ڈبو کے چھوڑے گا تم کو یہ زعم یکتائی(تیاپانچہ)

جاسمن

لائبریرین
چند دنوں سے عاطف بھائی کی غزل کے ایک دو اشعار ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ جب بھی سامنے ان کے مطلع کا پہلا مصرع نظر آتا، ذہن میں ریل چلنے لگتی۔ احمد بھائی کی غزل سے پہلے ان کی یہ غزل زیر غور تھی۔ چلیں اب سہی۔ ان اشعار کا تیا پانچہ کرنے کی ایسی ویسی کوشش کی ہے، بتائیں کہ کیسی کی ہے۔
گر قبول ۔۔۔

جو ہم نہ ہوں تو ہے کس کام کی یہ رعنائی
ڈبو کے چھوڑے گا تم کو یہ زعم یکتائی
شاعر انتہا کی خودپسندی کا شکار ہے۔ انھیں قتیل شفائی کا یہ شعر بہت پسند ہے۔
جو ہم نہ ہوں تو زمانے کی سانس رک جائے
قتیل وقت کے سینے میں ہم دھڑکتے ہیں
ہم اگر نہیں ہوں گے، باہرلے ملک چلے جائیں گے تو آپ حضور کس کے لیے یہ زیبائش و سنگھار کریں گے؟
حالانکہ اگر مخالف فریق نوکری پیشہ ہے تو شاعر کا یہ سوال کسی بھی طرح بنتا ہی نہیں۔ لیکن ٹھہریے یہاں شاعر نے ایک غلطی کر دی ہے۔ انھوں نے "کس کے لیے" نہیں بلکہ "کس کام کی" کہا ہے۔ لگتا ہے کہ شاعر بہت کنجوس ہے اور زیبائش کے لوازمات (نیل پالش، سرخی، لالی وغیرہ وغیرہ) کو فضول خرچی کو سمجھتا ہے سو کس کام کی؟ یعنی کوئی فائدہ تو ہے نہیں اس سب کا سو تم اتنا خرچہ نہ کراؤ۔ مانا کہ میں ریال/درہم/ڈالرز بھیجتا ہوں لیکن ان چیزوں پہ یوں بےجا خرچ اچھا نہیں۔ بہرحال اگلے مصرع میں شاعر کسی دیسی ولن کی طرح دھمکیاں دینے، بڑھکیں مارنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ تمھیں منفرد بننے کا جو شوق ہے تو یہ تمھیں پہلے ڈبوئے گا پھر ڈوبتا ہوا چھوڑ جائے گا اور میں بھی بچانے نہیں آؤں گا۔ باہرلے ملک سے اتنی جلدی آیا بھی نہیں جائے گا۔

اگر چہ کہہ تو دیا تم نے جو میں چاہتا تھا
وہ زیر و بم نہ تھے لیکن شریک گویائی

تم نے وہ سب کہہ دیا جو میں نے تمھیں کہنے کے لیے کہا تھا۔ آگے شاعر نے یہ وضاحت نہیں کہ کہ انھوں نے کن کو کہا تھا؟
کیا کہنے کو کہا تھا؟
کس کو کہنے کو کہا تھا؟
بھئی اس طرح کے ادھورے شعر وزن سے گر جاتے ہیں۔ جب تک ساری بات کلیئر نہ ہو، شعر میں وزن پیدا نہیں ہوتا۔ شاعر کو ابھی ان باتوں کا شاید پتہ نہیں ہے۔ ہاں جی تو دوسرے مصرع میں شاعر نے بتایا ہے کہ زیرو یعنی صفر اور بم ۔۔۔ او مائی گاڈ! یعنی کہ بم۔۔۔ ایٹم بم یا نیوٹرون بم یا ہائیڈروجن بم۔۔۔ اس کی وضاحت نہیں ہے کہیں۔ کہا ناں کہ ادھورا شعر ہے۔ ہاں تو زیرو اور بم دونوں سن رہے تھے۔ یہ استعاراتی شعر ہے۔ شاعر نے اپنے دو عدد دشمنوں/دوستوں/دوست نما دشمنوں/دشمن نما دوستوں/رشتہ داروں/محلہ داروں/ہم پیشہ ساتھیوں/افسروں کے نام زیرو اور بم رکھے ہوئے ہیں۔لگتا ہے کہ دو بڑے افسر ہی ہیں۔ ان دونوں نے کہیں کھڑے وہ سب باتیں سن لیں جنھیں کہنے کا شاعر صاحب نے کہا تھا۔ لو جی اب غزل پڑھنے والے سب محفلین سوچ میں ہوں گے، انتہائی متجسس کہ آخر وہ کون سی باتیں ہیں۔ دیکھیں شاعر صاحب! آپ سب پڑھنے والوں کو مکالمے میں بتا دیں کہ وہ کون سی باتیں ہیں جنھیں کہنے کا آپ نے کہا تھا اور کن سے کہا تھا اور کن سے کرنی تھیں وغیرہ وغیرہ۔

