ڈاکٹر محمد سلیم کے مقالے سے چنداقتباسات ..عظمت اقبال ؒ

سید زبیر

محفلین
ڈاکٹر محمد سلیم کے مقالے سے چنداقتباسات ..عظمت اقبال ؒ
ٍ* " یکم دسمبر 1931ء کو اقبال مصر پہنچے۔ حمزہ فاروقی لکھتے ہیں کہ 2دسمبر 1931ء کی صبح مصر کے مشہور صاحب طریقت بزرگ سید محمد ماضی ابوالعزائم اپنے دو صاحبزادوں کیساتھ اقبال سے ملاقات کیلئے اس ہوٹل میں آئے جہاں اقبال ٹھہرے ہوئے تھے۔ اقبال انہیں ہوٹل میں دیکھ کر پریشان ہوئے اورکہا کہ آپ نے تکلیف کیوں کی، میں خود حاضر ہو جاتا۔ انہوں نے کہا: ’’خواجہ دوجہاںﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے دین سے تمسک کیا ہو اسکی زیارت کو جائو گے تو مجھے خوشی ہو گی۔ لہٰذا میں اس ارشاد کے اتباع میں چلا جاتا ہوں تاکہ میرے آقا مجھ سے خوش ہوں۔‘‘ اقبال ان کی بات سن کر بے تاب سے ہو گئے۔ سید ابوالعزائم دیر تک بیٹھے نصیحتیں کرتے رہے۔ یہ بھی کہا کہ میں بادشاہوں کی ملاقات کیلئے بھی گھر سے باہر نہیں نکلا۔ لیکن آپکی ملاقات کیلئے آیا ہوں۔ جب وہ چلے گئے تو آنسوؤں کا سیلاب اقبال کی آنکھوں سے بے اختیار بہہ نکلا: ’’ایسا زمانہ بھی آ گیا ہے کہ لوگ مجھ جیسے گناہ گار کو متمسک بالدین سمجھ کر حضور خواجہ دوجہاںﷺ کے ارشاد کے اتباع میں بغرض خوشنودی آنحضرت ﷺ ملنے آتے ہیں۔اپنی وفات سے چند ماہ پہلے علامہ اقبال نے اپنے بارے میں یہ لاجواب رباعی کہی کہ جسے پڑھ کر ان کی عظمت کا شدید احساس دل و دماغ پر چھا جاتا ہے۔ بے شک، وہ ایک ایسی عظیم ہستی تھی کہ صدیوں کے انتظارکے بعد جس کی آمد سے زمانے کی آرزو پوری ہوتی ہے۔
سرود رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سرآمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے رازآید کہ ناید
ترجمہ: سرود رفتہ واپس آئے کہ نہ آئے، حجاز سے ٹھنڈی ہوا آئے کہ نہ آئے
یہ فقیر دنیا سے جا رہاہے، دوسرا دانائے راز آئے کہ نہ آئے
* ۹جنوری 1938ء کو یوم اقبال منانے کیلئے حیدر آباد کے ٹأون ہال میں ایک عظیم الشان جلسہ ہوا جس کی صدارت نواب اعظم جاہ پرنس برار نے کی۔ دوسرے اجلاس کی صدارت سر کشن پرشاد نے کی جو اس سے چند ماہ پہلے حیدر آباد کی وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے خطبۂ صدارت میں کہا:اردو شاعری کی اس جنم بھومی میں آج کا دن حقیقت میں ایک یادگار دن ہے کیونکہ آج ہم سر اقبال جیسے مشہور و مقبول شاعر کی خصوصیات کی داد و تحسین کیلئے جمع ہوئے ہیں… خودی اقبال کے کلام کا سرنامۂ امتیاز ہے اور یہی ایک لفظ اس تمام دعوت سعی و عمل کا آئینہ دار ہے خودی احساس نفس بلکہ عظمت نفس کا درس ہے جسے اقبال کی باریک بین نظروں نے پہچانا… حقیقت میں اقبال جس بین الاقوامی شہرت کا مالک ہے وہ اس کاجائز حق ہے اور اس کا پیغام فرزندان مشرق کبھی فراموش نہ کر سکیں گے۔ آئندہ نسلیں اس کا فیصلہ کریں گی کہ ہندوستان کی ادبی ناہمواری کی اصلاح اور قومی ترقی میں اس زندۂ جاوید شاعر کا کس قدر حصہ تھا… ظلم ہوتا اگر مشرق اس باکمال شاعر کو اسکی زندگی میں کم سے کم خراج تحسین بھی ادا نہ کرتا۔ مجھے مسرت ہے کہ ہمارے اہل ملک دوسرے اقطاع ہندوستان سے پیچھے نہیں رہے‘ میری دعا ہے کہ خدا سر اقبال کوبہت دن زندہ رکھے تاکہ ہندوستان انکے نغمہ بیداری سے زندگی اور کامیابی کا درست حاصل کرتا رہے۔
فیض ہی نے تو کہا ہے: * آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیرآیا اور اپنی دھن میں غزل خواں گزر گیاسنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیںویران مے کدوں کا نصیبہ سنور گیاتھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیافیض کہتے تھے کہ اقبال کو پڑھتے وقت کوئی اور شاعر نظر میں نہیں جچتا‘ فکر اور شعر دونوں میں ہمہ گیر اور آفاقی۔فیض کراچی جاتے تو ہمیشہ مجید ملک کے ہاں ٹھہرتے ایک بار مجید ملک پوچھنے لگے: فیض، اب تمہاری عمر کیا ہے؟ فیض نے بتایا کہ وہ پچپن سال کے ہو چکے ہیں۔ مجید ملک بولے: آپکو معلوم ہے کہ اقبال نے اس عمر تک کیا کچھ کر لیا تھا۔ اسکے بعد مجید ملک نے اقبال کی جملہ تصنیفات نظم و نثر کے نام گنوا دیے اور تان اس پر توڑی کہ فیض کی اب تک فقط دو ہی کتابیں شائع ہوئی ہیں: ’’نقش فریادی‘‘ اور ’’دست صبا‘‘۔ فیض نے بڑے ادب اور انکسار کے لہجے میں جواب دیا: مجید بھائی، اب آپ میرا موازنہ اقبال سے تو نہ کیجئے۔ ان کا تخلیقی جوہر تو ایک شعلہ جوالا تھا اور میرا ایک ننھی سی شمع کی لو۔"
 
سرود رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سرآمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے رازآید کہ ناید
ترجمہ بھی ازراہِ کرم :)
ترجمہ: سرود رفتہ واپس آئے کہ نہ آئے، حجاز سے ٹھنڈی ہوا آئے کہ نہ آئے
یہ فقیر دنیا سے جا رہاہے، دوسرا دانائے راز آئے کہ نہ آئے
جزاک اللہ۔۔۔یہ دو اشعار اقبال کی زندگی کے آخری اشعار ہیں۔۔۔وفات سے کچھ وقت پہلے کہے گئے۔۔۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ترجمہ: سرود رفتہ واپس آئے کہ نہ آئے، حجاز سے ٹھنڈی ہوا آئے کہ نہ آئے
یہ فقیر دنیا سے جا رہاہے، دوسرا دانائے راز آئے کہ نہ آئے

:cry:
 
Top