کے خطرے کو بڑھا دیتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے عوامل کو تبدیل یا کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور بعض عوامل ایسے بھی ہیں کہ جنہیں آسانی سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ذیابیطس کے خطرات کو صحت مندطرز زندگی کو اپنا کر کم کر سکتے ہیں۔
برٹش میڈ یکل جرنل میں ایک ریسرچ شائع ہو ئی تھی جس میں بتایا گیاکہ جب مرض ذیابیطس کے آغاز میں 600کیلوریز ایک دن میں کھانے کی پابندی لگائی گئی تومریضوں کی ذیابیطس 8 ہفتے میں ٹھیک ہوگئی۔لیکن اگر ذیابیطس ایک باراچھی طرح قائم ہو جائے تو پھر واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔اس وقت ذیابیطس کو کنٹرول کرنے کے لئے ادویات کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
سوال: ذیابیطس کے مر یضوں کے لئے کو ن کون سی غذائیں مفید ہیں اور کون سی ایسی غذائیں ہیں جواستعمال نہیں کرنی چایئے؟
جواب: پھل، سبزیاں اور ریشے دار غذائیں مفید ہیں جبکہ چکنائیوں اور زیادہ میٹھی اشیاءکے استعمال میں اعتدال ضروری ہے۔ بھورے چاول سفید چاولوں سے بہتر ہیں اور ایسا آٹا زیادہ بہتر ہے جس میں سے بھوسی نہ نکالی گئی ہو۔ گوشت میں بکرے اور مرغی کا گوشت گائے کے گوشت سے بہتر ہے اور ہفتے میں تین دن مچھلی کھانے سے نسیان کی بیماری کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ مزید معلومات کے لئے میری کتاب میں غذا کا چیپٹر پڑھیں۔
سوال: ایلوپیتھی طریقہ علاج میں، ذیا بیطس کے مریضوں کے لئے کس قسم کی ادویات موجود ہیں اور کیا ان کے سائیڈ ایفکٹ بھی ہو سکتے ہیں ؟
جواب: سو سال پہلے کوئی ایلو پیتھک ادویات دستیاب نہیں تھیں لیکن اب ہمارے پاس وسیع پیمانے پر ذیا بیطس کے علاج کے لئے ادویات موجود ہیں۔یہ ایجنٹ مختلف ادویات کی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں جو مختلف میکانزم کے ذریعے کام کرتے ہیں۔ اس سوال کے تفصیلی جواب کے لئے میں آپ کو اپنی کتا ب ”وہ سب کچھ جو آپ کو ذیا بیطس کےلئے جاننے کی ضرورت ہے“ میں میڈ ی کیشن کا باب پرھنے کو ترجیح دوں گی۔
سوال: بہت سے ڈاکٹر صرف اپنے کمشن یا کسی میڈیسن کی پروموشن کے لئے مہنگی دواتجویز کر دیتے ہیں حالا نکہ مارکیٹ میں اسی طرح کی دواکم قیمت پربھی دستیا ب ہوتی ہیں ؟ اب ایک مریض کیا کرے؟
جواب: لوگوں کی معلومات میں دن بد ن اضافہ ہو رہاہے اور اس وجہ سے اب یہ کام محدود ہوتا جارہا ہے۔علم ایک دولت بھی ہے اور طاقت بھی ہے۔ میں اکثر مریضوں کو یہ مشورہ دیتی ہوں کہ وہ اپنی بیماری کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات کو جانیں ۔ اگر ڈاکٹر کوئی مہنگی دوائی تجویز کر دے اور وہ آپ کی قوت خرید سے باہر ہو تو آپ میڈیکل سٹور والوں سے مشورہ کر کے اس فار مولے سے قریب تر اور ملتی جلتی کم قیمت والی دواخرید لیں۔
