جاسم محمد
محفلین
ڈاکٹر پرویز ہودبھائی: عصر حاضر کے سقراط
28/07/2020 خوشبخت صدیقی
جیسا کہ اس ملک کا رواج ہے کوئی بھی شعور رکھنے والا شخص یہاں سکون کی زندگی نہیں گزار سکتا اگر حکومت آپ پر غداری کا فتویٰ نہ بھی عائد کرے تو بھی یہ فرض عوام پوری تندہی سے انجام دے دیتی ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ علمی اور ادبی حوالے سے ان کا تعارف لکھنا سورج کے آگے دیا رکھنے کے مترادف ہے لیکن پھر مختصراً بیان کرتی چلوں کہ ڈاکٹر صاحب دنیا کی بہترین یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے الیکڑریکل انجینئرنگ، حساب اور نیوکلیئر فزکس کے مضامین میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور نیوکلیئر فزکس میں باقاعدہ پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر چکے ہیں۔
عالمی درجہ بندی کے مطابق پاکستان کی بہترین جامعہ، قائد اعظم یونیورسٹی اور کرسچن کالج فارمین میں سالوں سے درس و تدریس کے فرائض نبھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو ویسے تو کئی بین الاقوامی اعزازات حاصل ہیں البتہ پاکستان میں کسی قومی اعزاز سے ان کو تاحال نہیں نوازا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مشرف کے دور میں ان کو ستارہ امتیاز سے نوازنے کی پیشکش ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے آمریت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس اعزاز کو قبول نہ کیا جو کہ ان کی بہادری اور ملک سے خلوص کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مگر افسوس کہ اس ملک نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو کہ ان سے پہلے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ کیا تھا۔ کچھ دن پہلے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے کرسچن کالج فارمین سے استعفیٰ دے دیا جس کی وجہ بقول خود ڈاکٹر صاحب کے کہ کالج کی انتظامیہ کے مطابق ان کو ایک سال کے بعد مزید کنٹریکٹ پر نہیں رکھا جائے گا کیونکہ ان کا معیار تعلیم کالج کے لیے غیر موزوں ہے۔ ذرا سوچیے اگر ایم آئی ٹی کا فارغ التحصیل پی ایچ ڈی ہولڈر پروفیسر کا طریقہ تدریس بھی غیر موزوں ہے تو اب آسمان سے فرشتے نازل ہو کر تو فزکس پڑھابے سے رہے۔
ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا کہ ان کے مطابق ان کو کالج سے ہٹانے کی اصل وجہ ڈان میں لکھا جانے والا وہ کالم ہے جس میں انھوں نے کالج اور پاکستان کے تعلیمی نظام میں ہونے والی بدعنوانیوں پر اصلاح کے لیے تنقید کی تھی جس کے نتیجے میں بجائے حقائق پر توجہ دی جاتی راتوں رات ان کو ہی نوکری سے ہٹانے کا منصوبہ تیار کر لیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب ایک بہت بڑے سماجی تجزیہ کار بھی ہیں۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں جن میں اسلام، پاکستانی معاشرہ اور یورپ کا سائنسی حوالے سے تقابلی جائزہ بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ڈاکٹر پرویز ہود بھائی ٹیلی۔ ویژن پروگرامز اور یوٹیوب پر پاکستانی سماجی مسائل پر فکر انگیز گفتگو کرتے ہیں اور محض سوال نہیں اٹھاتے بلکہ کیے گئے سوالات پر عقلی دلائل سے بھرپور جواب بھی پیش کرتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ تنقید کا شکار بھی رہتے ہیں۔
ڈاکٹر پرویز ہود بھائی پر اکثر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ کوئی ایجاد کیوں نہیں کر سکے۔ اس عقل سے عاری، احمقانہ سوال کا کوئی کیا جواب دے۔ یہ وہ دور تو ہے نہیں کہ پہیہ یا پنکھا ایجاد کر کے واہ واہ سمیٹ لی جائے۔ انسان کی جستجو ان بنیادی اشیاء سے بہت آگے نکل چکی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مقالے پر کام کیا ہے اور اہنے مضمون پر عبور رکھتے ہیں ویسے ہی جیسے باقی علوم کا ماہر یا استاد اپنے مضمون پر رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک عام تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ پرویز ہود بھائی صاحب ایک سائنسدان ہیں لہٰذا انھیں معاشرتی و سماجی مسائل پر بولنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ کیوں بھئی؟ سائنسدان بننے کے بعد انسانی حقوق کا خاتمہ ہوجاتا ہے؟ کون سے ملک کا قانون ہے جہاں انسان سائنسدان بننے کے بعد اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کر سکتا؟
