عرفان سعید
محفلین
10اب تک کتنے ھو گئے ہیں؟
10اب تک کتنے ھو گئے ہیں؟
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
وحشت عشق بھی ہے چاک لبادہ بھی نہیں
بھول جانے کا تجھے کوئی ارادہ بھی نہیں
مرحبا کہتا ہوں میں لگتا ہے جب تیر کوئی
دل میں گو زخم نمائی کا ارادہ بھی نہیں
میں ترے کوچے میں سنگسار ہوا ہوں جاناں
اور تو ہے کہ سر بام ستادہ بھی نہیں
درد سہتا رہوں میں اور نہ اف تک بھی کروں
سچ کہوں تو مرا دل اتنا کشادہ بھی نہیں
تم ہی تدبیر کرو ملنے کی کوئی یارو
میں بہادر ہوں مگر اتنا زیادہ بھی نہیں
میں ہی دیوانہ ہوں جو تکتا ہوں راہیں اس کی
جبکہ اس نے کیا مجھ سے کوئی وعدہ بھی نہیں
کتنے خورشید رہے اس کے لئے چشم براہ
اور میں ایک چراغ سر جادہ بھی نہیں
مری نظروں سے سمجھ پائے نہ مفہوم مرا
وہ بہت سیدھا سہی اتنا وہ سادہ بھی نہیں
خلعت شاہی سے کیا واسطہ درویشوں کا
میرے خرقے سا ملائم وہ لبادہ بھی نہیں
ہم بھی پیتے ہیں مگر تیری نظر سے ساقی
مست کے مست ہیں اور تہمت بادہ بھی نہیں
میں بھٹکتا رہا خانوں میں ہی تاعمر نعیم
گرچہ شطرنج کی بازی کا پیادہ بھی نہیں
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
یوں تو ہیں اس شہر میں میرے ہزاروں آشنا
ڈھونڈنے سے بھی کہیں ملتی نہیں مہر و وفا
کون جانے مل ہی جائے کوئی مجھ سا ایک دن
کھوج میں رہتا ہوں اسکی قریہ قریہ جا بہ جا
سوچتا ہوں کھو نہ جاؤں زندگی کی بھیڑ میں
ہمسفر کوئی نہیں‘ مشکل بہت ہے راستہ
ہر کوئی یہ چاہتا ہے میں جھکا دوں اپنا سر
ایک ہی سر ہے مرا اور ان گنت جھوٹے خدا
کیوں نہ چل کے گھر بنائیں جنگلوں میں ہم بھی اب
بستیوں میں آ گئے ہیں شیر گیدڑ اژدھا
آدم و حوا جب اترے تو زمیں ویران تھی
اب زمیں پر ہر جگہ ملتا ہے ان کا نقش پا
ایک ہی میرا خدا ہے اور وہ بھی بے نیاز
ہے یقیں پھر بھی مجھے‘ پوری مری ہو گی دعا
ہو رہا ہے رات دن اب مجھ پہ شعروں کا نزول
رنگ دکھلائے گا کچھ تو دل کا یہ غار حرا
روح کب سے قید ہے اس جسم کے زندان میں
دیکھئے کب ختم ہوتی ہے مری قید انا
اٹھ گیا ہے کون جانے بزم یاراں سے نعیم
سونا سونا لگ رہا ہے آج کل شہر وفا
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
عمر محلوں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
دائم اونچا ترا سر ہو یہ ضروری تو نہیں
وقت تو وقت ہے تبدیل بھی ہو سکتا ہے
زندگی یوں ہی بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
ایک میخوار نے گر ٹھانی ہے اب سجدے کی
اس کے دل میں ترا در ہو یہ ضروری تو نہیں