سوال: گلوکو میٹر کیا ہے اور اس کے استعمال سے ذیا بیطس کے مریض کو کیا فائدہ ہوتا ہے اور گلوکو میٹر کا انتخاب کرتے وقت کن باتوں کو مد نظر رکھنا چاہئے ؟
جواب: ذیابیطس کو بہتر طور پر کنٹرول کر نے کے لئے بلڈشوگرکی مقدار کو چیک کرتے رہنا ذیابیطس کے علاج کا اہم حصہ ہے۔گلوکو میٹر ایک ایسا آلہ ہے جو بلڈ شوگر کی مقدار کی پیمائش اور نتا ئج حاصل کرنے کےلئے استعمال ہوتا ہے۔مارکیٹ میں مختلف ا قسام کے گلوکو میٹر دستیا ب ہیں۔ ہمارے مشورے سے امریکہ میں رہنے والے مریض وہ گلوکومیٹرخریدنے کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کی ہیلتھ انشورنس کی رینج میں آتا ہو۔گلوکو میٹر خریدتے وقت ان کا آپس میں موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔ اور اس گلوکو میٹر کا انتخاب کیجئے جو آپ آسانی سے استعمال کرسکیں اوراس کی قیمت بھی مناسب ہو۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلڈ شوگر کو باقاعدگی سے چیک کیا جا ئے اور اس کا ریکاڈ رکھا جائے تاکہ اس سے علاج کے دوران درست فیصلوں میں مدد لی جا سکے۔
سوال: ذیا بیطس کے مو ضوع پر آپ نے جو کتا ب لکھی ہے اس میں کیا خاص بات ہے اور یہ کہاں سے مل سکتی ہے؟
جواب: میری کتاب میں جدید ریسرچ پر مبنی تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں اور ذیابیطس کے بارے میں معلومات کو بہت سادہ اور آسان زبان میں بیان کیا گیا ہے۔اگر آپ اس کتاب کا مطالعہ کر یں گے تو آپ کو ذیابیطس کی سمجھ آنی شروع ہو جائے گی اور آپ اس کی تمام پیچیدگیوں کو جان کر اپنا علاج بہتر طریقے سے کر پائیں گے۔
سوال: آپ کے” بلاگ “ کی تحریر وں کو دیکھ کر اور صاحب کتاب ہونے کے بعد میرے خیال میں توآپ کو ایک صحافی ہو نا چاہئے تھا اگر آپ ڈاکٹر نہ بنتیں تو کس شعبہ زندگی کو اختیا ر کرنا پسند کرتیں؟
جواب: انسان ساری زندگی سیکھتا ہی رہتا ہے کسی بھی شعبہ میں مکمل تعلیم حاصل کر نے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ سیکھنا چھوڑ دیں، سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا۔اگر میں آج ایک ڈاکٹر نہ ہوتی تو میں ایک ٹیچر ہوتی۔میں یونیورسٹی سے مزید تعلیم حاصل کر تی اور اپنی ریسرچ جاری رکھتی۔
سوال: آپ کی کوئی ایسی خواہش جس کا ابھی تک پوری ہونے کا انتظار ہو؟
جواب: میری اولین خواہش جو ابھی تک پوری نہیں ہوئی وہ یہ ہے کہ میں لوگو ں میں کچھ نیا دریافت کرنے کے شعور کو فروغ دے سکوں اور وہ اس طرف متوّجہ ہوں۔
سوال: برائے مہربانی امریکہ میں اپنی فیلوشپ کے کسی واقعہ کے بارے میں بتائیں؟
