محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ڈرامہ:قرطبہ کا قاضی
سید امتیاز علی تاج
منظر: ( غرناطہ میں قاضی یحییٰ بِن منصور کے مکان کا ایک ایوان ، جس کے دریچوں میں سے شہر کے چوک پر نظر پڑ سکتی ہے۔ دائیں ہاتھ کی دیوار میں ایک بڑا سا دریچہ ۔ سامنے کی دیوار میں ایک چوڑا مگر نیچا دروازہ، جس کے پیچھے ایک تنگ اور اندھیری گلی ہے۔ گلی کے دوسری طرف ایک چھوٹا دروازہ جس میں سلاخیں لگی ہیں۔ بائیں ہاتھ پتھروں کا بنا ہوا زینہ اوپر کے کمرے کے دروازے تک پہنچتا ہے۔ اوپر کے کمرے کی ایک کھڑکی ایوان میں کھلتی ہے۔
ایوان میں ایک بڑی میز ہےجس پر ایک شمعدان رکھا ہے۔ میز کے قریب ایک بنچ اور چند کرسیاں پڑی ہیں۔ دیواروں پر اسلحہ اور جانوروں کے سر لگے ہوئے ہیں۔
صبح کے دھندلکے میں حلاوہ بنچ پر بیٹھی ہے، سر گھٹنوں سے لگا رکھا ہے ۔ عبداللہ دروازے میں سے اندر آتا ہے۔)
عبداللہ: ( بھاری آواز میں) شمعیں گل کردوں؟
حلاوہ: ( آہِ سرد کے ساتھ) کردے ۔ شمعیں صبح کو آنے سے نہیں روک سکتیں۔ ( عبداللہ پھونکیں مار کر شمعدان کی تین شمعیں گل کرتا ہے)
حلاوہ: کیسی کالی صبح۔ میرے رب کیسی کالی صبح!
عبداللہ: کالی اندھوں کے لیے! ان بد فالوں کے لیے جو گھٹنوں پر سر رکھے نحس کلمے منہ سے نکالتے ہیں۔ پر رب العالمین کے فضل و کرم سے ابھی آنکھوں والے بھی موجود ہیں۔ تیری طرح سب اندھے نہیں ہوگئے۔
حلاوہ: ( اس کی پرواہ نہیں کرتی) یہ صبح دیکھنے کو میں کیوں زندہ رہ گئی! جس کے دودھ کی دھاروں نے اسے جان بخشی تھی۔ الٰہی تین دن کا تھا جب بیگم نے آنکھیں بند کیں، صرف تین دن کا۔ تب میں نے۔۔۔۔۔۔ میرے سوا دودھ کس کے تھا۔ اسے دودھ دیا، اور زندگی دی۔ اور میرے رب آج کا دن تمام ہونے پر میرا لال کیا ہوگا!
عبداللہ: زندہ ہوگا، اور کیا ہوگا؟ عمر پائے گا۔ اور رب العالمین کے فضل و کرم ست تجھے اور مجھے ، دونوں کو قبرکے شگاف میں اتارے گا۔
(تکان کی ایک آہ کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے)
حلاوہ: میرے سینے پر اس کے ہونٹوں اور جبڑوں کی لذت ابھی تازہ ہے۔ وہ شیر کے بچے کی طرح اس سے دودھ کھینچتا تھا۔ اپنے بارہ بچوں کو دودھ پلایا۔ لیکن سب سے زیادہ حریص وہی تھا۔ اور پھر کیسا بے باک جوان بن گیا۔ دیکھتی تو جی چاہتا قربان ہوجاؤں۔ اس کے جسم میں خون جو میرا اپنا تھا۔ اور پروردگار ! آج سولی پر اس کی لاش لٹکتی رہ جائے گی!