بن کے مجنوں وہ پکارے تجھے لیلیٰ لیلیٰ
قیس پھر خاک بہ سر ہو یہ ضروری تو نہیں
کاٹ دے تیشے سے فرہاد پہاڑوں کا جگر
کوئی شیریں پہ اثر ہو یہ ضروری تو نہیں
دل ناداں کو بہت ہم نے یہ سمجھایا ہے
یہ ہی بےچینی ادھر ہو یہ ضروری تو نہیں
حال میرا وہ سمجھ جائے مرے چہرے سے
اس کے پاس ایسا ہنر ہو یہ ضروری تو نہیں
میں خیال اپنا بھی رکھ لوں تو یہی کافی ہے
مجھے دنیا کی خبر ہو یہ ضروری تو نہیں
جس کی بربادی کا چرچا ہے زمانے بھر میں
وہ نعیم اپنا ہی گھر ہو یہ ضروری تو نہیں
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
مرحلے عشق کے آسان نظر آتے ہیں
وہ بھی شرمندۂ احسان نظر آتے ہیں
پاس جائیں گے تو دیکھیں گے کہ مشکل کیا ہے
دور سے کام سب آسان نظر آتے ہیں
اپنے باطن کو بھی دیکھا ہے اے زاہد تو نے
ہم تو انسان ہیں انسان نظر آتے ہیں
اس قدر محو رہے حرص و ہوس میں کچھ لوگ
شکل و صورت سے ہی شیطان نظر آتے ہیں
شاید اب ہونے لگا ہے انہیں احساس گناہ
میرے احباب پشیمان نظر آتے ہیں
ان کے ایماں کی حقیقت تو خدا ہی جانے
وہ بظاہر تو مسلمان نظر آتے ہیں
ماجرا کیا ہے کہ ہم جب سے ملے ہیں تجھ سے
سب کے سب دوست پریشان نظر آتے ہیں
میں اکیلا ہی نہیں عہد وفا کا مجرم
اس کے ہونٹوں پہ بھی پیمان نظر آتے ہیں
لوگ لیتے ہیں ترا نام ہمیں دیکھ کے اب
ہم ترے حسن کی پہچان نظر آتے ہیں
جب سے ڈالی ہے نعیم اس نے نگاہ الفت
بدلے بدے مرے ارمان نظر آتے ہیں
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
میری آنکھوں سے کبھی دل میں اتر کر دیکھو
بہہ رہا ہے جو محبت کا سمندر دیکھو
عزم پختہ ہے تو منزل پہ بھی پہنچو گے ضرور
بیقراری سے نہ ہر میل کا پتھر دیکھو
ہار پھولوں کے مجھے ڈالنے والے لوگو
تم کسی شب مرا کانٹوں بھرا بستر دیکھو
وہ مرا دوست ہے مجھ کو بھی یقیں ہے لیکن
اس نے پھولوں میں چھپایا ہے جو خنجر دیکھو
کچھ نہ مل پائے گا اس سے کبھی اشکوں کے سوا
جس نے ٹھکرایا تمہیں اس کو نہ مڑ کر دیکھو
عشق کہتے ہیں کسے خود ہی سمجھ جاؤ گے
کسی درویش سے دل اپنا لگا کر دیکھو
کب تلک پھول کی مانند رہو گے گمنام
کبھی خوشبو کی طرح تم بھی بکھر کر دیکھو
ترس آتا ہے کسے دیکھ کے بگڑی حالت
پیاری توقیر ہے پیارے تو سنور کر دیکھو
خوشیاں سب بھول گئی ہیں مرے گھر کا رستہ
مری گلیوں سے کبھی تم بھی گزر کر دیکھو
پاس کوئی بھی نہیں تھا مرے اپنوں کے سوا
کس نے گھونپا ہے مری پیٹھ میں خنجر دیکھو
سنگدل جو مجھے کہتے ہیں وہ سمجھے ہی نہیں
دل مرا موم ہے اس کو کبھی چھو کر دیکھو
میرے اشعار ہیں انمول نگینوں کی طرح