جواب: میری یہ تصویر امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کے بعد ڈاکٹر بیکر کی رہائش پر پارٹی کے موقع پربنائی گئی۔اس تصویر میں میرے ساتھ میڈیکل کے شعبہ سے وابستہ معروف شخصیت ڈاکٹر ڈیوڈ کیم ہیں جو کہ میری فیلو شپ کے دوران میرے معاون تھے جو میری رہنمائی کرتے تھے۔انہوں نے saline infusion testاور captopril suppression test ایجاد کیا جس سے بنیادی hyperaldosteronism کی بیماری کی تشخیص کی جاسکتی ہے۔اس ٹیسٹ کو پوری دنیا میں بہت اہمیت حاصل ہے۔انہوں نے ڈاکٹر کون سے ٹرینگ حاصل کی جنہوں نے سب سے پہلے Conn’s syndromeکے بارے میں 1950 میں بتایا۔
جب میں نے امریکن بورڈ کا اینڈوکرینالوجی، ذیا بیطس اور میٹا بولیزم کا امتحان پاس کر لیاتواس موقع پر انہوں نے مجھے ایک ای میل بھیجی۔اس میں انہوں نے مجھے اور میری فیملی کو بہت مبارک باد دی۔
سوال: لوگوں کو اپنے پیغام میں کیا کہنا چاہیں گی؟
جواب: تمام لوگوں اور خاص طور پرنوجوان نسل کے لئے میرا پیغام یہ ہے کہ ہر چیز پر سوال کریں۔ آپ تحقیق کریں ، حل تلاش کریں،جواب تلاش کریں۔اس دنیا کو ایک اچھی جگہ بنانے میں مدد کریں۔بڑھتے رہیں، خواب دیکھتے رہیں اور خوش رہیں۔
www.diabetesinurdu.com
ربط
http://moneebjunior.com/بہت-اچھی-رائٹر-اور-بلاگرمحترمہ-ڈاکٹر-ل/
قیصرانی شمشاد یونس یوسف-2 تلمیذ @
سوال: آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں ، آپ نے اپنی تعلیم کہا ں سے حاصل کی ؟
جواب: سب سے پہلے تو میں اس انٹرویو کی دعوت پر بہت شکر گزار ہوں۔میں نوجوانوں کو سخت محنت اور ترقی کرتا دیکھ کر بہت خوش ہوں۔ ہماری اُمیدیں اپنی نوجوان نسل سے وابستہ ہیں۔ میں سکھر میں پیدا ہو ئی اور 1989 میں سینٹ میری ہائی سکول سکھر سے ہی میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور پھر 1990 میں پری میڈیکل کے لئے گورنمنٹ گرلز کالج گئی کیونکہ اس وقت سکھر میں کوئی میڈیکل کالج نہیں تھا۔ اس لئے ایم بی بی ایس کرنے کےلئے چانڈکا میڈیکل کالج گئی۔ 1993 میں میری فیملی اوکلوہاما ، امریکہ میں شفٹ ہو گئی جبکہ میں نے واپس آکرایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کی۔مجھے پٹس برگ کے مرسی ہسپتال میں انٹرنل میڈیسن میں کام کرنے کا موقع ملا اور پھر میں نے یونیورسٹی آف اوکلوہا ما سے اینڈوکرینالوجی میں فیلوشپ مکمل کی۔ میں انٹرنل میڈیسن اور اینڈوکرینالوجی دونوں میں بورڈ سرٹیفائیڈ ہوں۔ اب میں نارمن ریجنل ہسپتال میں کام کرتی ہو ں اور نارمن ، اوکلو ہاما ، امریکہ میں اپنے شوہر ڈاکٹر نذیر بلوچ اور اپنے دو بچوں نویداور ایشاکے ساتھ رہتی ہوں۔
سوال: امریکہ میں رہنے والے ڈاکٹرز کے شب و روز کس طرح گزرتے ہیں ؟
جواب: یہ تو ڈاکٹر کی سپیشلٹی پر مبنی ہے۔ میرے آفس کا وقت پیر سے جمعہ تک صبح 8:30سے شام 5:00بجے تک ہے۔ ہفتہ اور اتوار کے دن آفس کھلا نہیں ہوتا لیکن اگر ہسپتال میں کسی مریض کو اینڈوکرینالوجسٹ کو دیکھنے کی ضرورت ہو تو ویک اینڈ پر بھی جا کر ان کو دیکھ لیتے ہیں۔
