حسینی
محفلین
تحریر: عبداللہ حجازی
ڈاکٹر یوسف قرضاوی 1926ء میں مصر میں پیدا ہوئے لیکن ان دنوں قطر میں مقیم ہیں۔ ان کی علمی شہرت سرحدوں سے دور نکل چکی ہے۔ ان کی کئی ایک کتابوں کا اردو میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں ان کی کتب کے انگریزی، فارسی، فرانسیسی اور ترکی زبان میں بھی ترجمے دستیاب ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود ایک فقیہ ہیں۔ البتہ ان کا میلان سلفیت کی طرف خاصا ہے۔ ان کے بعض فتوے عالم اسلام میں بہت معرکۃ الآرا رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ عالم اسلام کے مسائل میں ان کا ایک خاص نقطۂ نظر ہے جس کے حامی اور ناقدین پوری دنیا میں موجود ہیں۔ شروع شروع میں انھیں ایک روشن فکر عالم کی حیثیت سے دیکھا جاتا تھا، نیز انھیں مسلمانوں میں اتحاد اور وحدت کا داعی بھی سمجھا جاتا تھا، تاہم کچھ عرصے سے ان کے بعض فرقہ وارانہ فتوے بھی منظر عام پر آئے ہیں۔
بعض خبروں کے مطابق انھیں عبرانی زبان پر بھی خاصا عبور حاصل ہے۔ ان کے بارے میں چند سالوں سے طرح طرح کی حیران کن خبریں بھی میڈیا پر آرہی ہیں۔ ان کے عشق کی بھی ایک تعجب انگیز داستان موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ قطر کے مشہور ٹی وی چینل الجزیرہ پر ان کا ایک خاص مقبول پروگرام عالم عرب میں بہت زیادہ دیکھا جاتا ہے، وہ اخوان المسلمین کی مصر میں قائم ایک سالہ حکومت کے بہت زیادہ قریب رہے ہیں، لیکن اس دوران میں شیخ الازہر ڈاکٹر احمد الطیب سے ان کے اختلافات کی خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ ان کی بعض آراء پر خود ان کے بیٹوں کی طرف سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ انھوں نے عراق کے وزیراعظم نوری المالکی کے قتل کا فتویٰ دے رکھا ہے۔ وہ لبنان کی انقلابی تنظیم حزب اللہ کے خلاف بھی بہت کچھ کہہ چکے ہیں۔ شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف ان کی نفرت کا یہ عالم ہے کہ وہ شام کے معروف سنی عالم شیخ محمد رمضان البوطی کی شہادت پر اپنی خوشی صرف اس لیے نہ چھپا سکے کہ شیخ بوطی صدر بشار الاسد کے حامی تھے۔ وہ ایک طرف تیونس، لیبیا اور مصر کی انقلابی تحریکوں کو ظلم اور فساد کے خلاف انقلاب قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف بحرین کی ویسی ہی انقلابی تحریک کو فتنہ انگیزی قرار دیتے ہیں۔
ان تمام موضوعات پر تفصیل اور حوالہ جات کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم آج کی نشست میں ہم ان کی سابقہ محبوبہ اور بیوی ڈاکٹر اسماء بن قادہ کے ایک عالمی شہرت یافتہ انٹرویو کے ایک حصے کا اردو ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ اسے آپ آئس برگ Iceberg (سمندر کی سطح پر نظر آنے والا گلیشئر کا وہ ٹکڑا جو اوپر سے تو چھوٹا سا دکھائی دیتا ہے لیکن نیچے ایک پہاڑ ہوتا ہے) سمجھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر اسماء بن قادہ محمد بن قادہ کی بیٹی ہیں۔ محمد بن قادہ الجزائر کے بابائے ریاضیات (Father of Mathematics) کے نام سے مشہور ہیں۔ اس خاندان کو ’’بن قادہ‘‘ اس کے جد امجد عبد القادر جزائری کی وجہ سے کہتے ہیں، جو حضرت امام حسن ابن علی ؑ کی نسل سے تھے۔ قطر کے معروف عالم شیخ یوسف القرضاوی اسماء کی محبت میں گرفتار ہوگئے تھے۔ اس کے بعد نامہ و پیام کا سلسلہ شروع ہوا جو بالآخر شادی پر منتج ہوا، لیکن یہ شادی نبھ نہ سکی اور اسماء کی طلاق پر بظاہر قصہ تمام ہوا، لیکن یہ دراصل رشتہ ازدواج کا خاتمہ تھا جو نئی کہانیوں اور عجیب و غریب انکشافات کا سبب بن گیا، جس کا سلسلہ ابھی تک تھما نہیں۔ اس عشق و وصال کی داستان پہلے تو خود 2008ء میں شیخ یوسف القرضاوی نے قطر کے روزنامہ الوطن سے ایک انٹرویو میں بیان کی اور بالآخر الجزائر کے روزنامہ الشروق کا ایک نمائندہ ڈاکٹر اسماء بن قادہ سے بھی انٹرویو لینے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ انٹرویو بہت سے عبرت آموز اور عجیب و غریب انکشافات پر مبنی ہے۔ ہم ’’نقل کفر کفر نباشد‘‘ کے تحت اس انٹرویو کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ اصل انٹرویو عربی میں ہے۔
الشروق: آپ کی شیخ یوسف قرضاوی سے شناسائی کیسے ہوئی اور انھوں نے کس طرح آپ سے اور آپ کے خاندان سے (شادی کے لیے) خواستگاری کی، صراحت سے بیان کیجیے گا۔ ڈاکٹر اسماء: (کچھ دیر خاموش رہنے اور سوچنے کے بعد) میں اس قصے کا خلاصہ آپ سے بیان کروں گی، کیونکہ شیخ نے اکتوبر 2008ء میں قطر کے روزنامے الوطن سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ میں اور شیخ 1984ء میں ایک مذہبی کانفرنس میں ایک دوسرے سے آشنا ہوئے۔ اس کانفرنس کے ڈائس کے عین سامنے ہم نے پہلی مرتبہ ایک دوسرے کو دیکھا۔ اس کانفرنس میں دو ہزار سے زائد مہمان اور شرکاء موجود تھے۔ الجزائر کے ذرائع ابلاغ کے بہت سے نمائندے بھی رپورٹنگ کے لیے وہاں موجود تھے۔ اس کانفرنس میں شیخ کی تقریر کے بعد میں ڈائس پر آئی۔ میں نے ان پر کچھ مختصر اعتراضات کیے اور کچھ نکات پیش کئے۔ اگلے روز الجزائر کے سب سے زیادہ کثیر الاشاعت اخبار نے میرے اعتراضات اور وہ نکات چھاپ دیئے جو میں نے بیان کیے تھے۔ اخبار نے سرخی لگائی تھی ’’شاید آپ کو نہر میں ایسی چیز مل جائے جو سمندر میں نہ مل سکے۔‘‘ میری تقریر کے فوراً بعد شیخ قرضاوی آگے بڑھے تاکہ میرے ’’خوبصورت‘‘ بیان پر مجھے مبارک باد دے سکیں، لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے خبر نگار میرے اردگرد جمع ہوچکے تھے۔ اسی رات شیخ نے مجھے طالبات کے ایک ہاسٹل میں دیکھا تو مجھ سے پوچھا: آپ وہی مس اسماء نہیں جنھوں نے آج میری تقریر کے بعد تقریر کی تھی؟ میں نے کہا: ہاں، میں نے کانفرنس میں جو مطالب اور نکات پیش کئے تھے شیخ نے ان پر میرا بہت شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد شیخ میرے زیادہ قریب ہوگئے۔ پھر وہ طرح طرح کے بہانے سے مجھ سے بات کرتے اور کبھی کوئی بہانہ نہ ہوتا تو مجھے اپنی کتابوں کا ہدیہ بھیج دیتے اور پھر اسے مجھ سے مزید بات کا بہانہ بنا لیتے۔ شیخ بجائے اس کے کہ مجھے ’’ابنتی‘‘ (میری بیٹی!) لکھتے وہ اپنی کتابوں پر ’’الی الحبیبۃ اسماء‘‘ (پیاری اسماء کے لیے) لکھتے۔ پانچ برس تک ہمارا رابطہ اسی طرح جاری رہا۔
1989ء میں شیخ ایک مرتبہ پھر الجزائر آئے۔ جونہی وہ الجزائر پہنچے انھوں نے فوراً مجھ سے رابطہ کیا، لیکن میں ایک دور دراز کے شہر تبسہ میں تھی۔ انھوں نے مجھ سے تقاضا کیا کہ میں فوراً دارالحکومت میں آجاؤں تاکہ وہ مجھ سے مل سکیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا: فوراً آجاؤ تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں اور ایک دوسرے سے بات کرسکیں وگرنہ میں شکستہ و سوختہ دل کے ساتھ واپس جاؤں گا۔ حالات نے اجازت نہ دی کہ میں فوراً دارالحکومت میں واپس آجاؤں۔ انھوں نے مجھ سے پھر رابطہ کیا اور کہنے لگے: میں نے قطر واپسی کو موخر کر دیا ہے، تاکہ واپس جانے سے پہلے تمھیں دیکھ سکوں۔ ان کی ذمہ داریوں کے پیش نظر میں نے ان سے خواہش کی کہ وہ ایسا نہ کریں اور قطر واپس چلے جائیں اور ملاقات کو کسی اور موقع پر اٹھا رکھیں، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ شیخ مجھ سے کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جب یہ سمجھ گئے کہ جو موضوع ان کے پیش نظر ہے اور جن قلبی احساسات کا وہ اظہار کرنا چاہتے ہیں انھیں بیان کرنے کا مناسب موقع نہیں تو وہ قطر کے دارالحکومت دوحہ واپس چلے گئے۔ وہاں سے انھوں نے ایک طویل خط میرے نام بھیجا، جس میں 75 اشعار پر مشتمل ایک قصیدہ تھا۔ اس مکتوب میں انھوں نے میرے لیے اپنے جذبات اور اشتیاق کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے پانچ برس جو میرے انتظار میں کاٹے تھے، ان کے بارے میں بھی مطالب بیان کئے۔ مختصر یہ کہ مجھ سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔ شیخ قرضاوی نے میرے نام جو قصیدہ لکھا ان میں سے بعض اشعار یہ تھے:
أتری اطمع ان المس من فیک الجوابا؟
أتری تصبح آھاتی الحانا عذابا؟
أتری یغدو بعادی عنک وصلا واقترابا؟
آہ ما أحلی الأمانی وان کانت سرابا!
فدعینی فی رؤی القرب وان کانت کذابا!
وافتحی لی فی سرادیب الغد المجھول بابا
کیا تم دیکھتی ہو کہ میں تمھارا جواب آنے کی کس قدر خواہش رکھتا ہوں
کیا تم دیکھتی ہو کہ میری آہیں اب میرے لیے عذاب کے لہجے میں تبدیل ہوگئی ہیں
کیا تم دیکھتی ہو کہ تمھیں پانے اور تمھاری قربت کی آرزو کتنی شدید ہوگئی ہے
ہائے کتنی پیاری ہیں میری تمنائیں کہ جو سراب جیسی ہیں
پس جھوٹ ہی کہہ دو کہ تم مجھے جلد ملو گی
اور (دل کے ) تہ خانے میں میرے لیے ایک نامعلوم دروازہ کھول دو گی
۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر یوسف قرضاوی 1926ء میں مصر میں پیدا ہوئے لیکن ان دنوں قطر میں مقیم ہیں۔ ان کی علمی شہرت سرحدوں سے دور نکل چکی ہے۔ ان کی کئی ایک کتابوں کا اردو میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں ان کی کتب کے انگریزی، فارسی، فرانسیسی اور ترکی زبان میں بھی ترجمے دستیاب ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود ایک فقیہ ہیں۔ البتہ ان کا میلان سلفیت کی طرف خاصا ہے۔ ان کے بعض فتوے عالم اسلام میں بہت معرکۃ الآرا رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ عالم اسلام کے مسائل میں ان کا ایک خاص نقطۂ نظر ہے جس کے حامی اور ناقدین پوری دنیا میں موجود ہیں۔ شروع شروع میں انھیں ایک روشن فکر عالم کی حیثیت سے دیکھا جاتا تھا، نیز انھیں مسلمانوں میں اتحاد اور وحدت کا داعی بھی سمجھا جاتا تھا، تاہم کچھ عرصے سے ان کے بعض فرقہ وارانہ فتوے بھی منظر عام پر آئے ہیں۔
بعض خبروں کے مطابق انھیں عبرانی زبان پر بھی خاصا عبور حاصل ہے۔ ان کے بارے میں چند سالوں سے طرح طرح کی حیران کن خبریں بھی میڈیا پر آرہی ہیں۔ ان کے عشق کی بھی ایک تعجب انگیز داستان موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ قطر کے مشہور ٹی وی چینل الجزیرہ پر ان کا ایک خاص مقبول پروگرام عالم عرب میں بہت زیادہ دیکھا جاتا ہے، وہ اخوان المسلمین کی مصر میں قائم ایک سالہ حکومت کے بہت زیادہ قریب رہے ہیں، لیکن اس دوران میں شیخ الازہر ڈاکٹر احمد الطیب سے ان کے اختلافات کی خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ ان کی بعض آراء پر خود ان کے بیٹوں کی طرف سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ انھوں نے عراق کے وزیراعظم نوری المالکی کے قتل کا فتویٰ دے رکھا ہے۔ وہ لبنان کی انقلابی تنظیم حزب اللہ کے خلاف بھی بہت کچھ کہہ چکے ہیں۔ شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف ان کی نفرت کا یہ عالم ہے کہ وہ شام کے معروف سنی عالم شیخ محمد رمضان البوطی کی شہادت پر اپنی خوشی صرف اس لیے نہ چھپا سکے کہ شیخ بوطی صدر بشار الاسد کے حامی تھے۔ وہ ایک طرف تیونس، لیبیا اور مصر کی انقلابی تحریکوں کو ظلم اور فساد کے خلاف انقلاب قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف بحرین کی ویسی ہی انقلابی تحریک کو فتنہ انگیزی قرار دیتے ہیں۔
ان تمام موضوعات پر تفصیل اور حوالہ جات کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم آج کی نشست میں ہم ان کی سابقہ محبوبہ اور بیوی ڈاکٹر اسماء بن قادہ کے ایک عالمی شہرت یافتہ انٹرویو کے ایک حصے کا اردو ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ اسے آپ آئس برگ Iceberg (سمندر کی سطح پر نظر آنے والا گلیشئر کا وہ ٹکڑا جو اوپر سے تو چھوٹا سا دکھائی دیتا ہے لیکن نیچے ایک پہاڑ ہوتا ہے) سمجھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر اسماء بن قادہ محمد بن قادہ کی بیٹی ہیں۔ محمد بن قادہ الجزائر کے بابائے ریاضیات (Father of Mathematics) کے نام سے مشہور ہیں۔ اس خاندان کو ’’بن قادہ‘‘ اس کے جد امجد عبد القادر جزائری کی وجہ سے کہتے ہیں، جو حضرت امام حسن ابن علی ؑ کی نسل سے تھے۔ قطر کے معروف عالم شیخ یوسف القرضاوی اسماء کی محبت میں گرفتار ہوگئے تھے۔ اس کے بعد نامہ و پیام کا سلسلہ شروع ہوا جو بالآخر شادی پر منتج ہوا، لیکن یہ شادی نبھ نہ سکی اور اسماء کی طلاق پر بظاہر قصہ تمام ہوا، لیکن یہ دراصل رشتہ ازدواج کا خاتمہ تھا جو نئی کہانیوں اور عجیب و غریب انکشافات کا سبب بن گیا، جس کا سلسلہ ابھی تک تھما نہیں۔ اس عشق و وصال کی داستان پہلے تو خود 2008ء میں شیخ یوسف القرضاوی نے قطر کے روزنامہ الوطن سے ایک انٹرویو میں بیان کی اور بالآخر الجزائر کے روزنامہ الشروق کا ایک نمائندہ ڈاکٹر اسماء بن قادہ سے بھی انٹرویو لینے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ انٹرویو بہت سے عبرت آموز اور عجیب و غریب انکشافات پر مبنی ہے۔ ہم ’’نقل کفر کفر نباشد‘‘ کے تحت اس انٹرویو کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ اصل انٹرویو عربی میں ہے۔
الشروق: آپ کی شیخ یوسف قرضاوی سے شناسائی کیسے ہوئی اور انھوں نے کس طرح آپ سے اور آپ کے خاندان سے (شادی کے لیے) خواستگاری کی، صراحت سے بیان کیجیے گا۔ ڈاکٹر اسماء: (کچھ دیر خاموش رہنے اور سوچنے کے بعد) میں اس قصے کا خلاصہ آپ سے بیان کروں گی، کیونکہ شیخ نے اکتوبر 2008ء میں قطر کے روزنامے الوطن سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ میں اور شیخ 1984ء میں ایک مذہبی کانفرنس میں ایک دوسرے سے آشنا ہوئے۔ اس کانفرنس کے ڈائس کے عین سامنے ہم نے پہلی مرتبہ ایک دوسرے کو دیکھا۔ اس کانفرنس میں دو ہزار سے زائد مہمان اور شرکاء موجود تھے۔ الجزائر کے ذرائع ابلاغ کے بہت سے نمائندے بھی رپورٹنگ کے لیے وہاں موجود تھے۔ اس کانفرنس میں شیخ کی تقریر کے بعد میں ڈائس پر آئی۔ میں نے ان پر کچھ مختصر اعتراضات کیے اور کچھ نکات پیش کئے۔ اگلے روز الجزائر کے سب سے زیادہ کثیر الاشاعت اخبار نے میرے اعتراضات اور وہ نکات چھاپ دیئے جو میں نے بیان کیے تھے۔ اخبار نے سرخی لگائی تھی ’’شاید آپ کو نہر میں ایسی چیز مل جائے جو سمندر میں نہ مل سکے۔