تم مرے پاس نہ مال و زر و جوہر دیکھو
رات کی تیرگی میں روز ہی جاتے ہو نعیم
آج بے وقت بھی گھر میں ذرا جا کر دیکھو
V Niecغزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
بعد مدت کے ہوئے ہیں آج دونوں روبرو
شاعری ہوتی رہے گی پہلے کر لیں گفتگو
پہلی ناکامی کا دکھ دل سے کبھی جاتا نہیں
بعد میں گو ہو بھی جائیں کامیاب و سرخرو
درد الفت کی کسک محسوس ہوتی ہے سدا
کچھ نشاں جاتے نہیں گو زخم ہو جائیں رفو
میں بھی اب قطع تعلق کے نہیں اتنا خلاف
چاہتا ہے دل مگر اس کا کرے آغاز تو
جان من گر زخم دینا ہے تو دو اتنا بڑا
پھر نہ آئے زندگی بھر دل میں کوئی آرزو
تم سے کیا شکوہ گلہ میں بیوفائی کا کروں
ایک تم ہی تو نہیں میرے زمانے میں عدو
کنج تنہائی سے ہم نکلیں بھی تو جائیں کہاں
تیر نظروں کے لئے پھرتے ہیں خوباں کو بہ کو
وہ تو خاموشی سے دیتا ہے سوالوں کا جواب
ختم ہو سکتی ہے کیسے پھر ہماری گو مگو
ڈھونڈتے ہیں جو سدا تدبیر میں تقدیر کو
قابل تحسین ہے ان دوستوں کی جستجو
دین و دنیا لٹ چکے تھے اپنے پہلے ہی نعیم
کیا ہوا جاتی رہی گر عشق میں اب آبرو
Well doneغزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
ملتی ہے ہم غریبوں سے ناز و ادا کے ساتھ
شکوہ ہمیں بس اتنا ہے باد صبا کے ساتھ
جانے کہاں پہ رکتے ہیں اب دل کے ولولے
دیوانے آ ملے ہیں کچھ اہل وفا کے ساتھ
آنکھوں سے اپنی اشک جو روکیں تو کس طرح
یہ سلسلے بھی چلتے ہیں تیری رضا کے ساتھ
نادان کوئی ہم سا بھی ہو گا جہان میں
دل کا دیا جلا کے چلے ہیں ہوا کے ساتھ
دیکھا نہ فرق کوئی حرم اور دیر میں
ہم بتکدے میں ایسے تھے جیسے خدا کے ساتھ
پہنچے گا کس طرح کبھی منزل پہ کارواں
الجھے رہے جو لوگ یوںہی رہنما کے ساتھ
سورج کی روشنی ہو کہ چندا کی چاندنی
تاریکیاں بھی ہوتی ہیں یارو ضیا کے ساتھ
رسوائیوں کا اپںی کوئی غم نہیں مجھے
شامل تری جفا بھی ہے میری وفا کے ساتھ
مہندی کا رنگ کیوں نہ چڑھے دست ناز میں
خون تمنا میرا ہے تیری حنا کے ساتھ
اس بیوفا کا ذکر نہ چھیڑو یہاں نعیم
نشتر سے دل پہ چلتے ہیں ذکر وفا کے ساتھ
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
میں ہی نہیں ہوں جس کو تری جستجو نہیں
ہے کون جس کے دل میں تری آرزو نہیں
دنیا میں اس سا اور نہ مل پائے گا کہیں
زاہد ہمارا دل ہے یہ جام و سبو نہیں
وہ میرے حال زار پہ ہنستے ہیں اس طرح
میری رگوں میں دوڑتا جیسے لہو نہیں
ہاتھوں کو چاہے خوشبو سے دھو لو ہزار بار
جاتی کبھی بھی خون تمنا کی بو نہیں
رہتا ہوں صبح و شام خیالوں میں ہم کلام