سوال: ابھی تک آپ کو کن کن ہسپتالوں میں فرائض سر انجام دینے کا موقع ملا ؟آپ کے خیال میں پاکستان اورامریکہ کے ہسپتالوں کے طریقہ علاج میں بنیا دی فرق کیا ہے اور اسی طرح وہا ں کے مریضوں اور پاکستانی مریضوں کے مزاج میں کیا بنیا دی فرق ہے ؟
جواب: جیسا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں میرا تجربہ پاکستا ن میں ایک طالب علم کی حد تک ہے۔میڈیکل کی تعلیم کے دوران مجھے چانڈکا ٹیچنگ ہسپتال ، سول ہسپتال ، شیخ ز ائد ومن ہسپتال اور چلڈرن ہسپتال میں جانے کا موقع ملا۔ایم بی بی ایس کرنے کے بعد میں نے بحیثیت ماہر نفسیات ،لاڑکانہ سول ہسپتا ل میں ہاﺅس جاب کی۔ میرے مشاہدے کے مطابق، ان دونوں ممالک کے درمیان صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے درمیان بنیادی فرق نظم وضبط، وسائل اور ٹیکنالوجی کا ہے۔امریکہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور پاکستا ن ابھی ترقی کے مراحل طے کرر ہا ہے۔صحت کی انشورنس پاکستان میں عام نہیں ہے۔زندگی بچانے والی ادویات کو استعمال کرنے کا شعور بھی بہت کم ہے۔ لوگ اس وقت تک ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے جب تک طبیعت اچھی خاصی خراب نہ ہوجائے۔ یقینی طور پر اس کے کچھ فوائد اورکچھ نقصانات ہیں۔مثال کے طور پر، ذیابیطس خاموشی سے وار کرتی ہے اورمرض کے آغاز میں اس کی کوئی نشانیاں اور علامات نہیں ہوتیں۔ اگر آپ کو سالانہ چیک اپ کرانے کی عادت نہیں ، تو آپ کو کبھی معلوم ہی نہیں ہو سکے گا کہ آپ بھی اس کا شکار ہو چکے ہیں۔
سوال: امریکہ میں بحیثیت ڈاکٹر اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کوئی ایسا واقعہ جس نے آپ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہوں ؟
جواب: بحیثیت ڈاکٹر مجھے مریضوں کے مشاہدات کا موقع ملتا رہتا ہے۔ میں روزانہ حیرت انگیز لوگوں سے ان کی ناقابل یقین کہانیا ں سنتی ہوں۔ایک مرتبہ مجھے ایک مریض نے کہا کہ جیسے جیسے ہماری عمر میں اضافہ ہو تا جاتا ہے ،زندگی ہمیں خوشگوار چیزیں دینا بند کر دیتی ہے اور ہم سے چیزیں لینا شروع کر دیتی ہے۔میں نے حا ل ہی میں ایک عورت کو نارمن ہسپتا ل میں دیکھا۔ میں اس کی صحت کے متعلق جدوجہد سن کر حیران رہ گئی۔ انہیں چار سال پہلے بتایا گیا تھا کہ ان کےلئے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔مجھے اس بات نے متاثر کیا کہ ہسپتال میں اس کے بیڈ کے آگے ایک کمپیوٹر پڑا تھا اور وہ ایک آن لائن کلاس لے رہی تھی۔اس نے مجھ سے کہا کہ میں کبھی کالج نہیں گئی ، اور اب میں اداس بیٹھنے کی بجائے کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے ان مریضوں میں ہمت اور شعور نظرآیا۔
سوال: اپنی بے پناہ مصروفیا ت کے باوجو د آپ نے عوام کی فلاح و بہبوداور خدمت کے جذبے کے تحت جو”بلا گ“ بنا یا ہے ، اس کے بارے میں کچھ بتائیں اوریہ بھی کہ اتنی مصروفیت کے باوجودآپ اس کام کے لئے کس طرح وقت نکالتی ہے؟