چراغ ڈستے رہے میری تیرہ راتوں کو
سحر نہ بن سکی تریاق زہر تنہائی
چراغ میری 13 راتوں کو ڈستے رہے۔ اللہ اکبر! یہ سمجھ نہیں آئی کہ چراغ کیسے ڈس سکتا ہے؟ اور رات کو کیسے ڈسے گا؟ دیکھیں اس طرح ہی باتیں کر کے شعر کو مشکل بنانے کا فائدہ؟ اب یہاں مزید سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر 13 راتوں کو کیوں ڈسا؟ یہ راتیں گیارہ، بارہ، سولہ، بتیس وغیرہ کیوں نہیں تھیں؟ 13 کے پیچھے آخر کیا راز ہے؟ انگریزوں سے دشمنی میں کہا ہے کیا؟ یہ بھی ادھورا شعر ہے۔ گویا بے وزن۔ یہ راز بھی پڑھنے والوں کو الگ الگ ذاتی مکالمے میں بتا ڈالیں۔ چلیں اگلا مصرع ذرا آسان ہے کہ تڑکے نور ویلے کا وقت تنہائی کے زہر کے لیے تریاق نہیں بن سکا۔ کیوں بھئی؟ کیوں نہیں بن سکا؟ حالانکہ بننا چاہیے تھا۔ لو جی اس سوال کا جواب بھی ندارد۔ اب بھلا کس کس سوال کا جواب دیں گے؟ اور اگر ایک مزید غزل ان سوالوں کے جواب میں لکھ ڈالی تو الامان الحفیظ!

جو لفظ قید ہیں تیرے لبوں کی بندش میں
اگر وہ سچ ہیں تو کیوں ہے یہ خوف رسوائی
جو لفظ قید ہیں۔ حالانکہ لفظ کے ساتھ "ہیں" نہیں آ سکتا۔ "الفاظ" کے ساتھ آئے گا۔ اگر "لفظ" لکھنا ہے تو پھر "ہے" کا استعمال ہو گا۔ گرامر کی بڑی غلطیاں ہیں بھئی۔ دیکھیں اگر لفظ ہے تو پھر رسوائی کے خوف کی بات کرنا ہی فضول ہے,وقت کا ضیاع ہے کہ بھلا ایک لفظ سے رسوائی کیسے ہو سکے گی؟ بھلا وہ ایک لفظ کیا ہو گا جو اتنا جامع ہو کہ اس سے رسوائی کی جا سکتی ہو۔ یہ بھی ادھورا شعر ہے۔ شاعر نے تجسس کی ساری حدیں کراس کر لی ہیں۔ اب میرے جیسے لوگ لغت کھول کھول کے دیکھ رہے ہوں گے۔ کسی کو صرف ایک لفظ کہنے کی مشق کرنے کے منتظر ہوں گے۔ جیسے ہم بچپن میں اپنے کسی دوست کو زور سے "ٹھاہ" کہہ کے گزر جاتے تھے۔ اچھا مزید دیکھیں کہ شاعر نے کسی کو ہلاشیری دے دی ہے کہ اگر جو لفظ تمھیں آتا ہے وہ سچ ہے تو خوف مت کھاؤ ۔ کہہ ڈالو۔ لو جی اب جسے ہلاشیری دی جا رہی ہے، اگر اس نے وہ انجانا سا لفظ کہہ ہی ڈالا تو نجانے کیا ہو گا۔ شاعر تو اک پاسے ہو جائے گا، ساری شامت کہنے والے پہ آئے گی۔ میری بات مانو تو مت کہنا۔ شاعر ساتھ واتھ نہیں دے گا۔ ایویں کچھ اور نہ ہو جائے۔ دیکھ کے، بچ کے ذرا!