کب پرتو جمال ترا روبرو نہیں
عزت سے بڑھ کے چیز نہیں کوئی دوستو
اس بزم میں نہ جاؤ جہاں آبرو نہیں
سیرت ہی گر نہیں ہے تو صورت کا فائدہ
بےکار ہے وہ پھول اگر رنگ و بو نہیں
آتا نہیں نظر تو نظر کا قصور ہے
کیا اس کا حسن جلوہ فشاں چار سو نہیں
ایسا نہیں ہے دنیا میں کوئی بھی آدمی
جس کا کوئی بھی دوست یا کوئی عدو نہیں
کیا تجھ کو دیں نعیم تری بات کا جواب
پوری جو ہو سکے وہ تری آرزو نہیں
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
شکستہ حال ہوں یا ہوں ہم اچھے حالوں میں
ہمیشہ رہتے ہیں خوش ہم ترے خیالوں میں
وہ حسن ظن کہ جفا بھی ہمیں وفا ہی لگی
وہ سادگی کہ رہے دوستوں کی چالوں میں
فسون آبلہ پائی ہے یا طلسم وفا
حنا کا رنگ جھلکتا ہے میرے چھالوں میں
یہ نورماہ بھی ہے مستعار سورج سے
بجز غرور نہیں کچھ بھی حسن والوں میں
غم حیات میں محصور ہم ہوئے ایسے
کہ جیسے تتلی بچاری پھنسی ہو جالوں میں
کوئی بھی ساتھ نہیں ہے شب الم میں تو کیا
کہ ساتھ سائے بھی دیتے ہیں صرف اجالوں میں
کہاں سے آئے ہیں ہم اور کہاں پہ جانا ہے
مدام الجھے رہے ہم انہی سوالوں میں
عوام الناس نے جب کی مری پزیرائی
خواص جتنے بھی تھے چھپ گئے حوالوں میں
ستا نہ اتنا بھی ظالم تو ہم فقیروں کو
خدا نے رکھی ہے تاثیر میرے نالوں میں
لٹائی جان نہ دنیا گنوائی ہم نے نعیم
ہمارا نام ہے شامل مگر مثالوں میں
Waoغزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
مدت سے انتظار تھا اس کے جواب کا
بھیجا ہے اس نے پھول مجھے اک گلاب کا
اک پارسا کو پیری میں دے دعوت گناہ
یارو برا ہو اس دل خانہ خراب کا
یا رب مرے وطن کے غریبوں کی خیر ہو
جاری ہوا ہے حکم نیا احتساب کا
ہم جانتے ہیں کس کو کرے گا وہ منتخب
کوئی ہمیں فریب نہ دے انتخاب کا
یہ تیرگئ شب تو سحر کی دلیل ہے
اے مےکشو اٹھو کہ ہے وقت انقلاب کا
اک روز رنگ لائیں گے یہ رتجگے مرے
کچھ تو نتیجہ نکلے گا اس اضطراب کا
آنکھوں کے سامنے ہیں پرانے نقوش سب
لگتا ہے جس طرح کہ یہ عالم ہو خواب کا
آیا تھا ہم سے ملنے وہ دنیا کو چھوڑ کر
بھولا نہیں سماں وہ شب ماہتاب کا
کہتے ہیں ہم سے وہ کہ امانت ہیں غیر کی
اچھا بہانہ ڈھونڈا ہے یہ اجتناب کا
دیکھی جو اس کی شوخی و ناز و ادا نعیم
یاد آگیا ہمیں بھی زمانہ شباب کا
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
تری محفل سے اٹھ کر تیرے دیوانے کہاں جائیں
محبت ہو گئی جن کو وہ فرزانے کہاں جائیں
ہم اپنی جان کا نذرانہ دینے آئے ہیں تجھ کو
بتا اے شمع تو ہی تیرے پروانے کہاں جائیں