جواب: دنیا میں ہر روز معلومات کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔گذشتہ کچھ عرصہ سے ہر موضو ع پر جرائد و رسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے۔بی بی سی اردو اور کچھ اور ویب سائٹس کے علاوہ اردو میں جو معلومات موجود ہیں وہ بہت پرانی ہیں۔ اس خلاءکو پ±ر کر نے کی اشد ضرورت ہے۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اردو/ہندی دنیا کی تیسری بڑی بولی جانے والی زبان ہے۔ذیابیطس کے متعلق ہزاروں ویب سائٹس ، میگزین اور اخبارات موجود ہیں، ہمیں ایسے مقام کی ضرورت ہے جہا ں اردو جاننے والے آ کر یہ دیکھ سکیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ہفتہ وارچھٹیوں یا عام چھٹیوں میں زیا دہ تر میں اپنے بلا گ پر کام کرتی ہوں۔
سوال: آپ ذیا بیطس کے بارے میں کچھ بنیا دی معلومات فراہم کر یں کہ ذیا بیطس کی کتنی اقسام ہیں اور اس کو کن علامات سے پہنچانا جاتا ہے ؟
جواب: ذیا بیطس صرف ایک بیماری ہی نہیں بلکہ بیماریوں کا مجموعہ ہے جوکہ انسولین میں بے قاعدگی کی وجہ سے ہو جاتی ہے۔ذیا بیطس کی دو اقسام ہیں۔ذیا بیطس کی پہلی قسم میں جسم سے انسولین بالکل ختم ہو جا تی ہے۔جبکہ ذیا بیطس کی دوسری قسم میں انسولین درست طریقے سے کام نہیں کرتی۔
ذیابیطس کی شروع میں کوئی علامت نہیں ہوتی۔ جیسے جیسے بیماری بڑھتی ہے ، مریض کو بہت زیادہ بھوک، پیاس اور پیشاب کی زیادتی شروع ہو جاتی ہے۔
اگر یہ بیماری بڑھتی جائے اور مناسب علاج شروع نہ کیا جائے تو اس کی مختلف پیچیدگیاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ ذیابیطس کی آخری سطح کی پیچیدگیوں میں اندھاپن، گردوں کا ناکارہ ہوجانا، پیروں میں بے حسی پیدا ہوجانا، پیروں میں نہ بھرنے والے زخم ہو جانا اور دل کے دورے اور فالج وغیرہ شامل ہیں۔
سوال : جب کسی کویہ علم ہوجائے کہ وہ ذیابیطس میں مبتلا ہو گیا ہے تو اس مریض کو سب سے پہلا کام کیا کرنا چاہئے ؟
جواب: جب کسی مریض کو پہلی بار پتا چلتا ہے کہ وہ ذیا بیطس میں مبتلا ہے تو وہ بجا طور پر بہت خوف زدہ ہو جا تا ہے۔ذیا بیطس ایک سنجیدہ اور پیچیدہ بیماری ہے۔اگرآپ یا آپ کا کو ئی جاننے والا ذیا بیطس میں مبتلا ہے تو اپنے فیملی ڈاکٹرسے رجوع کریں اور اس کا صحیح طریقے سے علا ج کرائیں۔ علم ایک دولت ہے اس لئے آپ جتنا زیادہ سے زیا دہ سیکھ سکتے ہیں سیکھیں تا کہ آپ اس سنجیدہ بیماری کی مزید پیچیدگیوں سے بچ سکیں۔
سوال: کچھ لوگ ذیا بیطس کو لا علا ج مرض سمجھتے ہیں اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دم درود، تعویز اور درباروں پر حاضری سے بھی اس مر ض پر قابوپایا جاسکتا ہے ؟ آپ اپنی قیمتی آراءسے نوازیں۔