ادھر میں روح کی جراحیوں میں ہوں مشغول
وہ انجمن میں ادھر محو جلوہ آرائی

لو جی ابھی تک ہم شاعر کو فزیشن سمجھ رہے تھے، وہ تو جراح نکلے۔ حق ہا! اب محفل میں دو فزیشنز ظہیراحمدظہیر اور فاخر رضا ہیں تو ایک جراح بھی ہیں۔ سرجن صاحب کسی روح نامی بندے(آج کل عجیب و غریب نام رکھے جا رہے ہیں۔ اب اس بندے کا پورا نام شاید روح البشر ہو گا) کا آپریشن تھیٹر میں آپریشن کر رہے ہیں اور ساتھی ڈاکٹر/ڈاکٹرز/لیڈی ڈاکٹر الگ بیٹھے چائے شائے پی رہے ہیں اور باتیں شاتیں کر رہے ہیں۔میں تو مشورہ دوں گی کہ آپریشن کی ساری فیس خود رکھیں۔ جب وہ آپ کے ساتھ کوئی کام ہی نہیں کر رہے، گپیں ہانک رہے ہیں ڈیوٹی روم میں بیٹھے تو ہانکا کریں۔فیس آپ کھری کریں۔ انھیں قطعاً حصہ مت دیں۔
تڑپ کے شب دل مضطر سے اک صدا جو اٹھی
وہی شبیہ ستاروں میں بھی ابھر آئی
حق ہا! یہی صدا ہو گی جو ستاروں میں بھی نظر آنے لگی۔ میں نے محفل میں "حق ہا" اتنی بار کی ہے کہ اب شاعروں کی تڑپ بھی اس ہی لفظ کی صورت نکلتی ہے۔ نہ صرف نکلتی ہے بلکہ اتنی طاقتور ہے کہ رات کے تاروں میں بھی نظر آنے لگی ہے۔ ویسے صدا سنائی دیتی ہے۔ یہ کیسی صدا ہے کہ دکھائی دیتی ہے؟ اور آخر ایسی کون سی صدا ہے جو اس قدر دور کا سفر کر لیتی ہے؟ نیز ستارے رات کے ہی ہوتے ہیں۔ دن کے ستارے تو نہیں ہوتے۔ صبح کا تو بس ایک تارا ہوتا ہے۔ گویا ستاروں کے ساتھ رات لکھنا اضافی ہے۔ حق ہا! اب شاعر کو گرامر سکھانے کے ساتھ شاعری کے کچھ اصول بھی سکھانے ہوں گے۔ بھئی فیس ہو گی، ہاں!!!

میں کب کا توڑ چکا شش جہت کی زنجیریں
یہ کس نے میرے لیے، کیسی قید بنوائی
ششششش! شاعر نے شش کہہ کے نجانے کس کو چپ کرایا ہے؟ وجہ وہی کہ شاعر قید خانے کی زنجیریں توڑ بھن رہے ہیں اور کوئی دیکھ نہ لے تو شش کر کر کے کسی ساتھی کو بولنے سے منع کر رہے ہیں۔ شاعر نے یہ دو سوال کر کے ہمیں پھر سے سوال میں مبتلا کر دیا ہے۔
1. کس نے قید خانہ بنوایا؟
2 کیسی قید میں ڈالا؟
اب شاعر خود ہی شش و جہت میں مبتلا ہے تو ہم بھلا اب کیا کہیں!!!