ہم اپنے آنسوؤں کو تو چھپا لیتے ہیں دامن میں
جھلکتےہیں جو شعروں سےوہ افسانےکہاں جائیں
سمجھ آیا سبب ساقی تری بے التفاتی کا
تو آنکھوں سے پلا دے گر تو پیمانےکہاں جائیں
نہ مسجد میں لگا یہ دل نہ میخانہ ہی راس آیا
ترے بھٹکے ہوئے بںدے خدا جانے کہاں جائیں
نہ تو اغیار سنتے ہیں نہ اپنے ہی سمجھتے ہیں
تمہی بتلاؤ ہم دنیا کو سمجھانے کہاں جائیں
جسےبھی دوست سمجھےہم وہ درپردہ عدو نکلا
یہ اجلےاجلےچہرے ہم سے پہچانے کہاں جائیں
دھڑکتی ہیں ترے باعث ہی ساری دھڑکنیں دل کی
اگر تو ہی نہ ہو تو آئنہ خانے کہاں جائیں
ہے ناحق ہم پہ یہ تہمت بتوں سے دل لگانےکی
ہو کعبہ جن کےسینے میں وہ بُتخانےکہاں جائیں
نعیم آؤ اسی کے آگے کرتے ہیں ہم اک سجدہ
بھری دنیا کے آگے ہاتھ پھیلانے کہاں جائیں
وقت تو وقت ھے تبد یل بھی ھو سکتا ھےغزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
عمر محلوں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
دائم اونچا ترا سر ہو یہ ضروری تو نہیں
وقت تو وقت ہے تبدیل بھی ہو سکتا ہے
زندگی یوں ہی بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
ایک میخوار نے گر ٹھانی ہے اب سجدے کی
اس کے دل میں ترا در ہو یہ ضروری تو نہیں
بن کے مجنوں وہ پکارے تجھے لیلیٰ لیلیٰ
قیس پھر خاک بہ سر ہو یہ ضروری تو نہیں
کاٹ دے تیشے سے فرہاد پہاڑوں کا جگر
کوئی شیریں پہ اثر ہو یہ ضروری تو نہیں
دل ناداں کو بہت ہم نے یہ سمجھایا ہے
یہ ہی بےچینی ادھر ہو یہ ضروری تو نہیں
حال میرا وہ سمجھ جائے مرے چہرے سے
اس کے پاس ایسا ہنر ہو یہ ضروری تو نہیں
میں خیال اپنا بھی رکھ لوں تو یہی کافی ہے
مجھے دنیا کی خبر ہو یہ ضروری تو نہیں
جس کی بربادی کا چرچا ہے زمانے بھر میں
وہ نعیم اپنا ہی گھر ہو یہ ضروری تو نہیں
ہم اپنے آنسوؤں کوغزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
تری محفل سے اٹھ کر تیرے دیوانے کہاں جائیں
محبت ہو گئی جن کو وہ فرزانے کہاں جائیں
ہم اپنی جان کا نذرانہ دینے آئے ہیں تجھ کو
بتا اے شمع تو ہی تیرے پروانے کہاں جائیں
ہم اپنے آنسوؤں کو تو چھپا لیتے ہیں دامن میں
جھلکتےہیں جو شعروں سےوہ افسانےکہاں جائیں
سمجھ آیا سبب ساقی تری بے التفاتی کا
تو آنکھوں سے پلا دے گر تو پیمانےکہاں جائیں
نہ مسجد میں لگا یہ دل نہ میخانہ ہی راس آیا
ترے بھٹکے ہوئے بںدے خدا جانے کہاں جائیں
نہ تو اغیار سنتے ہیں نہ اپنے ہی سمجھتے ہیں
تمہی بتلاؤ ہم دنیا کو سمجھانے کہاں جائیں
جسےبھی دوست سمجھےہم وہ درپردہ عدو نکلا
یہ اجلےاجلےچہرے ہم سے پہچانے کہاں جائیں