جواب: منیب ! یہ بہت دلچسپ سوال ہے اور اس کا جواب اتنا آسان نہیں ہے۔میں چاہوں گی کہ آپ میتھیو ہٹسن کی کتاب پڑھیں۔ مریض مختلف قسم کے مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ دنیا میں زیادہ تر لوگ ایک یاایک سے زیا دہ غیرمعقول عقائد پر یقین رکھتے ہیں وہ انہیں اتنی گہرائی سے نہیں جانچتے ، وہ ان فر سودہ رسومات کو اداکرتے ہیں۔ہم ان کے دعوں کو صحیح یا غلط ثابت نہیں کر سکتے۔یہاں تک کہ بہت سے تعلیم یافتہ اور ذہین لوگ بھی مافوق الفطرت سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔ ہمارا کام یہ نہیں کہ ان سے بحث کریں کہ آپ تعویز پہنیں یا نہیں، دربار پر دعا مانگیں یا کسی پیر فقیر کے پاس جائیں یا نہیں۔ آپ کس خدا سے دعا مانگیں۔ یہ تو مریضوں کاذاتی معاملہ ہے۔ اگر ان سب چیزوں سے ان کو تسلی ہوتی ہے تو وہ علاج کے لئے متبادل طریقے استعمال کرسکتے ہیں۔ ہم بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ آپ ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ دوا کا باقاعدہ استعمال جاری رکھیں۔
ہم سارے مریضوں سے کہتے ہیں کہ وہ متبادل طور پر حکیمی یا ہومیوپیتھک ادویات جو وہ استعمال کرتے ہیں اس کی تفصیل سے ہمیں آگاہ کریں تاکہ ہم یہ یقینی بنا سکیں کہ ان کا ہماری دی ہوئی دوائیوں کے ساتھ ری ایکشن نہ ہوتا ہو۔
سوال: کیا دوا کے استعما ل کے بغیر صرف احتیاطی تدابیر اختیا ر کر کے ذیابیطس کے مرض پر قابو پایاسکتا ہے ؟
جواب: ذیابیطس کی بیماری کا خطرہ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے، اگر کسی کی فیملی میں اور لوگوں کو بھی ذیابیطس ہو تو ان کا خطرہ زیادہ ہے، وزن زیادہ ہونا، بلڈ پریشر کی بیماری، کولیسٹرول زیادہ ہونا، غیر صحت مند کھانے کھانا، باقاعدگی سے ورزش نہ کرنا ذیابیطس کے خطرے کو بڑھا دیتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے عوامل کو تبدیل یا کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور بعض عوامل ایسے بھی ہیں کہ جنہیں آسانی سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ذیابیطس کے خطرات کو صحت مندطرز زندگی کو اپنا کر کم کر سکتے ہیں۔
برٹش میڈ یکل جرنل میں ایک ریسرچ شائع ہو ئی تھی جس میں بتایا گیاکہ جب مرض ذیابیطس کے آغاز میں 600کیلوریز ایک دن میں کھانے کی پابندی لگائی گئی تومریضوں کی ذیابیطس 8 ہفتے میں ٹھیک ہوگئی۔لیکن اگر ذیابیطس ایک باراچھی طرح قائم ہو جائے تو پھر واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔اس وقت ذیابیطس کو کنٹرول کرنے کے لئے ادویات کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
سوال: ذیابیطس کے مر یضوں کے لئے کو ن کون سی غذائیں مفید ہیں اور کون سی ایسی غذائیں ہیں جواستعمال نہیں کرنی چایئے؟