عبداللہ: ( بے قابو ہوکر) نشتر زبان! یہ ہرگز نہ ہوگا۔
حلاوہ: ( گھٹنے سے سر اٹھا کر آہ بھرتی ہے) اب چارہ کیا رہ گیا؟
عبداللہ: سارے قرطبہ میں ایک شخص نہیں جو کسی کے حکم سے بھی اسے سولی پر چڑھائے، خواہ اس کے اپنے باپ کا فتویٰ ہو۔
حلاوہ: باپ قاضی ہے۔
عبداللہ: کہا جو کہ اس کے فتوے پر عمل نہ ہوگا۔
حلاوہ: باہر سے لوگ بلالیے جائیں گے جو اسے ویسے نہیں جانتے ، جس طرح ہم سب جانتے ہیں۔ انہیں قانون جو کہے گا وہ کرڈالیں گے۔
عبداللہ: ( چڑکر) میں بک جو رہا ہوں نہیں کریں گے۔ آج کے دن شہر میں صرف وہی شخص داخل ہونے پائے گا جو کلام پاک کی قسم کھائے گا کہ اسے نوجوان زبیر کی سزا سے کچھ سروکار نہیں ہوگا۔ سمجھی کوڑھ مغز؟ ہمارے آدمی تمام راستوں پر پھیل چکے۔ ایک ایک ناکے کو روک چکے۔ جس شخص نے قسم نہ کھائی کہ زبیر کا خون اس کے دوش پر نہ ہوگا وہ اندر گھسنے نہ پائے گا۔ اور یہی جواب قاضی کے حکم پر خود اس کر دیا جائے گا۔ وہ قانون کا غلام ہو یا سلطان کا، آج کے دن اس کے فتوے کی تعمیل نہ ہونے پائے گی۔
حلاوہ: لیکن احمق، ہونی کو کون روک سکتا ہے؟ میرے یہی آنکھیں نہیں جنھیں آنسوؤں نے بے نور کردیا ہے۔ میرے اور آنکھیں ہیں جو دیکھ سکتی ہیں اور جو دیکھ چکی ہیں۔ سولی اور اس سے لٹکتی ہوئی لاش۔ میرا ننھا! میری جان ننھا! میرا سجیلا نوجوان! جس کا جسم میرے دودھ نے بنایا، جس کے خون اور ہڈیوں میں میرا دودھ ہے۔ میں اسے مردہ دیکھ چکی! کہتی جو ہوں کہ یونہی ہوگا۔ سچ نہ ہوتا تو یہ بات میری میری زبان سے نکلتی؟
عبداللہ: لیکن اسے سولی کی سزا ملے گی کیوں، اس کا جرم کیا ہے؟
حلاوہ: میرے بتانے کی ضرورت ہے کہ اس نے خون کیا ہے؟
عبداللہ: ہاں مگر محبت کی خاطر۔ اپنی غیرت کی خاطر۔ اُس کے لیے اِس کے سوا چارہ نہ تھا۔ کون کہتا ہے یہ خون ناجائز تھا؟
حلاوہ: نہیں نہیں! اس نے جلن کے مارے خون کیا۔
عبداللہ: محبت جلن نہیں ہے تو پھر ہے کیا؟
حلاوہ: مقتول نے اسے کوئی آزار نہ پہنچایا تھا۔
عبداللہ: مقتول کو اس کی محبوبہ سے محبت جو تھی۔
حلاوہ: خوبصورت عورت سے کس کو محبت نہیں ہوتی۔
عبداللہ: لیکن محبوبہ نے مقتول کو محبت بھرا خط بھی تو لکھا تھا۔
حلاوہ: محبوبہ کو اس کا حق تھا۔ وہ زبیر کی منگیتر نہ تھی۔ جسے چاہتی پسند کرنے کا حق رکھتی تھی۔
عبداللہ: صرف اپنوں میں سے۔ اپنے ہم نسبوں میں سے۔ مقتول پرایا تھا اور دوسرے ملک کا باشندہ تھا۔
حلاوہ: زبیر کا باپ قاضی کا مہمان تھا۔
(جاری ہے)