‘‘ میری تقریر کے فوراً بعد شیخ قرضاوی آگے بڑھے تاکہ میرے ’’خوبصورت‘‘ بیان پر مجھے مبارک باد دے سکیں، لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے خبر نگار میرے اردگرد جمع ہوچکے تھے۔ اسی رات شیخ نے مجھے طالبات کے ایک ہاسٹل میں دیکھا تو مجھ سے پوچھا: آپ وہی مس اسماء نہیں جنھوں نے آج میری تقریر کے بعد تقریر کی تھی؟ میں نے کہا: ہاں، میں نے کانفرنس میں جو مطالب اور نکات پیش کئے تھے شیخ نے ان پر میرا بہت شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد شیخ میرے زیادہ قریب ہوگئے۔ پھر وہ طرح طرح کے بہانے سے مجھ سے بات کرتے اور کبھی کوئی بہانہ نہ ہوتا تو مجھے اپنی کتابوں کا ہدیہ بھیج دیتے اور پھر اسے مجھ سے مزید بات کا بہانہ بنا لیتے۔ شیخ بجائے اس کے کہ مجھے ’’ابنتی‘‘ (میری بیٹی!) لکھتے وہ اپنی کتابوں پر ’’الی الحبیبۃ اسماء‘‘ (پیاری اسماء کے لیے) لکھتے۔ پانچ برس تک ہمارا رابطہ اسی طرح جاری رہا۔
1989ء میں شیخ ایک مرتبہ پھر الجزائر آئے۔ جونہی وہ الجزائر پہنچے انھوں نے فوراً مجھ سے رابطہ کیا، لیکن میں ایک دور دراز کے شہر تبسہ میں تھی۔ انھوں نے مجھ سے تقاضا کیا کہ میں فوراً دارالحکومت میں آجاؤں تاکہ وہ مجھ سے مل سکیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا: فوراً آجاؤ تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں اور ایک دوسرے سے بات کرسکیں وگرنہ میں شکستہ و سوختہ دل کے ساتھ واپس جاؤں گا۔ حالات نے اجازت نہ دی کہ میں فوراً دارالحکومت میں واپس آجاؤں۔ انھوں نے مجھ سے پھر رابطہ کیا اور کہنے لگے: میں نے قطر واپسی کو موخر کر دیا ہے، تاکہ واپس جانے سے پہلے تمھیں دیکھ سکوں۔ ان کی ذمہ داریوں کے پیش نظر میں نے ان سے خواہش کی کہ وہ ایسا نہ کریں اور قطر واپس چلے جائیں اور ملاقات کو کسی اور موقع پر اٹھا رکھیں، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ شیخ مجھ سے کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جب یہ سمجھ گئے کہ جو موضوع ان کے پیش نظر ہے اور جن قلبی احساسات کا وہ اظہار کرنا چاہتے ہیں انھیں بیان کرنے کا مناسب موقع نہیں تو وہ قطر کے دارالحکومت دوحہ واپس چلے گئے۔ وہاں سے انھوں نے ایک طویل خط میرے نام بھیجا، جس میں 75 اشعار پر مشتمل ایک قصیدہ تھا۔ اس مکتوب میں انھوں نے میرے لیے اپنے جذبات اور اشتیاق کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے پانچ برس جو میرے انتظار میں کاٹے تھے، ان کے بارے میں بھی مطالب بیان کئے۔ مختصر یہ کہ مجھ سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔ شیخ قرضاوی نے میرے نام جو قصیدہ لکھا ان میں سے بعض اشعار یہ تھے:
أتری اطمع ان المس من فیک الجوابا؟
أتری تصبح آھاتی الحانا عذابا؟
أتری یغدو بعادی عنک وصلا واقترابا؟
آہ ما أحلی الأمانی وان کانت سرابا!
فدعینی فی رؤی القرب وان کانت کذابا!
وافتحی لی فی سرادیب الغد المجھول بابا
کیا تم دیکھتی ہو کہ میں تمھارا جواب آنے کی کس قدر خواہش رکھتا ہوں
کیا تم دیکھتی ہو کہ میری آہیں اب میرے لیے عذاب کے لہجے میں تبدیل ہوگئی ہیں
کیا تم دیکھتی ہو کہ تمھیں پانے اور تمھاری قربت کی آرزو کتنی شدید ہوگئی ہے
ہائے کتنی پیاری ہیں میری تمنائیں کہ جو سراب جیسی ہیں
پس جھوٹ ہی کہہ دو کہ تم مجھے جلد ملو گی
اور (دل کے ) تہ خانے میں میرے لیے ایک نامعلوم دروازہ کھول دو گی
۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