جواب: پھل، سبزیاں اور ریشے دار غذائیں مفید ہیں جبکہ چکنائیوں اور زیادہ میٹھی اشیاءکے استعمال میں اعتدال ضروری ہے۔ بھورے چاول سفید چاولوں سے بہتر ہیں اور ایسا آٹا زیادہ بہتر ہے جس میں سے بھوسی نہ نکالی گئی ہو۔ گوشت میں بکرے اور مرغی کا گوشت گائے کے گوشت سے بہتر ہے اور ہفتے میں تین دن مچھلی کھانے سے نسیان کی بیماری کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ مزید معلومات کے لئے میری کتاب میں غذا کا چیپٹر پڑھیں۔
سوال: ایلوپیتھی طریقہ علاج میں، ذیا بیطس کے مریضوں کے لئے کس قسم کی ادویات موجود ہیں اور کیا ان کے سائیڈ ایفکٹ بھی ہو سکتے ہیں ؟
جواب: سو سال پہلے کوئی ایلو پیتھک ادویات دستیاب نہیں تھیں لیکن اب ہمارے پاس وسیع پیمانے پر ذیا بیطس کے علاج کے لئے ادویات موجود ہیں۔یہ ایجنٹ مختلف ادویات کی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں جو مختلف میکانزم کے ذریعے کام کرتے ہیں۔ اس سوال کے تفصیلی جواب کے لئے میں آپ کو اپنی کتا ب ”وہ سب کچھ جو آپ کو ذیا بیطس کےلئے جاننے کی ضرورت ہے“ میں میڈ ی کیشن کا باب پرھنے کو ترجیح دوں گی۔
سوال: بہت سے ڈاکٹر صرف اپنے کمشن یا کسی میڈیسن کی پروموشن کے لئے مہنگی دواتجویز کر دیتے ہیں حالا نکہ مارکیٹ میں اسی طرح کی دواکم قیمت پربھی دستیا ب ہوتی ہیں ؟ اب ایک مریض کیا کرے؟
جواب: لوگوں کی معلومات میں دن بد ن اضافہ ہو رہاہے اور اس وجہ سے اب یہ کام محدود ہوتا جارہا ہے۔علم ایک دولت بھی ہے اور طاقت بھی ہے۔ میں اکثر مریضوں کو یہ مشورہ دیتی ہوں کہ وہ اپنی بیماری کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات کو جانیں ۔ اگر ڈاکٹر کوئی مہنگی دوائی تجویز کر دے اور وہ آپ کی قوت خرید سے باہر ہو تو آپ میڈیکل سٹور والوں سے مشورہ کر کے اس فار مولے سے قریب تر اور ملتی جلتی کم قیمت والی دواخرید لیں۔
سوال: گلوکو میٹر کیا ہے اور اس کے استعمال سے ذیا بیطس کے مریض کو کیا فائدہ ہوتا ہے اور گلوکو میٹر کا انتخاب کرتے وقت کن باتوں کو مد نظر رکھنا چاہئے ؟
جواب: ذیابیطس کو بہتر طور پر کنٹرول کر نے کے لئے بلڈشوگرکی مقدار کو چیک کرتے رہنا ذیابیطس کے علاج کا اہم حصہ ہے۔گلوکو میٹر ایک ایسا آلہ ہے جو بلڈ شوگر کی مقدار کی پیمائش اور نتا ئج حاصل کرنے کےلئے استعمال ہوتا ہے۔مارکیٹ میں مختلف ا قسام کے گلوکو میٹر دستیا ب ہیں۔ ہمارے مشورے سے امریکہ میں رہنے والے مریض وہ گلوکومیٹرخریدنے کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کی ہیلتھ انشورنس کی رینج میں آتا ہو۔گلوکو میٹر خریدتے وقت ان کا آپس میں موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔ اور اس گلوکو میٹر کا انتخاب کیجئے جو آپ آسانی سے استعمال کرسکیں اوراس کی قیمت بھی مناسب ہو۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلڈ شوگر کو باقاعدگی سے چیک کیا جا ئے اور اس کا ریکاڈ رکھا جائے تاکہ اس سے علاج کے دوران درست فیصلوں میں مدد لی جا سکے۔