دھڑکتی ہیں ترے باعث ہی ساری دھڑکنیں دل کی
اگر تو ہی نہ ہو تو آئنہ خانے کہاں جائیں
ہے ناحق ہم پہ یہ تہمت بتوں سے دل لگانےکی
ہو کعبہ جن کےسینے میں وہ بُتخانےکہاں جائیں
نعیم آؤ اسی کے آگے کرتے ہیں ہم اک سجدہ
بھری دنیا کے آگے ہاتھ پھیلانے کہاں جائیں
بہت اعلی۔۔۔ ڈاکٹر نعیم چشتی صاحبغزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
یہی دعا ہے تو پھر کوئی بھی دعا نہ کرے
بچھڑکےاس سے میں زندہ رہوں خدا نہ کرے
فلک سے اس کو فرشتے سلام کرتے ہیں
جو سنگسار بھی گر ہو تو بد دعا نہ کرے
کوئی بھی ظلم نہیں اس سے بڑھ کےدنیا میں
کسی کےپیارے کو اس سےکوئی جدا نہ کرے
اے دوست تیرے لئے بس یہی دعا ہے مری
خدا تجھے کسی غم سے بھی آشنا نہ کرے
کیا ہے ہم نے کہاں روز حشر سے انکار
ہر ایک روز وہ حشر اک نیا بپا نہ کرے
میں اس کے سامنے بےبس سہی مگر یا رب
کسی کےسامنے بےبس مجھےقضا نہ کرے
وہ میرا دوست ہے کیوں بیوفا کہوں اس کو
ہزار وعدے کرے اور وہ وفا نہ کرے
خیال کچھ تو کرے وہ مری محبت کا
وہ میرے سامنے تو ذکر غیر کا نہ کرے
کہیں بھی جائےوہ دنیا میں پورا حق ہےاسے
مرے رقیب سے مل کر مگر جفا نہ کرے
ہوا ہےتجھ سےسوالی تو خوش نصیب ہےتو
نعیم ہر کس و ناکس سے التجا نہ کرے
طوفان سے کھیلنے کا کچھ ایساجنون تھاغزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
دنیا سمجھ رہی تھی کہ سوتے رہے ہیں ہم
در اصل تیری یاد میں روتے رہے ہیں ہم
دل میں لگی تھی آگ جو اتنی شدید تھی
دامن کو آنسوؤں میں بھگوتے رہےہیں ہم
طوفاں سے کھیلنے کا کچھ ایسا جنون تھا
خود اپنی کشتیوں کو ڈبوتے رہے ہیں ہم
ہنستے رہے ہمیشہ ہم اوروں کے سامنے
تنہائیوں میں بیٹھ کے روتے رہے ہیں ہم
اترے جو دل کی جھیل میں تم بن کےماہتاب
دل پر لگےتھے زخم جو دھوتےرہےہیں ہم
کوشش کے باوجود تجھے جب نہ پا سکے
خود کو تری تلاش میں کھوتے رہے ہیں ہم
ہمراز ہی تھا کوئی نہ کوئی تھا غمگسار
اشعار میں غموں کو سموتے رہےہیں ہم
کہنے کو زندگی میں بہت کامیاب تھے
بار غم حیات کو ڈھوتے رہے ہیں ہم
بدلے میں نیکیوں کے ملی ہیں برائیاں
اچھائیوں کے بیج ہی بوتے رہے ہیں ہم
کہتے ہیں جس کو لوگ ہماری غزل نعیم
پلکوں میں اپنے موتی پروتے رہے ہیں ہم
بطور ای بک کے چشتی صاحب کا کلام پیش کر دیتے تو بہتر تھا۔ مجھے ذاتی مراسلے میں گوگل ڈرائیو یا ایسا کوئی لنک دے دیں، تو میں ہی ای بک بنا دوں گا۔
بحوالہ ١٩٧‘ بطور ای بک کے چشتی صاحب کا کلام آپ کو کس ای میل ایڈریس پر بھیجوں۔براہ کرم اپنا ای میل ایڈریس دے دیں۔ بہت شکریہ