دروغ مصلحت آمیز ہم کو نامنظور
کہ مطمئن ہے جنوں پر ہماری سچائی
مصلحت سے ملاوٹ زدہ جھوٹ نہیں چلے گا، نہیں چلے گا۔ جو چلے گا تو خالص چلے گا۔ شاعر کی سچائی جنوں بھوتوں پہ بالکل مطمئن ہے۔ اللہ اکبر! شاعر نے پھر کچھ غلط کر دیا مطلب کہہ دیا ہے۔
ع: کہہ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
ہم واقعی نہیں سمجھ رہے۔ مطمئن رہیے۔

کسی طبیب نے اس درد کو نہ پہچانا
یہ کس کے عشق کی عاطف تھی کار فرمائی
لو جی یہ سیدھا سیدھا اٹیک محفل کے دونوں ڈاکٹرز پہ ہے۔ کتنی بری بات ہے۔ دونوں کو ڈاکٹری میں فیل قرار دے دیا۔ یعنی ان دونوں ڈاکٹرز نے پہچانا ہی نہیں شاعر کے درد کو۔ ظہیر بھائی کہتے کہ کان میں درد ہے۔ فاخر رضا کہتے کہ دانت میں ہے۔ ڈیڑھ منٹ کے بعد ظہیر بھائی کی رائے بدل جاتی کہ نہیں بھئی سر کا درد ہے، صاف دکھائی دے رہا ہے۔ جبکہ پورے پونے دو منٹ بعد فاخر کی رائے بھی پوری کی پوری بدل جاتی کہ ہو نہ ہو گلے میں درد ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ درد کو تو دونوں ڈاکٹرز نہیں جان پہچان سکے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ محبوب کو کھانے پکانے کے نت نئے تجربوں سے عشق ہے اور اسی عشق کی وجہ سے میرا یہ حشر ہوا ہے۔

:LOL: :grin1::grin1::ROFLMAO:
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
:):):):)
ہاہاہاہا۔ یعنی چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

کیا بات ہے شوخیِ قلم کی! لگتا ہے آج کل خواہرم جاسمن نے کشتِ زعفران میں میز کرسی لگا کر ڈیرہ ڈالا ہوا ہے۔ وہیں سےتمام تحریفی اور تخریبی کارروائیاں ہورہی ہیں ۔ اور خوب ہورہی ہیں ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اس مرتبہ آپ نے مضمون کا نام بھی اچھا چُنا ہے 🙂
چراغ میری 13 راتوں کو ڈستے رہے۔ اللہ اکبر! یہ سمجھ نہیں آئی کہ چراغ کیسے ڈس سکتا ہے؟ اور رات کو کیسے ڈسے گا؟ دیکھیں اس طرح ہی باتیں کر کے شعر کو مشکل بنانے کا فائدہ؟ اب یہاں مزید سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر 13 راتوں کو کیوں ڈسا؟ یہ راتیں گیارہ، بارہ، سولہ، بتیس وغیرہ کیوں نہیں تھیں؟ 13 کے پیچھے آخر کیا راز ہے؟
باقی تجسس بھری باتیں آپ کو عاطف بھائی ہی بتائیں تو بتائیں مگر اس کا میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔
دراصل عاطف بھائی نے باس سے چھٹی کی درخواست کر رکھی تھی اور باس نے تیرہویں دن جواب دینے کے لیے کہا ہوا تھا اور جب تیرہویں دن بھی باس نے جواب نہ دیا تو ایک کولیگ چراغ شاہ صاحب بات بات پر چھٹی کا ذکر چھیڑ دیتے تھے جو ہمارے شاہ صاحب کو ڈنک کی طرح محسوس ہوتا تھا۔
تو یوں یہ شعر لوحِ خیال سے بیاض کی زینت بنا۔
کچھ تسلی ہوئی آپا 😊
 