سوال: ذیا بیطس کے مو ضوع پر آپ نے جو کتا ب لکھی ہے اس میں کیا خاص بات ہے اور یہ کہاں سے مل سکتی ہے؟
جواب: میری کتاب میں جدید ریسرچ پر مبنی تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں اور ذیابیطس کے بارے میں معلومات کو بہت سادہ اور آسان زبان میں بیان کیا گیا ہے۔اگر آپ اس کتاب کا مطالعہ کر یں گے تو آپ کو ذیابیطس کی سمجھ آنی شروع ہو جائے گی اور آپ اس کی تمام پیچیدگیوں کو جان کر اپنا علاج بہتر طریقے سے کر پائیں گے۔
سوال: آپ کے” بلاگ “ کی تحریر وں کو دیکھ کر اور صاحب کتاب ہونے کے بعد میرے خیال میں توآپ کو ایک صحافی ہو نا چاہئے تھا اگر آپ ڈاکٹر نہ بنتیں تو کس شعبہ زندگی کو اختیا ر کرنا پسند کرتیں؟
جواب: انسان ساری زندگی سیکھتا ہی رہتا ہے کسی بھی شعبہ میں مکمل تعلیم حاصل کر نے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ سیکھنا چھوڑ دیں، سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا۔اگر میں آج ایک ڈاکٹر نہ ہوتی تو میں ایک ٹیچر ہوتی۔میں یونیورسٹی سے مزید تعلیم حاصل کر تی اور اپنی ریسرچ جاری رکھتی۔
سوال: آپ کی کوئی ایسی خواہش جس کا ابھی تک پوری ہونے کا انتظار ہو؟
جواب: میری اولین خواہش جو ابھی تک پوری نہیں ہوئی وہ یہ ہے کہ میں لوگو ں میں کچھ نیا دریافت کرنے کے شعور کو فروغ دے سکوں اور وہ اس طرف متوّجہ ہوں۔
سوال: برائے مہربانی امریکہ میں اپنی فیلوشپ کے کسی واقعہ کے بارے میں بتائیں؟
جواب: میری یہ تصویر امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کے بعد ڈاکٹر بیکر کی رہائش پر پارٹی کے موقع پربنائی گئی۔اس تصویر میں میرے ساتھ میڈیکل کے شعبہ سے وابستہ معروف شخصیت ڈاکٹر ڈیوڈ کیم ہیں جو کہ میری فیلو شپ کے دوران میرے معاون تھے جو میری رہنمائی کرتے تھے۔انہوں نے saline infusion testاور captopril suppression test ایجاد کیا جس سے بنیادی hyperaldosteronism کی بیماری کی تشخیص کی جاسکتی ہے۔اس ٹیسٹ کو پوری دنیا میں بہت اہمیت حاصل ہے۔انہوں نے ڈاکٹر کون سے ٹرینگ حاصل کی جنہوں نے سب سے پہلے Conn’s syndromeکے بارے میں 1950 میں بتایا۔
جب میں نے امریکن بورڈ کا اینڈوکرینالوجی، ذیا بیطس اور میٹا بولیزم کا امتحان پاس کر لیاتواس موقع پر انہوں نے مجھے ایک ای میل بھیجی۔اس میں انہوں نے مجھے اور میری فیملی کو بہت مبارک باد دی۔
سوال: لوگوں کو اپنے پیغام میں کیا کہنا چاہیں گی؟
جواب: تمام لوگوں اور خاص طور پرنوجوان نسل کے لئے میرا پیغام یہ ہے کہ ہر چیز پر سوال کریں۔ آپ تحقیق کریں ، حل تلاش کریں،جواب تلاش کریں۔اس دنیا کو ایک اچھی جگہ بنانے میں مدد کریں۔بڑھتے رہیں، خواب دیکھتے رہیں اور خوش رہیں۔
www.diabetesinurdu.com
ربط
http://moneebjunior.com/بہت-اچھی-رائٹر-اور-بلاگرمحترمہ-ڈاکٹر-ل/
قیصرانی شمشاد یونس یوسف-2 تلمیذ @