دراصل تالا لگے دماغوں پر جب دلائل کی ضرب پڑتی ہے تو وہ اس کو برداشت نہیں کر پاتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک عالمی شہرت یافتہ سائنسدان کو ملک نے وہ مقام نہیں دیا جس کا وہ حقدار تھا۔ اس گھٹن زدہ معاشرے میں جہاں ذہنوں پر جان بوجھ کر قدغن لگائے گئے ہوں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی عقل، شعور اور قابلیت ہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ان کو استعفیٰ دینا پڑا۔ ڈاکٹر صاحب جیسے صاحب علم شخصیت کے ساتھ اس منافق، کھوکھلی بنیادوں والے معاشرے کے سلوک کو دیکھ کر سمجھ آتا ہے کہ جہالت سے لڑنا کتنا کٹھن ہے۔
صدیوں پہلے سقراط جیسے عظیم دانشور کو اسی جہالت سے لڑنے کی پاداش میں زہر کا پیالہ دیا گیا تھا۔ کیوں کہ اس کا جرم بھی یہی تھا کہ وہ سوچتا ہی نہیں تھا بلکہ سوچنا سکھاتا بھی تھا۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بھی نہ صرف خود سوال کرتے ہیں بلکہ اپنے علم کی طاقت سے ذہنوں میں سوال کرنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں اور یہی وہ سنگین جرم ہے جس کی وجہ سے ان کو مستعفی ہونا پڑا۔
سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب جیسی قد آور اور باصلاحیت شخصیت کو تو دنیا کے کسی کونے میں روزگار کی کمی نہیں ہوگی البتہ اگر ہم اپنے ہر قابل شخص اور دانشور کے ساتھ یہی سلوک رکھتے گئے تو ہم ایسے دولے شاہ کے چوہے نما انسان بن کر رہ جائیں گے جو سوال کرنا یا سوچنا تو دور، صحیح غلط کی تمیز بھی نہیں کر سکیں گے۔
28/07/2020 خوشبخت صدیقی
جیسا کہ اس ملک کا رواج ہے کوئی بھی شعور رکھنے والا شخص یہاں سکون کی زندگی نہیں گزار سکتا اگر حکومت آپ پر غداری کا فتویٰ نہ بھی عائد کرے تو بھی یہ فرض عوام پوری تندہی سے انجام دے دیتی ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ علمی اور ادبی حوالے سے ان کا تعارف لکھنا سورج کے آگے دیا رکھنے کے مترادف ہے لیکن پھر مختصراً بیان کرتی چلوں کہ ڈاکٹر صاحب دنیا کی بہترین یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے الیکڑریکل انجینئرنگ، حساب اور نیوکلیئر فزکس کے مضامین میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور نیوکلیئر فزکس میں باقاعدہ پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر چکے ہیں۔
عالمی درجہ بندی کے مطابق پاکستان کی بہترین جامعہ، قائد اعظم یونیورسٹی اور کرسچن کالج فارمین میں سالوں سے درس و تدریس کے فرائض نبھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو ویسے تو کئی بین الاقوامی اعزازات حاصل ہیں البتہ پاکستان میں کسی قومی اعزاز سے ان کو تاحال نہیں نوازا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مشرف کے دور میں ان کو ستارہ امتیاز سے نوازنے کی پیشکش ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے آمریت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس اعزاز کو قبول نہ کیا جو کہ ان کی بہادری اور ملک سے خلوص کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مگر افسوس کہ اس ملک نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو کہ ان سے پہلے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ کیا تھا۔ کچھ دن پہلے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے کرسچن کالج فارمین سے استعفیٰ دے دیا جس کی وجہ بقول خود ڈاکٹر صاحب کے کہ کالج کی انتظامیہ کے مطابق ان کو ایک سال کے بعد مزید کنٹریکٹ پر نہیں رکھا جائے گا کیونکہ ان کا معیار تعلیم کالج کے لیے غیر موزوں ہے۔ ذرا سوچیے اگر ایم آئی ٹی کا فارغ التحصیل پی ایچ ڈی ہولڈر پروفیسر کا طریقہ تدریس بھی غیر موزوں ہے تو اب آسمان سے فرشتے نازل ہو کر تو فزکس پڑھابے سے رہے۔
ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا کہ ان کے مطابق ان کو کالج سے ہٹانے کی اصل وجہ ڈان میں لکھا جانے والا وہ کالم ہے جس میں انھوں نے کالج اور پاکستان کے تعلیمی نظام میں ہونے والی بدعنوانیوں پر اصلاح کے لیے تنقید کی تھی جس کے نتیجے میں بجائے حقائق پر توجہ دی جاتی راتوں رات ان کو ہی نوکری سے ہٹانے کا منصوبہ تیار کر لیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب ایک بہت بڑے سماجی تجزیہ کار بھی ہیں۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں جن میں اسلام، پاکستانی معاشرہ اور یورپ کا سائنسی حوالے سے تقابلی جائزہ بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ڈاکٹر پرویز ہود بھائی ٹیلی۔ ویژن پروگرامز اور یوٹیوب پر پاکستانی سماجی مسائل پر فکر انگیز گفتگو کرتے ہیں اور محض سوال نہیں اٹھاتے بلکہ کیے گئے سوالات پر عقلی دلائل سے بھرپور جواب بھی پیش کرتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ تنقید کا شکار بھی رہتے ہیں۔
ڈاکٹر پرویز ہود بھائی پر اکثر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ کوئی ایجاد کیوں نہیں کر سکے۔ اس عقل سے عاری، احمقانہ سوال کا کوئی کیا جواب دے۔ یہ وہ دور تو ہے نہیں کہ پہیہ یا پنکھا ایجاد کر کے واہ واہ سمیٹ لی جائے۔ انسان کی جستجو ان بنیادی اشیاء سے بہت آگے نکل چکی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مقالے پر کام کیا ہے اور اہنے مضمون پر عبور رکھتے ہیں ویسے ہی جیسے باقی علوم کا ماہر یا استاد اپنے مضمون پر رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک عام تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ پرویز ہود بھائی صاحب ایک سائنسدان ہیں لہٰذا انھیں معاشرتی و سماجی مسائل پر بولنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ کیوں بھئی؟ سائنسدان بننے کے بعد انسانی حقوق کا خاتمہ ہوجاتا ہے؟ کون سے ملک کا قانون ہے جہاں انسان سائنسدان بننے کے بعد اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کر سکتا؟
دراصل تالا لگے دماغوں پر جب دلائل کی ضرب پڑتی ہے تو وہ اس کو برداشت نہیں کر پاتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک عالمی شہرت یافتہ سائنسدان کو ملک نے وہ مقام نہیں دیا جس کا وہ حقدار تھا۔ اس گھٹن زدہ معاشرے میں جہاں ذہنوں پر جان بوجھ کر قدغن لگائے گئے ہوں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی عقل، شعور اور قابلیت ہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ان کو استعفیٰ دینا پڑا۔ ڈاکٹر صاحب جیسے صاحب علم شخصیت کے ساتھ اس منافق، کھوکھلی بنیادوں والے معاشرے کے سلوک کو دیکھ کر سمجھ آتا ہے کہ جہالت سے لڑنا کتنا کٹھن ہے۔
صدیوں پہلے سقراط جیسے عظیم دانشور کو اسی جہالت سے لڑنے کی پاداش میں زہر کا پیالہ دیا گیا تھا۔ کیوں کہ اس کا جرم بھی یہی تھا کہ وہ سوچتا ہی نہیں تھا بلکہ سوچنا سکھاتا بھی تھا۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بھی نہ صرف خود سوال کرتے ہیں بلکہ اپنے علم کی طاقت سے ذہنوں میں سوال کرنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں اور یہی وہ سنگین جرم ہے جس کی وجہ سے ان کو مستعفی ہونا پڑا۔
سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب جیسی قد آور اور باصلاحیت شخصیت کو تو دنیا کے کسی کونے میں روزگار کی کمی نہیں ہوگی البتہ اگر ہم اپنے ہر قابل شخص اور دانشور کے ساتھ یہی سلوک رکھتے گئے تو ہم ایسے دولے شاہ کے چوہے نما انسان بن کر رہ جائیں گے جو سوال کرنا یا سوچنا تو دور، صحیح غلط کی تمیز بھی نہیں کر سکیں گے۔