جاسمن

لائبریرین
اس مرتبہ آپ نے مضمون کا نام بھی اچھا چُنا ہے 🙂

باقی تجسس بھری باتیں آپ کو عاطف بھائی ہی بتائیں تو بتائیں مگر اس کا میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔
دراصل عاطف بھائی نے باس سے چھٹی کی درخواست کر رکھی تھی اور باس نے تیرہویں دن جواب دینے کے لیے کہا ہوا تھا اور جب تیرہویں دن بھی باس نے جواب نہ دیا تو ایک کولیگ چراغ شاہ صاحب بات بات پر چھٹی کا ذکر چھیڑ دیتے تھے جو ہمارے شاہ صاحب کو ڈنک کی طرح محسوس ہوتا تھا۔
تو یوں یہ شعر لوحِ خیال سے بیاض کی زینت بنا۔
کچھ تسلی ہوئی آپا 😊
نہیں۔
کیونکہ یہ پتہ نہیں چلا کہ اتنی شدت سے چھٹی کیوں چاہیے تھی۔ جواب سے سوال نکل رہا ہے اور شاعر پہ نفل ہے کہ ذاتی مکالمے میں ہر ایک کی تشفی کرے۔ اور اگر ہمت ہے تو ببانگ دہل یہاں کہے۔:)
 

جاسمن

لائبریرین
شاعر صاحب تو بس ہنس کے پرے ہو کے بیٹھ گئے۔ ہم یہاں اپنا سا منہ لے کے بیٹھے انتظار کر رہے ہیں۔ بہت ہی بری بات ہے۔ :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
نہیں۔
کیونکہ یہ پتہ نہیں چلا کہ اتنی شدت سے چھٹی کیوں چاہیے تھی۔ جواب سے سوال نکل رہا ہے اور شاعر پہ نفل ہے کہ ذاتی مکالمے میں ہر ایک کی تشفی کرے۔ اور اگر ہمت ہے تو ببانگ دہل یہاں کہے۔:)
سنجیدہ جواب: بات شدت کی نہیں ہوتی آپا، بات دراصل یہ ہے کہ جب پردیسی بے چارے پردیس میں وقت گزار رہے ہوتے ہیں تو بس وقت گزر رہا ہوتا ہے اور جب وطن واپسی کا ایک مرتبہ ارادہ کر لیتے ہیں پھر دن گزارنا بہت مشکل ہو جاتے ہیں۔ اور اس میں کوئی اڑچن آ جائے تو انتہا درجے کی کوفت ہوتی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
سنجیدہ جواب: بات شدت کی نہیں ہوتی آپا، بات دراصل یہ ہے کہ جب پردیسی بے چارے پردیس میں وقت گزار رہے ہوتے ہیں تو بس وقت گزر رہا ہوتا ہے اور جب وطن واپسی کا ایک مرتبہ ارادہ کر لیتے ہیں پھر دن گزارنا بہت مشکل ہو جاتے ہیں۔ اور اس میں کوئی اڑچن آ جائے تو انتہا درجے کی کوفت ہوتی ہے۔
اللہ پاک پردیسیوں اور دیسیوں سب کو ڈھیروں خوشیاں اور آسانیاں عطا فرمائے۔ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ ہر دکھ، آزمائش ، برے وقت، برے حادثے، بری بیماری اور بری تقدیر سے پناہ دے۔ آمین!
ثم آمین!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اف خدایا۔ 🙂🙂🙂

سوء اتفاق سے ایک واعظ اور بشکل شارح، محفل کی طرف اور آ نکلا تو تمام شعراء فی الفور تائب ہو جائیں گے ۔ بر محل کہوں تو حاشا و کلا محفلی سلطنت میں شاعری کے صوبے کا نقشہ یوں ہو گا۔

ٰمحفلیٰ کجکلاہ ٰناقدٰ نے
کام شعراء کا تمام کیا
کوئی ٰشاعرٰ نظر نہیں آتا
ٰزمرےٰ والوں نے قتل عام کیا
🤣🤣🤣
 
Top